سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا قوت جذب

(مرزا طلحہ بشیر احمد۔ ربوہ)

آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی قوت جذب عطا کر رکھی تھی کہ ہر ایک ہی آپ کی طرف کھنچاچلا آتا تھا۔ بےشک آپؐ کے دور میں بھی بعض بد قسمت لوگ اپنی فرعونی صفات کے سبب اس نور سے منور نہ ہو پائے مگر وہ تمام نیک فطرت لوگ جو سچے دل سے زمین و آسمان کے مالک کی پہچان کے خواہاں تھے ، ان کو آپ کی مقنا طیسی کشش اپنی طرف موڑ لیتی۔ ایک عورت جو مکہ میں اس وجہ سے خوف کی حالت میں داخل ہوئی کہ اس کو بتا یا گیا تھا کہ اس شہر میں ایک جادوگر بستا ہے، آپ کی ایک ہی ملاقات نے اس پر روحانیت کا ایسا جادو کر دیا کہ اس کی خوف کی حالت امن میں تبدیل ہو گئی۔پس یہ مقدر تھا کہ مسیح محمدیؐ کے ظہور کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے وعدہ اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق جس جری اللہ کو مبعوث کیا جاناتھا وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی ہی کشش کی ایک جھلک دکھلاتاتا اپنے مقناطیسی جذب کے نتیجہ میں ایمان کو ثریا سے کھینچ کر زمین پر لے آئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں ایسی ہی ایک کشش پائی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک شخص جس کا تعلق مردان سے تھا اور سلسلہ کا شدید مخالف تھا بیمار ہوگیا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (خلیفۃ المسیح الاوّل) سے علاج کی غرض سے قادیان آیا۔ یہ شخص حضرت میاں محمد یوسف صاحب مردانی کا جاننے والا تھا۔ سلسلہ کے لیے اس کی نفرت اس کو اس بات کی اجازت نہ دیتی تھی کہ قادیان کا رخ کرے مگر میاں یوسف صاحب مردانی کے شدید اصرار پر اس شرط پر راضی ہو گیا کہ قادیان میں اسے احمدیوں کے محلہ سے باہر ٹھہرایا جائے تا اس کو کبھی اس محلہ میں داخل نہ ہونا پڑے۔ قادیان میں اس کا علاج شروع ہوا اور جب کچھ روز بعد اس کو کچھ افاقہ ہوا تو واپس جانے لگا۔ میاں محمد یوسف صاحب نے اس سے کہا کہ تم قادیان آئے ہو اب جاتے ہوئے ہماری مسجد تو دیکھتے جاؤ۔ اس نے انکار کیا مگر میاں محمد یوسف صاحب کے ایک بار پھر اصرار پراس شرط پر راضی ہوگیا کہ اسے ایسے وقت میں وہاں لے کر جا یا جائے جب وہاں کوئی احمدی نہ ہو اور نہ ہی مرزا صاحب ہوں۔ چنانچہ میاں محمد یوسف صاحب ایسا وقت دیکھ کر اسے مسجد مبارک میں لائے مگر قدرت خدا کہ ادھر اس نے مسجد میں قدم رکھا اور ادھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کی کھڑکی کھلی اور حضور کسی کام کےلیے مسجد میں تشریف لائے ۔ اس شخص کی نظر حضور کی طرف اٹھی اور وہ بیتاب ہو کر حضور کے سامنے آگرا اور اسی وقت بیعت کرلی۔

(سیرت المہدی جلد اوّل حصہ اوّل، صفحہ 54، روایت نمبر 73)

یہ واقعہ اس قوت جذب کی عکاسی کرتا ہے جس سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شخصیت مالا مال تھی۔ آپ کی پاک سیرت اپنے اندر ایسے اعلیٰ اخلاق اور خوبیوں کو سمیٹے ہوئی تھی کہ آپ کی ایک ملاقات ہی بہتوں کے ایمان کو تازہ کر دیتی۔ کیا اپنے اور کیا دشمن ہر ایک نے اقرار کیا کہ آپ کوئی عام آدمی نہ تھے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے اعلیٰ معیار قائم کیے ۔ محبت کے بیج کو ہر طرف بکھیرا۔ جہاں بھی قدم رکھا روحانیت کی خوشبو کو پھیلاتے چلے گئے اور یہ مہک ہر ایک نیک فطرت کو آپ کی طرف کھینچ کر لے آتی۔ ہر ایک جو خالص ہو کر حق کی تلاش میں نکلا اس نے آپ ہی کے قدموں میں اپنی منزل کو پایا۔

آپ کے چہرہ مبارک میں بہت کشش تھی۔ آپ کی عادات میں بھی کشش تھی۔ آپ کی ہر محفل میں کشش تھی اور ہر ایک ہی کھنچا چلا آتا تھا۔ آپ کے رشتہ داروں اور دوستوں سے حسن سلوک میں کشش تھی۔ آپ کی اپنوں سے در گزر کی عادت میں کشش تھی۔ دشمنوں سے عفو کی عادت میں کشش تھی۔آپ کے اعلیٰ اخلاق میں کشش تھی۔ ارشادات اور تحریرات میں کشش تھی۔قبولیت دعا میں کشش تھی۔ آپ کے نشانات میں بھی کشش تھی۔ وہ نشانات جو خدا تعالیٰ کی طرف سےآپ کی صداقت کےنشان تھے اور بیماروں کی شفا کے باعث بنے۔ غرض یہ کہ آپ کی زندگی اور آپ کی شخصیت کا ہر پہلو لوگوں کو آپؑ اور آپؑ کے سلسلہ کی طرف کھینچنے والا تھا۔ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی سیرت پر تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘آپ میں ایک مقناطیسی جذب تھا۔ ایک عجیب کشش تھی، رعب تھا، برکت تھی، موانست تھی، بات میں اثر تھا، دعا میں قبولیت تھی، خدام پروانہ وار حلقہ باندھ کر آپ کے پاس بیٹھتے تھے ۔ اور دلوں سے زنگ خود بخود دھلتا جاتا تھا۔’’

(سیرت المہدی ، جلد اوّل حصہ سوم صفحہ825 ، روایت نمبر 975)

اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نور آپ کو عطا کیا گیا وہ آپ کے چہرہ مبارک پرروز روشن کی طرح واضح تھا۔ تقویٰ کی چادر میں لپٹے ہوئے اس مبارک چہرے کی ایک جھلک بہت سی بےتاب روحوں کو راہ راست پر لانے کا سبب بنی۔ مضمون کے آغاز میں جس واقعہ کو قلم بند کیا گیا ہےوہ آپ کی قوت جذب کے گہرے سمندر کی ایک بوند ہے۔اوریہ شاذو نادر کے طور پرنہ تھا بلکہ اکثر لوگ آپ کو دیکھ کر ہی آپ کے قائل ہو جایا کر تےتھے۔ ایک کم عقل شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ بعض مرتبہ کم فہم لوگ آسانی سے متاثر ہو جایا کرتے ہیں مگر یہاں تو ملک کے نامور علماء بھی آپ کی ایک جھلک پر آپ کے قدموں میں اپنی جانیں نچھاور کرنے کو تیار ہوجایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ سے اپنی پہلی ملاقات کا اسی رنگ میں ذکرکر تے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ و ہی نور الدین ہےجس کا ملک میں چرچا عام تھا۔ قرآن مجید، حدیث ، فقہ، کلام منطق اور فلسفہ وغیرہ میں ان کے علم کا کوئی جواب نہ تھا۔ مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی آپ کے قائل تھے۔ وہی نور الدین جن کے بارہ میں سر سید احمد خان صاحب نے یہ کہا تھا کہ جب جاہل ترقی کرتا ہے تو پڑھا لکھا کہلاتا ہے، جب مزید ترقی کرتا ہے تو فلسفی کہلاتا ہے پھر اور ترقی کرجائے تو صوفی بن جاتا ہے اوراگر صوفی ترقی کرجائے تو نورالدین بن جاتا ہے۔آپ اس وقت ریاست جموں میں شاہی طبیب کے طور پر کام کر رہے تھےکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اشتہار نےآپ کے دل میں ان سے ملنے کی خواہش کوجنم دیا اور آپ کو قادیان کھینچ لایا۔آپ فرماتے ہیں:

‘‘اس اشتہار کے مطابق اس امر کی تحقیق کے واسطے قادیان کی طرف چل پڑا اور روانگی سے پہلے اور دوران سفر اور پھر قادیان کے قریب پہنچ کر قادیان کو دیکھتے ہی نہایت اضطراب اور کپکپادینے والے دل سے دعا ئیں کیں۔ جب میں قادیان پہنچا۔ تو جہاں میرا یکہ ٹھہرا وہاں ایک بڑا محراب داردروازہ نظر آیا جس کے اندر چار پائی پر ایک بڑا ذی وجاہت آدمی بیٹھا نظر آیا۔ میں نے یکہ بان سے پوچھا کہ مرزا صاحب کا مکان کونسا ہے جس کے جواب میں اس نے اسی رشائل مشبہ داڑھی والے کی طرف جواس چار پائی پر بیٹھا تھا اشارہ کیا کہ یہی مرزا صاحب ہیں مگر خدا کی شان اس کی شکل دیکھتے ہی میرے دل میں ایسا انقباض پیدا ہوا کہ میں نے یکے والے سے کہا کہ ذرا ٹھہر جاؤ میں بھی تمہارے ساتھ ہی جاؤں گا اور وہاں میں نے تھوڑی دیر کے واسطے بھی ٹھہرنا گوارا نہ کیا۔ اس شخص کی شکل ہی میرے واسطے ایسی صدمہ دہ تھی کہ جس کو میں ہی سمجھ سکتا ہوں۔ آخر طوعاً وکرہاً میں اس مرزا کے پاس پہنچا۔ میرا دل ایسا منقبض اور اس کے شکل سے متنفر تھا کہ میں نے السلام علیک تک نہ کہی کیونکہ میرا دل برداشت ہی نہیں کرتا تھا۔ الگ ایک خالی چار پائی پڑی تھی اس پر میں بیٹھ گیا اور دل میں ایسا اضطراب اور تکلیف تھی کہ جس کے بیان کرنے میں وہم ہوتا ہے کہ لوگ مبالغہ نہ سمجھیں ۔ بہر حال میں وہاں بیٹھ گیا ۔ دل میں سخت متحیر تھا کہ میں یہاں آیا کیوں۔ ایسے اضطراب اور تشویش کی حالت میں اس مرزا نے خود ہی مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں ؟میں نے نہایت روکھے الفاظ اور کبیدہ دل سے کہا کہ پہاڑ کی طرف سے آیا ہوں۔ تب اس نے جواب میں کہا کہ آپ کا نام نورالدین ہے؟ اورآپ جموں سے آئے ہیں؟ اور غالباً آپ مرزا صاحب کو ملنے آئے ہوں گے؟ بس یہ لفظ تھا جس نے میرے دل کو کسی قدرٹھنڈا کیا۔ اور مجھے یقین ہوا کہ یہ شخص جو مجھے بتایا گیا ہے مرزا صاحب نہیں ہیں۔ میرے دل نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ میں اس سے پوچھتا کہ آپ کون ہیں۔ میں نے کہاہاں اگر آپ مجھے مرزا صاحب کے مکانات کا پتہ دیں تو بہت ہی اچھا ہوگا۔ اس پر اس نے ایک آدمی مرزا صاحب کی خدمت میں بھیجا اور مجھے بتایا کہ ان کا مکان اس مکان سے باہر ہےاتنے میں حضرت اقدس علیہ السلام نے اس آدمی کے ہاتھ لکھ بھیجا کہ نماز عصر کے وقت آپ ملاقات کریں۔ یہ بات معلوم کر کے میں معاً اٹھ کھڑا ہوا اور اس جگہ نہ ٹھہرا’’

‘‘چنانچہ آپ اس وقت سیڑھیوں سے اترے تو میں نے دیکھتے ہی دل میں کہا کہ بس یہی مرزا ہے اور اس پر میں سارا ہی قربان ہو جاؤں’’(تاریخ احمدیت جلد 1صفحہ 211-212)

ہر ایک ہی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت کا اثر پایا آپ کی محبت میں گرفتار ہو جاتا۔ محبت کے تیروں سے آپ نے بہت سوں کو گھائل کیا۔آپ کے صحابی حضرت منشی اروڑا صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک واقعہ حضرت مرزا بشیر احمدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سناتے ہیں:

‘‘ 1916ءمیں مسٹر والٹر آنجہانی جو آل انڈیا وائی ، ایم، سی، اے کے سیکرٹری تھے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق تحقیق کرنے کے لئے قادیان آئے تھے۔ انہوں نے قادیان میں یہ خواہش کی کہ مجھے بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی پرانے صحابی سے ملایا جائے۔ اس وقت منشی اروڑا صاحب مرحوم قادیان میں تھے۔ مسٹر والٹر کو منشی صاحب مرحوم کے ساتھ مسجد مبارک میں ملایا گیا۔ مسٹر والٹر نے منشی صاحب سے رسمی گفتگو کے بعدیہ دریافت کیا کہ آپ پر جناب مرزا صاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا ۔ منشی صاحب نے جواب دیا کہ میں زیادہ پڑھا لکھا آدمی نہیں ہوں اور زیادہ علمی دلیلیں نہیں جانتا۔ مگر مجھ پر جس بات نے سب سے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی۔ جس سے زیادہ سچا اور زیادہ دیانت دار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا۔ انہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔ باقی میں تو ان کے منہ کا بھوکا تھا۔ مجھے زیادہ دلیلوں کا علم نہیں ہے۔ یہ کہہ کر منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد میں اس قدر بے چین ہوگئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور روتے روتے انکی ہچکی بندھ گئی۔’’

(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 94)

جب سے دیکھا ہے اسے اس کا ہی رہتا ہے خیال

اور کچھ بھی مجھے اب اس کے سوا یاد نہیں

(کلام محمود)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:‘‘پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تو ان کے لئے نرم ہو گیا۔ اور اگر تو تندخو (اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گرد سے دور بھاگ جاتے۔ پس ان سے درگزر کر اور ان کے لئے بخشش کی دعا کر ’’

(اٰل عمران آیت 160ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح رابع رحمہ اللہ تعالیٰ)

آنحضرت ﷺ کے اس غلام صادق نے اپنے آقا کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے رویہ میں اس قدر نرمی اور محبت کواختیارکر لیا تھا کہ جو شخص بھی آپ کی طرف ایک بار رخ کرتا وہ آپ کاہی ہو جایا کرتا تھا۔کسی کے دل میں اس قدر محبت اور عقیدت پیدا کرنا جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صحابہ کے دلوں میں پیدا کی کوئی عام آدمی نہ کر سکتا تھا۔ آپ کی محفل میں کوئی چھوٹا یا بڑا نہ ہوتا تھا۔چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

‘‘دنیاداروں بلکہ دین کے میدان میں پیروں اور سجادہ نشینوں تک میں عام طور پر یہ طریق ہے کہ ان کی مجلسوں میں مختلف لوگوں کے لئے ان کی حیثیت اور حالات کے لحاظ سے الگ الگ جگہ ملحوظ رکھی جاتی ہے مگر اپنے آقا آنحضرت ﷺ کی سنت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں قطعاً ایسا کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا بلکہ آپ کی مجلس میں ہر طبقہ کے لوگ آپ کے ساتھ اس طرح ملے جلے بیٹھتے تھے کہ جیسے ایک خاندان کے افراد گھر میں مل کر بیٹھتے ہیں ۔ اور بسا ا وقات اس بے تکلفانہ انداز کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بظاہر ادنیٰ جگہ پر بیٹھ جاتے تھے اور دوسرے لوگوں کو غیر شعوری طور پر اچھی جگہ مل جاتی تھی۔ ’’(سیرت طیبہ صفحہ 111تا112)

انہی محفلوں کے ذریعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے صحابہ کی تعلیم و تربیت کے لیے مختلف ارشادات اور نصائح فرمایا کرتے ۔ ہر ایک سے خوش ہو کر ملتے، محبت بھرے انداز میں گفتگو فرماتے ، انتہائی مشفقانہ طریق پر صحابہ کی تربیت کرتے۔اور جو بات آپ کی محفل میں نمایاں تھی وہ یہ کہ آپ کی ملاقات اور صحبت ہر ایک پر گہرا اثر چھوڑتی تھی۔ آپ کے اسی اثر نے صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب ؓشہید جیسا جاں نثار سپاہی پیدا کیا۔ صاحبزادہ صاحب کی شہادت کا واقعہ پڑھ کر کوئی بھی دل میں خدا کا خوف رکھنے والا شخص یہ انکار نہیں کر سکتا کہ صاحبزادہ صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں محو ہو چکے تھے۔ یہ دراصل آپ کی ذات کی کشش تھی جس نے صاحبزادہ صاحب کو اس دنیا سےبے پروا بنا دیا تھا اور پھر اس راہ میں جان دینے سے بھی نہ رکے۔

جہاں صحابہ آپؑ پر دل و جان سے فداتھے وہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اپنے صحابہ کی بہت قدر تھی۔صحابہ پر جس طرح آپؑ محبت نچھاور کرتے ، یہ بات ان کو آپ سے دورنہ جانے دیتی۔ آپ میں وفا کا مادہ بھی بہت تھا۔ جب ایک بار آپ کسی سے تعلق جوڑ لیتے تو اس کو عمر بھر نبھاتے۔ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ؓروایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا:‘‘ میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص عہد دوستی باندھے مجھے ا س عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ شخص کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا ۔ ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کردے تو ہم لاچار ہیں ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہوا ہو تو ہم بلا خوف لو مۃ لائم اسےاٹھا کر لے آئیں گے۔ فرمایا عہد دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے اس کو آسانی سے ضائع نہیں کر دینا چاہئے۔ اور دوستوں کی طرف سے کیسی ہی ناگوار بات پیش آئے اس پر اِغماض اور تحمل کا طریق اختیار کرنا چاہیئے ’’

(سیرت طیبہ صفحہ 56)

پس کیا ایک شخص جس کے دل میں اپنے دوستوں کے لیے اس حد تک ہمدردی اور محبت پائی جاتی ہو، اس کے دوست کبھی اس کا ساتھ چھٹ جانا گوارہ کر سکتے ہیں؟اسی طرح ایک اور وصف جو آپ کی ذات میں نمایاں تھا وہ آپ کی مہمان نوازی تھی۔ دوست احباب دور دراز علاقہ جات سے آتے۔ راستے کے مصائب اور مشکلات برداشت کرتے ہوئے اپنے گھر سے دور جب اپنے آقا کے دربار میں حاضری لگاتے تو آقا کی محبت کا دل فریفتہ انداز سفر کی تھکان کو چند لمحوں میں دور کر دیتا۔آنے والوں کو آپ کی یہی خوبی بار بار قادیان لے آتی۔ایسے واقعات تو سینکڑوں ہیں جن سے آپ کی اس خوبی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ذیل میں ایک واقعہ درج کیا جارہا ہے جو آپ کی اس صفت کی عکاسی کرتا ہے۔

سیرت طیبہ میں حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں کہ

‘‘ایک بہت شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگر راولپنڈی میں دکان کیا کرتے تھے۔ انہوں نےمجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے لئے قادیان آیا۔ سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی۔ میں شام کے وقت قادیان پہنچا تھا۔ رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا اور کافی رات گزر گئی اور قریباً بارہ بجے کا وقت ہوگیا تو کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے تھے ۔ ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی۔ میں حضور کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر حضور نے بڑی شفقت سے فرمایا ۔ کہیں سے دودھ آگیا تھا ۔ میں نے کہا آپ کو دے آؤں۔ آپ یہ دودھ پی لیں ۔ آپ کو شاید دودھ کی عادت ہوگی۔ اس لئے یہ دودھ آپ کے لئے لے آیا ہوں۔سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے کہ سبحان اللہ کیا اخلاق ہیں!یہ خدا کا برگزیدہ مسیح اپنے ادنیٰ خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذ ت پاتا اور کتنی تکلیف اٹھا تا ہے۔’’

(سیرت طیبہ صفحہ 69تا70، روایت نمبر 13)

یہ ایک عام حقیقت ہے کہ انسان کی زندگی میں ایسی باتیں ہو جایا کرتی ہیں کہ بعض اوقات اس کے لیے اپنے جذبات اور غصہ پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے مگر ایسے شخص کم دیکھے ہیں جو غصہ کو ہر بار شکست دیتے چلے جاتے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں غصہ بہت کم تھا اور اگر کبھی آیا تو صرف خدا اور اس کے رسول ﷺکے دین کی غیرت میں۔اس کے علاوہ آپ نے ہمیشہ درگزر کی عادت کو فوقیت دی۔چنانچہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں:

‘‘محمود(حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ) چار ایک برس کا تھا ۔ حضرت معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے میاں محمود دیا سلائی لے کر وہاں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا۔ پہلے کچھ دیر تک آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی ان مسودات کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے اور حضرت لکھنے میں مصروف ہیں ۔سر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں کہ کیا ہوا ۔ اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مسودے راکھ کا ڈھیر ہو گئے اور بچوں کو کسی اور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا ۔ حضرت کو سیاق عبارت کے ملانے کے لئے کسی گزشتہ کاغذکے دیکھنے کی ضرورت ہوئی۔ اس سے پوچھتے ہیں خاموش! اس سے پوچھتے ہیں دبکا جاتا ہے ۔ آخر ایک بچہ بول اٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دئے۔ عورتیں، بچے اور گھرکے سب لوگ حیران اور انگشت بدنداں کہ اب کیا ہوگا ۔ اور درحقیقت عادتاً ان سب کو علیٰ قدر مراتب بری حالت اور مکروہ نظارہ کے پیش آنے کا گمان اور انتظار تھا اور ہونا بھی چاہیے تھا مگر حضرت مسکرا کر فرماتے ہیں:‘‘خوب ہوا ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے۔’’

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ 106تا107جلد اول)

جہاں اپنوں سے درگزر کیا وہاں دشمنوں سے انتہائی حسن سلوک کرتے ہوئے عفو کی عادت کو اپنایا۔ یہ دشمن اس لیے نہ تھے کہ حضور نے ان سے خود دشمنی کی بلکہ یہ لوگ اپنی نادانی میں سلسلہ کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے اور آپ کی ذات پر انہوں نے ہر قسم کے وار کیے۔ ہر طریق پر آپ کو دکھ اور تکلیف دینے کی کوشش کر تے رہے۔ ایک ایسا شخص جس کے ذمہ اتنا بڑا کام ہو اور پوری دنیا کے اصلاح نفس کے لیے اس کو مبعوث کیا گیا ہو اور اس کے سامنے ایک گروہ کھڑا ہو جائے جو راستے میں کئی قسم کےرخنے پیدا کرنے کی کوشش کرے تو ایسا شخص ان کوکس نگاہ سے دیکھے گا؟ بے شک ایک عام آدمی ایسے لوگوں سے متنفر ہو کر ان کو حقارت کی نظر سے دیکھے گامگر اس مسیح محمدی نے ،جو کہ محبت کا ایک پیکر تھا، نہ صرف بشاشت کے ساتھ دشمن کے اپنی ذات پر تمام واروں کو برداشت کیا بلکہ ہر مرتبہ جب خدا کی قدرت نے آپ کو موقع دیا کہ آپ ایسے دشمن سے بدلہ لیں تو آپ نے انتہائی مشفقانہ سلوک کرتے ہوئے نہ صرف ان کو معاف کیا بلکہ اپنی ذات کوتکلیف میں ڈال کر بھی دشمن کو راحت پہنچانے کے سامان کیے۔

چنانچہ ایک مرتبہ سکھوں اور بعض برہمنوں کے ایک گروہ نےآپ کے صحابہ پر حملہ کیا اور پھرانہی کے خلاف مقدمہ دائر کیا ۔حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:‘‘اسی مقدمہ کے دوران ایک شخص سنتہ سنگھ بانگرو بھی ملزم تھا ۔ اس کا ایک چچا نہال سنگھ بانگرو تھا۔ ادھر اس نے فریق مخالف کو مقدمہ دائر کرنے پر آریوں کے ساتھ مل کر اکسایا تھا۔ چند ہی روز بعد اسے مشک کی ضرورت پڑی اور یہ ظاہر بات ہے کہ وہ نہایت قیمتی چیز ہے ۔ میں اس وقت موجود تھا جبکہ وہ حضرت اقدس کے دروازہ پر گیا اور دستک دی ۔ حضرت صاحب باہر تشریف لائے ۔ اس نے کہا کہ ‘‘مرزا صاحب مشک کی ضرورت ہے کسی جگہ سے ملتی نہیں۔ آپ کچھ مشک دیں۔ ’’ حضرت صاحب کو علم تھا کہ یہ اس فتنہ میں ایک لیڈر کی طرح حصہ لیتا ہے۔ حضرت صاحب نے بجز اس کے کچھ جواب نہیں دیا کہ ٹھہرو میں لاتا ہوں۔ چنانچہ آپ اندر تشریف لے گئے ۔ اور قریباً نصف تولہ مشک اس کے حوالہ کر دی۔ یہ ہے عفو و عطا کی ایک عدیم المثل نظیر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کیریکٹر میں پائی جاتی ہے۔’’

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول مصنفہ حضرت یعقوب علی عرفانی ؓصفحہ 121)

یہ واقعہ آپ کے دشمن کے ساتھ عفو کے سلوک سے تعلق رکھتا ہے اور اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ آپ کی کشش صرف اپنوں تک محدود نہ تھی بلکہ غیر بھی ہر مشکل میں آپ کی طرف ہی کھنچے چلے آتے تھےمگر دشمنوں کا آپ کی طرف یہ کھچاؤصرف ضرورت کے وقت نہ تھا بلکہ بعض ایسے دشمن بھی جو آغاز میں اپنی جلد بازی میں آپ کے خلاف تلوار نکال کر کھڑے ہوگئے تھے جب انہوں نے آپ علیہ السلام کو دیکھا، جب آپ کی شخصیت کا مشاہدہ کیا تو آپ کی طرف سر جھکا کر کھڑے ہوگئے۔ چنانچہ آپ کے ایک صحابی مولوی غلام نبی صاحب رضی اللہ تعالیٰ کا واقعہ ہے۔ یہ سن 1891ء کی بات ہے ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ان دنوں قیام لدھیانہ میں تھا۔‘‘مولوی صاحب نے حضرت اقدسؑ کا ذکر سن رکھا تھا اور اپنے علمی زُعم میں انہی ایام میں لدھیانہ چلےآئے۔مولوی صاحب ہر گلی میں تھوڑی تھوڑی دیر آپؑ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے تھے۔ ایک روز وہ اس کوچہ میں بھی آگئے جس میں حضرت اقدس کا قیام تھا۔ اس مکان کی بیٹھک سٹرک کے کنارہ پر تھی۔ اور زنانہ حصہ مکان کے عقب میں تھا اور زنانہ حصہ سے بیٹھک کے اندر جانے کے لئے سٹرک پر سے گزرنا ہوتا تھا۔اتفاق ایسا ہؤا کہ مولوی صاحب اس کوچہ میں باتیں کر رہے تھے۔حضورؑ عقبی حصہ مکان سے بیٹھک کی طرف تشریف لا رہے تھے۔ جب مولوی صاحب نے برکات انوار الہٰیہ سے روشن حضورؑ کے روئے مبارک کو دیکھا تو تاب نہ لا سکے اور ایسا معجزانہ تصرف الٰہی ہوا کہ یا تو وہ حضور کے برخلاف کئی روز سے بول رہے تھے یا حضور کا مبارک چہرہ دیکھتے ہی فوراً حضور پُر نور کی طرف لپکے اور تقریر وغیرہ سب بھول گئے۔ حضورؑ نے مصافحہ کے لئے اپنا ہاتھ دے دیا۔وہ حضورؑ کا ہاتھ پکڑے حضور کے ساتھ اندر بیٹھک میں داخل ہو گئے اور پاس بیٹھ گئے اور عقیدت کا اظہار کرنے لگے۔آپ کے تمام ساتھی باہر گلی میں کھڑے اس ماجرے کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے اور باہر کھڑے انتظار کرتے رہے مگر مولوی صاحب تھے کہ اندر سے باہر نہ آتے تھے۔ ادھر مولوی صاحب تائب ہو کر ایمان لے آئے اور ان کی درخواست پر حضور اقدسؑ نے ان کی بیعت قبول فرمالی۔ان کے ساتھیوں نے جو برابر باہر انتظار میں تھے مولوی صاحب کو بلانے کے لئے اندر پیغام بھیجا۔مگر یہاں سماں ہی کچھ اور تھا۔یہ علم ہونے پر ان کے تمام ساتھی مولوی صاحب کو گالیاں دیتے ہوئے منتشر ہوگئے۔’’

(تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ 185)

لہٰذا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پر کشش شخصیت ہر ایک نیک فطرت کو آپ اور آپ کے سلسلہ کی طرف مائل کر دیتی تھی۔ مگر افسوس کہ وہ لوگ جو آپ کی مخالفت میں اندھے ہو چکے تھےباوجود اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت، صداقت کوپہچان نہ پائے۔ تاہم حضرت مولوی غلام نبی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح دیگراحباب جو حقیقت میں حق کی تلاش کر رہے تھے وہ آپ کی اعلیٰ شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتے۔ مولانہ ابو الکلام آزاد کے بڑے بھائی ابو نصر آہ 1905ءمیں قادیان تشریف لائے۔ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:‘‘مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے ۔ آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے طبیعت منکسر مگر حکومت خیز۔ مزاج ٹھنڈا مگر دلوں کو گرما دینے والا اور برد باری کی شان نے انکساری کیفیت میں اعتدال پیدا کردیا ہے ۔ گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گویہ متبسم ہیں۔’’

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ تعالیٰ صفحہ 145)

حضرت اقدس مسیح موعوؑد کی شخصیت انتہائی پر کشش تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ کی تحریرات میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقت عطا کر رکھی تھی کہ کوئی دوسرا اس کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا۔ آپ نے اسلام کے دفا ع کے لیے جو قلم کا جہاد کیا اس نے موجودہ زمانہ میں اسلام پر کیے گئے تمام اعتراضات کا قلع قمع کر دیا۔ یہاں اپنوں کی گواہی دی جائے تو کوئی یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ اس میں مبالغہ کا خدشہ ہے، اس لیے مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی گواہی درج کی جارہی ہے۔ آپ علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ کی جب اشاعت مکمل ہو گئی تو مولوی صاحب نے اس پر ایک انتہائی زبر دست ریویو تحریر کیا۔ چنانچہ مولوی صاحب لکھتے ہیں:

‘‘ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تا لیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں …اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے…ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتا دے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ و برہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو۔’’

(تاریخ احمدیت جلد نمبر 1صفحہ 172 باب یازدہم )

پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقت بخشی کہ ان کے ذریعہ بہت سے مردوں کو روحانی زندگی کے پانی سے سیراب کیا گیا۔ اسی طرح آپ علیہ السلام کی ذات اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی کھینچنے والی تھی اور ان گنت خدائی نشانات سے آپ کی مدد فرمائی گئی ۔ ایک طرف خدا تعالیٰ کی رحمت اور محبت کے نشان تھے جن سے ایک شخص اللہ تعالیٰ کی بنی نوع سے محبت کا معمولی سا اندازہ لگا سکتا ہے۔ دوسری طرف ایسے نشان تھے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور عذاب کے طور پر ظہور میں آئے۔ رحمت کے نشانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعا میں قبولیت کی طاقت تھی جو آپ کو عطا کی گئی۔ یہ نشان بھی ایسا تھا جس نے بہت سے لوگوں کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی طرف کھینچا۔ صحابہ ،جن کا آپ سے محبت کا انتہائی مضبوط تعلق تھا ،نےاللہ تعالیٰ کے اس فضل سے وافر حصہ پایا اور صحابہ کو آپ کی دعا کی طاقت پر کامل یقین تھا۔ ایک واقعہ تاریخ میں کچھ اس طرح درج ہے:

‘‘عزیز عبد الحفیظ کی تولید پر جب حفصہ (اہلیہ حضرت مفتی فضل الرحمن صاحب رضی اللہ تعالیٰ ) کو موسم سرما میں کذاز یعنی Tetnusہوا (جس مرض سے ان ایام میں بہت سی عورتیں تلف ہوئی تھیں)۔ تو جب نماز مغرب کے بعد مفتی فضل الرحمٰن صاحب نے جا کر حضورؑ سے عرض کیا کہ اس کی گردن میں کچھ درد اور کشش ہے۔ تو فوراً فرمایا کہ یہ تو کذاز کا ابتداء ہے ۔ مولوی صاحب کو بتلاؤ۔ مفتی صاحب نے کہا کہ انہوں نے حب شفا بتلائی ہے۔ تو فوراً خود تشریف لے آئے اور مریضہ کو خود آکر دیکھا ۔ فرمایا: دس رتی ہینگ دے دو اور ایک گھنٹہ کے بعد اطلاع دو ۔ جب مفتی صاحب نے جا کر اطلاع دی کہ کچھ افاقہ نہیں ہوا تو فرمایا دس رتی کونین دے دو ۔ اور ایک گھنٹہ کے بعد اطلاع دو۔پھر کہا گیا کہ کوئی افاقہ نہیں ۔فرمایا دس رتی مشک دے دو ۔ اور مشک اپنے پاس سے دیا ۔ گھنٹہ کے بعد عرض کیا کہ مرض بڑھ رہا ہے۔ فرمایا دس تولہ کسٹرائل دے دو ۔ کسٹرائل دینے کے بعد مریضہ کو سخت قے ہوئی اور حالت نازک ہو گئی ۔ سانس اکھڑ گیا ۔ آنکھیں پتھرا گئیں۔ مفتی صاحب بھاگے ہوئے گئے فوراً حضور نے پاؤں کی آہٹ سن کر دروازہ کھولا۔ عرض کیا گیا ۔ فرمایا دنیا کے اسباب کے جتنے ہتھیار تھے وہ ہم چلا چکے ہیں ۔اس وقت کیا وقت ہے؟ عرض کیا گیا بارہ بج چکے ہیں۔ تم جاؤ میرے پاس صرف ایک دعا کا ہتھیار باقی ہے ۔ میں اس وقت سر اٹھاؤں گا جب وہ اچھی ہو جاوے گی۔ چنانچہ مفتی صاحب کا ایمان دیکھو کہ گھر میں آکر الگ کمرہ میں چار پائی ڈال کر سو رہے کہ وہ جانے اور اس کا خدا ۔ مجھے اب کیا فکر ہے۔ مفتی صاحب کہتے ہیں کہ جب صبح میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ برتنوں کو درست کر رہی ہے ۔ میں نے پوچھا کیا حال ہے ۔ کہا کوئی دو گھنٹہ کے بعد آرام ہوگیا تھا۔

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم مصنفہ حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب، صفحہ 203-204)

قبولیت دعا کے ایسے واقعات صحابہ کو آپ کی طرف مزید کھینچنے کا باعث بنتے اور وہ لوگ جنہوں نے آپ کے ساتھ وقت بتایا ان پر یہ واضح ہو گیا کہ آپ کا خدا تعالیٰ سے ایک پختہ تعلق ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نشان کی دوسری قسم نے بھی بہت سے لوگوں کو آپ کی صداقت کا قائل بنایا۔ چنانچہ الٰہی تقدیر کے ماتحت جب ملک بھر میں اور پنجاب میں بھی طاعون پھیلی تو بہت سے لوگوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ آپ کی جماعت کو غیر معمولی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وبا سے محفوظ رکھا گیا ہے۔چنانچہ اس وقت کی منظر کشی کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘اس عرصہ میں جماعت احمدیہ نے اس حیرت انگیز رنگ میں ترقی کی کہ بعض اوقات ایک ایک دن میں پانچ پانچ سو بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمیوں کی بیعت کے خطوط پہنچتے تھے اور دنیا گھبرا کر خدا کے مسیح کا دامن پکڑنے کے لئے ٹوٹی پڑتی تھی۔ لوگوں کا یہ غیر معمولی رجوع کسی وہم کی بنا پر نہیں تھا بلکہ ہر غیر متعصب شخص کو یہ صاف نظر آرہا تھا کہ اس عذاب کے پیچھے خدا کا ہاتھ مخفی ہے جو اپنی قدیم سنت کے مطابق ماننے والوں اور انکار کرنے والوں میں امتیاز کرتا چلا جارہا ہے۔بے شک جیسا کہ الہام میں بھی اشارہ تھا بعض خال خال موتیں احمدیوں میں بھی ہوئیں کیونکہ بسا اوقات جنگ میں فاتح فوج کے بعض سپاہی بھی مارے جاتے ہیں لیکن ان شاذو نادر اموات کو اس خطرناک ہلاکت سے کوئی نسبت نہیں تھی جو طاعون نے حضرت مسیح موعود کے منکرین میں برپا کی۔ پس لوگوں کا یہ رجوع وہم پر مبنی نہیں تھا بلکہ بصیرت پر مبنی تھا کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ اس وقت خدا کے عذاب کا حقیقی علاج سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اس کے مسیح کی غلامی کو قبول کیا جاوے۔ الغرض ان ایام میں جماعت احمدیہ نے نہایت خارق عادت رنگ میں ترقی کی اور پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئے۔’’

(سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ 118)

غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ذات کوایک نمایاں قوت جذب سے نوازا جس کے سبب لوگ جو ق درجوق آپ کی طرف مائل ہوئےاور آپ کے سلسلہ میں داخل ہوئے۔ خدا تعالیٰ کی عنایت کردہ یہ کشش آج بھی کام کر رہی ہے۔ بہت سے ہیں جو آج بھی آپ علیہ السلام کی تحریرات کے ذریعہ اس خدائی کارخانے کا حصہ بن رہے ہیں۔ بہت سے ہیں جو آپ کی تصویر کی ایک جھلک دیکھ کر آپ کی صداقت کو پہچان رہے ہیں۔ بہت سے ہیں جو آپ کے حقیقی جانشین یعنی خلافت احمدیہ کی صحبت میں رہ کر آپ کی کشش کی ایک جھلک کو پا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ تو نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔

آخر پر حضرت میر حامد شاہ صاحب ؓکے آپ علیہ السلام کے متعلق ایک قول کا ذکر کر کے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:

‘‘اے خدا کے پیارے اور محمد کے دلارے ۔ مسیح موعود تجھ پر ہزار ہزار سلام ہوں کہ تو اپنے خادموں کے ساتھ کیسا مہربان تھا۔ تیری محبت ہمارے ایمانوں کے لئے اکسیر تھی ۔ جس سے ہمارے مسِ خام کو کندن ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ تیرے اخلاق کریمانہ اب بھی یاد آ آکر خدا تعالیٰ کے حضور میں ہمارے قرب کا موجب ہو رہے ہیں۔’’

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول مصنفہ حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب ؓصفحہ 139)

٭…٭…٭

تصویر:

India: Rs 240-cr railway link between beas and Qadian

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button