سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعثت کے مقاصدِ عالیہ

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

حضورؑ کے ارشادات کی روشنی میں

آئو لوگو کہ یہیں نورِ خدا پائو گے

لو تمہیں طور تسلّی کا بتایا ہم نے

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ225)

امّتِ محمدیہ کے کئی بزرگوں ( جیسا کہ حضرت شاہ عبد العزیز ؒ،صوفی بزرگ شیخ عبد العزیز ،مشہور صوفی و ادیب خواجہ حسن نظامی ،حضرت شاہ محمد حسین صابری )نے امام مہدی کے ظہور کے زمانہ کا تعین بھی کردیا تھا جو کہ چودھویں صدی کا ابتدائی حصہ بنتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ تمام علامات اور نشانیاں جو امام مہدی کے دعویٰ سے قبل پوری ہونی تھیں، پوری ہو گئیں اور ہر طرف بڑی شدت سے ایک مسیح اور مہدی کا انتظار ہو رہا تھا۔عوام سے لے کر علماء تک سبھی، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتبِ فکر سے ہو، بلاتفریق امت محمدیہ کے مرثیہ خواں نظر آتے تھے۔خاص طور پر احادیث مبارکہ میں جو نقشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امتِ محمدیہ کا کھینچا وہ من وعن پورا ہو رہا تھا۔ مسلمان زوال کا شکار ہو رہے تھے ،ہزاروں مسلمان عیسائی ہو رہے تھے اور اسلام مختلف فرقوں میں بٹ چکا تھا۔مسجدیں دھرم شالہ بنا دی گئی تھیں۔ایسے حالات میں خدا تعا لیٰ نے دنیا کے سامنے ہندوستان کی ایک گمنام بستی قا دیا ن سے ایک جوا ں مرد کو کھڑا کیا جوہر یک رنگ میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگو ئیو ں کا مصدا ق تھا۔یہ مبارک ہستی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراض

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بعثت کی غرض یوں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
‘‘ مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہو ئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھائوں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر اُن کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو اُن کی تعداد اِس قدر ہو کہ رُوئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے۔

اس قدر صورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں۔چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے۔’’

(ملفوظات جلد 3صفحہ9،ایڈیشن1988ء)

حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

‘‘مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں۔اورمَیں اُس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔ ’’

( کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ61)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

‘‘میں نقارہ کی آواز سے کہہ رہا ہوں کہ جو کچھ خدا نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ سب بطور نشان امامت ہے جو شخص اس نشانِ امامت کو دکھلائے اور ثابت کرے کہ وہ فضائل میں مجھ سے بڑھ کر ہے ۔میں اس کو دست ِبیعت دینے کو طیار ہوں…جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا ،عنقریب وہ مرنے کے بعد شرمندہ ہوگا اور اب حجت اللہ کے نیچے ہے۔’’

(ضر و ر ۃ الاما م، روحانی خزائن جلد 13صفحہ501تا502)

آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘بیعت سے اصل مدعا یہ ہے کہ اپنے نفس کو اپنے رہبر کی غلامی میں دے کر وہ علوم اور معارف اور برکات اس کے عوض میں لیوے جن سے ایمان قوی ہو اور معرفت بڑھے۔اور خدا تعالیٰ سے صاف تعلق پیدا ہو اور اسی طرح دنیوی جہنم سے رہا ہوکر آخرت کے دوزخ سے مخلصی نصیب ہو…’’

(ضر و ر ۃ الاما م،روحانی خزائن جلد 13صفحہ498)

مَیں صرف اس خدا کا جلال چاہتا ہوں جس کی طرف سے مَیں مامور ہوں

آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

‘‘مَیں نہیں چاہتا کہ ایک بُت کی طرح میری پوجا کی جائےمَیں صرف اس خدا کا جلال چاہتا ہوں جس کی طرف سے مَیں مامور ہوں۔ جو شخص مجھے بے عزتی سے دیکھتا ہے وہ اس خدا کو بے عزتی سے دیکھتا ہے جس نے مجھے مامور کیا ہےاور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ اُس خدا کو قبول کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ انسان میں اس سے زیادہ کوئی خوبی نہیں کہ تقویٰ کی راہ کو اختیار کر کے مامور مِن اللہ کی لڑائی سے پرہیز کرے اور اس شخص کی جلدی سے تکذیب نہ کرے جو کہتا ہے کہ مَیں مامور من اللہ ہوں اور محض تجدید دین کے لئے صدی کے سر پر بھیجا گیا ہوں۔ایک متقی اس بات کو سمجھ سکتاہے کہ اس چودہویں صدی کے سر پر جس میں ہزاروں حملے اسلام پر ہوئے ایک ایسے مجدد کی ضرورت تھی کہ اسلام کی حقیّت ثابت کرے۔ ہاں اس مجدد کا نام اس لئے مسیح ابن مریم رکھا گیا کہ وہ کسر صلیب کے لئے آیا ہے اور خدا اس وقت چاہتا ہے کہ جیسا مسیح کو پہلے زمانہ میںیہودیوں کی صلیب سے نجات دی تھی اب عیسائیوں کی صلیب سے بھی اس کو نجات دے۔چونکہ عیسائیوں نے انسان کو خدا بنانے کے لئے بہت کچھ افترا کیا ہے ۔اس لئے خدا کی غیرت نے چاہا کہ مسیح کے نام پر ہی ایک شخص کو مامور کرکے اس افتراکو نیست و نابود کرے۔ یہ خدا کاکام ہے اور ان لوگوں کی نظر میں عجیب۔’’

(انجام آتھم،روحانی خزائن جلد11صفحہ320تا321)

مَیں مامور من اللہ اور اوّل المومنین ہوں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

‘‘…جب تیرھویں صدی کا آخیر ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا ۔تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدّد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ

اَلرَّ حْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔لِتُنْذِرَ قَوْماًمَا اُنْذِرَ آبَاءُ ھُمْ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلَ اْلمُجْرِ مِیْنَ۔قُلْ اِ نِّیْ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّ لُ الْمُئو مِنِیْنَ۔

یعنی خدا نے تجھے قرآن سکھلایا اور اس کے صحیح معنے تیرے پر کھول دئیے۔ یہ اس لئے ہوا کہ تا تُو ان لوگوں کو بد انجام سے ڈراوے کہ جو بباعثِ پُشت در پُشت کی غفلت اور نہ متنبّہ کئے جانے کے غلطیوں میں پڑ گئے اور تا اُن مجرموں کی راہ کھل جائے کہ جو ہدایت پہنچنے کے بعد بھی راہ راست کو قبول کرنا نہیںچاہتےان کو کہہ دے کہ مَیں مامور من اللہ اور اوّل المومنین ہوں۔’’

( کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد 13صفحہ201تا202 حاشیہ)

مجدد وقت

آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘… مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدّدِ وقت ہے اور روحانی طور پر اُس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدّت مناسبت و مشابہت ہے اور اس کوخواص انبیاء ورسل کے نمونہ پر محض بہ برکت متابعت حضرت خیر البشرو افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے گذر چکے ہیںاور اس کے قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے بر خلاف چلنا موجب بُعد و حرمان ہے…’’

(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد 5صفحہ657)

‘‘…اس زمانہ کے مجدّد کا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجدّد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ توڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنااور ان کے فلسفہ کو جو مخالفِ قرآن ہے دلائلِ قویّہ کے ساتھ توڑنااور اُن پر اسلام کی حجت پوری کرنا ہے کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کیلئے جو بغیر تائیدِ الٰہی دور نہیں ہوسکتی عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں جن کے دُور کرنے کیلئے ضرور تھا کہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے کوئی آوے…۔ ’’

( آئینہ کمالاتِ اسلام،روحانی خزائن جلد5صفحہ341)

نزول مسیح سے مراد

‘‘مسلمانوں اور عیسائیوں کا کسی قدر اختلاف کے ساتھ یہ خیال ہے کہ ‘‘حضرت مسیح بن مریم اسی عنصری وجود سے آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور پھر وہ کسی زمانہ میں آسمان سے اُتریں گے۔’’مَیں اس خیال کا غلط ہونا اپنے اسی رسالہ میں لکھ چکا ہوں اور نیز یہ بھی بیان کر چکا ہوں کہ اس نزول سے مراد در حقیقت مسیح بن مریم کا نزول نہیں۔ بلکہ استعارہ کے طور پر ایک مثیل مسیح کے آنے کی خبر دی گئی ہے جس کا مصداق حسب اعلام و الہام الٰہی یہی عاجز ہے…۔’’

(توضیح مرام،روحانی خزائن جلد3صفحہ51)

‘‘…ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنی یہ تھے کہ ملائِ اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادئہ الٰہی احیائے دین کے لئے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملائِ اعلیٰ پر شخص محیی کی تعین ظاہر نہیں ہوئی اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں ۔اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اُس نے کہا ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرطِ اعظم اس عہدہ کی محبتِ رسولؐ ہے ۔سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔’’

(براہینِ احمدیہ حصہ چہارم،روحانی خزائن جلد 1صفحہ598 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

آخری زمانےکی علامات اور مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور

آپؑ آخری زمانے کی علامات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

‘‘یہ زمانہ جس میں ہم ہیں یہ وہی زمانہ ہے جس میں دشمنوں کی طرف سے ہر ایک قسم کی بد زبانی کمال کوپہنچ گئی ہے اور بد گوئی اور عیب گیری اور افتراپردازی اِس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب اس سے بڑھ کر ممکن نہیںاور ساتھ اُس کے مسلمانوں کی اندرونی حالت بھی نہایت خطرناک ہو گئی ہے ۔صدہا بدعات اور انواع اقسام کے شرک اور الحاد اور انکار ظہورمیں آ رہے ہیں۔ اس لئے قطعی یقینی طور پر اب یہ وہی زمانہ ہے جس میں پیشگوئی مُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَکے مطابق عظیم الشان مصلح پیدا ہو۔سو الحمد للّٰہ کہ وہ مَیں ہوں۔’’

(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد15صفحہ453)

‘‘…مَیں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیحتاً کہتا ہوں کہ اسلام کے لئے جاگوکہ اسلام سخت فتنہ میں پڑاہے۔اس کی مدد کرو کہ اب یہ غریب ہے اور مَیں اسی لئے آیا ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے علمِ قرآن بخشا ہے اور حقائق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کئے ہیں سو میری طرف آئو تا اس نعمت سے تم بھی حصہ پائو۔مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوںکیا ضرور نہ تھا کہ ایسی عظیم الفتنصدی کے سر پر جس کی کھلی کھلی آفات ہیں ایک مجدّد کھلے کھلے دعویٰ کے ساتھ آتا سو عنقریب میرے کاموں کے ساتھ تم مجھے شناخت کرو گے ہر ایک جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا اس وقت کے علماء کی نا سمجھی اس کی سدِّ راہ ہوئی آخر جب وہ پہچانا گیا تو اپنے کاموں سے پہچانا گیا کہ تلخ درخت شیریں پھل نہیں لا سکتا اور خدا غیر کو وہ برکتیں نہیں دیتا جو خاصوں کو دی جاتی ہیں۔اے لوگو! اسلام نہایت ضعیف ہو گیا ہے اور اعداء دین کا چاروں طرف سے محاصرہ ہے اور تین ہزار سے زیادہ مجموعہ اعتراضات کا ہو گیا ہےایسے وقت میں ہمدردی سے اپنا ایمان دکھائواور مردانِ خدا میں جگہ پائو۔ والسلام علٰی من اتبع الھدٰی’’

(برکات الدعا ء،روحانی خزائن جلد6صفحہ36-37)

مؤید اسلام

آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘اے بزرگانِ اسلام خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں میں تمام فرقوں سے بڑھ کر نیک ارادے پیدا کرے اور اس نازک وقت میں آپ لوگوں کو اپنے پیارے دین کا سچا خادم بناوے۔ مَیں اس وقت محض لِلّٰہاس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدیداور تائید کے لئے بھیجا ہے تاکہ میں اس پُر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتیں ظاہر کروں اور اُن تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں اُن نوروں اور برکات اور خوارق اور علومِ لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کوعطا کئے گئے ہیں۔ ’’

(برکات الدعا ء،روحانی خزائن جلد6صفحہ34)

‘‘…یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجاجس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھاکیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِھْدِ نَا الصِّرَا طَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَا طَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم ْموسیٰ نے وہ متاع پائی جس کو قرون اُولیٰ کھو چکے تھےاور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ متاع پائی جس کو موسیٰ کا سلسلہ کھو چکا تھا اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائم مقام ہے مگر شان میں ہزار ہا درجہ بڑھ کرمثیل موسیٰ ،موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ،ابن مریم سے بڑھ کر۔ اور وہ مسیح موعود نہ صرف مدت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودہویں صدی میں ظاہر ہواجیسا کہ مسیح ابن مریم موسیٰ کے بعد چودہویں صدی میں ظاہر ہوا تھا ۔بلکہ وہ ایسے وقت میں آیا جبکہ مسلمانوں کا وہی حال تھا جیسا کہ مسیح ابن مریم کے ظہور کے وقت یہودیوں کا حال تھاسو وہ مَیں ہی ہوں خدا جو چاہتا ہے کرتا ہےنادان ہے وہ جو اس سے لڑے اور جاہل ہے وہ جو اس کے مقابل پر یہ اعتراض کرے کہ یوں نہیں بلکہ یوں چاہئے تھا ۔اور اُس نے مجھے چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ بھیجا ہے جو دس ہزار سے بھی زیادہ ہیں…’’

(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد19صفحہ14)

بندے کو خدا سے ملانے والی جماعت

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

‘‘…وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میںاور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کرکے صلح کی بنیاد ڈالوں ۔اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کردوں۔ اور روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھائوںاور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہوکر توجہ یادعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے ان کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اَب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں۔اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے۔’’

(لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد20صفحہ 180)

‘‘اور آسمان جوش میں ہے کہ اس قدر آسمانی نشان ظاہر کرے کہ اسلام کی فتح کا نقّارہ ہر ایک ملک میں اور ہر ایک حصہ دُنیا میں بج جائے۔اے قادر خدا! تُو جلد وہ دن لا کہ جس فیصلہ کا تُونے ارادہ کیا ہے وہ ظاہر ہو جائے اور دنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے دین اور تیرے رسول کی فتح ہو۔آمین ثم آمین۔

( چشمٔہ معرفت،روحانی خزائن جلد23صفحہ95)

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مَیں اخلاقی قوتوں کی تربیت کروں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

‘‘مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مَیں اخلاقی قوتوں کی تربیت کروں۔چونکہ یہ سارا سلسلہ اور ساری کارروائی مسیحی رنگ اپنے اندر رکھتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے میرا نام مسیح موعود رکھا۔

اب جبکہ مَیں نے اس حد تک بات کو پہنچایا ہے ،تو مَیں جانتا ہوں کہ مسیحی بھی میرے مخالف ہوںگے لیکن میں کسی کی مخالفت سے کب ڈر سکتا ہوں جب کہ خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے۔ اگر یہ دعویٰ میری اپنی تراشی ہوئی بات ہوتی تو مجھے ایک ادنیٰ سی مخالفت بھی تھکا کر بٹھا دیتی،مگر یہ میرے اپنے اختیار کی بات نہیں ہے ہرسلیم الفطرت کو جس طرح وہ چاہے سمجھانے کے لئے میں تیار ہوں اور اُس کی تسلی کے لئے ہر جائز مسنون راہ میںاختیار کر سکتا ہوں۔مَیں سچ کہتا ہوں کہ یہی وہ زمانہ ہے جس کے لئے مسلمان اپنے اعتقاد کے موافق اور عیسائی اپنے خیال پر منتظر تھے۔ یہی وہ وقت تھا جس کا وعدہ تھا۔ اب آنے والا آگیا۔خواہ کوئی قبول کرے یا نہ کرے۔ خدا تعالیٰ اپنے بھیجے ہوئے لوگوں کی تائید میں زبردست نشان ظاہر کیا کرتا ہے اور دلوں کو منوا دیتا ہے۔ جو کچھ مسیح موعود کے لئے مقدر تھا وہ ہو گیا۔ اب کوئی مانے نہ مانے مسیح موعود آگیا اور وہ مَیں ہوں۔ ’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ499ایڈیشن 1988ء)

ایمانی حالتوں کی درستگی

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنی آمد کی غرض بیان کرتے ہوئے ایک جگہ یوں بیان فرماتے ہیں:

‘‘… میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قو ی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلائوں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اس کو بھروسہ دُنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اوریہ بھروسہ ہر گز اس کو خدا تعالیٰ اور عالمِ آخرت پر نہیں۔زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ حضرت مسیح نے اسی حالت میںیہود کو پایا تھا اور جیسا کہ ضعف ایمان کا خاصہ ہے یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خدا کی محبت ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اب میرے زمانہ میں بھی یہی حالت ہے۔ سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔سو یہی افعال میرے وجود کی علّت غائی ہیں مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین سے نزدیک ہو گا۔بعد اس کے کہ بہت دُور ہو گیا تھا۔سو میں ان ہی باتوں کا مجدّد ہوں اور یہی کام ہیں جن کے لئے میں بھیجا گیا ہوں۔’’

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ291تا294حاشیہ)

میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا

‘‘خدا تعالیٰ اس بات کو جانتا ہے اور وہ ہر ایک امر پر بہتر گواہ ہے کہ وہ چیز جو اس کے راہ میں مجھے سب سے پہلے دی گئی وہ قلب سلیم تھا ۔یعنی ایسا دل کہ حقیقی تعلق اس کا بجز خدا ئے عزّو جلّ کے کسی چیز کے ساتھ نہ تھا۔ مَیں کسی زمانہ میں جوان تھا اور اب بوڑھا ہوا مگر مَیں نے کسی حصہ عمر میں بجز خدا ئے عزّ وجلّکسی کے ساتھ اپنا حقیقی تعلق نہ پایا…اور اسی تپش محبت کی وجہ سے میں ہر گز کسی ایسے مذہب پر راضی نہیں ہوا ۔جس کے عقائد خدا تعالیٰ کی عظمت اور وحدانیت کے بر خلاف تھے یا کسی قسم کی توہین کو مستلزم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائی مذہب مجھے پسند نہ آیا کیونکہ اس کے ہر قدم میں خدائے عزّو جلّکی توہین ہے…

اسی طرح ہندو مذہب جس کی ایک شاخ آریہ مذہب ہے وہ سچائی کی حالت سے با لکل گرا ہوا ہے۔ان کے نزدیک اس جہان کا ذرّہ ذرّہ قدیم ہے جن کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں۔ پس ہندوئوں کو اس خدا پر ایمان نہیں جس کے بغیر کوئی چیز ظہور میں نہیں آئی اور جس کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی…۔

غرض میں نے خوب غور سے دیکھا کہ یہ دونوں مذہب راستبازی کے مخالف ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں جس قدر ان مذاہب میں روکیں اور نو میدی پائی جاتی ہے مَیں سب کو اس رسالہ میں لکھ نہیں سکتا صرف بطور خلاصہ لکھتا ہوں کہ وہ خدا جس کو پاک روحیں تلاش کرتی ہیں اور جس کو پانے سے انسان اسی زندگی میں سچی نجات پا سکتا ہے اور اس پر انوارِ الٰہی کے دروازے کھل سکتے ہیں اور اس کی کامل معرفت کے ذریعہ سے کامل محبت پیدا ہو سکتی ہے اُس خدا کی طرف یہ دونوں مذہب رہبری نہیں کرتے اور ہلاکت کے گڑھے میں ڈالتے ہیں۔ ایساہی ان کے مشابہ دنیا میں اور مذاہب بھی پائے جاتے ہیں مگر یہ سب مذاہب خدائے واحد لا شریک تک نہیں پہنچا سکتے اور طالب کو تاریکی میں چھوڑتے ہیں۔

یہ وہ تمام مذاہب ہیں جن میں غور کرنے کے لئے میں نے ایک بڑا حصہ عمر کا خرچ کیااور نہایت دیانت اور تدبّر سے ان کے اصول میں غور کی ۔مگر سب کو حق سے دُور اور مہجور پایا۔ہاں یہ مبارک مذہب جس کا نام اسلام ہے وہی ایک مذہب ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔اور وہی ایک مذہب ہے جو انسانی فطرت کے پاک تقاضائوں کو پورا کرنے والا ہے…اسلام کا خدا کسی پر اپنے فیض کا دروازہ بند نہیں کرتا بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں سے بلا رہا ہے کہ میری طرف آئو اور جو لوگ پورے زور سے اس کی طرف دوڑتے ہیں اُن کے لئے دروازہ کھولا جاتا ہے۔

سو مَیں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سےکامل حصہ پایا ہے۔جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے بر گزیدوں کو دی گئی تھی۔ اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر مَیں اپنے سیّدو مولیٰ فخر الانبیا ء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفٰےصلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔سو میں نے جو کچھ پایا ۔اُس پیروی سے پایا اور مَیں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے۔’’

(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد22صفحہ59تا65)

‘‘ …بعض نادانوں کا یہ خیال کہ گویا میں نے افتراکے طور پر الہام کا دعویٰ کیا غلط ہے بلکہ در حقیقت یہ کام اس قادر خدا کا ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اس جہان کو بنایا ہے۔ جس زمانہ میں لوگوں کا ایمان خدا پر کم ہو جاتا ہے اس وقت میرے جیسا ایک انسان پیدا کیا جاتا ہے اور خدا اس سے ہمکلام ہوتا ہے۔اور اس کے ذریعہ سے اپنے عجائب کام دکھلاتا ہے۔یہاں تک کہ لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ خدا ہے۔ میں عام اطلاع دیتا ہوں کہ کوئی انسان خواہ ایشیائی ہو خواہ یوروپین اگر میری صحبت میں رہے تو وہ ضرور کچھ عرصہ کے بعد میری ان باتوں کی سچائی معلوم کر لے گا۔ ’’

(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد 13صفحہ18)

علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کا قیام

آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘ اب اتمام حجّت کے لئے میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ اسی کے موافق جو ابھی مَیں نے ذکر کیا ہے خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر اور ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راستبازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے کہ تا وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریّت اور اباحت اور شرک اور دہریّت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ’’

(آئینہ کمالاتِ اسلام،روحانی خزائن جلد5صفحہ251 )

مزید فرماتے ہیں :

‘‘خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا مَیںحلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خد ااور اُس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلائوں۔ انسان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے دلائل اُس کو ملیں جن کی رو سے اُس کو یقین آجائے کہ خدا ہے کیونکہ ایک بڑا حصہ دنیا کا اسی راہ سے ہلاک ہو رہا ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی الہامی ہدایتوں پر ایمان نہیں ہے۔ اور خدا کی ہستی کےماننے کے لئے اس سے زیادہ صاف اور قریب الفہم اور کوئی راہ نہیں کہ وہ غیب کی باتیں اور پوشیدہ واقعات اور آئندہ زمانہ کی خبریں اپنے خاص لوگوں کو بتلاتا ہے اور وہ نہاں در نہاں اسرار جن کا دریافت کرنا انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے اپنے مقربوں پر ظاہر کر دیتا ہے کیونکہ انسان کے لئے کوئی راہ نہیں جس کے ذریعہ سے آئندہ زمانہ کی ایسی پوشیدہ اور انسانی طاقتوں سے بالا تر خبریں اس کو مل سکیں۔اور بلاشبہ یہ بات سچ ہے کہ غیب کے واقعات اور غیب کی خبریں با لخصوص جن کے ساتھ قدرت اور حکم ہے ایسے امور ہیں جن کے حاصل کرنے پر کسی طور سے انسانی طاقت خود بخود قادر نہیں ہو سکتی۔سو خدا نے میرے پر یہ احسان کیا ہے جو اس نے تمام دنیا میں سے مجھے اس بات کے لئے منتخب کیا ہے کہ تا وہ اپنے نشانوں سے گمراہ لوگوں کو راہ پر لاوے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے آسمان سے دیکھا ہے کہ عیسائی مذہب کے حامی اور پیرو یعنی پادری سچائی سے بہت دُور جا پڑے ہیں اور وہ ایک ایسی قوم ہے کہ نہ صرف آپ صراطِ مستقیم کو کھو بیٹھے ہیں بلکہ ہزار ہا کوس تک خشکی تری کا سفر کر کے یہ چاہتے ہیں کہ اوروں کو بھی اپنے جیسا کر لیںوہ نہیں جانتے کہ حقیقی خدا کون ہے بلکہ اُ ن کاخدا انہی کی ایک ایجاد ہےاس لئے خدا کے اس رحم نے جو انسانوں کے لئے وہ رکھتا ہے تقاضا کیا کہ اپنے بندوں کو ان کے دام تزویر سے چھڑائے اس لئے اس نے اپنے اس مسیح کو بھیجا تا وہ دلائل کے حربہ سے اُس صلیب کو توڑے جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بدن کو توڑا تھا اور زخمی کیا تھا۔’’

(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد15صفحہ143تا144)

سچا مذہب بجز اسلام کے اور کوئی نہیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

‘‘مَیں اس جگہ کچھ گذشتہ قصوں کو بیان نہیں کرتا بلکہ میں وہی باتیں کرتا ہوں جن کا مجھے ذاتی علم ہے۔مَیں نے قرآن شریف میں ایک زبردست طاقت پائی ہے مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ایک عجیب خاصیت دیکھی ہے جو کسی مذہب میں وہ خاصیت اور طاقت نہیں اور وہ یہ کہ سچا پیرو اس کا مقامات ولایت تک پہنچ جاتا ہے۔خدا اُس کو نہ صرف اپنے قول سے مشرف کرتا ہے بلکہ اپنے فعل سے اس کو دکھلاتا ہے کہ مَیں وہی خدا ہوں جس نے زمین و آسمان پیدا کیا تب اس کا ایمان بلندی میں دُور دُور کے ستاروں سے بھی آگے گذر جاتا ہے۔چنانچہ مَیں اس امر میں صاحبِ مشاہدہ ہوں خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور ایک لاکھ سے بھی زیادہ میرے ہاتھ پر اُس نے نشان دکھلائے ہیں ۔سو اگرچہ مَیں دنیا کے تمام نبیوں کا ادب کرتا ہوں اور ان کی کتابوں کا بھی ادب کرتا ہوں مگر زندہ دین صرف اسلام کو ہی مانتا ہوں کیونکہ اس کے ذریعہ سے میرے پر خدا ظاہر ہوا ۔جس شخص کو میرے اس بیان پر شک ہو اس کو چاہیئے کہ ان باتوں کی تحقیق کے لئے کم سے کم دو ماہ کے لئے میرے پاس آجائےمَیں اس کے تمام اخراجات کا جو اس کے لئے کافی ہو سکتے ہیں اس مدت تک متکفّل رہوں گا۔میرے نزدیک مذہب وہی ہے جو زندہ مذہب ہو ۔اور زندہ اور تازہ قدرتوں کے نظارہ سے خدا کو دکھلاوے ورنہ صرف دعویٰ صحت مذہب ہیچ اور بلا دلیل ہے۔ ’’

(چشمۂ معرفت،روحانی خزائن جلد23صفحہ428)

دجالیت کا خاتمہ

‘‘ایسا ہی مسیح موعود کے وجود کی علّت غائی احادیثِ نبویہ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عیسائی قوم کے دجل کو دُور کرے گا اور ان کے صلیبی خیالات کو پاش پاش کر کے دکھلا دے گا۔چنانچہ یہ امر میرے ہاتھ پر خدا تعالیٰ نے ایسا انجام دیا کہ عیسائی مذہب کے اصول کا خاتمہ کر دیا۔مَیں نے خدا تعالیٰ سے بصیرت کاملہ پا کر ثابت کر دیا کہ وہ لعنتی موت جو نعوذ باللہ حضرت مسیح کی طرف منسوب کی جاتی ہے جس پر تمام مدار صلیبی نجات کا ہے وہ کسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی ۔اور کسی طرح لعنت کا مفہوم کسی راستباز پر صادق نہیں آسکتا۔چنانچہ فرقہ پادریان اس جدید طرز کے سوال سے جو حقیقت میں اُن کے مذہب کو پاش پاش کرتا ہے ایسے لا جواب ہو گئے کہ جن جن لوگوں نے اس تحقیق پر اطلاع پائی ہے وہ سمجھ گئے ہیں کہ اس اعلیٰ درجہ کی تحقیق نے صلیبی مذہب کو توڑ دیا ہے۔ بعض پادریوں کے خطوط سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اس فیصلہ کرنے والی تحقیق سے نہایت درجہ ڈر گئے ہیںاور وہ سمجھ گئے ہیں کہ اس سے ضرور صلیبی مذہب کی بنیاد گرے گی ۔اور اس کا گرنا نہایت ہولناک ہو گا۔ ’’

(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد 13صفحہ262تا263حاشیہ)

مجھے تبلیغ اور حق اور اصلاح کے لئے معمور فرمایا

حضورؑ فرماتے ہیں:

‘‘…جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پاکر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے معمور فرمایا اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ… اس دنیا کے لوگ تیرھویں صدی ہجری کوختم کر کے چودھویں صدی کے سر پر پہنچ گئے تھے۔تب مَیں نے اس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اٹھ گیا ہے اُس کو دوبارہ قائم کروں۔ اور خدا سے قوت پا کر اُسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں۔ اور اُن کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دُور کروں اور پھر جب اس پر چند سال گزرے تو بذریعہ وحی الٰہی میرےپر بتصریح کھولا گیا کہ وہ مسیح جو اس اُمت کے لئے ابتداء سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزّل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقررکیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی ۔وہ مَیں ہی ہوں ۔اور مکلاماتِ الٰہیہ اور مخاطبات رحمانیہ اس صفائی اور تواتر سے اس بارے میں ہوئے کہ شک و شبہ کی جگہ نہ رہی۔ ہر ایک وحی جو ہوتی تھی ایک فولادی میخ کی طرح دل میں دھنستی تھی اور یہ تمام مکالمات ِ الٰہیہ ایسی عظیم الشان پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے تھے کہ روز روشن کی طرح وہ پوری ہوتی تھیں اور اُن کے تواتر اور کثرت اور اعجازی طاقتوں کے کرشمہ نے مجھے اس بات کے اقرار کے لئے مجبور کیا کہ یہ اُسی وحدہٗ لا شریک خدا کا کلام ہے جس کا کلام قرآن شریف ہے۔اور مَیں اس جگہ توریت اور انجیل کا نام نہیں لیتا کیونکہ توریت اور انجیل تحریف کرنے والوں کے ہاتھوں سے اس قدر محرف و مبدّل ہو گئی ہیں کہ اب ان کتابوں کو خدا کا کلام نہیں کہہ سکتے۔غر ض وہ خدا کی وحی جو میرے پر نازل ہوئی ایسی یقینی اور قطعی ہے کہ جس کے ذریعہ سے مَیں نے اپنے خدا کو پایا اور وہ وحی نہ صرف آسمانی نشانوںکے ذریعہ مرتبہ حق الیقین تک پہنچی بلکہ ہر ایک حصہ اس کا جب خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف پر پیش کیا گیا تو اس کے مطابق ثابت ہوا اور اس کی تصدیق کےلئے بارش کی طرح نشانِ آسمانی برسے۔ ’’

(تذکرۃالشہادتین ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ3تا4)

کسر صلیب

آپؑ مزید فرماتے ہیں :

‘‘سو مَیں صلیب کے توڑنے اور خنزیروں کے قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔مَیں آسمان سے اترا ہوں اُن پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا بلکہ کر رہا ہے اور اگر مَیں چُپ بھی رہوں اور میری قلم لکھنے سے رکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اترے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اوراُنکے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لئے دیئے گئے ہیں’’۔
(فتح اسلام ،روحانی خزائن جلد 3صفحہ11حاشیہ )

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش ِ قدم پر چلنے والی جماعت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘جب خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تائید میں صد ہا نشان اس نے ظاہر کئے ہیں۔اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہ ؓکی جماعت ہو اور پھر خیر القرون کا زمانہ آجاوے۔جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں چونکہ وہ اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ میں داخل ہوتے ہیں۔اس لئے وہ جھوٹے مشاغل کے کپڑے اُتار دیں۔اور اپنی ساری توجہ خدا تعالیٰ کی طرف کریں۔ فیج اَعْوَج(ٹیڑھی فوج ) کے دشمن ہوں۔ اسلام پر تین زمانے گذرے ہیں۔ ایک قُرون ثلاثہ اِس کے بعد فیج اَعْوَجکا زمانہ جس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ لَیْسُوْ مِنّیِ وَ لَسْتُ مِنْھُمْ۔یعنی نہ وہ مجھ سے ہیں اور نہ مَیں اُن سے ہوں اور تیسرا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانہ سے ملحق ہے بلکہ حقیقت میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ ’’

(ملفوظات جلد دوم صفحہ67ایڈیشن 1988ء)

‘‘غرض اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو اس لئے قائم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور عزت کو دوبارہ قائم کریں۔ ’’

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 65 ایڈیشن 2003ء)

مبارک وہ جو اَب ایمان لایا

صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج ِ نبوت کا اور کس نے پایا۔ اِس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے ۔وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا۔ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا۔وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دل آزاری اور بد زبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اٹھارہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا ۔وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی۔بہتیرے اُن میں سے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوئوں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے۔بہتیرے ان میں ایسے ہیں جن کو سچی خوابیں آتی اورالہام الٰہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوتے تھے۔ بہتیرے ان میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے۔ اُن میں ایسے لوگ کئی پائو گے جو موت کو یاد رکھتے اور دلوں کے نرم اور سچی تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی۔ وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو پاک کر رہا ہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے ان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا۔غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں۔جو اٰ خَرِ یْنَ مِنْھُمْ کے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا۔!!!

(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد 14صفحہ306تا307)

مخلصین کی جماعت

آپ علیہ الصلوٰۃو السلام رسالہ الوصیت میں تحریرفرماتے ہیں:

‘‘…خد اتعالیٰ چاہتا ہے کہ اُن تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ء اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعائوں پر زور دینے سے۔ اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو۔’’

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ306تا307)

ہماری جماعت کا خدا سے سچاتعلق ہونا چاہئے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہئے۔اور ان کو شکر کرنا چاہیےکہ خدا تعالیٰ نے ان کو یونہی نہیں چھوڑا۔بلکہ ان کی ایمانی قوتوں کو یقین کے درجے تک بڑھانے کے واسطے اپنی قدرت کے صد ہا نشان دکھائے کیا کوئی تم میں سے ایسا بھی ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا۔میںد عویٰ سے کہتا ہوں کہ ایک بھی ایسا نہیں جس کو ہماری صحبت میں رہنے کا موقع ملا ہو اور اس نے خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ نشان اپنی آنکھ سے نہ دیکھا ہو۔ہماری جماعت کے لئے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے۔خدا تعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو۔نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہو۔کیونکہ اگر سستی ہوتو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیبت معلوم ہوتا ہے۔چہ جائیکہ وہ تہجد پڑھے اگر اعمال صالحہ کی قوت پیدا نہ ہو اور مسابقت علی الخیرات کیلئے جوش نہ ہو۔تو پھر ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے۔’’

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 710تا711ایڈیشن 1988ء)

تعلیم کے موافق عمل

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘ہماری جماعت میںوہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے۔لیکن جو محض نام رکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیںکرتا۔وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں نہیں ہے ،محض نام لکھانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا…اس لئے جہاں تک ہوسکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے۔اعمال پروں کی طرح ہیں۔بغیر اعمال کے انسان روحانی مدارج کیلئے پرواز نہیں کر سکتا اور ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتا جو اِن کے نیچے اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں۔پرندوں میں فہم ہوتا ہے ،اگر وہ اس فہم سے کام نہ لیں تو جو کام ان سے ہوتے ہیں نہ ہو سکیں…پس پہلے ضروری ہے کہ آدمی اپنے فہم سے کام لے اور سوچے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے نیچے اور اسکی رضا کے لئے ہے یا نہیں۔’’

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 711ایڈیشن 1988ء)

یہ زمانہ تکمیل اشاعتِ ہدایت کا ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما تے ہیں:

‘‘…در حقیقت اظہارِدین اُسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ کُل مذاہب میدان میں نکل آویں اور اشاعتِ مذہب کے ہر قسم کے مفید ذریعے پیدا ہو جائیں اور وہ زمانہ خدا کے فضل سے آگیا ہے۔ چنانچہ اس وقت پریس کی طاقت سے کتابوں کی اشاعت اور طبع میں جو جو سہولتیں میسر آئی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں۔ ڈاکخانوں کے ذریعہ سے کل دنیا میں تبلیغ ہو سکتی ہے۔ اخباروں کے ذریعہ سے تمام دنیا کے حالات پر اطلاع ملتی ہے۔ ریلوں کے ذریعہ سفر آسان کر دئیے گئے ہیں۔ غرض جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہارِ دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں۔ اس لئے یہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ

لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ

کہہ کر فرمائی تھی۔ یہ وہی زمانہ ہے جو

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(المائدہ : 4)

کی شان کو بلند کرنے والا اور تکمیل اشاعتِ ہدایت کی صورت میں دوبارہ اتمامِ نعمت کا زمانہ ہے۔’’

(ملفوظات جلد 2صفحہ 134تا 135ایڈیشن1988ء )

حضرت مسیح موعود ؑکی بعثت کا مقصد حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی زبان مبارک سے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

‘‘حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کسی نے سوال کیا کہ خلیفہ کے آنے کا مدّعا کیا ہوتا ہے؟ مقصد کیا ہوتاہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو جواب دیا وہ ہمارے سامنے ہر وقت رہنا چاہئے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘‘اصلاح’’۔ یہ مقصد ہے۔ اور پھر وضاحت بھی فرمائی کہ ‘‘دیکھو حضرت آدم سے اِس نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک مدت دراز کے بعد جب انسان کی عملی حالتیں کمزور ہو گئیں اور انسان زندگی کے اصل مدّعا اور خدا کی کتاب کی اصل غایت بھول کر ہدایت کی راہ سے دور جا پڑے تو پھر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ایک مامور اور مُرسَل کے ذریعہ سے دنیا کو ہدایت کی۔ اور ضلالت کے گڑھے سے نکالا۔ ’’آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘شان کبریائی نے جلوہ دکھایا اور ایک شمع کی طرح نور معرفت دنیا میں دوبارہ قائم کیا گیا۔ ایمان کو نورانی اور روشنی والا ایمان بنا دیا۔ ’’فرماتے ہیں کہ ‘‘غرض اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہی سنّت چلی آتی ہے۔’’ حضرت آدم سے لے کر آنحضرت ﷺ تک یہی ہم نے دیکھا۔ پھر فرمایا کہ ‘‘غرض اللہ تعالیٰ کی یہی سنّت چلی آتی ہے کہ ایک زمانہ گزرنے پر جب پہلے نبی کی تعلیم کو لوگ بھول کر راہ راست اور متاع ایمان اور نور معرفت کو کھو بیٹھتے ہیں اور دنیا میں ظلمت اور گمراہی، فسق و فجور کا چاروں طرف سے خطرناک اندھیرا چھا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی صفات جوش مارتی ہیں اور ایک بڑے عظیم الشان انسان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا نام اور توحید اور اخلاق فاضلہ پھر نئے سرے سے دنیا میں اس کی معرفت قائم کر کے خدا تعالیٰ کی ہستی کے بیّن ثبوت ہزاروں نشانوں سے دئیے جاتے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ کھویا ہوا عرفان اور گمشدہ تقویٰ طہارت دنیا میں قائم کی جاتی ہے۔ ’’(پس مسلمانوں میں بھی اور غیر مسلموں میں بھی ایمان کھویا ہوا ہے۔ تقویٰ کھویا ہو اہے۔ اس لئے اس زمانے میںا للہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق خاتم الخلفاء کو بھیجا اور آپؑ نے اسے قائم کیا۔ آپؑ فرماتے ہیں ‘‘اور ایک عظیم الشان انقلاب واقع ہوتا ہے۔ غرض اسی سنت قدیمہ کے مطابق’’(یہ غور سے سننے والی بات ہے) آپ نے فرمایا ‘‘اسی سنت قدیمہ کے مطابق ہمارا یہ سلسلہ قائم ہوا ہے۔’’

(ماخوذ ازملفوظات جلد10صفحہ275-274ایڈیشن 1985ءمطبوعہ انگلستان)

(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍مئی2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍جون2018ءصفحہ6تا7)

مسلمانوںکی کھوئی ہوئی طاقت کا حصول

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:

‘‘سورۃ تکویر میں جہاں اس زمانے کے حالات کی پیشگوئیاں ہیں وہاں اسلام کی آئندہ ترقی بھی مسیح موعود کے ذریعہ سے ہی وابستہ کی گئی ہے۔ ان کے ذریعہ سے اکٹھے ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ اس لئے ان لوگوں میں سے کسی کو اس خیال میں نہیں رہنا چاہئے کہ مسیح موعود کو مانے بغیر اسلام اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کرلے گا۔ یا یہ لوگ اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کر لیں گے۔ جس طرح ان کا نظریہ ہے صرف خنزیروں کو مارنا ہی تو نہیں رہ گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اس کے لئے تو یہ عیسائی قوم ہی کافی ہے، مارتے رہتے ہیں اور کھاتے رہتے ہیں، تو مسیح بیچارے کوآنے کی، اس مشکل میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمان کہلانے والے علماء کو بھی عقل دے اور مسلمان امت کو بھی کہ یہ حق کو پہچان سکیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا سینہ کھولے، دماغ کھولے۔ ہمارا کام ان کے لئے دعا بھی کرنا ہے اور ان کو راستہ بھی دکھانا ہے، اور وہ ہمیں کرتے چلے جانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔’’

(خطبہ جمعہ 3؍ فروری 2006ء مطبوعہ 4 ؍ فروری 2006ء صفحہ7 )

قرب الٰہی سے نوازنا

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں :

’’انبیاء دنیا میں بندے کو خدا کے قریب کرنے کے لئے بندے کو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم پر چلانے کے لئے آتے ہیں۔اور ان سب انبیاء میں کامل اور مکمل تعلیم لے کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر اتری ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا حق ادا کر دیا اور پھر چودہ سو سال بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا۔جنہوں نے پھر اس عظیم کام کی تجدید کی اور دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف بلایا۔دنیا کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ کس طرح تلاش کرنی ہے ،کس طرح اس تک پہنچا جاسکتا ہے۔اور اگر اللہ تعالیٰ کی تلاش ہے اس تک پہنچنے کی خواہش ہے تو اب صرف اور صرف مذہب اسلام ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔پھر آپ نے غیر مذہبوں کو بھی یہی دعوت دی اپنی ایک نظم کے ایک مصرعے میں آپ ؑ فرماتے ہیں : ‘‘آئو لوگوکہ یہیں نور خدا پائو گے ’’

(خطبہ فرمودہ 9؍مارچ 2012ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 30مارچ 2012ءصفحہ5)

تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت

جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کےایک اقتباس میں ذکر کیا گیاتھا آپ ؑ کی بعثت کا ایک بہت بڑا مقصدتکمیل اشاعت ہدایت ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

‘‘…کوئی کہہ سکتا ہے کہ دنیاوی نعمتیں تو نقطہ عروج پر نہیں پہنچیں بلکہ ہر روز نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں تو واضح ہو کہ آنحضرتﷺ ہی ایک کامل نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایک تو تمام انسانیت کے لئے مبعوث فرمایا اور آپؐ ہی وہ کامل نبی ہیں جن کو قیامت تک کا زمانہ عطا فرمایا گیا ہے۔ اور آپؐ پر اترنے والی کتاب قرآن کریم ہی وہ کامل کتاب ہے جو اپنے اندر پرانی تاریخ بھی لئے ہوئے ہے، نئے احکامات بھی لئے ہوئے ہے اور دنیاوی لحاظ سے جو نئی ایجادات ہیں ان کی پیش خبری بھی پہلے سے قرآن کریم نے دے دی ہے اور جوں جوں کوئی نئی دریافت ہوتی جاتی ہے اس کی تائید قرآن کریم سے ملتی جاتی ہے۔ بلکہ مسلمان سائنسدان اگر غور کریں اور غور کرکے اپنی ریسرچ (Research) قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے حوالے سے کریں یا اُس علم کے حوالے سے کریں جو قرآن کریم میں ایک خزانے کی صورت میں موجود ہے تو نئی ریسرچ کی بہت سی راہنمائی قرآن کریم سے ملے گی۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے بھی قرآن کریم کے علم کی روشنی میں اپنی ریسرچ کی تھی اور جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ ان کے غور کے مطابق قرآن کریم میں سات سو کے قریب ایسی آیات ہیں جو سائنس سے متعلق ہیں، یا ایسی آیات ملتی ہیں جن سے سائنس کے بارے میں راہنمائی ملتی ہے۔ تو یہ ان کا غور ہے جو انہوں نے کیا۔ ہو سکتاکہ کوئی اور احمدی مسلمان سائنسدان اس وسیع سمندر میں غوطہ لگائے توقرآن کریم میں سے اس سے بھی زیادہ علم کے موتی تلاش کرکے لے آئے۔

بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تکمیل ہدایت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہو گئی۔ کوئی علمی، دینی، سائنسی، روحانی بات یا علم نہیں جو آنحضرتﷺ کے ذریعہ سے یا آپؐ کی لائی ہوئی تعلیم کے ذریعہ سے تکمیل نہ پا گیاہو۔ لیکن اس زمانے میں بعض چیزیں پردہ غیب میں تھیں اور سامنے نہیں آئی تھیں۔ اس لئے گزشتہ لوگوں سے چھپی رہیں۔ لیکن مسیح موعود کے زمانے میں یہ نئی ایجادات سامنے آ کر تکمیل اشاعت ہدایت کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج یہ نئی ایجادات جو انسان کے فائدے کے لئے ہیں آنحضرتﷺ کے لائے ہوئے دین کی اشاعت میں کام آ رہی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب میں پریس وغیرہ کی مثالیں دی ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں، سیٹلائٹ وغیرہ ہیں اور بہت ساری چیزیں ہیں۔ پس یہ جو آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق اور مسیح الزمان کا زمانہ ہے اس میں ایسی ایسی باتیں سامنے آ رہی ہیں یا ان کی مدد سے دین کی اشاعت ہو رہی ہے یا قرآن کریم اور آنحضرتﷺ کی تعلیم، مقام اور مرتبہ کی کاملیت کے ایسے ایسے اسلوب اور زاویے نظر آتے ہیں جو ایک مومن کے دل اور ایمان کو مزید تقویت دیتے ہیں اور یہ چیزیں پھر ہمیں آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ2؍جنوری2009ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍جنوری 2009ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button