اداریہ

یومِ مسیح موعودؑ، زمانے کی ضرورت سات بنیادی اہم باتیں اور ہماری ذمہ داریاں

(مدیر)

جماعتِ احمدیہ عالم گیر مارچ کے مہینے میں یومِ مسیح موعود کی تقریب عشق و محبت اور اخلاص و عقیدت کے گہرے جذبات کے ساتھ پورے اہتمام سے مناتی ہے۔ اس موقع پر مختلف مساجداور نماز سنٹرز میں جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں جری اللہ فی حلل الانبیاء کے عظیم الشان کارناموں، اسلام کے غلبہ کی بشارتوں اور ان کے عملی ظہور کے اذکارِ مقدّس سننے کے لیے کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ علمائے سلسلہ اور دیگر مقرّرین اپنی ایمان افروز تقاریر و بیانات میں مسیح دوراں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت، آپؑ کے عالی مقام اور آپؑ کے ذریعہ رونما ہونے والے عظیم الشان انقلاب کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ وبائی بیماری کی وجہ سے اکثر جگہوں پر ان جلسوں کا انعقاد ممکن نہ ہو سکے گا لیکن ہر سال کی طرح امسال بھی سلسلے کے اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین اور ایم ٹی اے پر نشر ہونے والے پروگرامز میں اس امر کو بڑی خوبی کے ساتھ پیش کیا جائے گا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے دنیا میں غلبۂ اسلام کا وہ عظیم الشان دور جس کی بشارت حضرت خاتم الانبیاء، محمد مصطفیٰ ﷺنے آج سے چودہ سو برس پہلے دی تھی شروع ہو چکا ہے۔ چنانچہ اسلام کی فتح اور اس کے غلبہ کے آثار دن بدن نمایاں ہوتے جا رہے ہیں اور اگرچہ بظاہر دنیا کے حالات مسلمانوں کے موافق نہیں بھی نظر آتے لیکن اس کے باوجود ع جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار کے مطابق جس متلاشیٔ حق تک اسلام کا پیغام درست طریق پر پہنچتا ہے وہ اسلام کی طرف کھنچا چلا آتا ہے۔

یومِ مسیح موعود کی بنیاد سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کے آخری دور میں پڑی۔ جماعتِ احمدیہ کے قیام کے مبارک موقعے کی یاد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات و معجزات نیز آپؑ کے احسانات اور تعلیمات کے تذکرے کے لیے تقریب منانے کی بابت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے جب 1958ء میں استصواب کیا گیا تو حضورؓ نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (روزنامہ الفضل ربوہ 4؍ مارچ 1958ء) ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خلفائے احمدیت کا ہر حکم، ہر فیصلہ ہمہ جہتی اور عمیق در عمیق حکمتوں سے پُر ہوتا ہے اور ان ارشادات کے مقاصدِ عالیہ میں سے ایک احبابِ جماعت کی تربیت اور اخلاقی و روحانی ترقی کے لیے مواقع میسّر کرنا بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ اس مبارک دن صرف جلسے منا کر خوشی کا اظہار کر دینا کافی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے دنیا پر آنے والے عظیم الشان انقلاب کو یاد کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کا اعادہ کرنا بھی ضروری ہے۔

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:‘‘ہر سال جب 23؍ مارچ کا دن آتا ہے تو ہم احمدیوں کو صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ آج ہم نے یومِ مسیح موعود منانا ہے، یا الحمد للہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔ جماعت کے آغاز کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ سے ہم نے آگاہی حاصل کر لی ہے، اتنا کافی نہیں ہے، یا جلسے منعقد کر لئے ہیں، یہی سب کچھ نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے اس بیعت کا کیا حق ادا کیا ہے؟ آج ہمارے جائزہ اور محاسبہ کا دن بھی ہے۔ بیعت کے تقاضوں کے جائزے لینے کا دن بھی ہے۔ شرائطِ بیعت پر غور کرنے کا دن بھی ہے۔ اپنے عہد کی تجدید کا دن بھی ہے۔ شرائطِ بیعت پر عمل کرنے کی کوشش کے لئے ایک عزم پیدا کرنے کا دن بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے پورا ہونے پر جہاں اللہ تعالیٰ کی بے شمار تسبیح و تحمید کا دن ہے وہاں حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر ہزاروں لاکھوں درود و سلام بھیجنے کا دن ہے۔’’(خطبہ جمعہ 23؍ مارچ 2012ء)

پھر حضورِ انور اپنے خطبہ جمعہ 25؍ مارچ 2016ء میں فرماتے ہیں:‘‘ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا جہاں خوشی اور شکر کا مقام ہے وہاں ہماری ذمہ داریاں بھی بڑھاتا ہے۔ پس ہمیں ان ذمہ داریوں کی پہچان اور ان کی ادائیگیوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہماری ذمہ داریاں ان کاموں کو آگے چلانا ہے جن کی ادائیگی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے۔ تبھی ہم ان لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر نئی زمین اور نیا آسمان بنانے والوں میں شامل ہونا تھا۔ پس ان ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف ہی دیکھنا ہو گا کہ آپ کی بعثت کے مقاصد کیا تھے اور ہم نے ان کو کس حد تک سمجھا ہے اور اپنے پر لاگو کیا ہے۔ اور ان کو آگے پھیلانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے یا کردار ادا کر رہے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ‘‘وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقعہ ہوگئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور’’ دوسری بات کہ ‘‘سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں اور’’۔ پھر یہ کہ ‘‘دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کردوں۔’’چوتھی بات یہ ‘‘اور روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھلاؤں اور’’۔ پھر یہ کہ ‘‘خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ، نہ محض قال سے ان کی کیفیت بیان کروں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک شرک کی آمیزش سے خالی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوّت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے’’۔

پس اس اقتباس میں سات بنیادی اور اہم باتیں بیان کی گئی ہیں جو اس زمانے کی ضرورت ہے’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍ مارچ 2016ء)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مبارک موقعے پر حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
    الفضل انٹرنیشنل کا یوم مسیح موعود کی مناسبت سے شمارہ جستہ جستہ دیکھا ہے۔ ماشاءاللہ بہت اچھے موضوعات کو یکجا کیا گیا ہے۔خصوصا مولانا عبد السمیع خان صاحب کا مضمون "کیا یہ اتفاق ہے۔ ” بہت لذیذ ہے۔
    اللہ تعالیٰ تمام مضمون نگاروں کے قلم میں مزید برکت عطا فرمائے۔ آمین

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button