کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

جنت کی فلاسفی

کوئی بات سوائے خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل نہیں ہو سکتی اور جسے اس دنیا میں فضل حاصل ہو گا اسے ہی آخرت میں بھی ہو گا۔جیسے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے

مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی(بنی اسرائیل:73)

اسی لئے یہ ضروری ہے کہ اِن حواس کے حصول کی کوشش اسی جہان میں کرنی چاہیے کہ جس سے انسان کو بہشتی زندگی حاصل ہوتی ہے اور وہ حواس بلا تقویٰ کے نہیں مِل سکتے۔ اِن آنکھوں سے انسان خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا لیکن تقویٰ کی آنکھوں سے انسان خدا کو دیکھ سکتا ہے۔ اگر وہ تقویٰ اختیار کرے گا تو وہ محسوس کرے گا کہ خدا مجھے نظر آرہا ہے اور ایک دن آوے گا کہ خود کہہ اُٹھے گا کہ مَیں نے خدا کو دیکھ لیا۔ اسی بہشتی زندگی کی تفصیل جوکہ متقی کو اسی دنیا میں حاصل ہوتی ہے قرآن شریف میں ایک اَور جگہ بھی پائی جاتی ہے جیسے لکھا ہے

کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡہَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ(البقرۃ:26)

جب وہ عالم آخرت میں ان درختوں کے اُن پھلوں سے جو دنیا کی زندگی میں ہی اُن کو مِل چکے تھے پائیں گے تو کہہ دیویں گے کہ یہ تو وہ پھل ہیں جو کہ ہمیں اوّل ہی دیئے گئے تھے کیونکہ وہ ان پھلوں کو اُن پہلے پھلوں سے مشابہ پاویں گے۔ اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ دنیا میں جو نعمتیں مثل دودھ، شہد، گھی اور انار اور انگور وغیرہ انہوں نے کھائے ہیں وہی ان کو وہاں جنت میں ملیں گے اور وہاں ان چیزوں کے مہیا کرنے کے لئے بہت سے باغات، درخت، مالی اور بَیل وغیرہ اور گائے بھینسوں کے ریوڑ ہوں گے اور درختوں پر شہد کی مکھیوں کے چھتے ہوں گے جن سے شہد اُتار کر اہل جنت کو دیا جاوے گا۔ یہ سب غلط خیال ہیں اگر جنت کی یہی نعمت ہے جو اُن کو دنیا میں ملتی رہی اور آخرت میں بھی ملے گی تو مومنوں اور کافروں میں کیا فرق رہا؟ ان سب چیزوں کے حاصل کرنے میں تو کافر اور مشرک بھی شریک ہیں۔ پھر اس میں بہشت کی خصوصیت کیا ہے؟ لیکن قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ بہشت کی نعمتیں ایسی چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی کان نے سنیں اور نہ دلوں میں گذریں۔ اور ہم دنیا کی نعمتوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ سب آنکھوں نے دیکھیں کانوں نے سنیں اور دل میں گذری ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ان جنتی نعمتوں کا تمام نقشہ جسمانی رنگ پر ظاہر کیا گیا ہے مگر وہ اصل میں اَور ہیں ورنہ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ (البقرہ:26)کے کیا معنے ہوں گے۔ اس کے وہی معنے ہیں جو کہ

مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی(بنی اسرائیل:73)

کے ہیں۔ دوسرے مقام پر قرآن شریف فرماتا ہے

وَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (الرحمٰن:47)

جو شخص خدا تعالیٰ سے خائف ہے اور اس کی عظمت اور جلال کے مرتبہ سے ہراساں ہے اس کے لئے دو بہشت ہیں۔ ایک یہی دنیا اور دوسری آخرت۔ جو شخص سچے اور خالص دل سے نقش ہستی کو اس کی راہ میں مٹا کر اس کے متلاشی ہوتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں تو اُس میں اُن کو ایک قسم کی لذّت شروع ہو جاتی ہے۔اور اُن کو وہ روحانی غذائیں ملتی ہیں جو روح کو روشن کرتی اور خدا تعالیٰ کی معرفت کو بڑھاتی ہیں۔ ایک جگہ پر شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب انسان عارف ہو جاتا ہے تو اُس کی نماز کا ثواب مارا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اس کی نماز اب بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہوتی بلکہ یہ معنے ہیں کہ چونکہ اب اُسے لذت شروع ہو گئی ہے تو جو اجر اس کا عند اللہ تھا وہ اب اُسے دنیا میں ملنا شروع ہو گیا ہے جیسے ایک شخص اگر دودھ میں برف اور خوشبو وغیرہ ڈال کر پیتا ہے تو کیا کہہ سکتے ہیں کہ اُسے ثواب ہو گا کیونکہ لذت تو اس نے اس کی یہیں حاصل کر لی۔ خدا تعالیٰ کی رضامندی اور کسی عمل کی قبولیت اَور شئے ہے اور ثواب اَور شئے ہے۔ ہر ایک لفظ اپنے اپنے مقام کے لئے چسپاں ہوتا ہے اسی لحاظ سے شیخ عبدالقادر صاحب نے فرمایا کہ عارف کی نماز کا ثواب مارا جاتا ہے جو اہل حال ہوتا ہے وہ اپنی جگہ پورے بہشت میں ہوتا ہے اور جب انسان کو خدا تعالیٰ سے پورا تعلق ہو جاتا ہے تو اغلال اور اثقال جس قدر بوجھ اس کی گردن میں ہوتے ہیں وہ سب اُٹھائے جاتے ہیں۔ وہ لذت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی عبادت میں حاصل ہوتی ہے وہ اَور ہے اور جو اکل و شرب اور جماع وغیرہ میں حاصل ہوتی ہے وہ اَور ہے۔ لکھا ہے کہ اگر ایک عارف دروازہ بند کر کے اپنے مولا سے راز و نیاز کر رہا ہوتو اُسے اپنی عبادت اور اس راز و نیاز کے اظہار کی بڑی غیرت ہوتی ہے اور وہ ہر گز اس کا افشا پسند نہیں کرتا۔ اگر اس وقت کوئی دروازہ کھول کر اندر چلا جاوے تو وہ ایسا ہی نادم اور پشیمان ہوتا ہے جیسے زانی زنا کرتا پکڑا جاتا ہے۔ جب اس لذت کی حد کو انسان پہنچ جاتا ہے تو اس کا حال اَور ہوتا ہے اور اسی حالت کو یاد کر کے وہ جنت میں کہے گا کہ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ (البقرہ:26) بہشتی زندگی کی بنیاد یہی دنیا ہے۔ بعد مرنے کے جب انسان بہشت میں داخل ہو گا تو یہی کیفیت اور لذت اُسے یاد آوے گی۔تو اسی بات کا طالب ہر ایک کو ہونا چاہیے۔

(ملفوظات جلد 6صفحہ 178تا180۔ایڈیشن1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button