خلاصہ خطبہ جمعہ

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت (بدری) صحابی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا ایمان افروز تذکرہ

کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے حوالہ سے زریں ہدایات اور نصائح

عزیزم تنزیل احمد بٹ ابن عقیل احمد بٹ صاحب آف شاہدرہ کالونی دہلی گیٹ لاہور، محترم بریگیڈیئر بشیر احمد صاحب سابق امیر ضلع راولپنڈی اور ڈاکٹرحمیدالدین صاحب آف121 ج۔ب گوکھووال، فیصل آباد کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍مارچ 2020ءبمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیزنے60؍مارچ0202ء کو مسجدبیت الفتوح، مورڈن(سرے)، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری

دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔

تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

گذشتہ خطبے میں حضرت مصعب بن عمیرؓ کا ذکر ہوا تھا جس کا کچھ حصّہ رہ گیاتھا جو مَیں آج بیان کروں گا۔حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مصعبؓ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ہجرتِ مدینہ سے قبل کے حالات کا پس منظر بیان فرمایا ہے۔ آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بار بار خبر دی تھی کہ آپؐ کی ہجرت کا مقام ایک ایسا شہر ہے جہاں کنویں اور کھجوروں کے باغات ہیں۔ اوّلاً آپؐ کا خیال تھا کہ وہ جگہ یمامہ ہوگی تاہم کچھ عرصے بعد حضورﷺ اس انتظار میں لگ گئے کہ خداتعالیٰ کی پیش گوئی کے مطابق جو شہر بھی مقدر ہے وہ جلد اپنے آپ کواس کام کے لیے پیش کردے گا۔

اسی دوران حج کا زمانہ آگیا، آپؐ منیٰ کی وادی میں تھے کہ یثرب سے آنے والے چھ سات افراد سے آپؐ کی ملاقات ہوئی جنہیں حضورﷺ نے اسلام کا تعارف کرایا اور یثرب میں اسلام کے پنپنے کے امکان کی بابت دریافت فرمایا۔ ان افراد نے آنحضورﷺ کی بات کو دل چسپی سے سنا اور اگلے برس حج کے موقعے پر اپنی قوم کے فیصلے سے آگاہ کرنے کا وعدہ کرکے چلے گئے۔یہودیوں کے ساتھ تعلق کی بنا پر یثرب میں آباد عرب قبائل نے موسیٰ ؑ کے مثیل نبی کی آمد سے متعلقہ بائبل کی پیش گوئیاں سن رکھی تھیں۔ چنانچہ آنحضورﷺ کی باتوں سے فوراً اُن کو یقین ہوگیا کہ یہ وہی نبی ہیں کہ جن کی خوش خبری ہمیں یہود سنایا کرتے تھے۔

اگلے سال مدینے کے لوگ پھر حج پر آئے اور کُل بارہ افراد نے آنحضرتﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ ان صحابہ نے واپس جاکر مزید زور سے تبلیغ شروع کردی۔ ان لوگوں نے بت پرستی کو یکسر ترک کردیا۔توحید کا وعظ اہلِ یثرب کے دلوں میں گھر کرتا چلا گیا۔ اسلامی تعلیمات سیکھنے کے لیے انہوں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں ایک مبلغ کی درخواست بھجوائی چنانچہ حضورﷺ نے حضرت مصعبؓ کو بطور مبلغ مدینے بھجوایا۔

آپؓ کی کاوش سے یثرب میں تیزی سے اسلام پھیلا اور آنحضرتﷺ کے ارشاد پر دیگر صحابہ بھی رفتہ رفتہ ہجرت کر کےیثرب پہنچنے لگے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد آنحضورﷺ نے حضرت مصعبؓ اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت مصعبؓ غزوۂ بدر اور احد دونوں میں شامل ہوئے۔ غزوۂ بدر میں مہاجرین کا جھنڈا آپؓ کے پاس تھا۔ جنگِ احد میں لشکرِ قریش کا جھنڈا طلحہ کے ہاتھ میں تھا جو اس خاندان سے تعلق رکھتا تھا جو قصی بن کلاب کے قائم کردہ نظام کے مطابق جنگوں میں قریش کی عَلم برداری کا حق رکھتا تھا۔ آنحضورﷺ نے اس بات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئےقومی وفاداری کے طور پر مہاجرین کا جھنڈاحضرت علیؓ سے لےکر حضرت مصعبؓ کے سپرد کردیا جو اسی خاندان کے فرد تھے جس سے طلحہ کا تعلق تھا۔

حضرت مصعبؓ جنگِ احد میں نہایت بےباکی اور جاں فشانی سےآنحضورﷺ کے سامنے لڑتےرہےاور اسلام کا پرچم ہرآن بلند رکھا۔ابنِ قمیئہ نے آپؓ کو شہید کیا۔حضرت مصعبؓ کا ڈیل ڈول آنحضورﷺ سے مشابہ تھاچنانچہ آپؓ کو شہید کرکے ابنِ قمئیہ نے شور مچادیا کہ مَیں نے محمد(ﷺ) کو مارلیا ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ عین ممکن ہے کہ قاتل نے یہ تجویز محض شرارت اور دھوکا دہی کے خیال سے کی ہو۔ بوقتِ شہادت آپؓ کی عمر چالیس برس یا اس سے کچھ زائد تھی۔ احد کے میدان میں تدفین کے وقت مصعبؓ کے جسم پر اتنا کپڑا بھی نہ تھا کہ اُن کے جسم کو چھپایا جاسکے چنانچہ آنحضورﷺ کے حکم پر سر کو کپڑے سے ڈھانک کر پاؤں کو گھاس سے چھپا دیاگیا۔

ایک دفعہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے سامنے افطارکے وقت کھانا لایا گیا تو آپؓ حضرت مصعبؓ کو یاد کرکے فرمانے لگے کہ مصعبؓ مجھ سے بہتر تھے ،وہ ایک ہی چادر میں کفنائے گئے۔ اسی طرح حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت حمزہؓ کو بھی یاد کیا اور رونے لگےیہاں تک کہ کھانا چھوڑ دیا۔

اسی طرح حضرت خباب بن ارتؓ نے بھی حضرت مصعبؓ اور آپؓ کی قربانی کو رشک کے ساتھ یاد کیا ۔ آنحضرتﷺ نے حضرت مصعبؓ کو اپنے چودہ نقباء میں شمار فرمایا۔ حضرت عامربن ربیعہؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے مصعبؓ سے بڑھ کر کوئی خوش اخلاق آدمی نہیں دیکھا۔

احد کے بعد جب رسول اللہﷺ مدینے واپس لوٹے تو حضرت مصعبؓ کی بیوی حضرت حمنہؓ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ لوگوں نے انہیں اُن کے بھائی عبداللہؓ بن جحش اور ماموں حضرت حمزہؓ کی شہادت کی خبر دی جس پر انہوں نے صبر کیا اور دعائے مغفرت کی۔ اس کے بعد جب حضرت حمنہؓ کو اُن کے خاوند حضرت مصعبؓ کی شہادت کی خبر دی گئی تو وہ اس پر رونے لگیں اور بے چین ہوگئیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ عورت کے لیے اس کے خاوند کا ایک خاص مقام و مرتبہ ہے۔

خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احبابِ جماعت کوکورونا وائرس اور اس سے متعلقہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ حفظِ ماتقدّم کے طور پر جو ادویہ بتائی گئی ہیں وہ اس بیماری کا ممکنہ علاج ہے وگرنہ یہ ایسی بیماری ہے جس کا ابھی کوئی علم نہیں۔

حضورِ انور نے مجمعے سے بچنے اور نزلہ، زکام، بخار اور جسم ٹوٹنے جیسی علامات کی صورت میں مسجد آنے سے مجتنب رہنے کی ہدایت فرمائی۔ چھینک لیتے ہوئے رومال نیز صاف جرابوں کے استعمال کے ساتھ پانچ مرتبہ وضو اور پھر نماز کی ادائیگی کی افادیت بیان کرتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے صفائی کا ایسا انتظام فرمایا ہے کہ جس سے ظاہری اور باطنی ہر دو طرح کی صفائی ہو جاتی ہے۔

مصافحہ کرنے سے متعلق حضورِانور نے فرمایا کہ آج کل کہا جارہا ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے۔ گو کہ مصافحہ کرنے سے تعلق بڑھتا ہے،محبت بڑھتی ہے لیکن آج کل اس بیماری کی وجہ سے اس سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اب یہ دنیا دار مصافحےسے انکار کر رہے ہیں، اس طریق سے کورونا وائرس سے بچ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بات تو ماننے کے لیے یہ لوگ تیار نہیں تھے لیکن اس وبا نے ان کو اس طرف توجہ دلادی ہے۔ اللہ کرے کہ خدا کی طرف بھی ان کی توجہ ہوجائے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس وبا نے اور کتنا پھیلنا ہے اور کس حد تک جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کیا تقدیر ہے۔ لیکن اگر یہ بیماری اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے ظاہر ہورہی ہے جیسا کہ ہم اس دور میں زلزلے،وبائیں، امراض،طوفان وغیرہ دیکھتے ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے بعد بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے بچنے کے لیے ہر احمدی کو خدا کی طرف رجوع کرنے، دعائیں کرنے اور اپنی روحانی حالتوں کو بہتر کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ دنیا کےلیے بھی دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہدایت دے۔

خطبے کے تیسرے حصّے میں حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تین نماز ہائے جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے مرحومین کا ذکرِ خیر فرمایا۔

سب سے پہلا ذکرِ خیر عزیزم تنزیل احمد بٹ ابن عقیل احمد بٹ صاحب آف شاہدرہ کالونی دہلی گیٹ لاہور کا تھا۔ عزیزم کی عمر گیارہ برس تھی۔ 27؍ فروری کو اِن کی پڑوسی خاتون نے اس معصوم بچے کو بےرحم انداز میں شہید کردیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ حضورِ انور نے فرمایا میرے نزدیک تو یہ شہادت ہے،مَیں اس عزیز کو شہدا میں شامل کرتا ہوں۔ پاکستان میں مولویوں کے فتووں کے باعث احمدیوں کے قتل کو بہت آسان بنادیا گیا ہے۔ عزیزم تنزیل احمد وقفِ نو کی بابرکت تحریک میں شامل تھا اور اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کا فعال رکن تھا۔

دوسرا ذکرِ خیر محترم بریگیڈیئر بشیر احمد صاحب سابق امیر ضلع راولپنڈی کا تھا۔ آپ ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب کے بیٹے تھے۔ 16؍فروری کو 87 برس کی عمر میں آپ وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم موصی تھے ۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ مرحوم نے 1952ء میں پاک فوج میں کمیشن لیا اور 1982ء میں بحیثیت بریگیڈیئر ریٹائرڈہوئے۔ 2012ء میں مرحوم کو امیر جماعت راولپنڈی مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ فضل عمر فاؤنڈیشن اور مجلسِ شوریٰ کی متعدد کمیٹیوں کے ممبر تھے۔ مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند اور قرآن کریم اور احادیث اور روحانی خزائن کا وسیع مطالعہ رکھنے والے تھے۔

تیسرا ذکرِ خیرڈاکٹرحمیدالدین صاحب آف121ج۔ب گوکھووال فیصل آباد کا تھا۔ آپ 29؍فروری 2020ء کو وفات پاگئے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم کریم الدین شمس صاحب مربی سلسلہ تنزانیہ کے والد تھے۔ کریم الدین شمس صاحب میدانِ عمل میں مصروف ہونے کے باعث والد کے جنازے میں بھی شامل نہیں ہوسکے۔ مرحوم بڑے متقی، سادہ مزاج، نمازوں کے پابند اور شعائراللہ کا احترام کرنے والے تھے۔ حضورِانور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحومین سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند کرے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button