متفرق مضامین

اجماع کی حقیقت کیاہے؟

(انصر رضا۔واقفِ زندگی، کینیڈا)

ایک طرف جماعت احمدیہ پر اعتراض کیا جاتاہےکہ ہم امت کےاجماع کو نہیں مانتے جبکہ دوسری جانب غیر احمدی علماء اپنے فرقہ کے علماء کا اتفاق ہی پوری امت کا اجماع قرار دیتے ہیں

ہمارے مخالفین اجماع کو دین کا ایک اہم اور متفقہ ماخذقرار دیتے ہوئے جماعت احمدیہ اور غیر احمدی علماء کے درمیان متنازع عقائد کے بارے میں چند قدیم علماء اور بزرگان کی اپنے حق میں آراء پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان عقائد کے بارے میں تمام علماء کے یہی عقائد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ ان عقائد پرامت مسلمہ کا اجماع ہوچکا ہے اور جماعت احمدیہ امت مسلمہ کے متفقہ عقیدہ کے مخالف عقائد رکھتی ہے، لہٰذا وہ امت مسلمہ کا حصہ نہیں ہیں بلکہ دائرہ ٔاسلام سے خارج ہیں۔

کچھ لوگ اس دلیل میں مزید پختگی لانےکے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبارات میں سے بعض حصے بغیر سیاق و سباق کے پیش کرکے یہ تأثر بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا حضور ؑاجماع کو دین کا ایک اہم ماخذ تسلیم کرتے ہیں اور اس کے منکر کو لعنتی قرار دیتے ہیں۔ اجماع کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘گواہ رہو کہ ہم کتاب اللہ القرآن سے تمسک اختیار کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے اقوال کی پیروی کرتے ہیں جو حق و معرفت کا سرچشمہ ہیں اور جواجماع اُس زمانے میں منعقد ہوا اسے قبول کرتے ہیں۔ نہ اس میں کچھ بڑھاتے ہیں نہ کم کرتے ہیں اور اسی پر ہم زندہ ہیں اور اسی پر مریں گے۔ اور جو اس شریعۃ پر ایک ذرّہ بھی اضافہ کرے یا کم کرے یا اس اجماعی عقیدہ کا انکار کرے پس اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو۔’’

(انجامِ آتھم،روحانی خزائن جلد11صفحہ144)

بعض لوگ اس عبارت کو حسبِ عادت سیاق و سباق کے بغیر پیش کرکے یہ تأثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا حضور ؑ ان کے مزعومہ عقیدہ اجماع کی تائید فرمارہے ہیں اور اس سے انکار کرنا کفر قرار دے رہے ہیں۔ مکمل عبارت پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ؑاس عقیدےکو اجماعی فرمارہے ہیں جو قرآن وسنّت میں موجود ہے اور جس پر صحابہ کرامؓ نے عمل کیا۔اس کی وضاحت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دیگر تحریرات میں بھی ملتی ہے۔ حضور ؑفرماتے ہیں:

‘‘پھر بعد صحابہ کے یہ دعویٰ کرنا کہ کسی وقت اِس اُمّت کا اِس بات پر اجماع ہوا تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر مع جسم عنصری زندہ موجود ہیں اِس سے زیادہ کوئی جُھوٹ نہیں ہوگا۔ اور ایسے شخص پر امام احمد حنبل صاحب کا یہ قول صادق آتا ہے کہ جو شخص بعد صحابہ کے کسی مسئلہ میں اجماع کا دعویٰ کرے وہ کذّاب ہے۔’’

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ44)

‘‘پھر بعد اس کے آپ دریافت فرماتے ہیں کہ اجماع کی حقیقت کیا ہے۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس سوال سے آپ کا مطلب کیا ہے؟ ایک جماعت کا ایک بات کو بالاتفاق مان لینا ہی اجماع کی حقیقت ہے جو صحابہ میں بآسانی محقق ہوسکتی تھی اگرچہ دوسروں میں نہیں۔’’( مباحثہ لدھیانہ ،روحانی خزائن جلد4صفحہ 28)

‘‘پھر آپ مجھ سے اجماع کی تعریف پوچھتے ہیں میں آپ پر ظاہر کرچکا ہوں کہ میرے نزدیک اجماع کا لفظ اس حالت پر صادق آسکتا ہے کہ جب صحابہ میں سے مشاہیر صحابہ ایک اپنی رائے کو شائع کریں اور دوسرے باوجود سننے اس رائے کے مخالفت ظاہر نہ فرماویں تو یہی اجماع ہے۔’’

( مباحثہ لدھیانہ ،روحانی خزائن جلد4صفحہ 43)

اجماع کے بارے میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے منعقد ہونے کے لیے اوّل تو روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمانوں کا، ورنہ بصورتِ دیگر تمام علماء و فقہاء کا ایک بات پر متفق ہونا لازمی ہے۔ اگر ایک بھی شخص یا عالم و فقیہہ اس بات سے جس کے لیے اجماع منعقد کیا جارہا ہے، اختلاف کرے گا تو اجماع واقع نہیں ہوگا۔مزید یہ کہ قرآن و حدیث کی نصِّ صریح کے خلاف اجماع نہیں ہوسکتا۔آج یہ حالت ہے کہ اپنے فرقہ کے علماء کی چند آراء اکٹھی کرکے کہہ دیا جاتا ہے کہ اس بات پر سب کا اجماع ہے حالانکہ چند علماء کی آراء تمام علماء کی آراء کے برابر نہیں قرار دی جا سکتیں اور نہ ہی انہیں تسلیم کیا جاسکتاہے خصوصاً جبکہ وہ قرآنِ کریم کی صریح نص کے خلاف ہوں۔

اسلام کے دورِ اوّلین میں تو، جسے نبی اکرم ﷺ نے خیرالقرون قرار دیا ہے، ایسا ہونا ممکن تھا کہ مشاہیر صحابہ کرامؓ ایک بات پر متفق ہوجائیں اور باقی صحابہ کرامؓ اپنی خاموشی سے اس پر صاد فرمادیں لیکن اس پُرآشوب دور میں ایسا ہونا ناممکن ہے جبکہ امت فرقوں میں بٹ چکی ہے اور محض فروعی اختلافات پر ایک دوسرے کو کافر کہہ دیا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ مسلمانوں کے تہتر فرقوں میں سے محض ایک فرقہ حق پر ہوگا جو جماعت ہے۔ اس حدیث کے مطابق، جس میں اکثریت کے باطل اور اقلیت کے حق پر ہونے کا اعلان کیا گیا ہے ، علماء کے دعویٰ اجماع سے بالکل اُلٹ صورت حال پیدا ہوجاتی ہے اورساری امت کا مزعومہ اجماع ناقابلِ اتباع ٹھہرتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ماسوا مبادیاتِ دین یعنی ارکانِ اسلام و ایمان ،کسی زمانہ کے تمام فقہاء کا کسی بات پر اتفاق کرنا کبھی ممکن نہیں ہوا ۔ اس بات کی کوئی تاریخی شہادت نہیں کہ کسی ایک فتویٰ پر دنیا بھر کے فقہاء و علماء نے بلا استثنا صاد فرمایا ہو۔ لہٰذاصحابہ کرامؓ کے زمانہ کے بعد ایسا اجماع منعقد ہونا آج تک ممکن نہیں ہوا۔علامہ ابن قیمؒ امام احمد بن حنبلؒ اور امام شافعی ؒ کا اس بارے میں عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘الغرض کسی عمل کو، کسی رائے کو، کسی قیاس کو، کسی صحابی کے قول کو، کسی اجماع کو آپ حدیث صحیح پر مقدم نہیں کرتے تھے۔جس مسئلے میں کسی مخالف کا علم نہ ہو اسے لوگ اجماع کہنے لگے ہیں اور اسے صحیح حدیث پر مقدم کردیا کرتے ہیں۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کے سخت مخالف تھے۔ اس لیے آپ نے اجماع کے مدعی کو کاذب کہا ہے اور ثابت حدیث پر اس کا مقدم کرنا ناجائز فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے نئے رسالے میں اس بات کا انکار کیا ہے کہ جس مسئلے میں کوئی مخالف معلوم نہ ہو اسے اجماع کہہ دیا جائے۔ ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں کہ جس میں خلاف معلوم نہ ہو وہ اجماع نہیں ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ کسی مسئلے میں کسی کا اجماع کا دعویٰ کرنا بالکل غلط ہے ایسا شخص جھوٹا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اختلاف ہوا ہو اور اسے اس کا علم نہ ہو اس تک خبر نہ پہنچی ہو۔ پس یوں کہہ سکتا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ہو۔ یہی دعویٰ بشر مریسی اور اصم کا تھا۔ لیکن وہ کہتا تھا ہم کو لوگوں کے اختلاف کا علم نہیں۔یا مجھے یہ اختلاف نہیں پہنچا۔ یہ ہیں اس کے لفظ۔ دراصل رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے اور تمام ائمہ حدیث کے نزدیک اس سے بہت ہی زیادہ عظمت و عزت والی ہیں کہ وہ ان پر اجماع کے وہم کو مقدم کردیں۔جو بجز اس کے کچھ نہیں کہ مخالفت کا علم نہیں ہوتا۔ اگر اسے جائز مان لیا جائے تو حدیث و قرآن کے صاف صاف احکام بالکل بے کار ہوجائیں گے اور جسے بھی جس مسئلے میں کسی مخالف قول کا علم نہ ہوگا وہ اپنی اس جہالت کو اجماع کہہ کر اللہ رسول کے احکام پر اسے مقدم کردے گا۔ یہی وہ چیز ہے جس کا انکار یہ دونوں امام کرتے ہیں نہ یہ کہ وہ وجود اجماع کو ہی محال سمجھتے ہوں۔ جیسے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔’’

(اعلام الموقعین صفحہ 39۔از ابن القیّم الجوزی)

جب ہم غیر احمدی علماء کی اجماع کے بارے میں تحریرات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں تو یہ علماء اجماع کی تعریف کرتے ہوئے تمام امتِ مسلمہ کی اجتماعی آراء کو اجماع کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں لیکن آگے چل کر محض اپنے فرقہ کے علماء کا اتفاق ہی پوری امت کا اجماع قرار دے دیتے ہیں۔ مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اپنی کتاب ‘‘فقہ میں اجماع کا مقام’’ کے صفحہ9 پراجماع کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں:

‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ کے تمام فقہاءِ مجتہدین کا کسی حکمِ شرعی پر متفق ہوجانا ‘‘اجماع’’ہے۔’’

صفحہ 25پر مفتی صاحب اس مزعومہ اجماع کو قرآن و حدیث کے برابر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘تمام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ یا عمل ہر خطا و لغزش سے پاک ہے’’

اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے صفحہ 26پر لکھتے ہیں:

‘‘معلوم ہوا کہ کسی زمانہ کے فقہاء و عابدین متفقہ طور پر جس چیز کا حکم دیں یا ممانعت کریں، اس کی مخالفت جائز نہیں، کیونکہ ان کا متفقہ فیصلہ غلط نہیں ہوسکتا۔’’

لیکن اگلے ہی صفحہ پر یعنی صفحہ27پراپنی ہی بیان کردہ اس تعریف کے برعکس مفتی صاحب ‘‘لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِی’’ والی حدیث پیش کرتے ہوئے یہ تأثر دینا شروع کرتے ہیں کہ اجماع مسلمانوں کے تمام فرقوں کے فقہاء و عابدین کا نہیں بلکہ محض دیوبندی فقہاء و عابدین کا ہی قابلِ قبول ہوگا۔اس کے بعد جماعت اور سوادِ اعظم کی تشریحات کرتے ہوئے مسلمانوں کے تمام فرقوں کی بجائے ایک فرقہ کو ، جو ظاہر ہے کہ ان کا اپنا فرقہ دیوبندیہ ہے، حق پر قرار دیتے ہوئے صفحہ 46پر اس طرح تان توڑتے ہیں:

‘‘خلاصہ یہ ہے کہ ‘‘السَّوَادُ الْاَعْظَمُ’’اور ‘‘اَلْجَمَاعَۃ’’ درحقیقت اس نجات پانے والے ایک ہی فرقہ کے دو نام ہیں جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی سنّت پر قائم ہوں، صرف انہی لوگوں کا راستہ راہِ ہدایت و نجات ہے، اس کے خلاف سب راستے گمراہی اور جہنّم کی طرف جاتے ہیں…بہرحال زیرِ بحث حدیث (نمبر 10) سے بھی وہ بات معلوم ہوئی جو پچھلی تمام احادیث سے ثابت ہوتی آرہی ہے کہ امت میں فساد اور بگاڑ پھیل جانے کے باوجود مسلمانوں کا ایک فرقہ حق پر قائم رہے گا پوری امّت کا مجموعہ کبھی گمراہی پر متفق نہ ہوگا، جس کا لازمی نتیجہ وہی ہے جو ‘‘حُجِیَّتِ اِجْمَاعْ’’کا حاصل ہے کہ امّت کا متفقہ عقیدہ، عمل یا فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا، اس کا اتباع فرض اور مخالفت سخت حرام ہے۔’’

صفحہ 63پر مزید لکھتے ہیں:

‘‘پس حدیث نمبر (5) سے نمبر( 10) تک سب حدیثوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ پیروی ان لوگوں کی لازم ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی سنّت کے پیرو ہوں، اور ان کے مخالفین گمراہ اور سخت عذاب کے مستحق ہیں، اب یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ اجماع صرف متبع سنّت مسلمانوں کا کافی ہوگا، یا فاسق اور اہل بدعت کی مخالفت کی وجہ سے اسے باطل کردیا جائے گا؟ حاصل کلام یہ کہ جمہور فقہاء نے جو مسلک اختیار کیا ہے کہ اجماع میں عوام، اہلِ بدعت اور فاسق مسلمانوں کا اختلاف یا اتفاق معتبر نہیں، بلکہ صرف متّبع سنّت فقہاء کا اجماع ہی حجت ہے، قرآن و سنّت کی تصریحات سے اسی مسلک کی تائید ہوتی ہے، اور حنفیّہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔’’

آپ نے دیکھا کہ پہلے تو مفتی صاحب نے کسی زمانہ کے تمام فقہاء کا کسی بات پر متفق ہوجانے کو اجماع قرار دیا ، اس اتفاق کو ہر غلطی، خطا اور لغزش سے پاک اور اس کی مخالفت کو ناجائزقرار دیا۔پھر اس کے بعدمنزل کی طرف اگلا قدم اٹھاتے ہوئے یہ بتایا کہ چونکہ اب امّت میں بگاڑ پیدا ہوچکا ہے اور امّت متعدد فرقوں میں تقسیم ہوچکی ہے، اس لیے اب سوائے ایک ناجی فرقہ، یعنی فرقہ دیوبندیہ، کے دیگر کسی فرقہ کے فقہاء کا قول معتبر نہیں رہا۔گویا سو میں سے ننانوے لوگ غلط ہیں اور ایک درست اور اسی ایک کا فیصلہ سوفیصد لوگوں کا فیصلہ مانا جائے گا۔یعنی فرقہ دیوبندیہ ہی سوادِ اعظم اور الجماعۃ ہے۔ جس کے علماء کا اجماع پوری امت کا اجماع مانا جائے گااور اس سے سرِمو انحراف بھی حرام ہے ۔

واضح رہے کہ ہرچند یہ بات درست ہے کہ سچائی تعداد پر منحصر نہیں ہوتی اور نبی اکرم ﷺ کی متعدد احادیثِ مبارکہ کے مطابق آخری زمانہ میں قلیل گروہ ہی کثیر کے مقابلہ پر حق پر ہوگا۔لیکن اس وقت جو نکتہ زیرِ بحث ہے وہ یہ ہے کہ ایک طرف تویہ دیوبندی فرقہ جماعت احمدیہ کے مقابل پر خود کو وسیع تر امت مسلمہ کا حصہ قرار دیتے ہوئے کثرت کو حق کی نشانی قرار دیتا ہے جبکہ دوسری طرف بریلویوں کے مقابل پر اقلیت ہونے کے باعث خود کو احادیث کے مطابق قلیل تعداد والا ناجی اور حق پر قائم فرقہ قرار دے دیتا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button