متفرق مضامین

توکل علی اللہ

(ھبۃ الکلیم۔ اوفا، رشیا)

وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ

توکل ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے سے یہ مراد ہےکہ انسان اپنے آپ کو کلیۃً اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے اور اپنے نفس کو اس کے آستانہ پر ڈال دے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے

وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ

اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تووہ (اس کی مدد اور حفاظت) کے لیے کافی ہے۔

(سورۃ الطلاق :4)

ایک اَور جگہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا

اور اللہ پر ہی توکل کر اور اللہ ہی کارساز کے طور پر کافی ہے۔

(سورۃ الاحزاب: 4)

یہ قرآنی فرمان اصل میں تو آنحضرتﷺکے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تسلی کا پیغام تھاکہ اے نبی ! ﷺ تو بھی بے فکر رہ اور اپنے صحابہ کو بھی تسلی دے دے۔

ہمارے ہادئ کامل حضرت محمد عربی ﷺ کی ساری زندگی توکل علی اللہ کے حسین نمونوں سے بھری پڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین محکم اور قادر وتوانا خدا کی تائید ونصرت پر کامل بھروسہ آپؐ کی حیات طیبہ پر محیط ہے۔ آپؐ نے ہر حالت میں،ہر موقع پر توکل علی اللہ کا عَلَم سر بلند رکھا ۔توکل کے اچھوتے اور دل کش انداز اختیار فرمائے ، نئے سے نئے اسلوب دنیا کو عطا فرمائے اور توکل علی اللہ کی ہر راہ میں اپنے اسوہ ٔحسنہ سے ایسے سنگ میل نصب فرمائے جو رہتی دنیا تک روشنی اور عظمت کے مینار کے طور پر قائم رہیں گے۔

آپؐ کی مطہر زندگی میں توکل علی اللہ کے ایمان افروز واقعات اس کثرت سے نظر آتےہیںجس سے یوں لگتا ہے کہ خوبصورت ستاروں سے بھرا ہوا ایک آسمان ہے ۔ہر ستارہ ایک دلاآویز رعنائی رکھتا ہے۔اور ستاروں کی یہ خوبصورت کہکشاں ایک مسحور کن منظر پیش کرتی ہے۔

ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد ﷺ نے ہمیں توکل کا یہی مفہوم سمجھایاکہ عند الضرورت خدا داد طاقت و صلاحیت کو انسانی وسعت کی آخری حد تک بروئے کار لایا جائے۔ اس کے باوجود انسانی کوشش میں جو کمی یا نقص رہ جائے اسے خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیا جائےاور یقین رکھا جائےکہ اللہ تعالیٰ اپنی مشتِ بالغہ سے خود اسے پورا کر دے گا۔

توکل علی اللہ کا ایک لطیف قرینہ رسول پاکﷺکے مبارک اسوہ میں یہ نظر آتا ہےکہ دنیا وی اسباب اور سہاروں کے نہ ہونے یا ہاتھ سے چلے جانے پر آپؐ کے توکل علی اللہ میں رتی برابر فرق نہ آتا تھا۔آپؐ کا سہارا اول وآخر اللہ تعالیٰ کی ذات تھی جس نے آپؐ کو یہ وعدہ دے رکھا تھا۔

أَلَیْسَ اللّٰهُ بِکَافٍ عَبْدَهٗ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟(سورۃ الزمر:37)اس خدائی وعدہ کے مقابل پردنیاوی سہاروں اور وسائل کی حقیقت پرِکاہ کے برابر بھی نہ تھی۔

ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر آرام کی غرض سے آپؐ ایک درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔باقی صحابہ بھی الگ الگ آرام کر رہے تھے۔ایک دشمن آپؐ کی گھات میں تھا۔ اس نے آپؐ کی تلوار جو درخت سے لٹک رہی تھی۔ سونت لی اور آپؐ کو بیدار کر کے یوں للکارا کہ بتاؤ اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپؐ لیٹے ہوئے تھے ،کوئی ساتھی اور محافظ پاس نہ تھا،تلوار آپؐ کے سر پر لہرا رہی تھی۔اس حالت میں تو بڑے بڑے بہادروں کا پِتاپانی ہو جاتا ہے۔ لیکن جرأت واستقامت اور توکل علی اللہ کی شان دیکھیے کہ آپؐ نہایت پرُ سکون اور پر اعتماد انداز میں فرمایا ‘‘اللہ، اللہ،اللہ’’ یہ پرشوکت لفظ سن کر دشمن پر کپکپی طاری ہو گئی ۔تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔آپؐ اٹھے ، تلوار اپنے ہاتھ میں لی اور حملہ آور سے کہا کہ اب تم بتاؤ کہ تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے ؟بےچارہ اس قدر مبہوت ہوا کہ آپؐ کے قدموں میں گر گیا ۔آپؐ نے اسے جانے دیا۔ ایسا توکل ،ایسی جرأت اور ایسا عفو تو اس انسان نے کبھی ساری زندگی نہ دیکھا ہو گا۔اس واقعہ سے اتنا متاثر ہوا کہ واپس اپنے ساتھیوں کو کہنے لگا کہ میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا کا بہترین انسان ہے!کیاہی سچی بات ہے جو اس دیہاتی کی زبان سے جاری ہوئی۔

(بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات الرقاع)

حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کے موقع پر بھی رسول کریم ﷺ کے توکل علی اللہ کی عجیب شان نظر آتی ہے۔ حضرت عمرؓ آپؐ کو قتل کرنے کے ارادے سےنکلے ۔راستہ میں بہن اور بہنوئی کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو فورا ًان کا رخ کیا اور سورۃطٰہکی ابتدائی آیات پڑھنے سے یک دفعہ دل کی کایا پلٹ گئی۔اسی طرح ننگی تلوار ہاتھ میں لیے دارارقم پہنچے جہاں رسول پاک ﷺ صحابہ کے ساتھ موجود تھے۔ صحابہؓ نے اس‘ دشمنِ اسلام’ کو اس حالت میں دیکھا تو ڈرے کہ اس کی نیت ٹھیک نہیں۔ لیکن رسول کریم ﷺ کے توکل علی اللہ اور جرأت کا عالم دیکھیے کہ آپؐ نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر صحابہ سے فرمایا ڈرونہیں اوردروازہ کھول دو۔عمر تلوار پکڑے اندرداخل ہوئے۔آپؐ آگے بڑھے اور فرمایا عمر!کس ارادہ سے آئے ہو؟عمرؓنے عرض کیا :یا رسول اللہؐ! مسلمان ہونے آیا ہوں ۔ آپؐ نے بلند آواز سے اللہ اکبر فرمایا اور صحابہ کے پرجوش نعروں کی گونج باہر بھی سنائی دی ۔

(سیرۃ ابن ہشام ۔الجزءالاول ذکر سبب اسلام عمرؓ )

حضرت ابوبکر ؓفرماتے ہیں میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ غار میں تھا ۔میں نے اپنا سر اٹھا کر نظر کی تو تعاقب کرنے والوں کے پاؤں دیکھے اس پر میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر کوئی نظر نیچی کرے گا ۔تو ہمیں دیکھ لے گا تو آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا: اے ابو بکرڈرومت۔ ہم دو ہیں ہمارے ساتھ تیسرا خدا ہے۔

(بخاری کتاب المناقب باب ہجرۃ النبیؐ)

توکل علی اللہ کی تعریف حضرت مسیح موعود ؑنے یوں فرمائی ہے کہ

‘‘توکل یہی ہے کہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے کسی امر کےحاصل کرنے کے واسطے مقرر کئے ہوئے ہیں ان کو حتی المقدور جمع کرو اور پھر خود دعاؤں میں لگ جاؤ کہ اے خدا تو ہی اس کا انجام بخیر کر ۔صدہا آفات ہیں اور ہزاروں مصائب ہیں۔جو ان اسباب کو بھی برباداور تہ وبالا کر سکتے ہیں،ان کی دست برد سے بچا کر ہمیں سچی کامیابی اور منزل مقصود پر پہنچا۔’’

(ملفوظات جلد 3صفحہ 146،ایڈیشن1988ء)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ

‘‘انسان کو چاہیے کہ تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دیوے اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو پھر اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہو سکتی۔ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کےیہ معنے نہیں ہیں کہ انسان تدبیر کو ہاتھ سے چھوڑدے بلکہ یہ معنے ہیں کہ تدبیر پوری کر کے پھر انجام کو خداتعالیٰ پر چھوڑے اس کا نام توکل ہے اور اگر وہ تدبیر نہیں کرتا اور صرف توکل کرتا ہے تو اس کا توکل پھوکا ہوگااور اگر نری تدبیر کر کے اس پر بھروسہ کرتا ہے۔اور خداتعالیٰ پر توکل نہیں ہے۔ تو وہ تدبیر بھی پھوکی ۔ایک شخص اونٹ پر سوار تھا۔آنحضرت ﷺکو اس نے دیکھا۔تعظیم کے لئے نیچے اترا اور ارادہ کیا کہ توکل کرے اور تدبیر نہ کرے ۔چنانچہ اس نے اونٹ کا گھٹنا نہ باندھا۔ جب رسول اللہ ﷺ سے مل کر آیا تو دیکھا کہ اونٹ نہیں ہے ۔واپس آکر آنحضرت ﷺ سے شکایت کی کہ میں نے تو توکل کیا تھا لیکن میرا اونٹ جاتا رہا ۔آپؐ نے فرمایا کہ تو نے غلطی کی ۔پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھتا،پھر توکل کرتا تو ٹھیک ہوتا۔’’

(ملفوظات جلد 3صفحہ 566،ایڈیشن1988ء)

حضرت مصلح موعود توکل علی اللہ کے حقیقی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘آجکل لوگوں نے توکّل کا نہایت غلط مفہوم سمجھ رکھا ہے۔ جو کام ان کی اپنی مرضی کے مطابق ہوتا ہے اسے تو وہ کر لیتے ہیں اور جو کام نہیں کرنا چاہتے اس کے متعلق کہہ دیتے ہیںکہ ہم توکل سے کام لے رہے ہیں۔اگر توکل کے یہ معنی ہوتے کہ عمل ترک کر دیا جائے تو پھر نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃوغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔صرف زبان سے ایمان کا اظہار کرنا ہی انسان کو نجات دے دیتا۔

پس توکل کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کےپیدا کردہ سامانوں سے پوری طرح کام لے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائے اور اس کہے کہ اے خدا! جو سامان میرے اختیار میں تھے وہ تو میں نے سب استعمال کر لئے ہیں اب کوئی کمی رہ گئی ہے تو تُو خود اپنے فضل سے اسے پورافرما اور میری کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کام کے نیک نتائج پیدا فرما۔’’

(تفسیر کبیر جلد 7صفحہ 442تا443)

سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

‘‘… پہلے یہ مختصراً بتا دوں کہ توکّل کہتے کسے ہیں ؟ کیا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے کو؟ کچھ کام نہ کرنے کو؟ اور صرف یہ کہنا کہ ہم بیٹھے ہیں، اللہ تعالیٰ ہماری ضروریات پوری کر دے گا۔ یہ توکّل نہیں ہے۔ بلکہ تمام وسائل کو بروئے کار لا کر، استعمال کر کے پھر اللہ تعالیٰ پر انحصار کرنا اور اس کے آگے جھکنا، یہ توکل ہے۔’’

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ8؍اپریل 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍اپریل2005ء)

امام آخرالزمان حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں:

‘‘تبتل کا عملی نمونہ ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ نہ آپؐ کو کسی کی مدح کی پروا، نہ ذم کی ۔کیا کیا آپؐ کو تکالیف پیش آئیں مگر کچھ بھی پرواہ نہیں کی۔ کوئی لالچ اور طمع آپؐ کو اس کام سے نہ روک سکا جو آپؐ خدا کی طرف سے کرنے آئے تھے۔ جب تک انسان اس حالت کو اپنے اندر مشاہدہ نہ کر لے اور امتحان میں پاس نہ ہو لے کبھی بھی بے فکر نہ ہو۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو شخص متبتّل ہو گا متوکّل بھی وہی ہو گا۔گویا متوکل ہونے کے واسطے متبتّل ہونا شرط ہے۔ کیونکہ جب تک اور وں کے ساتھ تعلقات ایسے ہیں کہ ان پر بھروسہ اور تکیہ کرتا ہے اس وقت تک خالصتاً اللہ پر توکل کب ہو سکتا ہے۔ جب خدا کی طرف انقطاع کرتا ہے تو وہ دنیا کی طرف سے توڑتا ہے اور خدا میں پیوند کرتا ہےاور یہ تب ہوتا ہے جبکہ کامل توکّل ہو۔ جیسے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل متبتل تھے ویسے ہی کامل متوکّل بھی تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اتنے وجاہت والے اور قوم وقبائل کے سرداروں کی ذرا بھی پروا نہیں کی اور ان کی مخالفت سے کچھ بھی متأثر نہ ہوئے۔ آپؐ میں ایک فوق العادت یقین خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا۔ اسی لئے اس قدر عظیم الشان بوجھ کو آپؐ نے اٹھا لیا اور ساری دنیا کی مخالفت کی اور ان کی کچھ بھی ہستی نہ سمجھی۔ یہ بڑا نمونہ ہے توکل کا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ اس لئے کہ اس میں خدا کو پسند کرکے دنیا کو مخالف بنا لیا جاتا ہے۔ مگر یہ حالت پیدا نہیں ہوتی جب تک گویا خدا کو نہ دیکھ لے، جب تک یہ امیدنہ ہو کہ اس کے بعد دوسرا دروازہ ضرور کھلنے والا ہے۔ جب یہ امید اور یقین ہو جاتا ہے تو وہ عزیزوں کو خدا کی راہ میں دشمن بنا لیتا ہے۔ اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اور دوست بنا دے گا۔ جائیداد کھو دیتا ہے کہ اس سے بہتر ملنے کا یقین ہوتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ خدا ہی کی رضا کو مقدم کرنا توتبتّل ہے اور پھر تبتّل اور توکل توام ہیں۔ یعنی تبتّل کا راز توکّل ہے اور توکّل کی شرط ہے تبتّل۔ یہی ہمارا مذہب اس امر میں ہے۔’’

(الحکم جلد 5نمبر 37، 10؍اکتوبر 1901ءصفحہ 3)

اللہ تعا لیٰ ہمیں حقیقی توکل پر قائم رہنے کی توفیق دے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو آنحضرت ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والااور اسی پر توکل کرنے والا بنائے ۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button