حضرت مصلح موعود ؓ

صداقتِ احمدیت (قسط اول)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 22؍ فروری 1920ء کو امرتسر کے ‘‘بندے ماترم ہال’’ میں ایک تقریر فرمائی جس میں آپؓ نے مذہب کی غرض کو پیش فرما کر اسلام کی صداقت پیش فرمائی اور بتایا کہ مذہب کی غرض ایسا راستہ بتانا ہے جس پر چل کر انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ جائے۔ نیز ثابت فرمایا کہ آج اسلام ہی وہ مذہب ہے جو اس غرض کو پورا کرتا ہے۔

یہ بات قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہو گی کہ ‘‘بندے ماترم ہال’’ وہی مقام ہے جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1905ء میں ایک لیکچر دیا تھا اور حضورؑ پر اس لیکچر کے دوران پتھر برسائے گئے تھے۔ اس واقعے کے پندرہ سال بعد اسی مقام پر حضورؑ کے دوسرے خلیفہ کا لیکچر سننے کے لیے ایک دنیا بے تاب تھی۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ (مدیر)

احترام انبیاءعلیہم السلام

دنیا میں بہت سے انبیاؑء گزرے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ اللہ تعالی کے پیارے اور بزرگ تھے اور اس کی طرف سے بھیجے ہوئے تھے ہمارے سردار ہیں۔ ہم ان کا ادب اور احترام کرتے ہیں اور ان سے محبت رکھتے ہیں اور جب خدا تعالیٰ توفیق دے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ان کو بھی درودوں میں شامل کر لیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مالک اور خالق کے پیارے ہیں تو ہمارے بھی پیارے ہیں۔ ان کو ہمارے مالک اور خالق خدا نے عزت دی ہے اور جن کو اس نے عزت دی ہے ان کی عزت کرنا ہمارا فرض ہے۔پس ہم تمام انبیاء علیہم السلام کا احترام کرتے ہیں ۔ خواہ ان کا نام ہمیں قرآن کریم کے ذریعہ معلوم ہوا یا قرآن نے ان کا نام نہیں لیا ۔ قرآن کے اس مقرر کردہ اصول کے ماتحت کہ وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ( فاطر:25 )کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں نذیر نہ آیا ہو ہم سب کی عزت کرتے ہیں اور جہاں جہاں کوئی نبی آیا ہے اس کا احترام کرتے ہیں۔

فضیلتِ رسول اللہؐ بر جملہ انبیاؑء

لیکن باوجود اس اقرار کے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان سب نبیوں اور سب انسانوں کے جو آج تک پیدا ہوئے یا آئندہ پیدا ہوں گے سردار اور ان سے افضل اور اعلیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جب سے دنیا کا آغاز ہوا ہے اس وقت سے لے کر کسی ماں نے کوئی ایسا بچہ نہیں جنا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کھڑا ہو سکے اور کسی ذاکر نے خدا تعالیٰ کا اتنا ذکر اپنی زبان پر جاری نہیں کیا کہ اس مقام پر قدم رکھ سکے جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم تھا ۔خواہ کوئی نبی ہو یا غیر نبی ، رسول ہو یا غیر رسول ،کوئی ہو کسی ملک کا رہنے والا ہو، کسی تمدن کی اتباع کرنے والا ہو، کوئی زبان بولنے والا ہو، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں ہرگز نہیں کھڑا ہوسکتا۔

صداقت عظمتِ رسول اکرمؐ

یہ صرف دعویٰ نہیں بلکہ ایک صداقت اور حقیقت ہے جس کےدلائل موجود ہیں۔ خالی دعویٰ تو ہر شخص پیش کرسکتا ہے۔ ایک ہندو بھی کہہ سکتا ہے کہ تمہارا کیا حق ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) سب سے افضل ہے ۔ہمارے اوتار سب سے اعلیٰ ہیں۔ ہم احمدیت کی رو سے یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوؤں میں بھی اوتار گزرے ہیں مگر یہ نہیں مان سکتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اوتار افضل گزرا ہے ۔مگر ایک ہندو کاحق ہے کہ وہ دعویٰ کرے کہ ہمارا فلاں اوتار سب انسانوں سے افضل ہے۔ اسی طرح ایک عیسائی بھی کہتا ہے کہ یہ یسوع مسیحؑ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) سے افضل ہے ۔یہودی بھی کہتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ سب سے افضل ہیں۔ اسی طرح دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنے اپنے بزرگوں کو سب سے افضل بتاتے ہیں۔ لیکن ان کے اور ہمارے دعویٰ میں بہت بڑا فرق ہے اور وہ یہ کہ ہمارے دعویٰ کے ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں ۔مگر ان کے پاس اپنے دعویٰ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا نبی یا ہمارا اوتار یا ہمارا خداوند مسیح سب سے افضل ہے مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکتے اور ہم جو کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ وسلم سب سے افضل ہیں تو اس کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں جو روزِروشن کی طرح ظاہر ہے۔ ہاں اگر ہمارے پاس بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں کی طرح ثبوت اور دلائل نہ ہوتے تو ہمارا بھی حق نہ تھا کہ یہ دعویٰ کرتے مگر خدا کے فضل سے ہمارے پاس ثبوت اور دلائل موجود ہیں جو ہم پیش کرتے ہیں لیکن دوسرے لوگ محض ضد اور تعصب سے ایسا دعویٰ کرتے ہیں ۔ ان کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو اپنی ہی چیز کو اچھا کہے اور دوسروں کے پاس خواہ اس سے اچھی چیز موجود ہو اسے بُرا قرار دے۔

کرشمہ اُلفت و محبت

کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا ایک دن جبکہ اس کا دربار لگا ہوا تھا اس نے اپنے ایک غلام کو ٹوپی دی اور کہا جو لڑکا سب سے خوبصورت ہو اس کے سر پر رکھ دو۔ وہ ٹوپی لے کے گیا اور اپنے میلے کچیلے لڑکے کے سر پر رکھ آیاجس کے ہونٹ بہت موٹے تھے ناک بہہ رہی تھی اور آنکھیں چندھائی ہوئی تھیں۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا یہ تم نے کیا کیا ۔ اس نے کہا بادشاہ سلامت مجھے یہ لڑکا سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے اس لیے اسی کے سر پر ٹوپی رکھ آیا ہوں ۔ تو یہ عام قاعدہ ہے کہ اپنی ہی چیز کو اعلیٰ اور سب سے افضل قرار دیا جاتا ہے۔

کہتے ہیں کسی نے مجنوں کو کہا تھا کہ لیلیٰ کوئی خوبصورت عورت نہیں ہےاس سے اعلیٰ درجہ کی اَور کئی عورتیں ہیں تم اس پر کیوں مر رہے ہو ۔مجنوں نے کہا تمہاری نظر میں وہ خوبصورت نہ ہوگی اس کو میری آنکھوں سے دیکھو تو معلوم ہو ۔تو جس سے انسان کو محبت ہوتی ہے اس کا درجہ سب سے بڑھاتا ہے اور اس کو سب سے اعلیٰ قرار دیتا ہے ۔اسی طرح دوسرے مذاہب والے اپنے اپنے بزرگوں کو جو سب سے اعلیٰ اور افضل بتاتے ہیں تو محض محبت اور تعلق کی وجہ سے بتاتے ہیں ۔مگر ان کے افضل اور اعلیٰ ہونے کا ثبوت طلب کیا جائے تو کچھ پیش نہیں کرسکتے ثبوت صرف ہمارے پاس ہے جو ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے اعلیٰ اور افضل ہونے کے متعلق پیش کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل ہونے کے ثبوت اور دلائل تو اتنے ہیں کہ اگر ان کو ہم پیش کرنا شروع کریں تو سالہا سال کا عرصہ درکار ہے ۔قرآن کریم سارے کا سارا رسول کریم صلی اللہ وسلم کی افضلیت کے ثبوتوںسے بھرا ہوا ہے۔زمین و آسمان آپؐ کی افضلیت کی شہادت دے رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جو ہر ایک چیز کا خالق ہے اور اس کی تمام مخلوق شہادت پیش کر رہی ہے مگر چونکہ اس قدر وسیع باتوں کا سمجھنا اور اس وقت ان کا پیش کرنا آسان نہیں ہے اس لیے میں ایک ہی دلیل کو لیتا ہوں جو بہت بڑی ہے اور جس کا سمجھنا ہر ایک انسان کے لیے نہایت آسان ہے۔

سچائی پرکھنے کا معیار

وہ دلیل جو حضرت مسیح علیہ السلام کے قول میں بیان کی گئی ہے ۔حضرت مسیحؑ انجیل میں فرماتے ہیں کہ درخت اپنے پھل ہی سے پہچانا جاتا ہے۔( متی باب 7آیت 16 بر ٹش اینڈفارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 1922 ء) جب کسی درخت کو پھل لگتے ہیں تو ان کے ذریعہ اس کی خوبی اور برتری معلوم ہوسکتی ہے ۔ یہ ایک بالکل سچا واقعہ اور نیچر کا مقرر کردہ قاعدہ ہے۔ جس کو حضرت مسیح ؑ نے بیان کیا ہے مثلاً آم کے درخت کو کیکر کے درخت پر کیا فضیلت ہے ۔ یہی کہ آم شیریں پھل دیتا ہے لیکن کیکر نہیں دیتا پھر آم کے درختوں کی ایک دوسرے سے کیونکر قیمت بڑھتی ہے ۔ اسی طرح کہ کوئی درخت کم پھل دیتا ہے اور کوئی زیادہ۔ کسی کے پھل شیریں ہوتے ہیں اور کسی کے کھٹے ۔ تو پھلوں کی وجہ سے ہی ایک درخت کو دوسرے درخت پر فضیلت ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ایک کی قیمت دوسرے کی قیمت سے بڑھتی ہے۔ یہی حال اور دوسرے درختوں کا ہوتا ہے کہ جس غرض اور جس کام کے لیے وہ ہوتے ہیں اس کو جو اعلیٰ طور پر پورا کرتا ہے اس کو دوسروں پر فضیلت دی جاتی ہے اور جو اس غرض کو پورا نہیں کرتے ان کوکی کچھ فضیلت نہیں رہتی۔ دیکھو آم کا درخت پھل دینے چھوڑ دیتا ہے تو اس کے مقابلہ میں ایک ایسے درخت کی قیمت بڑھ جاتی ہے جو کوئی پھل نہیں دیتا کیونکہ اس کی لکڑی آم کی لکڑی کی نسبت مضبوط اور اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے توآم انار اور اَور درختوں کی قیمت ان کے پھلوں کی شیرینی پر لگتی ہے۔

مقابلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بر دیگر انبیاؑء

اسی اصل کے ماتحت ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاؑء کی تعلیم کا مقابلہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فضیلت حاصل ہے یا نہیں ۔ کہ آپؐ کی تعلیم پھل اور نتائج کے لحاظ سے دوسروں سے اعلیٰ ہے۔ اگر آپؐ کی تعلیم کے پھل دوسرے انبیاؑء کی تعلیموں سے زیادہ اور اعلیٰ درجہ کے ہو ںتو پھر آپؐ کے اعلیٰ اور افضل ہونے میں بھی شک و شبہ نہیں رہ جاتا ، لیکن اگر آپؐ کی تعلیم کے پھل اور ثمرات اور فوائد پہلے نبیوں کی تعلیموں سے کم ہو ںتو آپؐ بھی ان نبیوں سے کم درجہ کے ہوں گے۔

اس اصل کے ماتحت ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دیکھتے ہیں اور موٹی موٹی چند ایک مثالیں لیتے ہیں کہ آدمی کو درختوں کی طرح میوے نہیں لگا کرتے۔ بلکہ اس کے پھلوں سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جو تعلیم وہ دیتا ہے اس کا اثر اور نتیجہ کیا ہوتا ہے اور اس کی تعلیم سے کیسے لوگ تیار ہوتے ہیں ۔اس بات کا موازنہ کرنے کے لیے ہم تین نبیوں کولیتے ہیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےاَنَا سَیِّدُ وُلُدِ اٰدَمَ ( ابن ماجہ کتاب الزھد باب ذکر الشفاعۃ)

کہ مَیں آدم کے تمام بیٹوں کا سردار ہوں۔ اس دعویٰ کی صداقت ثابت کرنے کے لیے ہم حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ خدا تعالیٰ کے نبی تھے جیسا کہ خود خدا تعالیٰ نے بتایا ہے اس لیے ان کے خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور پیارے ہونے سے کس طرح انکارکیا جا سکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کا محمد صلی اللہ وسلم کےمقابلہ میں کیا درجہ ہے ۔ اس کے لیے ہم ان کے پھلوں کو دیکھتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کی تعلیم کو کیسے پھل لگے اور حضرت عیسی ٰ ؑکی تعلیم کو کیسے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو کیسے ۔ یہ سب انبیاؑء چونکہ دنیا کی اصلاح کے لیے آئے تھے اس لیے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کس نبی نے اپنی تعلیم کے ذریعے ایسی جماعت تیار کی جو تقویٰ اور طہارت میں سب سے بڑھ گئی اور کوئی جماعت اس کا مقابلہ نہ کر سکی۔ جس نبی کی تیارکردہ جماعت ایسی ثابت ہوجائے گی وہ سب سے بڑھ جائے گا ۔خواہ وہ عیسیٰ ؑ ہو۔ خواہ موسیٰ ؑ لیکن اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ جماعت قربانی اور ایثار ، تقویٰ و طہارت ، نیکی اور بھلائی میں سب سے بڑھ کر ثابت ہو تو خواہ دنیا کچھ کہے اور کسی کو افضل ٹھہرائے دلائل اور ثبوت ہی پکار پکار کر کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے افضل ہیں اور کوئی نہیں جو ان کی شان کو پہنچ سکے۔

(باقی آئندہ )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button