سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام: سفر میں روزہ

سفر میں روزہ

آپ سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لیے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا کہ

“قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ

فَمَنْ كَانَ مِنْکُمْ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ (البقرہ:185)

یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔اس میں امر ہے۔یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایاکہ جس کا اختیار ہو رکھ لے،جس کا اختیار ہو نہ رکھے۔میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیں ،اس لیے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے،تو کوئی حرج نہیں،مگر عِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہیے۔”

“…سفر میں تکالیف اٹھا کر جو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے۔اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا۔یہ غلطی ہے۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے۔”

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ292-293)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اس زمانہ میں مجھ کو معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کر نے کے لیے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں ۔فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگا تار روزے رکھے اور گھر میں یا باہر کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں ۔صبح کا کھانا جب گھرسے آتا تھا تو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھا اور شام کا خود کھا لیتا تھا۔میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخرعمر میں بھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں ؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کر تے تھے خصوصًاشوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔

(خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ میں حضرت صاحب نے روزوں کا زمانہ آٹھ نو ماہ بیان کیا ہے)۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر18)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعودؑ کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا۔دوسرا رمضان آیا تو آپ نے روزے رکھنے شروع کیے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہوا اس لیے باقی چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کر دیا۔اس کے بعد جو رمضان آیا تواس میں آ پ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کر دیا۔اس کے بعد جو رمضان آیا تو آپ کا تیرہواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اورباقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادافرماتے رہے۔خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتداء دوروں کے زمانہ میں روزے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضاء کیا ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کر دیا تھا۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعو دؑ کو دوران سر او ر برد اطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہو گئے تھے اور صحت خراب رہتی تھی اس لیے جب آپ روزے چھوڑتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پھر دوسرے رمضان تک ان کے پورا کر نے کی طاقت نہ پاتے تھے مگر جب اگلا رمضان آتا تو پھر شوق عبادت میں روزے رکھنے شروع فرمادیتے تھے لیکن پھر دورہ پڑتا تھا تو ترک کر دیتے تھے اور بقیہ کا فدیہ ادا کر دیتے تھے۔واللّٰہ اعلم۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر81)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضر ت صاحب کے پاس آیا۔اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گذر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا حضرت صاحب نے اسے فرمایا آپ روزہ کھول دیں اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سا دن رہ گیا ہے اب کیا کھولنا ہے۔حضور نے فرمایا آپ سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کوراضی کرنا چاہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے۔جب اس نے فر ما دیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہیے۔اس پر اس نے روزہ کھول دیا۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر117)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ پیر سراج الحق صاحب کو روزہ تھا مگر ان کو یاد نہ رہا اور انہوں نے کسی شخص سے پینے کے واسطے پانی منگایا۔اس پر کسی نے کہا آپ کو روزہ نہیں ؟ پیر صاحب کو یاد آگیا کہ میرا روزہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس وقت وہاں موجود تھے آپ پیر صاحب سے فرمانے لگے کہ روزہ میں جب انسان بھول کر کوئی چیز کھا پی لیتا ہے تو یہ خداکی طرف سے اس کی مہمانی ہو تی ہے۔لیکن آپ نے جو پانی کے متعلق سوال کیا اور سوال کرنا ناپسند یدہ ہوتاہے تو اس سوال کی وجہ سے آپ اس نعمت سے محروم ہو گئے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر125)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے۔حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ معہ کچھ ناشتہ کے ان سے ملنے کے لیے مسجد میں تشریف لائے۔ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں ۔آپ نے فرمایا۔سفر میں روزہ ٹھیک نہیں اللہ تعالیٰ کی رخصت پر عمل کرنا چاہیے۔چنانچہ ان کو ناشتہ کر وا کے ان کے روزے تڑوا دیئے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر381)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دَورہ ہوا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔اس وقت غروب آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فوراً روزہ توڑ دیا۔آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیار فرمایا کرتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر697)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے دو دفعہ دیکھا کہ مہمان خانہ میں بعض لوگوں نے روزوں پر زور دیا تو ان میں جنون کے آثارپیدا ہوگئے اور بہت دودھ پلا کر اور علاج کرکے ان کی خشکی دور ہوئی۔اور کئی دن میں اچھے ہوئے۔یہ دونوں واقعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے ہیں ۔اور دونوں سرحد کی طرف کے لوگوں کے متعلق ہیں ۔حضور فرماتے تھے کہ جب تک خداکی طرف سے اشارہ نہ ہو۔اپنی طاقت سے زیادہ روزے رکھنے اورپھر غذا نہ کھانا آخر مصیبت لاتا ہے۔اور فرماتے تھے کہ ہم نے تو ایمائے الٰہی سے روزوں کا مجاہدہ کیا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس فلسفہ کو حضرت صاحب نے کتاب البریہ میں بیان کیا ہے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر871)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار سفید پوش نے بواسطہ مولوی محمداسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ 1898-99ء کے قریب ایک دفعہ میں قادیان میں رمضان شریف کے مہینہ میں بیمار ہوگیااور روزے نہ رکھ سکا۔میرا مکان اس وقت ڈھاب کے کنارے پر تھا۔مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کے طور پر وہاں ڈھاب کے کنارہ پر تشریف فرماہیں ۔مجھے کمزوری تو بہت تھی۔مگر میں افتاں وخیزاں حضور تک پہنچا۔اور افسوس کے ساتھ عرض کیا کہ میں بیماری کی وجہ سے اس دفعہ روزے نہیں رکھ سکا۔حضور نے فرمایا۔آپ کو دوگنا ثواب ملے گا۔میں نے عرض کیا کہ وہ کیسے۔حضور نے فرمایا کہ ایک تو اس بات کا ثواب کہ آپ بیماری کی حالت میں دعائیں کرتے رہتے ہیں ۔اور دوسرے جب دوسرے دنوں میں آپ روزے رکھیں گے تو اس کا ثواب ہوگا۔”

(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر 1170)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ1903ء کا ذکر ہے کہ میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رُڑکی سے آئے۔چار دن کی رخصت تھی۔حضور ؑنے پوچھا۔” سفر میں روزہ تو نہیں تھا؟” ہم نے کہا نہیں ۔حضور ؑنے ہمیں گلابی کمرہ رہنے کو دیا۔ڈاکٹر صاحب نے کہا “ہم روزہ رکھیں گے۔آپؑ نے فرمایا “ بہت اچھا! آپ سفر میں ہیں” ڈاکٹر صاحب نے کہا۔حضورؑ! چند روز قیام کرنا ہے دل چاہتا ہے روزہ رکھوں ۔آپؑ نے فرمایا۔”اچھا! ہم آپ کو کشمیری پراٹھے کھلائیں گے۔” ہم نے خیال کیاکشمیری پراٹھے خد اجانے کیسے ہونگے؟ جب سحری کا وقت ہوا اور ہم تہجد ونوافل سے فارغ ہوئے اور کھانا آیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام خود گلابی کمرے میں تشریف لائے (جوکہ مکان کی نچلی منزل میں تھا) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مکان کی اوپر والی تیسری منزل پر رہا کرتے تھے۔ان کی بڑی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ جن کو مولویانی کہا کرتے تھے کشمیری تھیں اور پراٹھے اچھے پکایا کرتی تھیں ۔حضور ؑنے یہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے۔پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اور حضور علیہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اور فرماتے تھے‘‘اچھی طرح کھاؤ۔” مجھے تو شرم آتی تھی اور ڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضور ؑکی شفقت اور عنایت کا تھا اس سے روئیں ،روئیں میں خوشی کا لرزہ پیدا ہو رہا تھا۔اتنے میں اذان ہوگئی توحضور ؑنے فرمایا کہ اور کھاوٴ ابھی بہت وقت ہے۔فرمایاقرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے

کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ:188)

اس پر لوگ عمل نہیں کرتے۔آپ کھائیں ابھی وقت بہت ہے۔موٴذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے۔” جب تک ہم کھاتے رہے حضورؑکھڑے رہے اور ٹہلتے رہے۔ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضور تشریف رکھیں ۔میں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑلونگا یا میری بیوی لے لیں گی۔مگر حضورؑنے نہ مانا اور ہماری خاطر تواضع میں لگے رہے۔اس کھانے میں عمدہ سالن اور دودھ سویاں وغیرہ کھانے بھی تھے۔”

(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر1320)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :

“میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ تھا اور اس کی ایک پیشی کے لیے موضع دھار یوال میں جانا پڑا۔گرمی کا موسم تھا اور رمضان کا مہینہ تھا۔بہت دوست ارد گرد سے موضع دھاریوال میں گئے اور بہتوں نے روزے رکھے ہوئے تھے۔وہاں ایک مشہورسردارنی نے جو موضع کھنڈے میں مشہورسرداروں میں سے ہےحضورکی خدمت اقدس میں دعوت کا پیغام بھیجا۔حضور نے دعوت منظور فرمائی۔سردارنی نے میٹھے چاول وغیرہ کی دعوت دی۔بعض دوستوں نے حضور سے روزہ کے متعلق عرض کی۔فرمایا سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔چنانچہ اس وقت سب دوستوں نے روزے چھوڑ دیے اور جب حضور دھاریوال کے پل پر تشریف لے گئے تو بہت لوگوں نے جو حضور کی زیارت کے لیے اردگرد سے آئے ہوئے تھے زیارت کی درخواست کی اس وقت حضور ایک پُلی پر کھڑے ہوگئے اور سب لوگوں نے حضور کی زیارت کی۔”

(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر1550)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں کہ

“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ …آخر عمر میں بھی آپؑ روزے رکھا کرتے تھے خصوصاًشوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے’’۔

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 18)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button