حضرت مصلح موعود ؓ

ربوبیت باری تعالیٰ کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے (قسط نمبر 04۔آخر)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

ربوبیت سے فائدہ اٹھانا انسانوں کا کام ہے

کوئی کہے کہ یہ تو مان لیا جائے کہ اسلام میں خدا کی ربوبیت کا ثبوت ملتا ہے لیکن یہ سارے جہانوں کے لیے تو نہ ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سارے جہانوں کے لیے ربوبیت کے ہونے سے یہ ضرور نہیں کہ سارے کے سارے انسان فائدہ بھی اٹھائیں۔ دیکھیے خداتعالیٰ نے سورج پیدا کیا ہے اور سب کے لیے پیدا کیا ہے مگر جو آنکھیں بند کر کے بیٹھ رہے وہ اس کی روشنی سے محروم رہے گا اس سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سورج سب کے لیے نہیں ہے۔ اسی طرح روحانیت کی بات ہے اسلام کے متعلق تمام لوگوں کے نہ ماننے کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سب کے لیے نہیں ہے۔ اسلام تو ہر ایک کے لیے ہے آگے جس کی مرضی ہو قبول کرے اور جس کی نہ ہو نہ کرے۔ قبول کرنے والوں کو خداکی معرفت اور قرب حاصل کراتا اور اس کی صفت ربوبیت سے فائدہ حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں ایک کو اس نے نبوت کے درجہ پر کھڑا کیا مگر وہ رسول کریم ﷺ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہے۔ کیونکہ اب کوئی نبی ایسا نہیں آسکتا جو اسلام کا ایک شعشہ بھی کم کرے کیونکہ اسلام کامل ہو چکا ہے اور اسکے بعد اور کوئی شریعت نہیں آسکتی مگر باوجود اس کے رب العالمین کا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو الہام پاکر اس بات کا ثبوت دیں کہ خدا اب بھی اپنے بندوں کی ربوبیت کرتا ہے ورنہ اس زمانہ کے لوگوں کا حق تھا کہ وہ کہتے کہ ہم سے پہلو ںکی تو انبیاء بھیج کر ربوبیت کی گئی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری نہیں کی جاتی۔ اس اعتراض کو حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ خداتعالیٰ نے دور کر دیا ہے اور میں نے بتایا ہے کہ آپ کی صداقت کے ثبوت میں خداتعالیٰ نے ایسے ایسے نشانات دکھلائے ہیں کہ ان پر غور کرنے والا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ آپ کو غیب کی خبریں بتائی گئیں جو نہایت صفائی کے ساتھ اپنے اپنے وقت پر پوری ہوئیں اور یہ کسی انسان کی طاقت میں نہیںہے بلکہ خد اکا ہی کام ہے۔

حضرت مرزا صاحب کے مخالفین

لیکن کس قدر رنج اور افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان آپ کا نام دجال رکھتے ہیں ایسے لوگوں کو میں کہوں گا کیا دجال کا کام اسلام کی خدمت کرنا ہے۔ مسیلمہ دجال تھا کیا وہ اسلام کی تائید کرتا اور اسلام کے دشمنوں کے اعتراضوں کو رد کرتا تھا؟ یہ لوگ اپنے دل میں انصاف سے کام لے کر کہیں کہ آج تک جن لوگوں نے جھوٹے دعوے کیے ہیں۔ انہوں نے حضر ت مرزا صاحب کے مقابلہ میں اسلام کی کیا تائید کی ہے۔ آپ تو ایسے وقت میں کھڑے ہوئے اور اس وقت اسلام کی تائید کا بیڑا اٹھایا جبکہ لوگ مذہب کو فضول چیز سمجھنے لگ گئے تھے۔ قرآن کریم کو لغو سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ امپیریل کونسل میں ایک مسلمان ممبر نے ایک موقع پر کہا کہ یہ تیرہ سو سال کی پرانی کتاب کیوں تمہارے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ یہ کہنے والے وہ صاحب تھے جو مسلم لیگ کے پریذیڈنٹ بن چکے تھے اور مسلمانوں کے قائم مقام کہلاتے ہیں ان کے اس کہنے پر انگریز ممبروں نے بھی نفرت کا اظہار مگر انہیں باوجود مسلمان کہلانے کے کوئی خیال نہ آیا تو اسلام کی یہ حالت ہو گئی تھی۔ پھر بہت لوگ تھے جو کہتے تھے کہ قرآن خدا کا کلام نہیں بلکہ محمد ﷺ کے اپنے خیالات ہیں تو ایسے وقت میں حضرت مرزا صاحب نے اسلام کی تائید کا بیڑا اٹھایا جبکہ خود مسلمان اس پر حملہ آور ہو رہے تھے او رجو کچھ غیر کرتے تھے اس کا تو ذکر کرنا بھی نہایت درد انگیز ہے۔ ایسے خطرناک وقت میں حضرت مرزا صاحب نے نہ صرف ایک ایسی جماعت پیدا کی جو اسلام کو صحیح طور پر ماننے والی ہے بلکہ غیروں کی طاقت اور ہمت کو توڑ دیا۔ چنانچہ کچھ عرصہ ہوا عیسائیوں کی ایک کانفرنس ہوئی تھی جس میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ کچھ مدت سے شمالی ہند میں اعلیٰ خاندان کا کوئی شخص عیسائی نہیں ہوتا۔ اس کا جواب واقف کاروں نے یہ دیا کہ اس طرف مرزا غلام احمد نے ہمارے خلاف تحریک شروع کی ہوئی ہے جو ہماری ترقی میں روک ہے۔ پس یہ دشمن کا اپنا اقرار ہے کہ جہاں حضرت مرزا صاحب کی تعلیم پھیلی وہاں اس کی ترقی رک گئی اور خوبی وہی اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے جس کا دشمن کو بھی اقرار ہو۔ پھر وہ یورپ جو اسلام کو ایک بدترین اور وحشیوں کا مذہب سمجھتا تھا، اس میں ایسے ایسے لوگ کھڑے ہو رہے ہیں جو نہ صرف اسلام کو پیار اور محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ اسے حرز جان بنا رہے ہیں اور اس سےایک گھڑی علیحدہ رہنا اپنی موت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ کئی ایک نومسلموں کے میرے پاس خط آئے ہیں جو لکھتے ہیں کہ ہم نے عہد کر لیا ہے کہ جنگ کے بعد اپنا کام کاج چھوڑ کر اسلام کی تبلیغ میں مشغول ہو جائیں گے۔ ایک نے لکھا کہ آپ ہماری قوم کے لوگوں کی عادت سے واقف نہیں ہیں۔ وہ دوسروں کی بات مشکل سے ماننے کے لیے تیار ہوتے ہیں لیکن اگر ان کی اپنی ہی قوم کا آدمی انہیں کچھ بتائے تو وہ توجہ اور غور سے سنتے اور مان لیتے ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میں خود انہیں تبلیغ کروں اور اسلام کی طرف دعوت دوں اور اس کام میں اپنی زندگی صرف کردوں۔

حضرت مرزا صاحب کے کام کو دیکھو

آپ لوگ جانتے ہیں کہ کسی کے دل پر قبضہ حاصل کرنا انسان کا کام نہیں ہے۔ مگر حضرت مرزا صاحب نے قبل از وقت کہہ دیا تھا کہ میں ایسا کروں گا اور دنیا مجھے قبول کرے گی اور پھر ثابت کر کے بھی دکھا دیا۔ لیکن اب کس قدر افسوس اور رنج کی بات ہو گی کہ اب بھی مسلمان آپ کو دجال اور اسلام کا دشمن کہیں۔ کیا دجال کے دل میں ایسی ہی اسلام کی محبت اور الفت ہوتی ہے اور وہ اس کے لیے اسی طرح کوشش اور سعی کرتا ہے۔ اگر فرض کر لو کہ وہ انسان جو اسلام کی صداقت، رسول کریم ﷺ کی صداقت، قرآن کریم کی صداقت کا ثبوت پیش کرتا ہے وہ دجال ہے تو واللہ وہ ایسے مسلمانوں سے ہزار درجہ بہتر ہے جو اسلام کے لیے باعثِ ننگ اور عار ہو رہے ہیں۔ حضرت مرزا صاحب خود فرماتے ہیں:

بعد از خدا بعشق محمد مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

کہ مَیں اللہ کی محبت کے بعد رسول کریم ﷺ کی محبت سے مخمور ہو رہا ہوں۔ اگر اسی کا نام کفر ہے تو خدا کی قسم مَیں بڑا ہی سخت کافر ہوں۔

پس اگر خدا کی خدائی ثابت کرکے دکھانا، اسلام کی صداقت دنیا کے سامنے پیش کرنا، اسلام کو عالمگیر اور زندہ مذہب ثابت کرنا، خدا کی کسی صفت کو باطل کہنے والوں کے مونہہ بند کرنا، دنیا کو نجات اور قرب الٰہی کا راستہ بتانا، قرآن کریم کو پاک اور الہامی کتاب ثابت کرنا دجالیت ہے تو خدا کرے کہ سب دجال ہی ہو جائیں۔ لیکن کوئی ذرا اسلام کی محبت کو دل میں جگہ دے کر، عقل سےکام لے کر، تعصب سے بری ہو کر اور عناد سے خالی ہو کر اتنا تو سوچے کہ حضرت صاحب اور دجال میں تو مشرق و مغرب کا بُعد ہے۔ اگر بے تعصبی سے کوئی شخص اس امر پر غور کرے گا تو ضرور اسے یہ بُعد نظر آئے گا۔ حضرت مسیح ناصری کی نسبت کہتے ہیں کہ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ تم شیطان کے دوست ہو۔ اس کا انہوں نے نہایت لطیف جواب دیا اور وہی جواب حضرت مرزا صاحب کی طرف سے میں دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کیا کوئی اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارتا ہے۔ کیا بعل اپنے خلاف آپ باتیں کرتا ہے یعنی میں تو اسکے خلاف باتیں کہتا ہوں پھر میرا اس سے کس طرح کا تعلق ہو سکتا ہے۔ اگر اس سے تعلق ہوتا تو میں اس کی تائید کرتا نہ کہ اس کے خلاف کہتا۔ اسی طرح میں کہتا ہوں کہ اگر حضرت مرزا صاحب نعوذ باللہ دجال بن کر اسلام کو مٹانے کے لیے آئے تھے تو چاہیے تھا کہ وہ اس کی تکذیب کرتے۔ قرآن کریم کی تکذیب کرتے مگر وہ تو کہتے ہیں کہ اسلام ہی ایک زندہ مذہب ہے اور وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ تو زندہ آسمان پر موجود ہوں اور آنحضرت ﷺ مردہ زمین میں دفن ہوں۔ پھر آپ نے قرآن کریم کو خدا کا کلام ثابت کرنے کے لیے ایسے ایسے زبردست دلائل دیئے کہ جن کا کوئی انکار نہ کرسکے۔ پھر کس طرح کہا جائے کہ آپ رسول کریم ﷺ کی ہتک کرنے اور اسلام کو مٹانے آئے تھے کیونکہ دجال کے متعلق تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اسلام کو مٹانے کے لیے کھڑا ہو گا(سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال)مگر حضرت مرزا صاحب نے تو ساری زندگی اسلام کے پھیلانے میں ہی صرف کر دی تھی اور ایک ایسی جماعت بنا دی جو خدا کی راہ میں اپنے مال کو صرف کر رہی اور اشاعت اسلام کا کام سرانجام دے رہی ہے۔ ذرا آپ لوگ غور تو فرمائیں کہ اس زمانہ میں وہ کونسی قوم ہےجو بے دریغ اپنے مالوں کو اسلام کی اشاعت کے لیے صرف کر رہی ہے اور وہ کونسی قوم ہے جو تعداد کے لحاظ سے تم سے بہت کم ہے مگر قربانی کے لحاظ سے بہت بڑھی ہوئی ہے۔ وہ ایک غریبوں کی جماعت ہے اور پانچ چھ لاکھ سےزیادہ نہیں ہے مگر اس وقت تک لاکھوں روپے اسلام کی تائید میں خرچ کر چکی ہے لیکن تم کروڑوں ہو کر اس سے آدھا بھی خرچ نہیں کر رہے۔ پس ان لوگوں کو جو حضرت مرزا صاحب پر طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں خدا تعالیٰ کی خشیت اور خوف سے کام لینا چاہیے اور انہیں غور کرنا چاہیے کہ ان کے مونہہ سے کیا نکل رہا ہے کیونکہ خدا کی طرف سے اسلام کی تائید کرنے کے لیے آنے والے انسان کا نام دجال رکھنا اس کی ہتک کرنا نہیں بلکہ اسلام کی ہتک کرنا ہے کہ اسلام اپنے قیام کے لیے ایک دجال کا محتاج تھا۔ اگر وہ نہ آیا ہوتا تو نہ معلوم اس کی کیا حالت ہوتی۔ حضرت مرزا صاحب نے دنیا میں آکر وہ کام کر دکھلایا اور ایسے نشانات پیش کیے کہ جن کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ چنانچہ آپ نے مختلف مذاہب کے لوگوں کو چیلنج دیا کہ میرا دعویٰ ہے کہ اسلام سچا مذہب ہے اور تم کہتے ہو کہ نہیں ہمارے مذہب سچے ہیں ۔ آؤ اس کا فیصلہ کر لو اور وہ اس طرح کہ کچھ مریض لیتے ہیں اور ان کو قرعہ اندازی کے ذریعہ آپس میں تقسیم کر لیا جائے پھر ان کی صحت کے لیے دعا کی جائے جس کے مریض زیادہ صحت یاب ہوں گے اس کا مذہب سچا ثابت ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ کا ایک آسان طریق تھا لیکن کوئی مقابلہ پر نہ آیا اور پانیئر اخبار میں مضمون لکھا گیا کہ ہمارے پادری جو اتنی اتنی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں کیوں اس وقت مقابلہ کے لیے نہیں نکلتے لیکن پھر بھی کوئی نہ آیا۔

غور و فکر سے کام لینا چاہیے

مَیں نے اس وقت آپ لوگوں کے سامنے مختلف مذاہب کا مختصر سا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ مذہب کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ اس راستہ کا نام ہے جو خداتعالیٰ سے ملاتا ہے اور خداتعالیٰ سے پیاری اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔ پس میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ پیشتر اس کے کہ آپ لوگوں پر موت کی گھڑی آئے آپ غور کریں کہ زندہ مذہب کونسا ہے اور زندہ خدا کا ثبوت کس مذہب میں ملتا ہے اور کونسا مذہب ہے جو خدا کو رب العالمین ثابت کرتا ہے اگر آپ لوگ غور کریں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں یہ سب باتیں پائی جاتی ہیں اسی طرح جو لوگ حضرت مرزا صاحب کے منکر ہیں ان کو معلوم ہو جائے گا کہ اس زمانہ میں صرف حضرت مرزا صاحب ہی کی جماعت اس بات کی مدعی ہے کہ الہام کا دروازہ کھلا ہے اور خداتعالیٰ کا یہ انعام آج بھی اسی طرح حاصل ہو سکتا ہے جس طرح آج سے پہلے ہوتا تھا۔ چنانچہ حاصل ہو ااور ہماری جماعت میں سینکڑوں ایسے لوگ ہیں جن سے خداتعالیٰ نے کلام کیا اور ان کو خدا کے کلام کی لذت اور سرور حاصل ہوا۔ ان کی دعائیں قبول کرتا ہے اور مشکلات ومصائب میں ان کا دستگیر بنتا ہے۔ پس جب یہ ثابت ہو گیا تو بتلائیے آپ لوگ کونسا طریق پسند کرتے ہیں۔ افسوس کہ بہت لوگ ہیں جو غور نہیں کرتے۔ اگر غور کریں تو جیساکہ میں نے پہلے بتایا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے نتائج اخذ کر لیں۔ آج کل لوگ تجارتوں، ملاقاتوں، دعوتوں اور بہت سی بیہودہ باتوں کے لیے تو وقت نکال لیتے ہیں لیکن جب انہیں مذہب کے متعلق غور و فکر کرنے کے لیے کہا جائے تو کہتے ہیں کہ فرصت نہیں۔ گویا مذہب نعوذباللہ بے ہودہ باتوں اور گپوں سے بھی زیادہ فضول اور لغو چیز ہے۔ یہ ایک خطرناک مرض ہے اور جس کے اندر ہو اسے بہت جلدی اس کا علاج کرنا چاہیے اور ضرور مذہب کے متعلق غور و خوض سے کام لینا چاہیے۔ دیکھئے اگر یورپ کے لوگ مادی اشیاء میں غور نہ کرتے تو یہ رتبہ ان کو کبھی حاصل نہ ہوتا۔ یہی حال روحانی ترقی کا ہے جب تک روحانی باتوں کے متعلق بھی غور نہ کیا جائے کچھ نہیں حاصل ہوتا۔ اس وقت میں نے آپ لوگوں کے سامنے ثابت کیا ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو زندہ خدا کو پیش کرتا ہے اور اس میں اس کی زندگی کا ثبوت مل رہا ہےنیز یہ بھی کہ خدا جس طرح پہلے اپنے بندوں کی روحانی ربوبیت کرتا تھا اسی طرح اب بھی کرتا ہے اور جس طریق پر ہم چل رہے ہیں اس پر چل کر انہیں فوائد اور انعامات کو حاصل کر سکتے ہیں جو آج سے ہزاروں سال پیشتر حاصل ہوتے تھے۔ ان باتوں کے متعلق اگر کوئی زیادہ تحقیقات کرنا چاہے تو ہمارے پاس آکر زبانی طور پر کر سکتا ہے یا خط و کتابت کے ذریعہ ہم اس کو بتا سکتے ہیں اور اس وقت میں نے مختصر طور پر بتا بھی دیا ہے۔

میں امید کرتا ہوں کہ وہ تمام صداقت پسند روحیں جو خداتعالیٰ سے ملنے کی تڑپ رکھتی ہیں میری باتوں کی طرف ضرور توجہ کریں گی اور آئندہ زندگی کے لیے جو ہمیشہ کی زندگی ہے ضرور وقت نکالیں گی تاکہ معلوم کریں کہ وہ کون سی تعلیم ہے جس پر چل کر انسان خدا کو پا سکتا ہے۔ خداتعالیٰ آپ لوگوںکو اس کی توفیق دے۔ آمین۔

(الفضل 15 دسمبر 1917ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button