خطاب حضور انور

’’کیا آج مذہبِ اسلام کی پیش کردہ تعلیمات مغربی تہذیب و تمدّن سے متصادم ہیں!!؟؟‘‘

انسانی حقوق کے قیام سے متعلق اسلام کی چند بے مثال تعلیمات کا اثر انگیز بیان

برلن میں سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے انگریزی زبان میں بصیرت افروز اور دل نشیں خطاب کا اردو ترجمہ (فرمودہ 22؍اکتوبر 2019ء بروزہفتہ) ہوٹل ADLON KEMPINSKI، جرمنی

(اس خطاب کا اردو ترجمہ ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

تمام معزز مہمانوں کی خدمت میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔اللہ تعالیٰ آپ سب پر سلامتی اور رحمتیں نازل فرمائے۔

سب سے پہلے تو آپ سب معززین کا شکریہ کہ آپ نے ہماری دعوت کو قبول کیا اور آج شام اس تقریب میں تشریف لائے۔

آج کل دنیا میں بالعموم اور مغربی دنیا میں بالخصوص تارکینِ وطن اور ان کے معاشرہ پر اثرات کا موضوع بھرپور طور پر زیرِ بحث ہے، اور اس بحث کا زیادہ حصہ مسلمانوں کے گرد گھومتا ہے۔ بعض حکومتیں بلکہ عوام بھی تہذیبوں کے تصادم کےاندیشے سے خوف زدہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مسلمان نہ صرف مغربی معاشرے کا حصہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ اس معاشرہ کے لیے ایک خطرہ بھی ہیں۔

اس مسئلہ پر بات کرنے سے پہلےاس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ‘‘تہذیب’’ کا اصل مطلب ہے کیا؟ اس کے جواب میں مَیں جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ کی بیان کردہ تعریف ، جس سے میں خود مکمل طور پر متفق ہوں، پیش کرتا ہوں۔اس تعریف کے مطابق تہذیب سے مراد کسی معاشرے کی مادی ترقی ہے۔معاشی ترقی، تکنیکی ایجادات، ذرائع نقل و حرکت، ذرائع مواصلات اور علمی ترقی وہ عوامل ہیں جو کسی تہذیب کی ترقی کا پتہ دیتے ہیں۔مثلاً ابلاغ اور نقل و حرکت کے جدید ذرائع کی طرح تجارتی و معاشی نظام، امن عامہ، صنعت و حرفت، سائنسی و علمی تحقیق اور تعلیمی معیار بھی کسی معاشرے کی تہذیبی سطح کے عکاس ہوتے ہیں۔نیزعسکری طاقت یا قانون یا کسی بھی اور ذریعہ سے امنِ عامہ کے قیام کے لیے کیے گئے اقدامات بھی تہذیبی ترقی کا معیار ہوتے ہیں۔

اقوام کی تہذیب کے علاوہ ان کی ثقافت بھی ہوتی ہے جو کسی قوم کے افراد کے نظریات،معاشرتی مسائل سے متعلق ان کےرویوں اور ان کے عمل اور ردعمل کا مظہر ہوتی ہے۔ ثقافت کا دارومدار مادی ترقی کی بجائے کسی قوم کے افراد کی اخلاقیات، مذہبی اقدار اور روایات پر ہوتا ہے۔

پس جہاں تہذیب مادی، ٹیکنولوجیکل اور علمی ترقی کا نام ہے، وہاں ثقافت مذہبی، اخلاقی اور فکری ساخت کی مظہر ہے۔

تہذیب اور ثقافت کے اس فرق کو عیسائیت کی ابتدائی تاریخ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس دور میں سلطنتِ روم اپنی طاقت کے عروج پر تھی، بلکہ آج بھی دنیا کی تاریخ کی عظیم تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے۔اپنی مادی ترقی، شہری سہولیات اور حکومتی نظم و نسق کے اعتبار سے سلطنتِ روم کو بہت تہذیب و تعلیم یافتہ تسلیم کیا جاتا تھا۔

تاہم یہ ظاہری عظمت اس کے اخلاقی معیار کی ہم پلہ نہ تھی، کیونکہ عیسائیت کے ابتدائی زمانہ میں اس کے شہریوں میں ترقی پسند رحجانات پیدا ہوچکے تھے۔ عیسائیت مذہب کے اصولوں پر ان کی رہ نمائی کرتی، جبکہ رومن اربابِ اختیار ان کے لیے دنیوی قوانین و ضوابط وضع کرتے۔

یوں رومیوں کی دنیوی تعمیر و ترقی ان کی تہذیب کی عکاسی کرتی، جبکہ عیسائیت انہیں ایک بہترین ثقافت سے آراستہ کرتی۔ وقت کے ساتھ عیسائیت سلطنتِ روم کا غالب مذہب بن گئی اور یوں ان کی تہذیب نے عیسائیت کی ثقافت کو اپنا لیا۔ اس ملاپ اور اس کے زبردست اثرات نے روایات اور اقدار کی وہ بنیادیں رکھیں جو آج بھی، مذہب سے دور ہوجانے کے باوجود، مغربی معاشرہ کا حصہ ہیں۔

اب امیگریشن کی بحث کی طرف آئیں، توبعض مغربی ممالک کے معاشرتی اعداد و شمار میں بہت تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ بہت سے ملکوں سے تارکین وطن یہاں پہنچے ہیں مگر اصل تشویش کا باعث اِن ممالک میں مسلمانوں کا سکونت اختیار کرنا بن گیا ہے۔اِن مغربی ممالک کے آبائی شہری مسلمانوں کے یہاں کثرت سے پناہ گزین ہونےسے اپنی صدیوں پرانی تہذیب، ثقافت اور اقدار کو خطرہ میں محسوس کرتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے بتایا ، ہم تہذیب کو مادی ترقی خیال کرتے ہیں ۔ مغربی تہذیب کی مخالفت کرنا ، اسے رد کرنا یا اس سے گریز کرنا تو کُجا، ترقی پذیر قومیں تو اس تہذیب کے مطابق ڈھلتی جارہی ہیں۔ تو مغربی تہذیب کا خطرے میں ہونا تو دور کی بات، حقیقت اس کے برعکس نظر آرہی ہے۔

سفر اور ابلاغ کے جدید ذرائع نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کردیا ہے۔ ٹیلی وژن ، دیگر ذرائع ابلاغ اور بالخصوص انٹرنیٹ کی موجودگی میں اب کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہااور معاشی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں رہنے والے لوگ ترقی یافتہ اقوام کے رہن سہن کو دیکھ سکتے ہیں۔ مغربی طرزِ زندگی کا اثر قبول کرتے ہوئے وہ بھی مادی ترقی کے اسی درجے کے حصول کے خواہاں ہیں۔

پس اس دعوے میں، کہ مغربی یا یورپی تہذیب مسلمانوں کی موجودگی سے خطرہ میں ہے، کوئی دَم نہیں۔ بلکہ مغربی تہذیب تو مسلم دنیا سمیت تمام خِطّوں پر اثرانداز ہورہی ہے۔ہاں ،یہ خیال کہ اسلام کے پھیلنے سے یورپ کی مذہبی اور اخلاقی ثقافت کا خطرہ میں ہونا ایک جائز اور قابلِ فہم اندیشہ ہے اور اب میں اس کی طرف آتا ہوں۔

یہ تو ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ لوگ مذہب سے دور ہوتے جارہے ہیں اور مغرب میں تو یہ رحجان تشویشناک حد تک بڑھا ہوا ہے۔مغربی ممالک میں ہونے والی مردم شماری کے اعدادسے ثابت ہے کہ مذہب یا خدا کی طرف رحجان رکھنے والے افراد کی تعداد گرتی چلی جارہی ہے۔ میرے نزدیک لادینیت مغربی ثقافت کے لیے اسلام کی نسبت زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ مغربی اقدار صدیوں پرانی ہیں اور ان کی بنیادیں مذہبی روایات بالخصوص عیسائی اور یہودی ورثے پر استوار ہیں۔یہ مذہبی اقداراور ثقافتی اطوار ان لوگوں کی زد میں ہیں جو دین اور مذہب کے بَکُلّی خلاف ہیں۔

ایک مذہبی رہنما کی حیثیت سے میری رائے ہے کہ آپ اپنی ثقافت اور اپنے ورثے کی حفاظت کے لیے اپنی توانائی اور کوششیں مذہبی رحجان کے تنزل کو روکنے اور لوگوں کو ان کے مذہب کی طرف واپس لانے پر مرکوز کریں، خواہ ایسے لوگوں کا مذہب عیسائیت ، یہودیت یا کچھ بھی ہو۔یہ تو کسی بھی طرح درست نہیں کہ ترقی کے نام پر اخلاقی معیار اور اقدار کودفعتاً ترک کر دیا جائے جو صدیوں سے اس معاشرےکا حصہ چلی آرہی ہیں۔

میرا یہ بھی خیال ہے کہ مغرب میں مذہبی رحجان کا تنزل ہی ہے جس کے باعث لوگ اسلام سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ مسلمان بالعموم اپنے دین سے وابستہ رہتے ہیں۔اس کے پیشِ نظر میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آپ میڈیا میں کچھ بھی پڑھیں یا سنیں، اسلام سے خوف زدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ مسلمان قرآن کریم کو مکمل اور حتمی مذہبی تعلیم مانتے ہیں، اور قرآن کریم سے ہماری محبت اور اس کی اطاعت کے باعث ہم ایمان رکھتے ہیں کہ مذہب ہر فرد کے لیے دل کا معاملہ اور ذاتی مسئلہ ہے۔

قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 257 میں واضح حکم ہے کہ لَا إِ كْرَاهَ فِي الدِّينِیعنی دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں۔

لہٰذا غیر مسلموں کو یہ خوف ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ مسلمان زبردستی اپنے عقائد کو پھیلائیں گےیا جبراً اپنے نظریات کو اس خطۂ زمین پر مسلط کریں گے۔ انتہا پسندی کی راہ اختیار کرنے والی نام نہاد مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت قرآن کریم کی تعلیمات کی نمائندہ نہیں۔میں کئی مرتبہ یہ بات کہہ چکا ہوں کہ حکومتوں اور اربابِ اختیار کو انتہا پسندوں کی سختی سے روک تھام کرنی چاہیے، خواہ یہ انتہا پسند مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔

بحیثیت جماعتِ احمدیہ مسلمہ، ہمارا ایمان ہے کہ اسلام کسی بھی صورت میں جبر یا طاقت کے ذریعہ دین کو پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر اسلام سے خوفزدہ ہونے کی کیا وجہ رہ جاتی ہے؟ پھر کیوں کوئی خیال کرے کہ اس کی تہذیب یا ثقافت اسلام کے ہاتھوں خطرے میں ہے؟

اسلامی نقطۂ نظر سے تہذیب اور ثقافت کے فرق کو بیان کردینے کے بعد اب میں اسلام کی بعض بنیادی تعلیمات بیان کروں گا۔ اسلام اور بانیٔ اسلام ﷺ کے بارہ میں بہت سے اوہام اور غلط فہمیاں عام کردی گئی ہیں۔ اس مختصر وقت میں اسلامی تعلیم کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا تو ممکن نہیں، تاہم میں انسانی حقوق کے قیام سے متعلق اسلام کی چند تعلیمات بیان کروں گا۔

انسانی حقوق کے حوالہ سے قرآن کریم کی سورۃ النساء کی 37ویں آیت بنیادی اہمیت کی حامل ہے، جس میں فرمایا:

وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَّبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَا كِينِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَ يْمَانُكُمْ۔

‘‘اور تم اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور اسی طرح رشتہ دار ہمسایوں اور بے تعلق ہمسایوں اور پہلو میں بیٹھنے والے لوگوں اور مسافروں اور جن کے تم مالک ہو …’’

اس آیت میں جہاں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دیا، وہاں والدین کے ساتھ محبت اور دل داری کی بھی تلقین فرمائی۔ یہ تعلیم، جو مسلمانوں سے والدین کے ساتھ محبت اور احسان کا تقاضا کرتی ہے، کسی بھی مذہب یا قوم سے کس طرح متصادم ہوسکتی ہے؟یہ آیت تو مسلمانوں سے رشتہ داروں اور عزیزوں سے رحم اور محبت کے سلوک کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ یتامیٰ اور معاشرہ کے دیگر مساکین کو آرام اور آسائش پہنچانے کا تقاضا بھی کرتی ہے۔

اس معاملہ میں ہمارا اعتقاد ہے کہ غربا کی مدد کا ایک اہم ذریعہ تعلیم ہے۔اگر شکستہ گھرانوں یا غربت سے متاثرہ افرادِ معاشرہ کو تعلیم کی سہولت دے دی جائے تو وہ مصائب کے چنگل سے نجات حاصل کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ایسے نوجوانوں کو مواقع مہیا ہو جائیں گے اور وہ یاس اور ناامیدی سے آزاد ہوکر، جرائم پیشہ بننے کی بجائے معاشرہ کے فعال اور کارآمد افراد بن جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمہ تعلیم کو بہت اہمیت دیتی ہے اور اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے ہم نے افریقہ کے متعدد ممالک میں سکول بھی کھولے ہیں اور ایسےطلبا ءکے لیے وظائف بھی جاری کررکھے ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنےکی استطاعت نہیں رکھتے۔

ہمارانظریہ ہے کہ متمول ممالک کو دنیا کی کمزور اقوام کی ٹھوس بنیادوں پر استوار ہونے میں مدد کرنی چاہیے۔ اگر غریب ممالک اپنی معیشت اور اپنے بنیادی ڈھانچے استوار کرلیں تواُن کے شہریوں کو اپنے ہی ملک میں مواقع میسر آجائیں گے اور انہیں ترکِ وطن کرکے بیرونِ ملک چلےجانےکی ضرورت بھی کم محسوس ہوگی۔اگر ان کے اپنے ممالک مستحکم ہو کر ترقی کی راہوں پر چل نکلیں تو اِس کے فطری نتیجہ کے طور پر ان کے اپنے خطہ کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر خطے بھی مستفید ہوں گے۔

قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت میں پڑوسی کے حقوق کی ادائیگی کا خصوصیت سے ذکر ہے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ پڑوس کی حد بھی بڑی وسیع بیان ہوئی ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے پڑوسی کے حقوق پر اس قدر زور دیا کہ انہیں یہ گمان ہوا کہ شاید اسے وراثت میں بھی حصہ دار بنا دیا جائے۔
اسلام میں پڑوسی سے مراد ساتھ ساتھ رہنے والے ہی نہیں، بلکہ اس کے معانی وسیع تر ہیں جس میں ہم سفر، رفقائے کار، ماتحت اور بہت سے افراد بھی اس میں آجاتے ہیں۔غرض اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر حقوق العباد کی ادائیگی ایک اخلاقی ذمہ داری کے طور پر فرض فرمادی ہے۔

بانئ اسلام ﷺ نے یہ تعلیم بھی دی کہ جو انسان کا شکرگزار نہیں، وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بھی نہیں ہوسکتا۔ کیا ہی خوب اصول ہے! پس خدا تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انسانیت کے حقوق بھی ادا کیے جائیں۔

میں پھر پوچھتا ہوں کہ ایسی تعلیم مغربی تہذیب کے لیے خطرہ کیونکر ہوسکتی ہے؟یہ تعلیمات جو معاشرے میں امن اور استحکام کے قیام کی ضامن ہیں معاشرتی اور معاشی نتائج میں بہتری ہی کا موجب ہوں گی۔

لہٰذا مغربی افراد کا یہ دعویٰ کہ مسلمانوں کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں برعکس دلائل پر منتج ہوتا ہے۔اگر مسلمان اس معاشرےکا حصہ بننے، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ملک و قوم کی ترقی اور بہبود کی کوشش کرنے کی نیت لے کر یہاں آئیں، تو یہ قابلِ مذمت نہیں بلکہ عین قابلِ ستائش ہے۔

کچھ لوگ اس خیال کے حامل ہیں کہ مسلمانوں کو جہاد کا حکم ہے، لہٰذا وہ مغرب میں آکر متشدد جنگ چھیڑ دیں گے اور اسلامی تہذیب کو جبر سے مسلط کرتے ہوئے معاشرےکا امن اور سکون برباد کردیں گے۔ یہ خیال جہاد کی تعلیم اور اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں لڑی جانے والی جنگوں سے متعلق شدید غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔درحقیقت اسلام خونی یا متشدد مذہب نہیں ہے۔

ایک مرتبہ آنحضورﷺ کے ایک صحابی نے اسلامی فوج میں شامل ہوکر جہاد کرنے کی اجازت چاہی۔ پیغمبرِ اسلامﷺ نے اس کی درخواست اس بنیاد پر رد کردی کہ اس کے والدین ضعیف تھے ۔بلکہ اسےحکم دیا کہ وہ گھر میں رہ کر ان کی خدمت کرے، کہ یہی اس کا جہاد ہوگا۔ اگر جہاد کا مقصد جنگ و جدل اور خونریزی ہی ہوتا تو پیغمبرِ اسلام ﷺ اس کی پیشکش کو فوراً قبول کرتے ہوئے مسلم فوج کو تقویت دینے کو ترجیح دیتے۔
یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں جو جنگیں لڑی گئیں ان کا مقصد حصولِ اقتدار یا ظلم یا مقامی لوگوں کو جبراً اسلام قبول کروانا نہیں تھا۔ ان جنگوں کا مقصد مذہب کی حفاظت اور آزادیٔ مذہب کا قیام تھا۔

قرآن کریم کی سورۃ الحج کی آیات 40اور 41میں فرمایا ہے کہ

اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرٌ (الحج:40)الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ (الحج:41)

اگر مذہبی انتہا پسندوں کو روک نہ دیا جاتا تو کلیسا اور معبد اور مندر اور مساجد اور دیگر عبادت گاہیں شدید خطرے کا شکار ہو جاتیں۔ کفارِ مکہ کا یہی تو مقصد تھا کہ مذہب کے تمام آثار کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ یہ ثبوت ہے کہ اسلام تمام مذاہب کے تحفظ کا ضامن ہے۔

پھر بچوں کی پرورش کے بارہ میں قرآن کریم کی سورۃ الانعام کی آیت نمبر 152 میں آتا ہے کہ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ یعنی مسلمان اولاد کو قتل نہ کریں۔ یہاں اولاد سے محبت اور شفقت کا حکم بھی ہے اور انہیں تعلیم دلانے، ان کی تربیت کرنے کا حکم بھی، تا کہ وہ بڑے ہوکر نہایت قابل اور بااخلاق افراد بنیں اور ملک وقوم کا اثاثہ ہوں۔

اسی طرح اسلام نے مسلمانوں کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ وہ معاشرےکے کمزور افراد کے حقوق کی حفاظت کریں۔ مثلاً قرآنِ کریم کی سورۃ النساء کی ساتویں آیت میں مسلمانوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ یتیم بچوں کے استحصال کی روک تھام کریں اور ان کی عزت اور ان کے وراثت کے حقوق کی حفاظت کریں، تا وقتیکہ وہ ایسی عمر کو پہنچ جائیں جہاں وہ ان معاملات میں خودکفیل ہوں۔فرمایا:

وَابْتَلُوا الْيَتَامٰى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ۔

مغربی دنیا میں اسلام پر ایک اور اعتراض یہ ہے کہ مسلمان عورتوں اور ان کے حقوق کو وقعت نہیں دیتے۔ پہلے تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ سب سے پہلے اسلام نے ہی عورت کو وراثت میں حق دیا، خلع کا حق دیا اور اس کے دیگر حقوق قائم کیے۔ اس کے ساتھ اسلام تعلیمِ نسواں اور خواتین کو ذاتی ترقی و بہبود کے مواقع مہیا کرنےپربھی زبردست زور دیتا ہے۔کسی ایک بھی لڑکی یا عورت کو تعلیم کی سہولت سے محروم کرنا یا اس کے ساتھ کسی بھی طرح کا ناروا سلوک کرنا جائز نہیں۔

ایک ایسے زمانہ میں جب خواتین کے حقوق کو پامال کرنا معمول کی بات تھی، اور جب انہیں مرد وں سے کم تر خیال کیا جاتا تھا، آنحضورﷺ کے ذریعہ حقوق نسواں کے حوالہ سے ایک عظیم انقلاب برپا ہوا۔ آنحضور ﷺ نے مسلمانوں کو تعلیم دی کہ وہ اپنی بیٹیوں سے محبت کریں اور انہیں کسی بھی طرح لڑکوں سے کم تر نہ سمجھیں۔

پیغمبرِاسلام ﷺکا ایک مشہور فرمان ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ یہ الفاظ معاشرےمیں عورت کے عظیم المرتبت کردار اور نہایت نمایاں اور بے مثال مقام کا مظہر ہے۔درحقیقت نوعمری میں بچوں کی پرورش کرنا ماؤں ہی کی ذمہ داری ہے اوریوں آئندہ نسل کو معاشرے کے فعال اور کارآمد بنانے میں ماؤں کا کردار نہایت اہم ہے۔

مائیں ہی تو ہیں جن کے پاس یہ طاقت اور قابلیت ہے کہ وہ اپنی قوم کو جنت نظیر بنادیں اور اپنے بچوں کے لیے دائمی جنتوں کے دروازے کھول دیں۔

اسی طرح قرآن کریم کی سورۃ النساء کی بیسویں آیت میں مسلمان مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں سے محبت اور عزت سے پیش آئیں۔ مغربی ممالک میں تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب گھریلو تشدد کے واقعات میں پولیس اور عدالتوں کی دست اندازی کی خبریں نہ آتی ہوں۔ متعدد تحقیقات اور رپورٹوں سے، مثلاً برطانیہ کے قومی ادارہ ٔ شماریات کی 2018ء کی رپورٹ، سے ثابت ہے کہ ایسے جرائم کسی مذہب سے مخصوص نہیں ۔ ایک اور حالیہ رپورٹ سے یہ بھی ثابت ہے کہ جرمنی بھی ایسے واقعات سے مستثنیٰ نہیں۔ لہٰذا اسلام کو عورت مخالف مذہب قرار دینا سخت نا انصافی ہے۔

جیسا کہ میں نےابھی بیان کیا ہے، اسلام تو عورت کوعزت اور توقیرکی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بلکہ اگر کوئی مرد کسی بھی عورت سے درشتی سے پیش آتا ہے، وہ اسلام کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرنےکا مرتکب ہوتاہے۔

اسلام اپنے پیروؤں سے اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے پیروؤں کےعقائد اور مذہبی جذبات کا احساس کریں۔ میثاقِ مدینہ اس تعلیم کا واضح ثبوت ہے جہاں تورات کو یہودکی شرعی کتاب کے طور تسلیم کیا گیا۔

اسلام نے تو دشمنوں اور مخالفین تک کے حقوق کے تحفظ کی تعلیم دی ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 191 میں حالتِ جنگ میں بھی مخالف کے ساتھ زیادتی کرنے کی ممانعت آئی ہے۔فرمایا:

وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ۔

افسوس کہ موجودہ دنیا میں، جو ماضی کے کسی بھی زمانہ سے زیادہ تہذیب یافتہ ہونے کی دعویدار ہے، افراد اور اقوام مخالفین کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے سخت ظالمانہ کارروائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور انتقام کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے۔

قرآن کریم کی سورۃ المائدہ کی نویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ۔

یعنی کسی قوم یا گروہ کی دشمنی تمہیں عدل اور انصاف پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور نہ کرے۔ بلکہ اسلام تو حکم دیتا ہے کہ ہر حالت میں عدل و انصاف کے اصولوں پر قائم رہا جائے اور کبھی انتقام کے جذبہ کو غالب نہ آنے دیا جائے۔

اس تعلیم کا بہترین عملی نمونہ ہمیں رحم، عفو اور درگزر کے اس بے نظیر سلوک سے ملتا ہے جس کا مظاہرہ آنحضورﷺ نےفتح ِمکہ کے موقع پرفرمایا۔تاریخ شاہد ہے کہ مکہ میں مسلمانوں پر اذیتوں اور مصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے ، ان کی جانیں لی گئیں ، انہیں بے گھر کردیا گیا۔ یہاں تک کہ انہیں ہجرت کرنا پڑی۔
لیکن جب آنحضورﷺ فاتحانہ شان سے مکہ لوٹے اور ایسے میں کہ تمام شہر آپ کے زیرِ نگین تھا، آپﷺ نے اعلان فرمایا کہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا۔اس فاتحانہ موقعہ پر آنحضورﷺ نے کمال انکساری اور بردباری کا مظاہرہ فرمایا۔

آپؐ نے اعلان فرمایا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کو فوراًمعاف کردیا جائے اور کسی کے ساتھ بھی غیر منصفانہ سلوک نہ کیا جائے، خواہ کوئی اسلام قبول کرے یا نہ کرے۔
اسلام کے ذریعہ معاشرہ کے کم زور ترین افراد کے لیے ایک اور انقلاب غلامی کے حوالہ سے آیا، جسے اسلام سے قبل جائز اور معمول کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع پیغمبرِ اسلام ﷺ نے غلامی کا خاتمہ فرمایا۔

قرآن کریم کی سورۃ النور کی چونتیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نےفرمایا کہ

وَ الَّذِیۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَکَاتِبُوۡہُمۡ اِنۡ عَلِمۡتُمۡ فِیۡہِمۡ خَیۡرًا

۔کہ اگر کوئی غلام آزادی کا تقاضا کرے تو اسے آزاد کردیا جائے۔ اگر کوئی مالی معاوضہ لینا ضروری بھی ہو تو وہ معقول اور قابلِ ادا اقساط میں لیا جائے، یا پھر معاف ہی کردیا جائے۔

جیسا کہ میں نے کہا، غلامی اس دور کے معاشرے کا ایک اٹوٹ انگ تھی اورآنحضورﷺ اس کے خاتمہ کے ذریعہ معاشرے کی روش میں ایک عظیم انقلاب لے کر آئے۔

آج ظاہری غلامی کا دور تو نہیں مگر اس کی جگہ معاشی پابندیوں اور بندشوں نے لے لی ہے۔ طاقت ور اقوام اور کم زور اقوام کا باہمی رشتہ آقا اور غلام کے تعلق کی شکل اختیار کرگیا ہے۔مثلاً امیر ممالک کی طرف سے غریب ممالک کو امداد کے نام پر دیے جانے والے قرضے ،جنہیں قبول کرنےکے علاوہ غریب ممالک کے پاس کوئی اورراستہ نہیں ہوتا، خواہ شرائط جیسی بھی ہوں۔پھر سود کی مفلوج کُن شرح ان بظاہرقلیل المدت قرضوں کو طویل المدت مصائب اورپابندیوں میں بدل دیتی ہے۔نتیجۃً مقروض ملک کے پاس غالب قوم کے سامنے جھکتے چلے جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔یہ غلامی کلیۃً غیر اخلاقی ہے۔

اسلام نے آغاز ہی سے غیر مسلموں کے حقوق بھی قائم کردیے اور مسلمانوں کو معاشرہ میں امن اور اتحاد کے قیام پر پابند کردیا۔ مثلاً قرآن کریم کی سورۃ الانعام کی آیت نمبر109 میں حکم فرمایا کہ

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۔

مسلمان مشرکین کے بتوں کو بھی برا نہ کہیں ، مبادا یہ مشرکین کو اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرنے پر اکسائے۔

پس معاشرے کو تنازعات، نفرت اور تناؤ سے محفوظ رکھنے کے لیے مسلمانوں کو ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کرنے کا حکم ہے۔

اس مختصر وقت میں مَیں نے چند نکات بیان کیے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے کس طرح انسانیت کے حقوق کو قائم فرمایا ۔ مجھے امید ہے کہ میری گذارشات سے آپ کو یہ اطمینان حاصل ہوا ہوگا کہ اسلام مغربی تہذیب یا ثقافت کے لیے خطرہ نہیں ہے۔اگر کوئی مسلمان غیر مسلموں کے حقوق کو پامال کرتا ہے تو وہ اسلامی تعلیم کی خلاف ورزی کرتا ہے یا پھر وہ اس تعلیم سے واقف ہی نہیں بلکہ اسلام کو بدنام کرنے کا موجب ہے۔

حاصلِ کلام یہ کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جو تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور اندیشہ ہے کہ یہ صورت حال مزید بگڑ جائے۔

اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ الفاظ کے نتائج دوررس ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا تہذیبوں کے تصادم کی بات کرنے کی بجائے، اور قوموں کے درمیان بلاضرورت تناؤ پیدا کرنے کی بجائے، ایک دوسرے کی مذہبی تعلیمات پر حملے کرنے سے گریز ضروری ہے۔ بجائے عقائد کے اظہار پر پابندیاں عائد کرنے کے، ہمیں یہ خیال رہنا چاہیے کہ ہم سب ایک ہی نسلِ انسانی کا حصہ ہیں، جو آج ہمیشہ سے زیادہ باہمی طور پر منسلک ہے۔مختلف رنگ و نسل اور مذہب کا احترام کرتے ہوئے ہمیں اتحاد کے قیام کی طرف توجہ کرنی چاہیے تاکہ دنیا میں دیر پا امن قائم ہوسکے۔

تاہم، موجودہ صورت حال تواس کے برعکس ہے۔ کیا مسلم اور کیا غیر مسلم، ہر قوم اپنے مفادات کو دنیا کے وسیع ترمفادات پر ترجیح دیتے ہوئے، عدل اور اخلاق کی حدیں عبور کرتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول پر کمربستہ ہے۔ماضی کے تاریک زمانوں کی طرح مخالفانہ اتحاد اور گروہ بندیاں ابھر رہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اپنی تباہی کو دعوت دینے پر مصر ہے۔

آج متعدد ممالک نے ایسے نیوکلیائی ہتھیار اور آلاتِ تباہی حاصل کر لیے ہیں جو زیر بحث تہذیب کو تباہ کردینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ہتھیار کبھی استعمال نہ ہوں گے یا غلط ہاتھوں میں نہ چلے جائیں گے؟اگر یہ نیوکلیائی ہتھیار کبھی استعمال ہوگئے، ان کے بد اثرات صرف ہم پر ہی نہیں پڑیں گے، بلکہ ہماری اولاد اور آئندہ نسلیں بھی ہمارے گناہوں کا خمیازہ بھگتیں گی۔ کئی نسلوں تک ایسے ذہنی اور جسمانی طور پر اپاہج بچے پیدا ہوں گےجن کی امنگوں اور خوابوں کے اجڑ جانے میں ان کااپنا کوئی قصور نہیں ہوگا۔

کیا ہم اپنے بعد آنے والوں کے لیے ایسا ورثہ چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔

اس لیے مذہبی، نسلی یا سیاسی اختلافات کی بنیاد پرنفرت کی چنگاریوں کو ہوا دینے کی بجائے ، ہمیں اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔

آئیے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، باہمی احترام، برداشت اور محبت کے جذبے کے ساتھ عالمی امن اور آزادیٔ مذہب کے قیام کے لیے مل کر کوشش کریں۔

ان الفاظ کے ساتھ میں ایک مرتبہ پھر اس تقریب میں شامل ہونے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
بہت شکریہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button