سیرت النبی ﷺ

دعاؤں کا رسول ﷺ

(محمد کاشف خالد۔مربی سلسلہ قادیان)

آپؐ کا ہر ایک لمحہ سراپا دعا تھا اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے

دنیا کو فتح کرنے کے لیے خدائی افواج کے سپہ سالار انبیاء کے رنگ میں اس دنیا میں آتے رہے ہیں ،ان کے پاس جو سب سے مؤثر اور کارگر ہتھیار تھا وہ دعا تھی۔چاہے وہ حضرت ابراھیمؑ کی اپنی نسل اور شہر کے لیے دعا ئیں ہوں یا مچھلی کے پیٹ میں بیٹھے یونس ؑکی دعا ئیں ہوں یا فرعون کے دربار میں جانے سے قبل موسیٰ ؑکی دعائیں ہوں یا یہود کے شکنجے میں پھنسے حضرت عیسیٰ ؑ کی مضطربانہ دعائیں ہوں، ہر ایک نبی کی دعائیں ضرور رنگ لائیں۔ لیکن ان تمام انبیاء سے افضل اور ان کے سردارحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تو زندگی ہی سراپا دعا تھی۔ پس آپﷺ کو دعائوں کا رسول کہنا بالکل بھی مبالغہ نہ ہوگا۔لیکن افسوس کہ دعائوں کے رسول کی اس امت میں سے بعض نے اس زمانہ میں دعائوں کے وجود سے ہی انکار کر دیا اور اس تعلیم سے منہ موڑ لیا ۔بالآخر اللہ تعالیٰ نے دعائوں کے رسول محمد ﷺ کے غلام کامل حضرت مسیح موعود ؑکے ذریعہ ان تمام شبہات کا ازالہ فرمایا اور ایک مرتبہ پھر اسلام کا سورج دشمنوں کی شکست پر طلوع ہوا ۔اسلامی تاریخ کے اس اہم واقعہ کو خاکسار اس مضمون میں تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کریگا ۔ و باللّٰہ التوفیق

جس طرح انسان اپنی اولاد کو دور طفلی ہی سے زبان سکھانے میں کوشاں رہتا ہےاور ہر موقع و محل کے لیے موزوں الفاظ و جملے اپنے بچوں کو تدریجاً سکھاتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کس طرح بڑوں سے کوئی چیز مانگنی ہے کیونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ دنیاوی زبان سیکھے بغیر اس کی اولاد ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح ہمارے روحانی باپ سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی روحانی اولاد کو ہر موقع و محل کے مناسب حال دعائیں سکھلائیں اور قبولیت دعا کے راز انہیں بتائے تاکہ وہ اپنے معبود حقیقی اور حاجت روا کے سامنے اپنی حاجتیں رکھ سکیں اور افضال خداوندی کے حصول کے طریق سے واقف ہو جائیں اور اللہ ربّ العزت کے اعلیٰ دربار میں اپنی فریادیں عین اس کے مقررکیے ہوئے طریق کے مطابق پیش کرکے اپنی مرادوں کو پالیں اور روحانی زبان پر عبور حاصل کرکے روحانیت کے عالی میدان میں کامیاب و کامران ہو سکیں ۔

خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی

بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی

ضلالت تھی دنیا پہ وہ چھا رہی

کہ توحید ڈھونڈےسے ملتی نہ تھی

ہوا آپ کے دم سے اس کا قیام

عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَامُ

جہاں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہےکہ ادْعُوْنِیْ اسْتَجِبْ لَکُمْ یعنی اے بندو!تم لوگ مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، انہیں دعا مانگنے کی ترغیب دلائی ،وہیں اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول اورتمام بنی نوع انسان کے لیے اسوہ کامل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے بھی اپنی امت کو تبشیر و انذار دونوں طریقوں سے دعاؤں کی اہمیت سمجھائی اور اس کے فوائد کا ذکر فرماتے ہوئے اپنی امت کو دعائیں مانگنے کی ترغیب دلائی اور فرمایا کہ

لَیْسَ شَیْءٌ اَکْرَمَ عَلَی اللّٰہ ِمِنَ الدُّعَآءِ

یعنی اللہ تعالیٰ کے دربا ر میں دعا سے بڑھ کر عزت والی کوئی چیز نہیں ہے ۔(ترمذی باب فضل الدعاء)

مَنْ لَمْ یَسْئَلِ اللّٰہَ یَغْضِبْ عَلَیْہِ

یعنی جو شخص اللہ سے دعا نہیں مانگتا اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتا ہے ۔(ترمذی ابواب الدعوات)

چنانچہ جہاں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں اور توبہ و استغفار پر خوش ہوتا ہے وہیں رسول اللہ ﷺ کے لیے بھی یہ بہت بڑی خوشی کی بات تھی کہ آپ کی روحانی اولاد دعاؤں کی راہ پر گامزن ہو جائے ۔

ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:

“کوئی بھی مسلمان جب کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ اور قطع رحمی کی بات نہ ہو تو ایسے شخص کو تین میں سے ایک چیز ضرور عطا کردی جاتی ہے :یا تو اس کی دعا فوری طور پر قبول کرلی جاتی ہے، یا اس دعا کو آخرت کے لیے محفوظ کر لیا جاتا ہے، یا اس دعا کے باعث کسی ایسی ہی آنے والی مصیبت کو ٹال دیا جاتا ہے۔ ’’

صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:

“ ہم تو پھر بہت کثرت سے دعا کریں گے؟”

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

“اللہ (کے ہاں دینے کے لیے )بہت کچھ ہے۔”

(مسند احمد ومستدرک حاکم)

چنانچہ محسن انسانیت نے ہر انسانی ضرورت ،مشکل اور کیفیت کے لیے ہمیں دعا سکھائی ہے۔ایسی دعائیں کتب احادیث و سِیر میں ہر موقع کے لیے الگ الگ اور بڑی تفصیل کے ساتھ ملتی ہیں ۔

الغرض آپؐ نے اپنی امت کو دربارالٰہی میں فریاد کرنے کا طریق سکھلانے کے واسطے پُر سوز اور جاذب اثر دعاؤں کا بے بہا ذخیرہ چھوڑا ۔ اس نعمت خداوندی کا جتنا شکر کریں کم ہے ۔

اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَ سَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ

قارئین کرام !جب ہم آپؐ کی حیات مبارکہ پر نظر ڈالتے ہیںتو عیاں ہوتا ہے کہ آپﷺ کا ہر ایک لمحہ سراپا دعا ہی تھا اور ہر موقع و محل کے مطابق آپ ﷺ خدا تعالیٰ کےحضور التجا کرتے ۔صبح اٹھتے ساتھ ہی خیر و برکت کی دعا کرتے ۔ جب کسی کو ملتے تو اسے دعا دیتے ۔کھانا شروع کرنے سے پہلے بھی رازق خدا کو یاد کرتے اور کھا نا تناول فرمانے کے بعد کی نعمت کا شکر کرنا نہ بھولتے ۔فراغت ہو یا مصروفیت ہمہ وقت آپ دعاؤں میں مشغول رہتے ۔

اسی طرح نیا کپڑا پہنتے وقت ،شیشہ دیکھتے وقت،سواری پر چڑھتے وقت ،گھر سے نکلتے اور گھر میں داخل ہوتے وقت ،بازار میں داخل ہوتےہوئے،سفر کے لیے روانہ ہوتے ہوئے ،بیت الخلا میں جاتے وقت ،نکلتے وقت اور قبرستان میں داخل ہوتے وقت دعا کرتے تھے ۔ چھینک آئے تو دعا کرتے یا کسی کو چھینکتے ہوئے دیکھ لیتے تو دعا کرتے ۔اسی طرح مختلف قسم کی برائیوں سے بچنے کے لیے خاص دعائیں فرماتے نیز دنیاوی شر اور اشیاء کی بدبختی سے بچنے کے لیے دعا کا سہارا لیتے ۔دل کی مختلف کیفیات کے لیے مختلف دعائیں کرتے۔ مومنین کی جماعت پر جب بھی کوئی خوف کی حالت آتی تو فوراً رسول اللہ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتےاور ان کی دلی تسکین کے واسطے اپنے محبوب حقیقی کے حضور فریاد کرتے ۔ آپﷺ کی دعا کے بارے قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمکہ یقیناً تیری دعا اُن کے لیے سکینت کا موجب ہوگی۔اسی طرح آپؐ کی دعائیں نصرت کو جذب کرنے کا موجب بنتیں ۔

بارش نہ ہونے پر آپ ﷺ دعا کرتے ۔اور اگر بارش کی کثرت کی وجہ سے پریشانی ہو تو دعا کرتے ۔ رزق و مال میں برکت کے لیے دعا کرتے ، لوگوں کی ہدایت کے لیے دعائیں کرتے ،بیماری سے شفایابی کے لیے ، بری نظر سے بچنے کے لیے، بُرا خواب دیکھنے پر ،بجلی کڑکنے پر، کسوف و خسوف پر ،کسی کی تیمارداری کے واسطے اور کسی کے وفات پانے پر،دعا کرتے ۔

الغرض آپﷺ کو جب بھی کسی قسم کی مصیبت کا سامنا ہوتا تو آپ ﷺ قبل اس کے کہ کسی دنیاوی تدبیر سے کام لیں، اپنے خدائے واحد کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور آپؐ کا مضطر دل جو کہ محبت الٰہی و توکل علی اللہ سے سرشار تھا بڑے ہی موزوں الفاظ کے ساتھ اپنے ولی کو مدد کے لیےبلاتا اور آپ ﷺ کا خدا بھی ضرور اپنی افواج کے ساتھ آپؐ کی مدد کے لیے میدان میں آ پہنچتا ۔

مذکورہ بالا دعاؤں کے علاوہ بھی آپ ﷺروز مرہ انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے متعدد حالات و واقعات کے مواقع پر سب سے پہلے دعاہی کرتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے ۔الغرض آپ ﷺ کا اوڑھنا بچھونا دعا ہی تھا ۔

(مزید تفصیلات کےلیے ملاحظہ ہو :بخاری و ترمذی کتاب الدعوات)

خدا اوربندےکے درمیان دعا ہی ایک کار گر وسیلہ ہے۔ دعا کے علاوہ کوئی طریق نہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کی جا سکتی ہو ۔ دعاہی رحمت خدا وندی کو جنبش دیتی ہےاور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی مدد کے لیے مادر مہربان سے بڑھ کررحم کے ساتھ آتا ہے اور کوئی بھی مشکل اور تکلیف دُور کر دیتا ہے چاہے وہ موت ہی کیوں نہ ہو۔

یہ دعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا

ساحروں کے مقابل بنا اژدہا

اے غلام مسیح الزماں ہاتھ اٹھا

موت بھی آ گئی ہو تو ٹل جائے گی

ترمذی میںحضرت سلمان فارسی ؓکی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تقدیر کو دعا کے بغیر کوئی چیز نہیں پھیر سکتی۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی انسان دعاؤں کی اہمیت کو نہیں سمجھتا اور سستی کرتا ہے تو یہ اس کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے ۔ چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

‘‘جس کےلیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی جانب سے عافیت کا مطالبہ بہت پسند ہے، اور دعا نازل شدہ و غیر نازل شدہ تکالیف سب میں یکساں فائدہ دیتی ہے، اور تقدیری فیصلوں کو دعا سے ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔پس کثرت سے دعا کیا کرو’’(ترمذی)

آپ ﷺ نے دعاکے آداب میں اس امر کو بھی ملحوظ رکھنے کی تلقین فرمائی کہ دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے قادر مطلق ہونے پر ایمان ِکامل رکھتے ہوئے دعا کی جائے ۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :

‘‘جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو اس طرح نہ کہے کہ اے اللہ!تُو اگر چا ہے تو مجھے بخش دے اور تُو چاہے تو مجھ پر اپنی رحمت فرما اور تُو چاہے تو مجھے روزی عطا فرما ۔بلکہ اپنی جناب سے پوری قطعیت اور عزم سے اللہ سے دعا مانگے اور یقین کر لے کہ بے شک وہی جو چاہے گا کرےگا ۔کوئی بھی ایسا نہیں جو اس پر زور ڈال کر اس سے اپنا کام کروا سکے ۔(صحیح بخاری)

آپ ﷺ کے ذریعہ جو بے شما ر معجزات دنیا نے دیکھے وہ بھی سب آپ ﷺ کی دعاؤں ہی کے طفیل تھا ۔نیز آپؐ کی دعائیں ہی تھیں جن کی بدولت عرب میں ایک روحانی انقلاب برپا ہوا جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اوریہ آپؐ کی دعاؤں ہی کا تو اعجاز تھا کہ عرب کے وہ لوگ جو ضلالت اور گمراہیوں کے سمندر کی گہرائیوں میں پڑے ہوئے تھے ،آسمانِ ہدایت کے درخشندہ ستارے بن گئے جن کی پیروی سے آنے والی نسلوں نے صراط مستقیم کا راستہ پکڑا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دعاؤں کے لیے آپ ﷺ ہمیشہ و ہی الفاظ استعمال نہیں فرماتے تھے بلکہ مختلف روایات میں بعض مواقع کے لیے کی گئی دعا کے مختلف الفاظ بیان ہوئے ہیں جو اس طر ف اشارہ ہے کہ آپ ﷺ کے پیش نظر محض لفاظی زبان نہ ہوتی بلکہ دعا کی اصل روح ،اپنے خالق حقیقی کو حق الیقین کے درجہ تک قادر مطلق یقین کرتے ہوئے ، اس پر کامل توکل کرتے ہوئے،اسی کی طرف جھکنا اور توحید خالص کو اپنی زندگیوں میں ڈھالنا ہوتا ۔

آپ ﷺ کو اپنی روحانی اولاد کی اس قدر فکر تھی کہ اُن کو بعض ایسی جامع دعائیں سکھلائیں جن کے مانگنے سے اللہ تعالیٰ کے تمام افضال و برکات کا احاطہ ہو سکتا تاکہ وہ جو ہر موقع پر دعاؤں میں مشغول نہیں رہتے کم از کم ان جامع دعاؤں کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ کےا فضال کے مورد بن سکیں۔ان جامع دعاؤںمیں سے ایک دعا یہ ہے :

حضرت ابو امامہ ؓکہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپؐ نے ڈھیر ساری دعائیں کی ہیں جو ہمیں یاد ہی نہیں رہیں ۔اس پر آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک جامع دُعا سکھا دیتا ہوں تم یہ یاد کر لو :

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْاَ لُکَ مِنْ خَیْرِ مَا سَئَلَکَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدﷺ،وَنعُوْ ذُ بِکَ مِنْ شَرِّمَا اسْتَعَاذَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدﷺ وَأنْتَ الْمُسْتَعَانُ ،وَ عَلَیْکَ الْبَلَاغُ۔ (ترمذی کتاب الدعوات)

ا ے اللہ !ہم تجھ سے وہ تمام خیر و بھلائی مانگتے ہیں جو تیرے نبی ﷺ نے تجھ سے مانگی اور ہم تجھ سے ان باتوں سے پناہ چاہتے ہیں جن سے تیرے نبی محمد ﷺ نے پناہ چاہی ۔تو ہی ہے جس سے مدد چاہی جاتی ہے ۔پس تیرے تک دعا کا پہنچانا لازم ہے۔

اسی طرح آپ ﷺ نے اپنی امت کو دعا کے آداب بھی سکھلائے تاکہ وہ احسن رنگ میں اپنے خالق حقیقی کے حضور اپنی مناجات کو پیش کر سکیں اور ان کی دعائیں بارگاہ ِ ایزدی میں قبولیت کے لائق قرار پائیں ۔چنانچہ احادیث میں بیان شدہ ان آداب میں سے چند بطور نمونہ پیش خدمت ہیں :

٭…بندہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرے اور ممنوعات سے دور رہے۔

٭…اخلاص اور حضورِ قلب کے ساتھ مانگے، اس بارےمیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی جانب سے قبولیت پر یقین رکھتے ہوئے اس سے مانگو، دھیان رکھنا !اللہ تعالیٰ کسی غافل اور لاپروا دل کی دعا قبول نہیں فرماتا۔(ترمذی، حاکم)

٭…اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی جائے ، اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا جائے، فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی دعا کرنےلگے تو حمد و ثنا سے ابتدا کرے ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور اس کے بعد جو چاہے اللہ سے مانگے(ترمذی)

٭…دعا کی قبولیت کےلیے جلد بازی سے کام نہ لے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہاری دعائیں اس وقت تک قبول ہوتی ہیں جب تک جلد بازی کرتے ہوئے ‘‘دعائیں تو کی ہیں لیکن قبول ہی نہیں ہوتیں!”کے الفاظ زبان پر نہ لائے(بخاری و مسلم)

٭…دعا کرنے سے قبل حسب توفیق صدقہ کرے۔

٭…دعا کے آداب میںسے ایک ادب رزقِ حلال ہے۔یعنی یہ کہ انسان کا کھانا ، پینا اورپہناہوا سب حلال ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو فرمایا:سعد!اپنا کھانا پینا حلال رکھنا مستجاب الدعوات بن جاؤ گے۔

پس ایک مومن کتنا خوش قسمت ہے کہ اس کے روحانی باپؐ نے اسے صرف اس دنیا کے متعلق ڈرا کر کہ یہ اس کے لیے ایک قید خانہ ہے ، اُسے اس دنیا کی اندھیری ،خوفناک اور مشکل راستوں والی وادی میں تنِ تنہا نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس مشفق والد نے اُس کے لیے بطور ورثہ کے ایسی دعاؤں کے بیش قیمت خزانے چھوڑے ہیں کہ جو ان اندھیروں میں مشعل راہ کا کام دیتی ہیں اور اس کے لیے آسمان سے فرشتوں کی فوج کے ذریعہ مدد کی کارروائی کرتی ہیں ۔

رسول اللہ ﷺ نے جہاں اپنی امت کو دعاؤں کی اہمیت سمجھائی اور انہیں دعاؤں کے آداب و الفاظ سکھائے وہیں آپ ﷺ نے ان کے دل میں اس بات کو بھی پختہ کرنے کی بھر پور کوشش فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ضرور دعائیں قبول کرتا ہے اور وہ اپنے نیک بندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا ۔حدیث میں بارہا ایسے الفاظ ملتے ہیں جن کے ذریعہ آپؐ مسلمانوں کو یہ یقین دلا تے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ گذشتہ انبیاء کی دعائیں سنتا تھا اسی طرح وہ ان کی دعائیں بھی سنتا ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ قبول کرتا رہے گا او ر خدا کے در کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ بندہ خود اسے اپنے اوپر بند کرلے اور خدا کے در تک ہر انسان کی رسائی ہمیشہ ممکن ہوگی اور انہیں اس در تک اپنی فریادیں پہنچانے کے لیے کسی کے واسطے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ وہ براہ راست دعا کے ذریعہ خدا تک اپنی باتیں پہنچا سکتے ہیں اور پھر خدا بندہ کے تعلق اور اخلاص کے مطابق اس سے معاملہ کرےگا اور اپنا فضل و رحم اس کے شامل حال کرکے انسان کے ناقص اعمال کے بدلہ اسے اپنی رضا سے نوازے گا ۔

جامع تر مذی اور سنن ابی داؤد میں حد یث مبارکہ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

‘‘تمہارے پرور دگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے ۔جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس کو شرم آتی ہے کہ اس کوخالی واپس کرے (یعنی کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا ضرور فیصلہ کرتا ہے)۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

‘‘جب اﷲ سے مانگو اور دعا کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ وہ ضرور قبول کرے گا اور عطا فر مائے گا، اور جان لو اور یاد رکھو کہ اﷲ اس کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل (دعا کے وقت) اﷲ سے غافل اور بے پروا ہو۔’’(جامع تر مذی)

عبادت کا مغز نماز اور نماز کا خلاصہ دعا ہے ۔چنانچہ جہاں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عبادت ِ کاملہ یعنی نماز کے لیے موزوں الفاظ اللہ سے علم پاکر بتائے وہیں آپؐ نے ہمیں مختلف ارکان نماز کے لیے مختلف دعائیں بھی سکھلائیں ۔چنانچہ آپ ؐ نے وضوکے بعد اور اذان کے بعدکی دعائیں سکھائیں ۔پھر مسجد میں داخل ہوتے وقت اور مسجد سے نکلتے وقت کے لیے دعا بتائی ۔آپؐ نے دعا کرنے کا سب سے موزوں اور مناسب وقت بھی نماز کے دوران بحالت سجدہ کو قرار دیا ۔حالت رکوع و سجود میں آپؐ جہاں خود کئی دعائیں کرتے تھے وہیںآپؐ نےاپنی امت کو اس بات کی بھی اجازت دی کہ وہ اپنی زبانوں میں بھی دعائیں کر لیا کریں۔ نماز کے ختم ہونے کے بعد بھی بعض دعا ؤںکا ورد کرتے ۔

الغرض ایک مسلمان کا دن میں پانچ مرتبہ مسجد کی طرف جانا اور واپس آنا دراصل دعاؤں کا ایک سفر ہے ۔
انسان کا اپنا وجود کچھ حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کی مثال صفر کی سی ہے ۔صفر کا وجود محض احتیاج ہے ۔صفر اپنا وجود بنانے میں کسی ہندسہ کا محتاج ہے اگر وہ کسی ہندسہ کے ساتھ تعلق قائم کر لیتا ہے تو اس کا وجود صفر سے بڑھ کر دس یا بیس یا اور کسی صورت میں ظاہر ہوگا ۔یہی حال انسان کا ہے ،اگر انسان اپنے مالک حقیقی سے تعلق قائم نہیں کرتا تو اس کی کوئی حیثیت اور قیمت نہیں رہتی اوروہ اسفل السافلین کی منز ل میں آ جائے گا لیکن اگر وہ اپنے خالق کے ساتھ تعلق قائم کر لیتا ہے تو وہ تمام مخلوقات میں سب سے اشرف اور برتر ہوگا۔ پس انسان کے لیے اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق قائم کرنا از بس ضروی ہے اور خدا سے رابطہ کا سب سے بہترین ذریعہ ‘‘دعا ’’ہے ۔دعا خدا سے ہم کلام ہونے اور اس سے راز و نیاز کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔

انسانی زندگی پر اگر ہم اس زاویہ سے بھی غور کریں کہ وہ پیدائش سے لے کر وفات تک دوسروں کا محتاج رہتا ہے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کےلیے اکثر دوسروں سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ دعا انسان کا فطری تقاضا ہے ۔ایک بچہ دنیا میں قدم رکھتے ہی اپنی ماں سے دودھ مانگتا ہے اور اپنی محتاجی کا اعلان کرتا ہے بلکہ اس سے بھی پہلے جب وہ رحم مادر میں ہوتا ہے تب بھی محتاج فی الذات ہی ہوتا ہے ۔الغرض انسان ایسے عالم میں زندگی گزار رہاہے جہاں ہر کام اسباب اور وسائل کے ذریعہ انجام پاتا ہے ۔رزق کے مختلف ذرائع ہیں وہیں شفا پانے کے لیے مختلف وسائل ،پیاس لگتی ہے تو وہ پانی کے ذریعہ بجھتی ہے ۔ لیکن ان اسباب کو مہیا کرنے والی رحیم ذات کوئی اور ہے وہ نہ چاہے تو کھیت میں ایک بھی دانہ نہ اُگے اور قابل ڈاکٹروں کی لاکھ کوششوں سے بھی مریض نہ بچ سکے ۔اور وہ قادر مطلق ذات اللہ تعالیٰ کی ہے ۔لیکن انسان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان اسباب کے پیچھے پڑ کر مسبّب الاسباب کو بھلا دیتا ہے اور اس علت العلل ذات کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ۔پس انسان کا اس قادر مطلق ذات سے تعلق تبھی کہلا سکتا ہے جب وہ اسے ہی حقیق موثر خیال کرے ۔یعنی دوا تو ڈاکٹر سے لے لیکن شفا اللہ تعالیٰ کی ذات سے طلب کرے ۔ کھیت میں محنت خود کرے لیکن رزق کی امید اللہ تعالیٰ کی ہستی سے باندھے ۔ہر چیز کا مطالبہ اس سے کرے ۔چنانچہ انسانی زندگی کے اس کمال کو حاصل کرنے کے لیے دعاؤں کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی امت کو اس موٹی مثال کے ذریعہ توجہ دلائی کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی حاجت کو خدا سے طلب کرے حتی ٰکہ اگر جوتے کے تسموں کی بھی حاجت ہو تو وہ بھی خدا سے مانگے۔

حقیقت یہی ہے جب سب کچھ دینے والی ذات اللہ ہی کی ہے اور وہی قادر مطلق اور رحیم و کریم ہے تو پھر محض اسباب پر بھروسہ کر لینا یا کمزور و ضعیف انسانوں کے آگے ہاتھ پھیلانا کتنی بڑی بیوقوفی ہے ۔کیوںنہ ہر چیز خدا ہی سے مانگی جائے جو کہ ہر چیز دینے پر قادر بھی ہےاور خود یہ تر غیب بھی دلاتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوںگا ۔اُس سے مانگنے میں کسی قسم کی شرم یا عار نہیں ہے بلکہ اس سے مانگنا اور اس سے تعلق قائم کرنا ہی تو انسانی زندگی کا عین مقصد ہے ۔

حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر

کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے

حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے دعا کو عبادت کا مغز قرار دیا ہے۔(ترمذی )یعنی دعا کے بغیر کوئی عبادت معنی نہیں رکھتی ۔اللہ تعالیٰ کی عبادت کا سب سے احسن و اکمل طریق اسلام نے ہمیں نماز کی صورت میںسکھا یا ہے ۔جس رسول کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کا اتنا خوبصورت طریقہ سکھایا ہے ،اُسی نے دعا کو عبادت کا مغز قرار دیا ہے ۔ا ب اگر کوئی مسلمان نماز تو پڑھتا ہے لیکن اس میں خدا کو مخاطب کرکے دعائیں نہیں مانگتا اور صرف طوطے کی طرح الفاظ دہرا کر نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو گویا اس کی نماز کھوکھلی بلا کی سی ہوگی ۔ اگر کوئی انسان نماز میں دعائیں نہیں مانگتا تو گویا وہ یہ جتلا رہا ہے کہ اسے کسی چیز کی حاجت نہیں اس کے پاس تو سب کچھ ہے ۔

ہمارے لیے تو اس دعاؤں کے رسولؐ نے یہ اسوہ چھوڑا ہے کہ جنگ بدر کے موقعہ پر جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتوحات کے وعدے تھے اور فرشتوں کی فوجیں مسلمانوں کی مدد کے لیے نازل کی گئی تھیں تب بھی آپ ﷺ اپنے خیمہ میں خدا کے حضور نماز میں دعاؤں میں مشغول تھے ۔اس موقعہ پر عام انسان تو یہی سوچے گا کہ جب اللہ نے فتح دینے کا وعدہ کر دیا ہے تو پھر دعاؤں کی مزید کیا ضرورت ؟لیکن ہمارے پیارے آقا ﷺ جو کہ دعاؤں کے رسول تھے آپ نے اس موقعہ پر بھی دعاؤں کے دامن کو نہیں چھوڑا ۔

پھر دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو یہ بھی خوشخبری دی تھی کہ آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف ہیں۔لیکن کیا اس کے بعد آپ ﷺ نے نمازیں پڑھنی یا استغفار کی دعائیں مانگنی بند کر دیں ؟ ہر گز نہیں ۔تاریخ گوا ہ ہے کہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک آپ ﷺ کو جس چیز کی سب سے زیادہ فکر تھی وہ نماز تھی۔آپؐ نے اپنی زندگی کی آخری گھڑیوںتک دعاؤں کے دامن کو تھامے رکھا ۔

آپ ﷺ کی زندگی کے آخری ایام پر نظر ڈالیں ۔بستر مرگ پر بھی آپ ﷺ کو اگر کسی چیز کی فکر لاحق ہوتی ہے تو وہ نماز ہے ۔پیارے آقا ﷺ شدید بخار میں مبتلا تھے مگر گھبراہٹ کے عالم میں بھی بار بار پوچھتے ہیں ،کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ بتایا گیا کہ لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔بخار ہلکا کرنے کے لیے فرمایا کہ میرے اوپر پانی کامشکیز ہ ڈالو ۔تعمیل ارشاد ہوئی مگر پھر غشی طاری ہوگئی ۔ہوش آیا تو پھر پوچھا کہ کیا نماز ہو گئی ؟ مسجد جانے کی طاقت نہیں تھی ۔دو صحابہ آپ ﷺ کو کندھوں سے سہارا دے کر مسجد لے کر جاتے ہیں ۔کمزوری کے مارے پائوں زمین پر گھسٹتے چلے جاتے ہیں ۔لیکن قربان جائیں وجۂ تخلیق کائنا ت پر کہ اس حالت میں بھی آپؐ کے دل میں نماز باجماعت کے لیے تڑپ ذرہ بھر بھی کم نہیں ہوئی ۔

یہ حالت اس شخص کی ہے جس کے متعلق خالق ارض و سما نے یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ آپؐ کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف ہیں۔ ذرا سوچیےاور غور کیجیےکہ پھر ہم گناہ گاروں کو کس قدر نماز باجماعت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ؟

حیران کن بات تو یہ ہے وہ رسول جس نے اپنی امت کو یہ نصیحت فرمائی تھی کہ اگر تمہیں اپنے جوتوں کے لیے تسمہ کی حاجت ہو تو وہ بھی اپنے خدا ہی سے دعا کرکے مانگنا،وہ نبی جس کی صبح دعا سے شروع ہوتی تھی اور دعا پر ہی رات ختم ہوتی تھی اور جس کی پاکیزہ سیرت قبولیت دعا کے سینکڑوں خوبصورت نمونوں سے بھری پڑی ہے، اُس نبی و رسول کی اُمّت پر ایسا دَور بھی آیا جب ان میں سے بعض ایسے علماء پیدا ہوئے جنہوں نے دعا کی افادیت و ضرورت سے ہی انکار کر دیا اور دبے الفاظ میں اس کی مخالفت شروع کر دی اور اسے محض دل کو بہلانے کا ذریعہ قراردے دیا۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون

اس عقیدہ کو جری اللہ اور سلطان القلم حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود ؑنے قلم کے وار سے پاش پاش کر دیا اور نہ صرف قبولیت دعا کے متعلق پیدا ہونے والے تمام شبہات کا ازالہ فرمایا بلکہ قبولیت دعا کے متعلق امت کو حق الیقین کے درجہ تک پہنچانے کے لیے اپنی دعا کے بارِ الٰہی میں مقبول ہونے کا نشان دکھانے کی بھی دعوت دی اور واضح فرما دیا کہ مَیں ایسی غلطیوں کے نکالنے کے لیے مامور ہوں۔ (مزید تفصیل کے لیے حضرت مسیح موعود ؑ کی کتاب ‘‘برکات الدعا ’’ملاحظہ ہو)

آخر پر امام الزمان ؑ کا دعاؤں کے متعلق ایک اقتباس پیش خدمت ہے جو کہ نہ صرف اپنے اندازِ بیان کے لحاظ سے حسین و جمیل ہے بلکہ قبولیت دعا کے موضوع پر بھی ایک جامع اور قاطع دلیل ہے جوقیامت تک منکرین دعا کےتمام اوہام و شبہات کوختم کردےگی۔ آپؑ نےفرمایا:

‘‘وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔ او رآنکھوں کے اندھے بینا ہوئے۔ اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے۔ اور دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہؤا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا ۔اور نہ کسی کان نے سُنا ۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیاتھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیںجنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا۔اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اللھم صل و سلم و بارک علیہ وآلہ بعدد ھمہ و غمہ وحزنہ لھٰذہ الا مۃ و انزل علیہ انوار رحمتک الی الابد۔اورؔ میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دُعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے۔ بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دُعا ہے ۔’’

(برکات الدعا ، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 10)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو رسو ل کریم ﷺ کی ان دعاؤں کا وارث بنائے جو آپؐ نے اپنی امت کے لیے کیںنیز ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم آپ ﷺ کے اسوہ کاملہ کی پیروی کرنے والے بنیں اور اس زمانہ کے امام کی جماعت میں شامل ہونے کا حق بجا لانے والے بنیں ۔آمین ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button