خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 07؍فروری2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، یوکے

اسلام میں خدا کے ساتھ شرک کرنے اوروالدین کے حقوق تلف کرنے کے بعد تیسرے نمبر پر جھوٹ بولنے کا گناہ سب سے بڑا ہے۔ …

ایمان اوربزدلی ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں مگر ایمان اورجھوٹ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے …

جو شخص غداری کرتا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے سخت عتاب کے نیچے ہو گا

اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ

سلطنتِ مدینہ کے خلاف غدّاری کے مرتکب، مسلمانوں کے خلاف عہد شکنی، تحریکِ جنگ، فتنہ انگیزی ،فُحش گوئی اورسازش ِقتل وغیرہ کی کارروائیوں میں ملوّث خبیث باطن یہودی سردار کعب بن اشرف کے قتل اور اس کی وجوہات کا تفصیلی بیان

کعب کے قتل پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے مدلّل جوابات

حدیثِ مبارکہ اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ کی لطیف تشریح

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 07؍فروری2020ء بمطابق 07؍تبلیغ 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، (سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج جن صحابی کا ذکر ہو گا ان کا نام ہے حضرت محمد بن مسلمہ انصاریؓ۔ حضرت محمد کے والد کا نام مسلمہ بن سلمہ تھا۔ ان کے دادا کا نام سلمہ کے علاوہ خالد بھی بیان کیا گیا ہے اور ان کی والدہ ام سہم تھیں جن کا نام خلیدة بنت ابو عبیدة تھا۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس سے تھا اور قبیلہ عبد اشھل کے حلیف تھے۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ کی کنیت ابوعبداللہ یا ابو عبدالرحمٰن اور ابوسعید بھی بیان کی جاتی ہے۔ علامہ ابن حجر کے نزدیک ابوعبداللہ زیادہ صحیح ہے۔ ایک قول کے مطابق آپؓ بعثتِ نبوی سے بائیس سال پہلے پیدا ہوئے اور ان لوگوں میں سے تھے جن کا نام جاہلیت میں ‘‘محمد’’ رکھا گیا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 338 محمد بن مسلمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(الاصابہ جلد 6 صفحہ 28 محمد بن مسلمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
(اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 106 محمد بن مسلمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

مدینے کے یہود اُس نبی کے منتظر تھے جس کی بشارت حضرت موسیٰؑ نے دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس مبعوث ہونے والے نبی کا نام ‘محمد’ ہو گا۔ جب اہلِ عرب نے یہ بات سنی تو انہوں نے اپنے بچوں کے نام محمد رکھنا شروع کر دیے۔ سیرت النبیؐ پر مشتمل کتب میں جن افراد کا نام زمانہ جاہلیت میں بطور تفاؤل کے محمد رکھا گیا ان کی تعداد تین سے لے کر پندرہ تک بیان کی گئی ہے۔ علامہ سُہَیلی جو سیرت ابن ہشام کے شارح ہیں انہوں نے تین افراد کے اسماء لکھے ہیں جن کا نام محمد تھا۔ علامہ ابن اثیر نے چھ افراد کے نام لکھے ہیں جبکہ عبدالوہاب شعرانی نے ان کی تعداد چودہ درج کی ہے۔ معلومات کے لیے یہ پندرہ نام یا چند نام جو ہیں یہ بتا بھی دیتا ہوں۔ ان میں ہیں محمد بن سفیان، محمد بن اُحَیْحَہ، محمد بن حُمْرَان، محمد بن خُزَاعِی، محمد بن عدی ، محمد بن اسامہ، محمد بن بَراء، محمد بن حارث ، محمد بن حِرمَازْ، محمد بن خَولِی، محمد بن یَحْمَدِی، محمد بن زید، محمد بن اُسیدی اور محمد فُقَیْمِی اور حضرت محمد بن مسلمہ (شامل) ہیں۔

(محمد رسول اللہ والذین معہٗ از عبدالحمید جودہ السحار جلد 2 صفحہ 111-112مکتبۃ مصر )
(روض الانف شرح ابن ہشام از علامہ سہیلی جلد 1 صفحہ 280 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
(اسد الغابۃ لابن اثیر جلد 5 صفحہ72 محمد بن احیحة، دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
( کشف الغمة عن جمیع الامۃ للشعرانی جزء اول صفحہ283-284 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1998ء) (الاصابہ جلد 6 صفحہ 28 محمد بن مسلمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)

حضرت محمد بن مسلمہؓ قدیم اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ آپؓ حضرت مُصْعَب بن عُمیرؓ کے ہاتھ پر حضرت سعد بن معاذؓ سے پہلے اسلام لائے۔ جب حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آپؓ کے ساتھ مؤاخات قائم فرمائی۔ آپؓ ان صحابہ میں شامل تھے جنہوں نے کعب بن اشرف اور ابورافع سلّام بن ابو حُقَیق کو قتل کیا تھا۔ یہ دونوں وہ فتنہ پرداز تھے جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے اور اسی کوشش میں ہوتے تھے بلکہ مسلمانوں پہ حملہ بھی کروانے کی کوشش کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پھر ان کے قتل پر مقرر کیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض غزوات کے موقعے پر ان کو مدینہ پر نگران بھی مقرر فرمایا۔

حضرت محمد بن مسلمہؓ کے بیٹے جعفر، عبداللہ ، سعد، عبدالرحمٰن اور عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ غزوۂ بدر، غزوۂ احد اور اس کے بعد سوائے غزوۂ تبوک کے تمام غزوات میں شریک ہوئے کیونکہ غزوۂ تبوک میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مدینے میں ٹھہرنے کے لیے پیچھے رہ گئے تھے۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد6صفحہ28،29محمد بن مسلمہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
(شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 511 حدیث بنی نضیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ دو فتنہ پرداز اور اسلام کے مخالفین کے قتل میں حضرت محمد بن مسلمہؓ شامل تھے۔اس کی کچھ تفصیل تو ڈیڑھ سال پہلے حضرت عبادہ بن بشرؓ کے حوالے سے بیان کر چکا ہوں۔ تاہم کچھ باتیں مختصر بیان کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ کچھ اور تفصیل بھی ہے۔ سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے کعب بن اشرف کے قتل کے ضمن میں یہ لکھا ہے کہ

بدر کی جنگ نے جس طرح مدینے کے یہودیوں کی دلی عداوت کو ظاہر کردیا تھا اور وہ مخالفت میں بڑھ گئے تھے۔ اپنی شرارتوں اور فتنہ پردازیوں میں ترقی کرتے گئے۔ چنانچہ کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ اسی کی ایک کڑی ہے۔ کعب گو مذہباً یہودی تھا لیکن دراصل یہودی النسل نہ تھا بلکہ عرب تھا۔ اس کا باپ اشرف بنونَبْہَان کا ایک ہوشیار اورچلتا پرزہ آدمی تھا۔ مدینہ میں آکر بنو نضیر کے ساتھ تعلقات پیدا کیے اور ان کا حلیف بن گیا۔ بالآخر اس نے اتنا اقتدار اوررسوخ پیدا کر لیا کہ قبیلہ بنونضیرکے رئیس اعظم ابورافع بن ابی الحقیق نے اپنی لڑکی اسے رشتہ میں دے دی اور اس کے بطن سے کعب پیدا ہوا جس نے بڑے ہوکر اپنے باپ سے بھی بڑھ کر رتبہ حاصل کیا۔ حتیٰ کہ بالآخر اسے یہ حیثیت حاصل ہوگئی کہ تمام عرب کے یہودی اسے گویا اپنا سردار سمجھنے لگے۔ اخلاقی نقطۂ نگاہ سے وہ ایک نہایت گندے اخلاق کا آدمی تھا اورخفیہ چالوں اور ریشہ دوانیوں کے فن میں اسے بڑا کمال حاصل تھا۔نیکی تو اس کے پاس بھی نہیں پھٹکی تھی۔ پس کمال تھا اس کا برائیوں میں، بدیوں میں، لڑانے میں، فساد پیدا کرنے میں، فتنہ پیدا کرنے میں۔ بہرحال جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں ہجرت کرکے تشریف لائے توکعب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اس معاہدے میں شرکت اختیار کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اورامن وامان اور مشترکہ دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا مگراندر ہی اندر کعب کے دل میں بغض وعداوت کی آگ سلگنے لگ گئی اوراس نے خفیہ چالوں اور خفیہ ساز باز سے اسلام اور بانیٔ اسلام کی مخالفت شروع کر دی۔ کعب کی مخالفت زیادہ خطرناک صورت اختیار کر گئی۔اپنی مخالفت اور فتنہ پردازیوں میں بڑھتا ہی چلا گیا اور بالآخر جنگِ بدر کے بعد تو اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اور فتنہ انگیز تھا اورجس کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک حالات پیدا ہو گئے۔

جب بدر کے موقعے پر مسلمانوں کوایک غیر معمولی فتح نصیب ہوئی اور رؤسائے قریش اکثر مارے گئے تواس نے سمجھ لیا کہ اب یہ نیا دین یونہی مٹتا نظر نہیں آتا۔ پہلے تو خیال تھا یہ نیا دین ہے ختم ہو جائے گا۔ خود ہی اپنی موت مر جائے گا لیکن جب اسلام کی ترقی دیکھی، بدر کے جنگ کے نتائج دیکھے تو پھر اس کو خیال پیدا ہوا کہ یہ اس طرح نہیں مٹے گا۔ چنانچہ بدر کے بعد اس نے اپنی پوری کوشش اسلام کے مٹانے اورتباہ وبرباد کرنے میں صرف کردینے کا تہیہ کر لیا۔

جب کعب کو یہ یقین ہوگیا کہ واقعی بدر کی فتح نے اسلام کووہ استحکام دے دیا ہے جس کا اسے وہم وگمان بھی نہ تھا تووہ غیض وغضب سے بھر گیا اور فوراً سفر کی تیاری کرکے اس نے مکے کی راہ لی اوروہاں جاکر اپنی چرب زبانی اورشعر گوئی کے زور سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ کو اَور شعلہ بارکر دیا، بھڑکا دیا اوران کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کردی اوران کے سینے جذباتِ انتقام وعداوت سے بھر دیے۔ اورجب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک اتنہائی درجے کی بجلی پیدا ہوگئی تواس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جا کر اورکعبہ کے پردے ان کے ہاتھوں میں دے دے کر ان سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اور بانیٔ اسلام کو صفحہ دنیا سے ملیا میٹ نہ کردیں گے اس وقت تک چین نہیں لیں گے۔

اس کے بعد اس بدبخت نے دوسرے عرب قبائل کا رخ کیا اورقوم بقوم پھرکر مسلمانوں کے خلاف لوگوں کوبھڑکایا۔ اورپھر مدینے میں واپس آکر مسلمان خواتین پر تشبیب کہی۔ یعنی اپنے جوش دلانے والے اشعار میں نہایت گندے اورفحش طریق پر مسلمان خواتین کاذکر کیا۔ حتیٰ کہ خاندانِ نبوت کی عورتوں کوبھی اپنے ان اوباشانہ اشعار کانشانہ بنانے سے دریغ نہیں کیا اورملک میں ان اشعار کاچرچا کروایا۔ بہرحال آخر پھر اس نے یہ کوشش بھی کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی اور آپ کوکسی دعوت وغیرہ کے بہانے سے اپنے مکان پر بلا کر چندنوجوان یہودیوں سے آپ کو قتل کروانے کا منصوبہ باندھا مگر خدا کے فضل سے وقت پر اطلاع ہوگئی اوراس کی یہ سازش کامیاب نہیں ہوئی۔

جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اورکعب کے خلاف عہدشکنی، بغاوت، تحریکِ جنگ، فتنہ پردازی، فحش گوئی اورسازش قتل کے الزامات پایۂ ثبوت کوپہنچ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس بین الاقوامی معاہدے کی رو سے جو آپ کے مدینے میں تشریف لانے کے بعد اہالیانِ مدینہ سے ہوا تھا مدینےکی جمہوری سلطنت کے صدر اور حاکمِ اعلیٰ تھے تو آپؐ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ کعب بن اشرف اپنی کارروائیوں کی وجہ سے واجب القتل ہے ۔ چونکہ اس وقت کعب کی فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے مدینے کی فضا ایسی ہورہی تھی کہ اگر اس کے خلاف باضابطہ طورپر اعلان کرکے اسے قتل کیا جاتا تومدینے میں ایک خطرناک خانہ جنگی شروع ہو جانے کااحتمال تھا جس میں نہ معلوم کتنا کشت وخون ہوتا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرممکن اور جائز قربانی کرکے بین الاقوامی کشت وخون کو روکنا چاہتے تھے۔ آپؐ نے یہ ہدایت فرمائی کہ کعب کو برملا طور پر، کھلے طور پر قتل نہ کیا جاوے بلکہ چند لوگ خاموشی کے ساتھ کوئی مناسب موقع نکال کر اسے قتل کر دیں اوریہ ڈیوٹی آپؐ نے قبیلہ اوس کے ایک مخلص صحابی محمد بن مسلمہؓ کے سپرد فرمائی اورانہیں تاکید فرمائی کہ جو طریق بھی اختیار کریں قبیلہ اوس کے رئیس سعد بن معاذؓ کے مشورے سے کریں۔ محمد بن مسلمہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! خاموشی کے ساتھ قتل کرنے کے لیے توکوئی بات کہنی ہو گی یعنی کوئی عذر وغیرہ بنانا پڑے گاجس کی مدد سے کعب کو اس کے گھر سے نکال کرکسی محفوظ جگہ میں قتل کیا جا سکے۔ آپؐ نے ان عظیم الشان اثرات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو اس موقعے پر ایک خاموش سزا کے طریق کو چھوڑنے سے پیدا ہوسکتے تھے فرمایا کہ ‘اچھا’۔ چنانچہ محمد بن مسلمہؓ نے سعد بن معاذؓ کے مشورے سے ابونَائِلہؓ اور دو تین اَورصحابیوں کو اپنے ساتھ لیا اور کعب کے مکان پر پہنچے اور کعب کو اس کے اندرونِ خانہ سے بلاکر کہا کہ ہمارے صاحب یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے صدقہ مانگتے ہیں اورہم تنگ حال ہیں۔ کیا تم مہربانی کرکے ہمیں کچھ قرض دے سکتے ہو؟ یہ بات سن کر کعب خوشی سے کود پڑا اور کہنے لگاکہ واللہ! ابھی کیا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب تم اس شخص سے بیزار ہوکر اسے چھوڑ دو گے۔ محمد بن مسلمہؓ نے جواب دیا۔ خیر ہم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اختیار کرچکے ہیں جس کام کے لیے تمہارے پاس آئے ہیں تم یہ بتاؤ کہ قرض دوگے یا نہیں؟ کعب نے کہا ہاں مگر کوئی چیز رہن رکھو۔ محمدؓ نے پوچھا کیا چیز؟ اس بدبخت نے جواب دیاکہ اپنی عورتیں رہن رکھ دو۔ محمدؓ نے غصےکو دبا کرکہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمہارے جیسے آدمی کے پاس ہم اپنی عورتیں رہن رکھ دیں۔ اس نے کہا اچھا توپھر بیٹے سہی۔ محمد بن مسلمہؓ نے جواب دیا کہ یہ بھی ناممکن ہے۔ ہم سارے عرب کا طعن اپنے سر پر نہیں لے سکتے۔ البتہ اگرتم مہربانی کرو توہم اپنے ہتھیار رہن رکھ دیتے ہیں۔ کعب راضی ہوگیا اورمحمد بن مسلمہؓ اوران کے ساتھی رات کو آنے کا وعدہ دے کر واپس چلے آئے اور جب رات ہوئی تو یہ پارٹی ہتھیار وغیرہ ساتھ لے کر کعب کے مکان پر پہنچے کیونکہ اس وقت کھلے طور پر ہتھیار لا سکتے تھے جو معاہدے کے مطابق دینا تھا اوراسے گھر سے نکال کر باتیں کرتے کرتے ایک طرف کولے گئے اور تھوڑی دیر بعد چلتے چلتے محمد بن مسلمہؓ یاان کے کسی ساتھی نے کسی بہانے سے کعب کے سر پر ہاتھ ڈالا اور نہایت پھرتی کے ساتھ اس کے بالوں کو مضبوطی سے قابو کرکے اپنے ساتھیوں کو آواز دی کہ مارو۔ صحابہؓ نے جو پہلے سے تیار تھے۔ ہتھیار بند تھے، فوراً تلواریں چلا دیں اور بالآخر کعب قتل ہوکر گرا۔ محمد بن مسلمہؓ اوران کے ساتھی وہاں سے رخصت ہوکر جلدی جلدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور آپؐ کو اس قتل کی اطلاع دی۔

جب کعب کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو شہر میں ایک سنسنی پھیل گئی اور یہودی لوگ سخت جوش میں آ گئے اور دوسرے دن صبح کے وقت یہودیوں کاایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سردار کعب بن اشرف اس طرح قتل کردیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن کر فرمایا کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کعب کس کس جرم کا مرتکب ہوا ہے؟ اور پھر آپؐ نے اجمالاً ان کو کعب کی عہد شکنی اورتحریکِ جنگ اورفتنہ انگیزی اورفحش گوئی اورسازش ِقتل وغیرہ کی کارروائیاں یاد دلائیں جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہو گئے۔ انہوں نے مزید شور نہیں مچایا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہیے کہ کم از کم آئندہ کے لیے ہی امن اورتعاون کے ساتھ رہو اور عداوت اور فتنہ وفساد کابیج نہ بوؤ۔ چنانچہ یہود کی رضامندی کے ساتھ آئندہ کے لیے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اور یہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن وامان کے ساتھ رہنے اور فتنہ وفساد کے طریقوں سے بچنے کا ازسرِنَو وعدہ کیا۔

اگر کعب مجرم نہ ہوتا تو یہودی کبھی اتنی آسانی سے نیا معاہدہ نہ کرتے اور اس کے قتل پر خاموش بھی نہ رہتے۔ بہرحال یہ نیا معاہدہ انہوں نے کیا کہ آئندہ ہم امن سے رہیں گے۔ تاریخ میں کسی جگہ بھی مذکور نہیں کہ اس کے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کرکے مسلمانوں پرالزام عائد کیا ہو کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے۔

کعب بن اشرف کے قتل پر بعض مغربی مؤرخین نے بہت کچھ لکھا ہے اور اس قتل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن پرایک بدنما دھبے کے طور پر ظاہر کر کے اعتراضات جمائے ہیں ۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اول تو یہ کہ آیا یہ قتل فی ذاتہٖ ایک جائز فعل تھا یا نہیں؟ دوسرے آیا جو طریق اس کے قتل کے واسطے اختیار کیا گیا وہ جائز تھا یا نہیں؟

امرِ اول کے متعلق تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کعب بن اشرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باقاعدہ امن وامان کا معاہدہ کر چکا تھا اور مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنا تو درکنار رہا اس نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ ہربیرونی دشمن کے خلاف مسلمانوں کی امداد کرے گا اور مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے گا۔ اس نے اس معاہدے کی رو سے یہ بھی تسلیم کیاتھا کہ جو رنگ مدینے میں جمہوری سلطنت کاقائم کیا گیا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدر ہوں گے اورہرقسم کے تنازعات وغیرہ میں آپؐ کا فیصلہ سب کے لیے واجب القبول ہو گا۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسی معاہدے کے ماتحت یہودی لوگ اپنے مقدمات وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور آپؐ ان میں احکام جاری فرماتے تھے۔
اگران حالات کے ہوتے ہوئے کعب نے تمام عہدوپیمان کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں سے بلکہ حق یہ ہے کہ حکومتِ وقت سے غداری کی اورمدینے میں فتنہ وفساد کا بیج بویا اورملک میں جنگ کی آگ مشتعل کرنے کی کوشش کی اورمسلمانوں کے خلاف قبائل عرب کو خطرناک طورپر ابھارا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے کیے تو ان حالات میں کعب کا جرم بلکہ بہت سے جرموں کا مجموعہ ایسا نہ تھا کہ اس کے خلاف کوئی تعزیری قدم نہ اٹھایا جاتا ؟کیا یہ قتل سے کم کوئی اور سزا تھی جو یہود کی اس فتنہ پردازی کے سلسلے کوروک سکتی؟ کیا آج کل مہذب کہلانے والے ممالک میں بغاوت اورعہد شکنی اوراشتعالِ جنگ اورسازشِ قتل کے جرموں میں مجرموں کوقتل کی سزا نہیں دی جاتی؟

مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ اب جو سوال اٹھتا ہے وہ قتل کے طریق سے تعلق رکھتا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے قتل کا طریق کیا تھا؟ جائز تھا کہ نہیں؟ یعنی سوال یہ ہے کہ قتل کا طریق کیسا تھا؟ اس سے تعلق رکھنے والا سوال ہے۔

اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ عرب میں اس وقت کوئی باقاعدہ سلطنت نہ تھی بلکہ ہرشخص اورہرقبیلہ آزاد اور خود مختار تھا۔ ایسی صورت میں وہ کون سی عدالت تھی جہاں کعب کے خلاف مقدمہ دائر کر کے باقاعدہ قتل کا حکم حاصل کیا جاتا؟ کیا یہود کے پاس اس کی شکایت کی جاتی جن کا وہ سردار تھا اور جو خود مسلمانوں کے خلاف غداری کرچکے تھے اور آئے دن فتنے کھڑے کرتے رہتے تھے؟ کیا مکے کے قریش کے سامنے مقدمہ پیش کیا جاتا جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے؟ کیا قبائل سُلَیم وغَطْفَان سے دادرسی چاہی جاتی جو گذشتہ چند ماہ میں تین چار دفعہ مدینے پر چھاپہ مارنے کی تیاری کرچکے تھے؟

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ پھر سوچو کہ مسلمانوں کے لیے سوائے اس کے وہ کون سا راستہ کھلا تھا کہ جب ایک شخص کی اشتعال انگیزی اور تحریکِ جنگ اور فتنہ پردازی اور سازشِ قتل کی وجہ سے اس کی زندگی کو اپنے لیے اورملک کے امن کے لیے خطرناک پاتے توخود حفاظتی کے خیال سے موقع پاکر اسے خود قتل کردیتے کیونکہ یہ بہت بہتر ہے کہ ایک شریر اور مفسد آدمی قتل ہو جائے بجائے اس کے کہ بہت سے پرامن شہریوں کی جان خطرے میں پڑے اور ملک کا امن برباد ہو۔

یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اس معاہدے کی روسے جو ہجرت کے بعد مسلمانوں اوریہود کے درمیان ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوایک معمولی شہری کی حیثیت حاصل نہ تھی بلکہ آپؐ اس جمہوری سلطنت کے صدر قرار پائے تھے جومدینے میں قائم ہوئی تھی اور آپؐ کویہ اختیار دیا گیا تھا کہ جملہ تنازعات اور امورِ سیاسی میں جو فیصلہ مناسب خیال کریں صادر فرمائیں۔ پس آپؐ نے ملک کے امن کے مفاد میں کعب کی فتنہ پردازی کی وجہ سے اسے واجب القتل قرار دیا۔

پس اس فیصلۂ قتل پر کوئی اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔ پھر تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ خود یہود نے کعب کی اس سزا کو اس کے جرموں کی روشنی میں واجبی سمجھ کر خاموشی اختیار کی اوراس پر اعتراض نہیں کیا اوراگریہ اعتراض کیا جاوے کہ ایسا کیوں نہیں کیا گیا کہ قتل کا حکم دینے سے پہلے یہود کو بلا کران کو کعب کے جرم سنائے جاتے اورحُجت پوری کرنے کے بعد اس کے قتل کا باقاعدہ اوربرملا طور پر حکم دیا جاتا تواس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت حالات ایسے نازک ہورہے تھے کہ ایسا طریق اختیار کرنے سے بین الاقوامی پیچیدگیوں کے بڑھنے کا سخت خطرہ تھااورکوئی تعجب نہ تھا کہ مدینے میں ایک خطرناک سلسلہ کشت وخون اورخانہ جنگی کا شروع ہو جاتا۔ پس ان کاموں کی طرح جو جلد اورخاموشی کے ساتھ ہی کر گزرنے سے فائدہ مند ہوتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امنِ عامہ کے خیال سے یہی مناسب سمجھا کہ خاموشی کے ساتھ کعب کی سزا کا حکم جاری کردیا جائے مگر اس میں قطعاً کسی قسم کے دھوکے کا دخل نہ تھا اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشا تھا کہ یہ سزا ہمیشہ کے لیے بصیغۂ راز رہے کیونکہ جونہی یہود کا وفد دوسرے دن صبح آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً بلاتوقف انہیں ساری سرگزشت سنا دی اور اس فعل کی پوری پوری ذمہ داری اپنے اوپر لے کر یہ ثابت کر دیا کہ اس میں کوئی دھوکے وغیرہ کا سوال نہیں ہے اور یہودیوں کو یہ بات واضح طور پر بتا دی کہ فلاں فلاں خطرناک جرموں کی بنا پر کعب کے متعلق یہ سزا تجویز کی گئی تھی جو میرے حکم سے جاری کی گئی ہے۔

باقی رہا یہ اعتراض کہ اس موقعے پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو جھوٹ اور فریب کی اجازت دی۔ سو یہ بالکل غلط ہے اورصحیح روایات اس کی مکذب ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعاً جھوٹ اورغلط بیانی کی اجازت نہیں دی بلکہ بخاری کی روایت کے بموجب جب محمد بن مسلمہؓ نے آپؐ سے یہ دریافت کیا کہ کعب کو خاموشی کے ساتھ قتل کرنے کے لیے توکوئی بات کہنی پڑے گی تو آپؐ نے ان عظیم الشان فوائد کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو خاموش سزا کے محرک تھے جو اب میں صرف اس قدر فرمایا کہ ‘ہاں’ اور اس سے زیادہ اس موقعے پر آپؐ کی طرف سے یامحمد بن مسلمہؓ کی طرف سے قطعاً کوئی تشریح یاتوضیح نہیں ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاصرف یہ مطلب تھا کہ محمد بن مسلمہؓ اوران کے ساتھی جو کعب کے مکان پر جاکر اسے باہر نکال کرلائیں گے تواس موقعےپر انہیں لازماً کوئی ایسی بات کہنی ہوگی جس کے نتیجے میں کعب رضامندی اورخاموشی کے ساتھ گھر سے نکل کران کے ساتھ آجاوے اوراس میں ہرگز کوئی قباحت نہیں ہے۔ آخر جنگ کے دوران میں جاسوس وغیرہ جواپنے فرائض ادا کرتے ہیں ان کو بھی تو اسی قسم کی باتیں کہنی پڑتی ہیں جس پر کبھی کسی عقل مند کو اعتراض نہیں ہوا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کادامن تو بہرحال پاک ہے۔ باقی رہا محمد بن مسلمہؓ وغیرہ کا معاملہ جنہوں نے وہاں جاکر عملاً اس قسم کی باتیں کیں۔ سوان کی گفتگو میں بھی درحقیقت کوئی بات خلاف اخلاق نہیں ہے۔ انہوں نے حقیقتاً کوئی غلط بیانی نہیں کی البتہ اپنے مشن کی غرض وغایت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ ذومعنیین الفاظ ضرور استعمال کیے۔ مختلف معنی نکلنے والے الفاظ استعمال کیے مگر ان کے بغیر چارہ نہیں تھا اور حالاتِ جنگ میں ایک اچھی اورنیک غرض کے ماتحت سادہ اورصاف گوئی کے طریق سے اس قدرخفی انحراف ہرگز کسی عقل مند دیانت دار شخص کے نزدیک قابل اعتراض نہیں ہوسکتا۔

اب یہ سوال بھی بعضوں نے اٹھایا کہ کیا جنگ میں جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا جائز ہے؟ بعض روایتوں میں یہ مذکور ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ یعنی جنگ توایک دھوکا ہے اوراس سے نتیجہ یہ نکالاجاتا ہے کہ نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جنگ میں دھوکے کی اجازت تھی۔ حالانکہ اول تو اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جنگ میں دھوکا کرنا جائز ہے بلکہ اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ جنگ خود ایک دھوکا ہے۔ یعنی جنگ کے نتیجے کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہو گا۔ یعنی جنگ کے نتیجے پر اتنی مختلف باتیں اثرڈالتی ہیں کہ خواہ کیسے ہی حالات ہوں نہیں کہا جا سکتا کہ نتیجہ کیا ہو گا اوران معنوں کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ حدیث میں یہ روایت دو طرح سے مروی ہے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ یعنی جنگ ایک دھوکا ہے۔ اوردوسری روایت میں یہ ہے کہ سَمَّی الْحَرْبَ خُدْعَۃً یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کانام دھوکا رکھا تھا ۔سَمَّی الْحَرْبَ خُدْعَۃً۔ اور دونوں کے ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپؐ کامنشا یہ نہیں تھا کہ جنگ میں دھوکا کرنا جائز ہے بلکہ یہ تھا کہ جنگ خود ایک دھوکا دینے والی چیز ہے لیکن اگرضرور اس کے یہی معنے کیے جائیں کہ جنگ میں دھوکا جائز ہے توپھر بھی یقیناً اس جگہ دھوکے سے جنگی تدبیر اورحیلہ مراد ہے۔ جھوٹ اورفریب ہرگز مراد نہیں ہے کیونکہ اس جگہ خُدْعَةٌ کے معنے داؤ پیچ اورتدبیرِ جنگ کے ہیں ،جھوٹ اور فریب کے نہیں ہیں۔ پس مطلب یہ ہے کہ جنگ میں اپنے دشمن کو کسی حیلے اور تدبیر سے غافل کرکے قابو میں لے آنا یا مغلوب کر لینا منع نہیں ہے۔

اب داؤ پیچ کی بھی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مہم میں نکلتے تو عموماً اپنا منزلِ مقصود ظاہر نہیں فرماتے تھے اوربعض اوقات ایسا بھی کرتے تھے کہ جانا تو جنوب کی طرف ہوتا تھا مگر شروع شروع میں شمال کی طرف رخ کر کے روانہ ہوجاتے تھے اورپھر چکر کاٹ کر جنوب کی طرف گھوم جاتے تھے یا کبھی کوئی شخص پوچھتا تھا کہ کدھر سے آئے ہو توبجائے مدینے کا نام لینے کے قریب یا دور کے پڑاؤ کانام لے دیتے تھے یا اسی قسم کی کوئی اور جائز جنگی تدبیر اختیار فرماتے تھے یا جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ کیا گیا ہے کہ صحابہ بعض اوقات ایسا کرتے تھے کہ دشمن کو غافل کرنے کے لیے میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹنا شروع کردیتے تھے اورجب دشمن غافل ہوجاتا تھا اوراس کی صفوں میں ابتری پیدا ہوجاتی تھی توپھر اچانک حملہ کردیتے تھے اور یہ ساری صورتیں اس خُدْعَةٌ کی ہیں جسے حالاتِ جنگ میں جائز قرار دیا گیا ہے اور اب بھی جائز سمجھا جاتا ہے لیکن یہ کہ جھوٹ اور غداری وغیرہ سے کام لیا جاوے اس سے اسلام نہایت سختی کے ساتھ منع کرتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموماً فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں خدا کے ساتھ شرک کرنے اوروالدین کے حقوق تلف کرنے کے بعد تیسرے نمبر پر جھوٹ بولنے کا گناہ سب سے بڑا ہے۔ نیز فرماتے تھے کہ ایمان اوربزدلی ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں مگر ایمان اورجھوٹ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اور دھوکے اورغداری کے متعلق فرماتے تھے کہ جو شخص غداری کرتا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے سخت عتاب کے نیچے ہو گا۔ الغرض جنگ میں جس قسم کے خُدْعَةٌ کی اجازت دی گئی ہے وہ حقیقی دھوکا یا جھوٹ نہیں ہے بلکہ اس سے وہ جنگی تدابیر مراد ہیں جوجنگ میں دشمن کو غافل کرنے یا اسے مغلوب کرنے کے لیے اختیار کی جاتی ہیں اور جو بعض صورتوں میں ظاہری طورپر جھوٹ اور دھوکے کے مشابہ توسمجھی جاسکتی ہیں مگروہ حقیقتاً جھوٹ نہیں ہوتیں۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ہمارے خیال میںمندرجہ ذیل حدیث اس کی مصدِّق ہے۔اور وہ حدیث یہ ہے کہ

ام کلثوم بنت عُقبہ روایت کرتی ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف تین موقعوں کے لیے ایسی باتوں کی اجازت دیتے سنا جو حقیقتاً توجھوٹ نہیں ہوتیں مگر عام لوگ انہیں غلطی سے جھوٹ سمجھ سکتے ہیں۔ پہلی یہ کہ جنگ۔ دوم یہ کہ لڑے ہوئے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا موقع اورسوم جبکہ مرد اپنی عورت سے یا عورت اپنے مرد سے کوئی ایسی بات کرے جس میں ایک دوسرے کو راضی اورخوش کرنا مقصود ہو ۔نیک نیت، ہر صورت میں نیت نیک ہونی چاہیے یا نیک مقاصد حاصل ہونے چاہئیں۔

یہ حدیث اس بات میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ جس قسم کے خُدْعَةٌ کی جنگ میں اجازت دی گئی ہے جھوٹ اوردھوکا مراد نہیں ہے بلکہ وہ باتیں مراد ہیں جو بعض اوقات جنگی تدابیر کے طور پر اختیار کرنا ضروری ہوتی ہیں اورجو ہر قوم اورہرمذہب میں جائز سمجھی گئی ہیں۔

کعب بن اشرف کاواقعہ ذکرکرنے کے بعد ابن ہشام نے یہ روایت نقل کی ہے کہ کعب کے قتل کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اب جس یہودی پرتم قابو پاؤ اسے قتل کر دو۔ چنانچہ ایک صحابی مُحَیِّصَہ نامی نے ایک یہودی پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا تھا اوریہی روایت ابو داؤد نے نقل کی ہے اوردونوں روایتوں کا منبع ابن اسحاق ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ علم روایت کی رو سے یہ روایت کمزور اور ناقابل اعتماد ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بالکل نہیں کہا کیونکہ ابنِ ہشام نے تو اسے بغیر کسی قسم کی سند کے لکھا ہے، کوئی سند ہے ہی نہیں اور ابوداؤدنے جوسند دی ہے وہ کمزور اورناقص ہے۔ اس سند میں ابن اسحاق یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ زید بن ثابت کے ایک آزاد کردہ غلام سے سنا تھا اوراس نامعلوم الاسم غلام نے، پتا ہی نہیں یہ کون ہے اس کا نام known بھی نہیں ہے، محیصہ کی ایک نامعلوم الاسم لڑکی سے سنا تھا۔ وہ بھی ایک لڑکی کی روایت دے رہا ہے جس کا نام پتا ہی نہیں۔ روایتوں میں کہیں نہیں پتا لگتا کون ہے اوراس لڑکی نے اپنے باپ سے سنا تھا۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کی روایت جس کے دو راوی بالکل نامعلوم الاسم ہوں، جن کے ناموں کا بھی پتا ہی نہ ہو اورمجہول الحال ہوں ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتی اوردرایت کے لحاظ سے بھی غور کیا جاوے تو یہ قصہ درست ثابت نہیں ہوتا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاعام طریقِ عمل اس بات کوقطعی طورپر جھٹلاتا ہے کہ آپؐ نے اس قسم کا عام حکم دیا ہو۔ علاوہ ازیں اگرکوئی عام حکم ہوتا تویقیناً اس کے نتیجے میں کئی قتل واقع ہو جاتے مگرروایت میں صرف ایک قتل کا ذکر ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی عام حکم نہیں تھا اور پھر جب صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ دوسرے دن ہی یہود کے ساتھ نیا معاہدہ ہوگیا تھا تو اس صورت میں یہ ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا کہ اس معاہدے کے ہوتے ہوئے اس قسم کا حکم دیا گیا ہو اور اگر اس قسم کا کوئی واقعہ ہوتا تو یہودی لوگ اس کے متعلق ضرور واویلا کرتے، شور مچاتے مگر کسی تاریخی روایت سے ظاہر نہیں ہوتا کہ یہود کی طرف سے کبھی کوئی اس قسم کی شکایت کی گئی ہو۔ پس روایت اور درایت دونوں طرح سے یہ قصہ غلط ثابت ہوتا ہے اوراگر اس میں کچھ حقیقت سمجھی جاسکتی ہے تو صرف اس قدر کہ جب کعب بن اشرف کے قتل کے بعد مدینے میں ایک شور پیدا ہوا اوریہودی لوگ جوش میں آگئے تواس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی طرف سے خطرہ محسوس کرکے صحابہ سے یہ فرمایا ہوگا، یہ امکان ہے ۔کوئی قطعی ثبوت اس کا بھی نہیں ہے کہ جس یہودی کی طرف سے تمہیں خطرہ ہو اورتم پرحملہ کرے تم اسے دفاع میں قتل کرسکتے ہو ۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حالت صرف چند گھنٹے رہی۔ اگر یہ امکان لیا بھی جائے تو یہ امکان صرف چند گھنٹے تھا کیونکہ اس کے بعد تو معاہدہ ہو گیا تھا۔ کیونکہ دوسرے دن ہی یہود کے ساتھ ازسرِنَو معاہدہ ہوکر امن وامان کی صورت پیدا ہوگئی تھی۔
پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ کعب بن اشرف کے قتل کی تاریخ کے متعلق کسی قدر اختلاف ہے۔ ابن سعد نے اسے ربیع الاول تین ہجری میں بیان کیا ہے لیکن ابن ہشام نے اسے سریہ زید بن حارثہ کے بعد رکھا ہے جو مسلّم طورپر جمادی الآخرہ میں واقع ہوا ہے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ میں نے اس جگہ ابن ہشام کی ترتیب ملحوظ رکھی ہے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 466 تا 477)
بہرحال ابھی مزید کچھ ایک دو واقعات ہیں۔ وہ آئندہ ان شاء اللہ پیش ہوں گے۔
(الفضل انٹرنیشنل 28؍فروری2020ء صفحہ 5تا8)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button