سیرت خلفائے کرام

مجھ کو اک آتش فشاں ، پُر ولولہ دل کی تلاش

(آصف محمود باسط)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قدم عسر و یسر میں ہمیشہ بلندی کی طرف گامزن رہا

12؍جنوری 1889ء کو دو اہم واقعات رونما ہوئے۔ دونوں واقعات مذہب کی دنیا میں تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ اور دونوں واقعات پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی پیشگوئیوں کا ظہورہیں۔

ایک پیشگوئی یہ تھی کہ آخری زمانہ میں امت مسلمہ کی حالت یہود کی سی ہوجائے گی جہاں وہ 73 فرقوں میں تقسیم ہو کر رہ جائیں گے۔ ان میں صرف ایک فرقہ ہوگا جو الجماعت کہلائے گا اور اسلام کی اصل تعلیمات پر کاربند ہوگا۔ یہ جماعت مسیح و مہدی کی جماعت ہوگی۔

دوسری پیشگوئی یہ تھی کہ آخری زمانہ میں نازل ہونے والا مسیح شادی کرے گا اور اس شادی سے اسے اولاد عطا کی جائے گی۔

12؍ جنوری 1889ء کو حضرت اقدس مرزا غلام احمد علیہ السلام قادیان کی گمنام بستی سے ایک اشتہار شائع فرماتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ اب وہ اذنِ الٰہی سے بیعت لیں گے اور جو کوئی ان کے ہاتھ پر بیعت کرےگا، وہ ان کی جماعت میں شمار کیا جائے گا۔ مگر یہ بیعت کوئی عام بیعت نہ ہوگی بلکہ اس کے ساتھ دس شرائط ہوں گی جنہیں پورا کرنا بیعت میں شامل رہنے کے لیے لازم ہوگا۔ یہ تمام شرائط اسلامی تعلیمات کا نچوڑ تھیں، یعنی تمام اوامر کا خلاصہ جن پر عمل کرنا لازمی قرار دیا گیا اور تمام نواہی کا مجموعہ جن سے اجتناب فرض کردیا گیا۔

اسی اعلان کے آخر پر ایک اور اعلان بھی حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام نے شامل فرمایا اور وہ یہ کہ اسی تاریخ کو آپ کے یہاں ایک بیٹے کی ولادت بھی ہوئی ہے۔اس بیٹے کا نام حضور علیہ السلام نے بشیر الدین محمود احمد رکھا۔

یوں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ اور جماعتِ احمدیہ کا توام جنم ہوا اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے دعویٰ ٔ مسیحیت سے یہ بھی کھلا کہ یہ تو پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی دو پیشگوئیاں تھیں جو بیک وقت ظہور پذیر ہوئیں۔

یہ بچہ اپنے مقدس باپ کی زیر نگرانی پرورش پاتا رہا۔ شیر خوارگی سے نکل کر بچپن، اور بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے نوجوانی میں قدم رکھتا رہا۔ ان تمام مراحل میں اس ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ظاہر ہوتے چلے گئے۔ ابھی بہت بچپن کا زمانہ ہی تھا کہ اپنے مقدس باپ کی گود میں اس بچے نے آسمان پر چمکتے ستارے کو دیکھا تو ‘‘ابّا، تارے جانا’’ جیسی معصوم مگر نہایت پرولولہ فرمائش کرڈالی۔

لڑکپن ہی میں آشوبِ چشم کا مرض لاحق ہوگیا اوربچپن باضابطہ تعلیم کے حصول کی ناکام کوشش میں گزر گیا۔ سکول کے بعض اساتذہ نے اس بچے کے مقدس باپ سے شکایت کے رنگ میں ذکر کیا کہ تعلیم حاصل کرنے میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ لاؤ میں امتحان لیتا ہوں۔بچے سے کچھ لکھنے کو کہا اور بچے نے جو لکھ دیا، اس پر اطمینان کا اظہار کیا اور فرمایا کہ بھلا چنگا تو لکھتا ہے!حضور علیہ السلام کو تو علم تھا کہ اس بچے کو علوم مدرسہ و مکتب سے حاصل ہونے والے نہیں۔ اس کے لیے اکتسابِ علوم ِظاہرو باطن کا آسمانوں پر انتظام ہے۔ البتہ قرآن اور حدیث کی تعلیم حاصل کرنے سے نہ تو بچہ نے انقباض ظاہر کیا اور نہ اس میں کسی قسم کی کوتاہی کی گنجائش حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے رہنے دی۔ان دو علوم سے گہری محبت بچپن سے ہی اس بچے کے دل میں موجزن تھی۔
بچہ بھی جلد جلد بڑھ رہا تھا، اور اس کے ساتھ توام پیدا ہونے والی جماعت بھی تیزی سے ترقی کی راہیں طے کررہی تھی۔بچے کو اپنے اس توام جوڑے کا فکر لاحق رہتا۔ اس جماعت میں شامل ہونے والےلوگوں کی بہبود اسے نوجوانی ہی میں عزیز رہنے لگی۔ ساتھ ساتھ عبادت میں بھی سوز بڑھا اور اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو ایک راہ سجھائی۔ اس نوجوان نے تشحیذ الاذہان کے نام سے ایک مجلس قائم کی اور ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ ابتدائی رسالوں میں آپ کے مضامین شامل ہیں جواس 16 یا 17 سالہ نوجوان کے قلم سے لکھے گئے ہیں۔ ان مضامین کو پڑھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک نوجوان کی تحریر ہے۔ اور نوجوان بھی وہ جس نے کوئی باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی۔بلکہ مضامین کا معیار ایسا تھا کہ کوئی جید عالم بھی کیا ویسا لکھے گا۔
پھر 1908ء میں وہ کڑا وقت آیا جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہ نو جوان یتیم ہوگیا۔ مگر یتیمی کے پہلے ہی مرحلےمیں اپنے عظیم باپ کے سرہانے کھڑے ہوکر قسم کھائی کہ اگر سارا زمانہ بھی ساتھ چھوڑ گیا تو بھی اپنے عظیم باپ کے عظیم کام کو جاری و ساری رکھوں گا اور زمین کے کناروں تک پہنچا کر دم لوں گا۔

اس بات کو چھ ہی سال کا عرصہ گزرا تھا۔ 1914ء کا تاریخ ساز سال آن پہنچا تھا۔ وہ سال جس میں جنگِ عظیم اوّل کا آغاز ہوا اور تمام اقوامِ عالم دہل کر رہ گئیں۔اسی سال یہ بظاہر کم عمرسا نوجوان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا جانشین بنا دیا گیا۔ خدا نے اسے اس کے عظیم باپ کی مسندِ جانشینی پر لا بٹھایا۔ یوں اس سال بھی دو پیشگوئیاں پوری ہوئیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دو پیشگوئیاں۔

ایک پیشگوئی جنگِ عظیم کے متعلق اور دوسری ایک عظیم الشان بیٹے کا جانشین بننا جس کے ذریعہ اشاعتِ اسلام کا کام بے مثال حدوں کو چھوکر زمین کے کناروں تک پہنچ جانے والا تھا۔ ایک طرف تو اس جنگ نے دنیاکو دہلا کر رکھ دیا، اور دوسری طرف یہ عظیم المرتبت خلیفۃ المسیح، یہ مصلح موعود دنیا کو کہہ رہا تھا کہ

محمود کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار

روئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں

پس1914ء کا سال، جس میں حضرتِ محمودؓ کی خلافت کا آغاز ہوا، دنیا کو ہلا کر رکھ دینے والا سال بن گیا۔جنگِ عظیم کی پیشگوئی اور خلافتِ حضرتِ محمودؓ توام طور پر ظہورمیں آئیں۔ یوں حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کا آغاز ایک نہایت پرولولہ اور آتش فشاں دور میں ہوا۔ نہ یہ آتش فشاں ٹھنڈا ہوا، نہ دنیا کی بے چینیاں سرد پڑیں اور یوں حضرت مصلح موعودؓ کی یہ خواہش دوام حاصل کرگئی کہ ع

مجھ کو اک آتش فشاں ، پُرولولہ دل کی تلاش

خدا نے آپ کو دل بھی وہ دیا جو محبتِ الہی اور بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ ایک آتش فشاں کی طرح پرولولہ رہتا۔ اور اپنی جماعت میں شامل احباب کے لیے بھی یہی خواہش رہتی کہ ان کے دل بھی انہی دو محبتوں میں آتش فشاں کی طرح دھڑکتے اور دہکتے رہیں۔

وہ آدمی جس کے منصبِ خلافت پر فائز ہوتے ہی جماعت کے صاحبانِ بسط و کشاد تمام سرمایہ لے کر جدا ہوجاتے ہیں۔ وہ آدمی جسے لاکھوں لوگوں کی جماعت چلانے کے لیے صرف چند آنے میسر رہ جاتے ہیں۔ جس کی جماعت کےتعلیم یافتہ طبقہ کی اکثریت کو علم کا غرور کھا جاتا ہے۔ اگر وہ ایسے میں بھی اپنے اس عہد پر قائم رہتا ہے جو اس نے اپنے بزرگ والد کے سرہانے کھڑے ہو کر خدا کے حضور کیاتھا، تو یہ استقامت یقیناً ایک پرولولہ روح اور ایک آتش فشاں دل ہی کی مرہونِ منت ہے۔

پس اس عظیم الشان مصلح کے سامنے جب کسی نے یہ کہا کہ پیسوں کی قلت ابھی تعلیمی ادارہ کو شروع کرنے کی اجازت نہیں دیتی، تو یہ عظیم مصلح جلال میں کیوں نہ آتا؟ جس نے بغیر ایک دھیلے کے لاکھوں کی جماعت کی باگ ڈور سنبھال لینے کے حوصلے کا مظاہرہ کیا ہو، اور ایسے میں اللہ کے فضل نازل ہوتے دیکھے ہوں، وہ کیوں کر اس تاویل کو سن لیتا۔ پس جونہی کہنے والے نے یہ عذر پیش کیا تو حضرت مصلح موعودؓ نے جلال میں آکر فرمایا کہ ‘‘کالج شروع ہوگا، اور آج ہی ہوگا۔ تمہیں کس نے کہا کہ پیسوں کی فکر کرو۔ جاؤ اور کالج کا آغاز کردو!’’

یہ کالج لاہور کی ٹوٹتی بکھرتی جودھا مل بلڈنگ کی عمارت کے صحن کے ایک کونے میں ایک چادر بچھا کر شروع کردیا گیا۔ وہی کالج جسے ہم تعلیم الاسلام کالج کے نام سے جانتے ہیں۔ وہی کالج جو آگے چل کر پاکستان بھر میں نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں صفِ اول کے کالجوں میں شمار ہوا۔ جس کی بہت عمدہ عمارت بھی بن گئی۔ جہاں سے بہت سی نابغہ روزگار ہستیاں تعلیم حاصل کرکے دنیا بھر میں اپنا لوہا منواتی رہیں۔ جس کے بعد دنیا بھر میں جماعتِ احمدیہ کے تعلیمی ادارے کھلے اور آج تک کھلتے چلے جارہے ہیں۔
صرف کالج ہی کی بات نہیں۔ ہر کام ایسے ہی حالات میں شروع کیا اور ہر کام بامِ عروج پر پہنچ کر چمکا۔
امریکہ اور برطانیہ میں جنگِ عظیم اوّل کے پوسٹر بہت مشہور ہوئے جو جنگ میں لڑنے کے لیے فوج میں بھرتی کے اشتہار تھے۔ ان پر جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا:

I Need You

اسی جنگ کے ساتھ خلافت کے روحانی منصب پر فائز ہونے والے اس عظیم مصلحِ موعودؓ نے بھی اپنی خلافت کے آغاز میں اعلان فرمایا اور اشتہار جاری کروایا: ‘‘مجھے آپ کی ضرورت ہے!’’

مگر یہ ضرورت کسی جنگ وجدل کے لیے نہ تھی۔ یہ ضرورت تھی دنیا بھر میں تبلیغ کے ذریعہ اسلام کا پیغام لے کر جانے والوں کی، صحراؤں اور جنگلوں اور بیابانوں میں بے خوف و خطر اللہ اکبر کا نعرہ لگانے والوں، انگاروں پر لوٹ کر بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی ناموس کی حفاظت کرنے والوں کی۔آپ کے اس اعلان پر سینکڑوں نے لبیک کہا اور آج تک ہزاروں لبیک کہتے چلے آتے ہیں۔ دین کی خاطر وقف کی تحریک بھی فرمادی اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ جس نے اس خدمت کی خاطر خود کو پیش کرنا ہے، وہ یاد رکھے کہ اسے بھوک ، افلاس، تنگ دستی، مخالفت کی آگ، بے سروسامانی کے صحرا سے گزرکر یہ کام کرنا پڑے گا۔
مگر اس عظیم ہستی نےاس ولولہ کے تقاضے ہی نہیں کیے بلکہ یہ سب اپنے عملی نمونے سے کر کے بھی دکھایا۔

رات بھر تیل سے جلنے والے لیمپ کی روشنی میں قرآنِ کریم کی تفاسیر لکھیں۔ رات کو اس قدر دیر تک کہ اہلِ خانہ نے بتایا کہ صبح تیل کے دھویں کے آثار چہرۂ مبارک پر عیاں ہوتے۔ یہ ہم غیر منقسم ہندوستان اور اس کے جلد بعد کے زمانہ کی بات کررہے ہیں، جب برقی روشنی سب کو میسر نہ تھی۔ ان اندھیری راتوں میں قرآنِ کریم کی وہ خدمت کی کہ آپؓ کے قلم سےجنم لینے والی تفاسیر نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔

بہت آغاز میں ہی، یعنی 1915ء میں، حضرت مصلح موعودؓ کی پہلے پارےکی تفسیر انگریزی میں ترجمہ ہوئی۔ ناشر آپؓ ہی کاقائم کردہ ‘‘انجمنِ ترقیٔ اسلام ’’نامی ادارہ تھا۔یہ ترجمہ و مختصر تفسیر مغربی ممالک کے کتب خانوں کو افادۂ عام کے لیے بھجوادیا گیا۔ اس کا مغرب میں پہنچنا تھا کہ دنیائے مذہب میں ایک تہلکہ برپا ہوگیا۔مغرب کے مؤقر جرائد مثلاً The Muslim Worldاور Harvard Theological Review نے تبصرے لکھے اور اس کوشش کو اپنی طرز کی پہلی کوشش قرار دیا۔

یہ اس دور کی بات ہے جب دنیائے مذہب میں کثرت سے لٹریچر طبع ہورہا تھا۔ مگر قادیان کی گمنام بستی کی اندھیری راتوں کی تنہا کوٹھڑیوں میں بیٹھ کر جس آتش فشاں دل سےدینِ متینِ اسلام کی یہ پرولولہ خدمت کی جارہی تھی، وہ دنیائے مذہب میں تہلکہ کیسے نہ مچا دیتا؟

انہی تفاسیر نے قرآن سے دور ہوتی امت مسلمہ کو اپنی گرفت میں لیا۔ انہی تفاسیر نےاسلام کے ٹمٹماتے چراغ کی لو کوسنبھالا دیا اور روشن رکھااور آج تک رکھے ہوئے ہیں۔ تفاسیر کیا تھیں، خدا سے ہدایت یافتہ مسیح و مہدی کے بیان فرمودہ خزانے تھے جو علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیے جانے والا یہ مصلح موعود عام کررہا تھا۔

یہی تفاسیر تو ہیں کہ آج بھی علمائےاسلام جماعتِ احمدیہ کی تکفیر کے نعرے لگانے کے باوجود ان میں چھپے گنج ہائے گراں مایہ چنتے ہیں ، اپنے دروس میں بیان کرتے ہیں اور اپنی مجالس میں داد وصول کرتے ہیں۔

جس عالمی جنگ کے آغاز کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کا آغاز ہوا، اس جنگ نے دنیا کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ سلطنتِ برطانیہ ، جس کی وسعت کرۂ ارض کے کناروں تک تھی، کے لیے خود اپنے ملک یعنی انگلستان کی سلامتی ہی ایک مسئلہ بننے لگی۔ حکومتِ برطانیہ اپنی بساط سمیٹنے کے حربے سوچنے لگی۔ہندوستان، جو کہ اپنے طول وعرض کے باعث ایک ملک کم اور برصغیر زیادہ تھا، سب سے بڑا مسئلہ بھی بن گیا۔ اسے کس حال میں چھوڑ کر آیا جائے؟

انگریز حکومت ہندوستان کو خود مختاری دینے کے منصوبے بنانے لگے۔آل انڈیا نیشنل کانگریس وجود میں آئی جہاں عوام کے نمائندوں کو اظہارِ رائے کا موقع دینا مقصود تھا۔مسلمان اپنی تعلیمی کم مائیگی کے ہاتھوں مجبور اور بے کس طبقہ بن کر رہ گئے۔

ہندو مسلم کشیدگی زور پکڑ تی گئی، سادہ لوح نو مسلموں کو شدھ کرنے کے نام پر دوبارہ ہندو بنایا جانے لگا، عیسائی پادری اس نازک موڑ پر اور بھی زور سے اپنی سرگرمیوں میں تیز ہوگئے۔ حکومت پہلے ہی کمزور ہوچکی تھی، اور اس سیاسی اور مذہبی دنگل میں اور بھی نڈھال ہوتی چلی گئی۔

ایسے میں حضرت مصلح موعودؓ کے آتش فشاں دل کا ولولہ کیسے جوش نہ مار جاتا۔ آپ کا دل تو امت کے درد سے بھرا ہوا تھا۔ آپ کے ذریعہ تو آسمانی بشارتوں کے تحت قوموں کی رستگاری کا کام ہونا تھا۔ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے ‘‘مظفر’’کے الہامی لقب سے سرفراز فرمایا تھا۔

پس حضرت مصلح موعودؓ نے مسلمانوں کے قائدین، عامۃ المسلمین، ہندو قائدین اور انگریز حکومت، سب کو ملی معاملات میں مشوروں سے نوازا۔ آپ اس رہ نمائی کی بدولت ان سب کی آنکھ کا تارا بنے۔ سیاسی مصلحتیں ان تمام طبقات کی راہوں میں کہاں اورکیسے آڑے آتی رہیں، یہ ان مسائل میں جانے کا محل نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سب اس بات کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے کہ سیاسی معاملات میں جو بصیرت حضرت مصلح موعودؓ کو حاصل تھی، وہ کسی اور کو نہ تھی۔

حضرت مصلح موعودؓ 1924ء میں لندن سے واپس بمبئی کی بندرگاہ پر پہنچے ہی تھے کہ موہن داس کرم چند گاندھی صاحب نے آپؓ سے ملاقات کی اور کانگریس میں شمولیت کی درخواست کی۔حضور نے فرمایا کہ میرے مقاصد سیاسی نہیں، مگر اس وقت تک کسی کی حمایت کا فیصلہ نہیں کروں گا جب تک یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ حق اور انصاف کا رحجان کس سیاسی جماعت میں زیادہ ہے۔

جدوجہدِ آزادیٔ ہندوستان کے سرکردہ رکن سردار شوکت حیات خان نے اپنی کتاب The Nation that Lost its Soulمیں لکھا کہ محمد علی جناح صاحب نے انہیں کہا کہ قادیان جا کر مرزا صاحب (حضرت مصلح موعودؓ) کی خدمت میں حاضر ہونا اور مسلم لیگ کی کامیابی کے لیے دعا کی درخواست کرنا۔ موصوف کہتے ہیں کہ میں رات گئے قادیان پہنچا تو مرزا صاحب (رضی اللہ عنہ) دفتر میں نہ تھے اور گھر تشریف لے جاچکے تھے۔ پیغام ملا تو فوراً تشریف لے آئے۔ جناح صاحب کا پیغام سنا اور جواب دیا کہ ‘‘ہم تو ہمیشہ سے جناح صاحب کے مقاصد کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔’’

برطانوی راج کے اہلکاربھی حضرت مصلح موعودؓ کے عظمتِ کردار سے بخوبی واقف تھے۔ 1915ء میں سرکار نے اپنی مسلم رعایا کو موقع دیا کہ وہ اپنے وراثت کے معاملات پر تصفیہ اپنے آبائی رواج کے مطابق چاہیں گے یا اسلامی شریعت کے مطابق۔ اکثرکے برعکس حضرت مصلح موعودؓ کا جواب حکومت کو یہ گیا کہ ہم اپنے معاملات اسلامی شریعت کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں۔The Digest of Customary Law نے سرکاری طور پر اس فیصلہ کو ان الفاظ میں محفوظ کیا کہ

(ترجمہ)‘‘ قادیان کا مغل برلاس خاندان شریعت محمدیہ کا پابند ہے۔’’

تو سرکارقادیان کو شریعت محمدیہﷺ کے علمبردار کے طور پر تو جانتی ہی تھی۔ مگر جب ہندوستان کی خودمختاری اور آزادی کی باتیں ہونے لگیں، تو اس دُرِّ نایاب کے کئی پہلوسرکارِ انگلشیہ کو نظر آئے۔
ہندوستان کے تمام معاملات برطانوی پارلیمان میں سیکرٹری آف سٹیٹ برائے انڈیا کے ذمہ ہوتے تھے۔ 1917ء اور 1918ء میں یہ عہدہ Edwin Samuel Montagu کے سپرد تھا۔ وہ انہی ایام میں ہندوستان کی صورت حال کا جائزہ لینے ہندوستان کے دورہ پر گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس موقع پر ہندوستان کے معاملات کو سلجھانے پرواضح اور مفصل رہ نمائی ان صاحب، یعنی وزیرِ ہند کے نام ایک ایڈریس کی شکل میں ارسال فرمائی۔ یہ ایڈریس انہیں لاہور میں پیش کیا گیا ، جسے حضرت سر ظفراللہ خان صاحبؓ نے پڑھ کر سنایا۔ حضورؓ نے خود بھی وزیر صاحب سے ملاقات کی اور رہ نمائی سے نوازا۔ مونٹاگو صاحب نے اس ایڈریس اور اس کا احوال اپنی ڈائری میں نوٹ کیا جو ان کی وفات کے بعد An Indian Diary کے نام سے شائع ہوئی۔ انہوں نے 15؍نومبر 1917ء کی تاریخ میں درج کیا:

(ترجمہ) ‘‘چوتھا وفد احمدیوں کا تھا، جو مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ ہیں۔یہ مسلمان ہیں اور انسانیت کے اتحاد میں یقین رکھتے اور تمام انبیاءپر ایمان لاتے ہیں۔ انہوں نے ایک طویل دستاویز پڑھ کر سنائی جو ان کے ‘حضور’نے تحریر کی ہے… یہ دستاویز ان تمام دستاویزات سے کہیں بہتر تھی جو ہمارے سامنے پیش کی گئیں…’’

آگے لکھتے ہیں کہ اس دستاویز کی تجاویز ایگزیکٹو کونسل کے ممبران کے چناؤ سے متعلق اور قانون سازی کے متعلق سب وفود سے بہتر اور بہت غور و فکر کے بعد نہایت ذہانت سے تیار کی گئی ہیں۔
اختتامی نوٹ ان کے اصل الفاظ میں درج کرنا ضروری ہے:

He has a good mind and had carefully thought out his constitutional scheme

اسی طرح دسمبر1921ء سےجون 1922ء تک ایڈورڈ شہزادہ ویلز (یعنی برطانیہ کا ولی عہد) ہندوستان کے دورہ پر تھا۔ جس جس ریاست میں گیا، وہاں کے اکابرین اور سربر آوردہ احباب نے اسے قیمتی سے قیمتی تحائف پیش کیے۔ بیش قیمت قالینوں سے لے کر ہیرےاور جواہرات ولی عہد کی خوشنودی کی خاطر پیش کیے گئے۔لاہور کا رخ کیا تو حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اسے تحفۃً کچھ پیش کرنے کا ارادہ فرمایا۔
غور و فکر کے بعد حضور نے ایک کتابچہ تحریر فرمایا جس میں ولیٔ عہد سلطنت برطانیہ کو اسلام سے متعارف کروایا، جماعتِ احمدیہ سے متعارف کروایا اور اسے اسلام کی دعوت دی۔اس کتابچہ کا عنوان ‘‘تحفہ شہزادہ ویلز’’رکھا اور جماعتِ احمدیہ کے ایک وفد نے یہ کتابچہ شہزادےکی خدمت میں لاہور میں پیش کیا۔
ولی عہد کے پرائیویٹ سیکرٹری نے حضورؓ کی خدمت میں جواب تحریر کیا، جس کا کچھ حصہ ذیل میں پیش ہے:

(ترجمہ)‘‘شہزادۂ عالی جناب نے آپ کی طرف سے پیش کردہ ایڈریس میں جماعتِ احمدیہ کا تعارف بہت شوق سے پڑھا ہے۔ وہ اس بارے میں مزید معلومات بھی حاصل کرنے کے خواہاں ہیں…’’

جب اور جہاں مسلمانوں کے حقوق کا سوال اٹھا، حضرت مصلح موعود ؓ کا دل سب سے زیادہ بے قرار نظر آیا۔ اور یہ بےقر اری آپؓ کی عظیم الشان رہ نمائی کی شکل میں سامنے آتی رہی۔

حجاز اور نجد کو خودمختاری ملی تو برطانوی سلطنت نے انہیں اپنے زیر نگیں رکھنے کی خاطر ان ریاستوں کے والیوں کے وظائف مقرر کردیے۔ انہیں اسلحہ دیااور ریاستوں کو مستحکم کرنے کی غرض سے قرض دیے۔ غرض جو کچھ ان ریاست کے والیوں کو ممنون کرنے کی غرض سے کیا جاسکتا تھا، کیا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے وائسرائے ہند لارڈ چیلمزفورڈ کو متنبہ کیا کہ ایسا کرنا حجاز اور نجد کی خودمختاری پر اثر انداز ہوگا۔وہ اپنی ممنونیت میں ہمیشہ برطانیہ کے زیر نگیں ہو کر رہ جائیں گے۔ ان ریاستوں کے والیان کو بھی لکھا کہ برطانوی حکومت کا التفات انہیں کس طرح ہمیشہ ہمیش کے لیے مہنگا پڑے گا۔ پھر جب لارڈ ریڈنگ وائسرائے ہوئے تو ان کی خدمت میں ایک وفد روانہ فرمایا جنہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کا تحریر فرمودہ ایڈریس وائسرائے کے سامنے بالمشافہ پڑھ کر سنایا جس میں حجاز اور نجد کے مسلمانوں کی خودمختاری پر سمجھوتے کی مذمت کی گئی تھی۔

وائسرائے لارڈ ریڈنگ نے اپنے خطاب میں اس ایڈریس کا مفصل جواب دیا، جسے ہندوستان اور برطانیہ کے اخبارات نے اپنے سرورق پر شائع کیا۔

یوں حضرت مصلحِ موعودؓ کی امتِ مسلمہ کےحقوق کے لیے کوششیں اور آپؓ کا ملتِ اسلامیہ کے لیے درد اور رہ نمائی ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی۔

آج ان والیان کے جانشین پلٹ کر دیکھتے ہوں تو شاید سوچتے ہوں کہ کیا ہی خوب ،دوراندیشی پر مبنی مشورہ تھا۔ مان لیتے تو آج مغرب کے زر خرید غلام بن کر نہ بیٹھے ہوتے۔

حضرت مصلح موعودؓ کی اپنی جماعت کے لیے درد کی جڑیں بھی دراصل امت محمدیہ کے درد ہی کی زمینوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ جہاں امت ِمسلمہ حضور ؓ کو اس قدر عزیز تھی، وہاں وہ جماعت جس کے ذریعہ احیائے دینِ اسلام کا کام ہونا تھا، آپؓ کو کیسے عزیز تر نہ ہوتی۔ وہ جماعت جو ان لوگوں سے مل کر بنی جنہوں نے اپنے اموال، اپنے وطن، اپنے گھر بار چھوڑ کر، ان کی مخالفت مول لے کر مسیح ِ پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ اس کی فلاح اور بہبود حضرت مصلح موعودؓ کے روز و شب کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔اس محبت میں آپ کا دل محبت کے ایک آتش فشاں پہاڑ کی طرح بلند بھی تھا اور اس حدت سے ابلتا بھی رہتا تھا۔

انگلستان کی مذاہبِ سلطنت کانفرنس میں جماعتِ احمدیہ مسلمہ کا تعارف کروانے کا موقع آیا تو حضور ؓ خود بیان فرماتے ہیں کہ ان دنوں میں جب میں یہ مضمون لکھ رہا تھا، بعض راتوں میں میں بالکل نہیں سویا۔ اکثر راتوں میں ایک دو بجے سے پہلے بستر پر نہیں لیٹا۔ ساراسارا دن اس کام اور سفر کے انتظام میں صرف ہوجاتا۔

اس سفر پر روانہ ہوئے تو دو ماہ کے قریب عرصہ سمندر کے سفر کی نذرہوا۔ روانگی سے پہلے ہی صحت خراب تھی۔ تمام راستہ اسہال کی تکلیف رہی۔ سمندری سفر سے متلی اور قے کی شکایت الگ لاحق ہوگئی۔ انگلستان کے قیام کے دوران لکھی گئی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بے آرامی نے اسہال کی تکلیف کو شدید تر کردیا۔ خود ایک خط میں فرمایا کہ ہمیں اتنی فرصت بھی نہ ملی کہ لندن شہر کو نظر بھر کر دیکھ ہی لیتے۔

شدید بیماری میں یہ عظیم الشان مصلح موعودؓدن رات مغرب میں اشاعت اسلام کے لیے کوشاں رہا۔
یہ تو تھی حضرت مصلح موعودؓ کے عمل کی ایک جھلک۔ مگر کسی شخصیت کو سمجھنے کے لیے اس کے ردِ عمل کو دیکھنا بھی نہایت اہم ہوتا ہے۔

مخالفین احمدیت حسد کی آگ میں جلتے جلتےفتاویٰ کی حدوں سے آگے بڑھے اور جلاؤ گھیراؤ جیسے گھناؤنے ہتھکنڈوں پر اتر آئے۔

احرار کی یورش اپنے عروج پر تھی۔ مذہب کے لبادے میں احراری شر پسندوں کے جلوس قادیان کی گلیوں میں گشت کرتے آنکلے۔ جلسہ کیا اور قسم کھائی کہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر دم لیں گے۔

قادیان کی جماعت کا خلیفہ اگر ایک حکم دیتا تو قادیان کی احمدی آبادی ان احراریوں سے متصادم ہو کر نمٹ لیتی۔ مگر حضرت مصلح موعودؓ نے صبر کا عظیم الشان مظاہرہ فرمایا۔ اپنی جماعت کو بھی صبر کا نمونہ دکھانے کا حکم دیا۔ اور خود جھک گئے اس ربِ کائنات کے حضور، جس نے آپ کی پیدائش، آپ کی پرورش، آپ کے ذریعہ اسلام کی تمکنت کے وعدے فرمائے تھے۔ اُس خدا سے جو اذن ملا، اس کی روشنی میں حضرت مصلح موعودؓ نے احرار کی دریدہ دہنی اور دھمکیوں پر اپنا ردِ عمل ظاہر فرمایا۔یہ ردِ عمل کیا تھا؟

حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ مخالفین اپنا پورا زور لگالیں۔ جو کرنا ہے کر لیں۔ جتنا شر پھیلانا ہے پھیلا لیں۔ خوف و ہراس پھیلا لیں۔ مگرمجھے میرے خدا نے کچھ اور حکم دیا ہے۔ میں اس سب کے ردِ عمل میں ایک ایسی تحریک کا اعلان کرنا چاہتا ہوں جو میرے خدا نے میرے دل میں ڈالی ہے۔ وہ تحریک جس میں ہر احمدی اپنی ضرورت سے زائد تمام آمدن دینِ اسلام کی اشاعت کے لیے پیش کردے۔ وہ تحریک جس میں ہر احمدی خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ جس میں ہر احمدی اپنی جائیداد وقف کردے۔ جس میں ہر احمدی سادہ زندگی بسر کرنے کا عہد کرے۔ اور وہ تحریک جس کے تحت ہر احمدی کلیۃً ترقی اسلام کے منصوبے کا حصہ بن جائے۔

حضورؓ نے اس تحریک کا نام تحریکِ جدید رکھا۔ نہ مخالفین کی روش پرانی ہوئی، اور نہ حضرت مصلح موعودؓ کی جاری فرمودہ تحریکِ جدید کی جدت میں کمی آئی۔آپؓ کے بعد آنے والے خلفاء کے زمانوں میں جدید سے جدید تر ہوتی چلی گئی اورہوتی چلی جاتی ہے۔سدا بہار درخت اور کیسے ہوتے ہیں؟

حضرت مصلح موعودؓ نے جن ذیلی تنظیموں کی بنیاد رکھی اور انہیں فعال کیا، اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضور ؓکا دل جماعت کے بچے، بڑے، پیر و جواں، مرد و زن، سبھی کے لیے درد سے بھرارہتا۔ آپ ہر فرد کو ترقی کی راہوں پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے۔ سو آپؓ نے سب کو ان راہوں پر ڈال دیا۔ سب کو ان کی منزل دکھائی اور ان منزلوں تک لے جانے والی راہوں کی طرف رہ نمائی فرمادی۔

سوال یہ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کی توقع جماعتِ احمدیہ سے کیا تھی؟ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آج بھی خلافتِ احمدیہ کی توقع ہم سے کیا ہے؟

اس سوال کا جواب خلاصۃً حضرت مصلح موعودؓ ہی کے ایک شعر میں آجاتا ہے:

ہے عمل میں کامیابی، موت میں ہے زندگی

جا لپٹ جا لہر سے ، دریا کی کچھ پروا نہ کر

خود بھی تو حضورؓ نے ساری عمر یہی کیا۔ کم سنی، کمزوریٔ صحت، نامساعد معاشرتی حالات، بے سروسامانی، غریب الوطنی، ناسازگار سیاسی ماحول۔ کچھ بھی تو آپؓ کے عزم کے سامنے روک نہ بن سکا۔ آپ نے دریا کے بہاؤ کا رخ دیکھا، نہ اس کی گہرائی۔ اپنے عزم اور دعاؤں کے سہارے لہر سے لپٹ گئے اور موت سے پنجہ لڑاتے کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتے گئے۔

جب فرمایا کہ:

پیٹھ میدانِ وغا میں نہ دکھائے کوئی

منہ پہ یا عشق کا پھر نام نہ لائے کوئی

تو آپؓ کا وہ عہد یاد آگیا جو آپ نے 1908ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سرہانے کھڑے ہو کر کیا تھا۔ گھر دنیوی سامان و اسباب سے خالی تھا۔ باپ کی نعشِ مبارک سامنے تھی۔ باہر گلی میں مخالفین کا طوفانِ بدتمیزی برپا تھا۔ ایسے میں آپؓ کا عہد اس شعر کی عملی تصویر بن گیا۔

پس ہم سے بھی یہی توقع رکھی کہ یا تو دعویٰ نہ کرو، یا پیمانِ وفا باندھا ہے تو اب اسے آخر تک نبھانا بھی ہوگا۔یہی تو جمعیت کی اساس ہے۔جب فرمایا کہ

میں اپنے پیاروں کی نسبت

ہرگز نہ کروں گا پسند کبھی

وہ چھوٹے درجے پہ راضی ہوں

اور ان کی نگاہ رہے نیچی

تو خود اس کا مظاہر بھی اپنی زندگی کے ہر پہلو میں کر کے دکھایا۔ ایک آدمی قادیان جیسے چھوٹے سے شہر میں بیٹھا، ایک اخبار الفضل کے نام سے نکالتا ہے۔اور اپنی بصیرت سے اسے اس مقام تک لے جاتا ہے کہ ہندوستان کے سیاسی حلقے، کیا ہندو، کیا مسلمان اور کیا حکومتِ انگریزی۔ سب اس اخبار کا انتظار کرتے ہیں کہ تازہ معاشرتی اور سیاسی صورت حال پر اس اخبار میں حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد (رضی اللہ عنہ) کیا فرماتے ہیں؟ وہ اخبارات جو بڑے زبردست سرمائے سے جاری ہوئے، جن کے ایڈیٹر بڑے نامی گرامی لوگ تھے، جو ہندوستان کے بڑے بڑے اور ایک سے زیادہ شہروں سے چھپتے تھے، سب اس اخبار کی اٹھان اوراڑان دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔

پس حضورؓ نے خود نگاہ نیچی رکھی، نہ حالات کو یہ اجازت دی کہ وہ آپ کی نگاہِ بلند پر آنچ آنے دیں۔ ہم سے بھی توقع رکھی کہ ہماری نگاہ کبھی نیچی نہ ہونے پائے۔حالات خواہ کیسے ہی ہوں۔

اپنی جماعت کے ہر فرد کو علوم و فنون میں ترقی کرنے کی تلقین فرمائی۔ تعلیم حاصل کرنے کےذرائع مہیا فرمائے۔ سکول کھولے، کالج کھولے، وظائف دیے کہ طلبا ءعلم حاصل کرنے سے محروم نہ رہیں۔ علوم و فنون میں ترقی کو سراہا۔ مگر ساتھ یہ بھی فرمایا کہ

تم مدبر ہو کہ جرنیل ہو یا عالم ہو

ہم نہ خوش ہوں گے کبھی تم میں گر اسلام نہ ہو

اورجب ہمیں مخاطب کر کے فرمایا کہ

عسر ہو یسر ہو تنگی ہو کہ آسائش ہو

کچھ بھی ہو بند مگر دعوتِ اسلام نہ ہو

تو خود کیسے عظیم الشان عملی نمونے ہمارے لیے چھوڑے۔ 1924ء میں لندن کا سفر اختیار کرنے کی نہ حالات اجازت دیتے تھے، نہ صحت۔ مگر دعوتِ اسلام کا ایک راستہ تھا جو کھلتا تھا۔ انجمن کا خزانہ اس سفر کا بوجھ برداشت کرنے کا اہل نہ تھا۔ حضورؓ نے دکن کے ایک مخلص ، مخیر دوست سے قرض لیا اور اس سفر کو اختیار فرمایا۔ عسر اور یسر کو یک سر فراموش کرتے ہوئے یہ سفر جو اختیار فرمایا تو اس کے کس قدر شیریں ثمرات آج تک دیکھنے کو ملتے ہیں۔

قلم ساتھ چھوڑتا ہے۔ الفاظ کا دامن تنگ پڑتا جاتا ہے۔ ایک شعر درج کر کے اس مضمون کا اختتام کرتے ہیں۔ اس شعر میں ہر وہ توقع سمٹ کر آجاتی ہے، جو حضرت مصلح موعودؓ کو اپنی پیاری جماعت سے تھی:

میرے پیارے دوستو، تم دم نہ لینا جب تلک

ساری دنیا میں نہ لہرائے لوائے قادیاں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button