سیرت خلفائے کرام

ازواج (میاں اور بیوی) کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کے اقوال و عائلی زندگی سے نمونہ اور نصائح

(امۃ الباری ناصر)

‘‘آپ اپنی بیویوں کے بارے میں کامل عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں۔ افراد کی نسبت سے خرچ دیتے ہیں ، کبھی کسی کو شکوہ شکایت کا موقع نہیں ملتا ، نہایت محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں، سب بیویاں دل کی گہرائیوں سے حضور کی مدّاح ہیں ، سفروں میں باری باری ساتھ لے جاتے ہیں ،گھر میں باریاں مقرر ہیں اور ہر ایک کے حقوق کا پورا خیال رکھتے ہیں’’

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا  (الفرقان:75)

انسانی تمدن میں مرد اور عورت کے مقام میں عدم توازن نے ہمیشہ مسائل پیدا کیے ہیں۔یہ اونچ نیچ اسلام کی تعلیم نہیں ، حکمرانی کے شوقین افراد کا جبر ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓمعاشرے میں عورت کو اُس کا صحیح مقام دلوانے کے زبردست داعی تھے۔ بحیثیت میاں بیوی مرد عورت کے فرائض اور حقوق میں بھی مشرقی و مغربی تہذیب و تمدن کے غلط اثرات کو دور کرکے قرآن و سنت نبوی ﷺکے مطابق صحیح اسلامی تعلیم سے روشناس کرایا اس کے لیے آپؓ دیگر مذاہب میں میاں بیوی کے تعلق سے نظریات پیش کرکے اسلام کی خوبیاں بیان فرماتے ہیں۔

اگر ہم دیگر مذاہب کا میاں بیوی اورشادی بیاہ کے امور کے متعلق جائزہ لیں تومعلوم ہوتا ہے کہ تورات میں عورت مرد کے تعلق میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عورت چونکہ مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔اس وجہ سے وہ اس سے مل کر ایک بدن ہوجائے گا اور مرد کو طبعاً عورت کی طرف رغبت رہے گی۔یہ کہ ان کا مِل کر رہنا اچھا ہوگا یا نہیں اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا صرف فطری تعلق کو لیا گیا ہے۔

حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ مرد عورت کا تعلق ادنیٰ درجے کے لوگوں کا کام ہےاگر کوئی اعلیٰ درجے کا انسان بننا چاہے اور آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا چاہے تو اسے چاہیےکہ خوجہ بن جائے مطلب یہ کہ اصل نیکی شادی نہ کرنے میں ہے ہاں جو برداشت نہ کر سکے وہ شادی کر لے۔
ہندو مذہب نے شادی کی ضرورت پر کچھ نہیں لکھا صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ شادی ان کے دیوتا بھی کرتے تھے پھر بندے کیوں نہ کریں گے مگر ساتھ ہی بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ نجات کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ انسان سب دنیا سے الگ ہو کر عبادت کرے۔

منوجی نے جن کی تعلیم ہندو مانتے ہیں یہ بھی بتایا ہے کہ پچیس سال تک کنوارا رہنا چاہیے پھر پچیس سال تک شادی شدہ رہے۔ لیکن وید اس بارے میں بالکل خاموش ہیں جو ہندوؤں کی اصل مقدس کتاب ہے۔شادی کی ضرورت، اس کی حقیقت اور اس کے نظام وغیرہ کے متعلق منو وغیرہ بھی خاموش ہیں۔

بدھ مذہب نے شادی نہ کرنے کو افضل قرار دیا ہے کیونکہ پاکیزہ اور اعلیٰ خاد مان مذہب کے لیے شادی کو منع کیا ہے خواہ عورت ہو خواہ مرد۔اوریہی جَین مذہب کی تعلیم ہے۔

(ماخوذ ازفضائل القرآن نمبر 3صفحہ 160تا161)

اسلام میں عورت سے حسن سلوک کی تعلیم

‘‘صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورتوں کی انسانیت کو نمایاں کر کے دکھایا۔ اور رسول کریم ﷺ ہی وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے عورتوں کے بلحاظ انسانیت برابر کے حقوق قائم کیے۔اور وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذِي عَلَيهِنَّ بِالمَعْرُوفِکی تفسیر لوگوں کے اچھی طرح ذہن نشین کی۔ آپ کے کلام میں عورتوں کے ساتھ حسن ِسلوک اور اُن کے حقوق اور اُن کی قابلیتوں کے متعلق جس قدر ارشادات پائے جاتے ہیں اُن کا دسواں حصہ بھی کسی اور مذہبی پیشوا کی تعلیم میں نہیں ملتا۔ آج ساری دنیا میں یہ شور مچ رہا ہے کہ عورتوں کو اُن کے حقوق دینے چاہئیں اور بعض مغرب زدہ نوجوان تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ عورتوں کو حقوق عیسائیوں نے دیے ہیں۔ حالا نکہ عورتوں کے حقوق کے سلسلہ میں اسلام نے جو وسیع تعلیم دی ہے عیسائیت کی تعلیم اُس کے پاسنگ بھی نہیں ہے۔

عربوں میں رواج تھا کہ ورثہ میں اپنی ماؤں کو بھی تقسیم کر لیتے تھے مگر اسلام نے خود عورت کو وارث قرار دیا۔ بیوی کو خاوند کا ،بیٹی کو باپ کا اور بعض صورتوں میں بہن کو بھائی کا بھی۔

غرض فر مایا

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ

یعنی انسانی حقوق کا جہاں تک سوال ہے عورتوں کو بھی ویسا ہی حق حاصل ہے جیسے مردوں کو۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں اور عورتوں کو یکساں احکام دیے ہیں اسی طرح انعامات میں بھی اُ نہیں یکساں شریک قرار دیا ہے۔ اور جن نعماء کے مرد مستحق ہوں گے اسلامی تعلیم کے تحت قیامت کے دن وہی انعامات عورتوں کو بھی ملیں گے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے نہ اس دُنیا میں اُن کی کوئی حق تلفی کی ہے اور نہ اگلے جہان میں اُنہیں کسی انعام سے محروم رکھا ہے۔ہاں آپ نے اس بات کا بھی اعلان فر مایا ہے کہوَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃً یعنی حقوق کے لحاظ سے تو مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں لیکن انتظامی لحاظ سے مردوں کو عورتوں پر ایک فوقیت حاصل ہے۔ اُس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک مجسٹریٹ انسان ہونے کے لحاظ سے تو عام انسانوں والے حقوق رکھتا ہے۔ اور جس طرح ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کو بھی ظلم اور تعدی کی اجازت نہیں اُسی طرح مجسٹریٹ کو بھی نہیں۔ مگر پھر بھی وہ بحیثیت مجسٹریٹ اپنے ماتحتوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ اور اُسے قانون کے مطابق دوسروں کو سزا دینے کےاختیارات حاصل ہوتے ہیں۔اسی طرح تمدنی اور مذہبی معا ملات میں مردں کو اللہ تعالیٰ نے قوّام ہونے کی وجہ سے فضیلت عطا فر مائی ہے۔ لیکن دوسری طرف اُ س نے عورتوں کو استمالتِ قلب کی ایسی طاقت دےدی ہے جس کی وجہ سے وہ بسا اوقات مردوں پر غالب آ جاتی ہیں۔بنگالہ کی جادو گر عورتیں تو جیسا کہ عام مشہور ہے مردوں پر جادو سا کر دیتی ہیں۔ پس جہاں مرد کو عورت پر ایک رنگ میں فوقیت دی گئی ہے وہاں عورت کو استمالت قلب کی طاقت عطافر ماکر مرد پر غلبہ دے دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بسا اوقات عورتیں مردوں پر اس طرح حکومت کرتی ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب کاروبار ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔ در اصل ہر شخص کی الگ الگ حکومت ہوتی ہے۔ جہاں تک احکام شرعی اور نظام کے قیام کا سوال ہے اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت دے دی ہے۔

مثلاً شریعت کا یہ حکم ہے کہ کوئی لڑکی اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کر سکتی۔ یہ حکم ایسا ہے جو اپنے اندر بہت بڑے فوائد رکھتا ہے۔ یورپ میں ہزاروں مثالیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ بعض لوگ دھوکے باز اور فریبی تھے مگر اس وجہ سے کہ وہ خوش وضع نوجوان تھے انہوں نے بڑے بڑے گھرانوں کی لڑکیوں سے شادیاں کر لیں اور بعد میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔کیونکہ رشتہ کی تجویز کے وقت باپ غور کرتا ہے ، والدہ غور کرتی ہے۔ بھائی سوچتے ہیں۔ رشتہ دار تحقیق کرتے ہیں اور اس طرح جو بات طے ہوتی ہے وہ با لعموم ان نقائص سے پاک ہوتی ہے جو یورپ میں نظر آتے ہیں۔ یورپ میں تو یہ نقص اس قدر زیادہ ہیں کہ جرمنی کے سابق شہنشاہ کی بہن نے اسی ناواقفی کی وجہ سے ایک باورچی سے شادی کر لی۔ اُس کی وضع قطع اچھی تھی۔ اور اُس نے مشہور یہ کر دیا تھا کہ وہ روس کا شہزادہ ہے۔ جب شادی ہوگئی تو بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو کہیں باورچی کا کام کیا کرتا تھا۔ یہ واقعات ہیں جو یورپ میں کثرت سے ہوتے رہتے ہیں۔ ان واقعات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے مردوں کو قوام ہونے کے متعلق جو کچھ فیصلہ کیا ہے وہ با لکل درست ہے۔ شریعت کا اس سے یہ منشاء نہیں کہ عورتوں پر ظلم ہو یا اُن کی کوئی حق تلفی ہو بلکہ شریعت کا اس اعتبار سے یہ منشا ہے کہ جن باتوں میں عورتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اُن میں عورتوں کو نقصان سے محفوظ رکھا جائے۔ اسی وجہ سے جن باتوں میں عورتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اُن میں اُن کا حق خدا تعالیٰ نے خود ہی اُ نہیں دے دیا ہے۔ پس قرآن کریم نے جو کچھ کہا ہے وہ اپنے اندر بہت بڑی حکمتیں اور مصالح رکھتا ہے۔ اگر دنیا ان کے خلاف عمل کر رہی ہے تو وہ کئی قسم کے نقصانات بھی برداشت کر رہی ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کے خلاف عمل پیرا ہونا کبھی نیک نتائج کا حامل نہیں ہو سکتا۔

آ خر میں وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ فر ما کر اس طرف توجہ دلائی۔ کہ یاد رکھو عورتوں پر فوقیت ہم نے نہیں دی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اس سے ناجائز فائدہ اٹھاؤ۔ اور ان کے حقوق کو پامال کرنا شروع کردو۔ دیکھو تم پر بھی ایک حاکم ہے جو عزیز ہے۔ یعنی اصل حکومت خدا تعالیٰ کی ہے۔ اس لیے چاہیےکہ مرد اس حکومت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔ اور حکیم کہہ کر اس طرف توجہ دلائی کہ ضبط و نظم کے معا ملات میں جو اختیار ہم نے مردوں کو دیا ہے یہ سرا سر حکمت پر مبنی ہے ورنہ گھروں کا امن بر باد ہو جاتا۔ چو نکہ میاں بیوی نے مل کر رہنا ہوتا ہے اور نظام اُس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک کہ ایک کو فوقیت نہ دی جائے اس لیے فوقیت مرد کو دی گئی اور اس کی ایک اور وجہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ یہ بیان فر مائی ہے کہ چونکہ مرد اپنا روپیہ عورتوں پر خرچ کرتے ہیں اس لیے انتظامی امور میں انہیں عورتوں پر فوقیت حاصل ہے۔’’

( تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 512تا514)

شادی برائے تکمیل انسانیت

‘‘…انسانیت ایک جوہر ہے یہ کہنا کہ انسانیت مرد ہے یا یہ کہنا کہ انسانیت عورت ہے غلط ہے۔ انسانیت ایک علیحدہ چیز ہے۔ وہ نفسِ واحدہ ہے۔ اس کے دو ٹکڑے کیے گئے آدھے کانام مرد ہے اور آدھے کا نام عورت جب یہ دونوں نہ ملیں گے اُس وقت تک وہ چیز مکمل نہیں ہوگی وہ تب ہی کامل ہوگی جب اُس کے دونوں ٹکڑے جوڑ دیے جائیں گے۔

یہ اسلام نے عورت مرد کے تعلق کا اصل الاصول بتایا ہے کہ مرد اور عورت علیحدہ علیحدہ انسانیت کے جوہر کے دو ٹکڑے ہیں اگر انسانیت کو مکمل کرنا چاہتے ہو تو ان دونوں ٹکڑوں کو ملانا پڑے گا ورنہ انسانیت مکمل نہ ہوگی اور جب انسانیت مکمل نہ ہوگی تو انسان کمال حاصل نہ کر سکے گا۔

…اب دیکھو!یہ کتنی بڑی اخلاقی تعلیم ہے جو اسلام نے دی ہے۔اس لحاظ سے جو مرد شادی نہیں کرتا وہ مکمل مرد نہیں ہو سکتا اسی طرح جو عورت شادی نہیں کرتی وہ مکمل عورت نہیں ہو سکتی پھر جو مرد اپنی عورت سے حسن سلوک نہیں کرتا وہ بھی اس تعلیم کےما تحت اپنا حصہ آپ کاٹتا ہے اسی طرح جو عورت مرد کے ساتھ عمدگی سے گزارا نہیں کرتی وہ بھی اپنے آپ کو نا مکمل بناتی ہے اور اس طرح انسانیت کا جزو نامکمل رہ جاتا ہے۔’’

(ماخوذ ازفضائل القرآن نمبر 3صفحہ 161تا163)

حضرت مصلح موعودؓ ایک انقلابی ذہن کے مالک تھے آپؓ چاہتے تھے کہ عورت کو اس کا مقام سمجھا کر تعلیم و تربیت کرکے مثبت کاموں میں لگا کر ان کی صلاحیتوں سے قوم کی تعمیر میں فائدہ اُٹھایا جائے اپنے پُر جوش اور پُر ولولہ خطابات سے طبقۂ نسواں کو اُبھارتے۔انہیں بشدت احساس دلا تےکہ وہ عضو معطل نہیں معاشرہ کا کا رآمد حصہ ہیں۔ اسلام کے دور ِاولین کی بہادر خواتین کی فہم و فراست اور با شعور عورتوں کے واقعات سُنا کر مثالوں سے سمجھاتے کہ عورت خود ہمت کرے تو اپنے حقوق کی حفاظت اور اپنے فرائض کی ادائیگی سے صحت مند معاشرہ جنم دے سکتی ہے۔

عورت کے حقوق ادا کرو

عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھنے والے معاشرہ میں اور بات بات پر طلاق کی دھمکی دے کر جائز نا جائز منوانے والوں اور ماننے والیوں کو احساس دلایا کہ یہ بندھن کوئی کچا دھاگا نہیں ہے۔فرمایا:

‘‘ شادی کے وقت کوئی شخص تمہیں مجبور نہیں کرتا کہ تم ضرور فلاں عورت سے شادی کرو۔ شریعت نے تمہیں یہ حق دیا ہے کہ شادی سے قبل تم لڑکی کو دیکھ لو اور اس کے متعلق تحقیق کرلو۔ اور عورت کو بھی شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ وہ خاوند کو دیکھ لے اور اس کے متعلق تحقیقات کرلے۔ لیکن جب تعلق قائم ہوجاتا ہے تو تمہیں ایک دوسرے کی ایسی باتیں برداشت کرنی پڑیں گی۔لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے بعض افراد بڑی آزادی کے ساتھ اس تعلق کو توڑنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ کوئی انصاف ہے؟ یہ تو عورت کو ذلیل کرنے کے مترادف ہے قرآن کریم نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے لوگوں کو توجہ دلائی ہے کہ تم عورتوں کے ساتھ لیٹتے ہو اور پھر ان کے حقوق ادا نہیں کرتے یہ کتنی قابلِ شرم بات ہے۔ قرآنِ کریم کہتا ہے کہ اگر تم مجبور ہوکر کسی عورت کو اپنے ازدواجی تعلق سے علیحدہ بھی کرنا چاہو تو اسے احسان کے ساتھ علیحدہ کرو۔’’

(خطابات شوریٰ جلد3صفحہ574تا575)

عائلی زندگی میں جنتِ ارضی کی تعمیر

آپؓ نے اپنے گھر میں بیویوں کے حقوق ادا کرکے جنتِ ارضی کی تعمیر کی ایک روشن مثال قائم فرمائی۔ متعدد شادیاں کرنا اور سب سے محبت و مؤدت میں خوشگوار توازن رکھنا بجائے خود ایک عبادت ہے۔ ہر بیگم کی قدردانی کے انداز ان کی طبائع کے مطابق ہیں۔

حضرت سیدہ محمودہ بیگمؓ (ام ِناصر۔ امی جان )

1902ءمیں صاحبزادہ مرزا محمود احمدؓ کی شریک حیات بنیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود بیاہ کر لائے۔

(اولاد:حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالثؒ۔ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد۔صاحبزادہ مرزا منور احمد۔ صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد۔صاحبزادہ مرزا انور احمد۔ صاحبزادہ مرزا اظہر احمد۔ صاحبزادہ مرزا رفیق احمد۔ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ [والدہ ماجدہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ]۔صاحبزادی امۃ العزیز)

حضرت اُم ناصر ؓبہت سی خوبیوں کی مالک تھیں۔ سب خاندان والوں سے حسب مراتب پیارو محبت کا سلوک کرتیں۔ شوہر کی مزاج شناس تھیں۔وفا شعار اور خدمت کرنے والی بیوی تھیں۔ ہر چھوٹی بڑی ضرورت کا خیال رکھتیں جب آپ کو علم ہوا کہ آپ دوسری شادی کا ا رادہ رکھتے ہیں تو صرف ایک فرمائش کی کہ آپ کے ذاتی کام صرف میں ہی کیا کروں گی۔اپنے ہاں باری کے روز حضور کے لیے خود صفائی ستھرائی کا خیال رکھتیں حضورؓکی پسند کا کھانا اہتمام سے بناتیں۔

حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ لکھتی ہیں:

‘‘ اپنے ہاتھ سے گوشت کی ایک ایک بوٹی دھوتیں سبزی بھی خود ہی بناتیں اور خود ہی دھوتیں۔ اپنے سامنے انگیٹھی رکھوا کر خود تیار بھی کرتیں۔ جب آپ کی صحت ٹھیک تھی اس وقت باورچی خانے میں ہی جا کر تیار کرتیں حضرت اباجان کو بھی امی جان کا کھانا بہت پسند تھا۔’’

( سیرت و سوانح حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ۔شائع کردہ لجنہ اماء اللہ بھارت صفحہ 26)

آپ کی موجودگی میں حضرت مصلح موعود ؓنے متعدد شادیاں کیں آنے والی بیویوں کو بہنوں کی طرح رکھا۔گھر کے ماحول کو پرسکون رکھنے میں ان کی فراست کا بڑا ہاتھ تھا۔ حضرت سارہ بیگم کا انتقال ہوا تو ان کے بچوں کو اپنے بچے سمجھا انہیں محبت سے پا لا انہیں خوبیوں کی وجہ سے ان کا ایک مقام تھا۔ آپ خواتین میں علم پھیلانے کی اپنے شوہر کی لگن کو خوب سمجھتی تھیں اپنا گھر،اپنی صلاحیت ،اپنا وقت سب وقف کر دیا اور مال تو بہت زیادہ قربان کیا۔ ان قربانیوں سے شوہر کے دل میں گھر کیا۔قدردان شوہر نے کیسے خراج تحسین پیش کیا۔ایک اقتباس پیش ہے:

‘‘ خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح حضرت خدیجہ ؓ کے دل میں رسول کریم ﷺ کی مدد کی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں پیسہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینکنا اور خصوصا ًاس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اس زمانہ میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا۔ اپنے دو زیور مجھے دے دیے کہ ان کو فروخت کرکے اخبار جاری کردوں۔
وہ بیوی جن کو میں نے اس وقت تک ایک سونے کی انگوٹھی بھی شاید بنوا کر نہ دی ہے اس کی یہ قربانی میرے دل پر نقش ہے اور اگر ان کی اور قربانیاں اور ہمدردیاں اور اپنی سختیاں اور تیزیاں نظر انداز بھی کردوں تو ان کا سلوک مجھے شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا اور میری زندگی کے لیے ایک نئے باب کا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لیے بھی ایک بڑا سبب پیدا کردیا۔

کیا ہی سچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے لوگ اس دکان کو تو یاد رکھتے ہیں جہاں سے عطر خریدتے ہیں مگر اس گلاب کا کسی کو بھی خیال نہیں آتا جس نے مر کر ان کی خوشی کا سامان پیدا کیا ہو ’’(الفضل 4؍جولائی 1924ء صفحہ 4)

حضرت اماں جان ؓآپ سے بہت محبت کرتی تھیں۔ ساس بہو کے مثالی پیار سےبھی گھر میں سکون کی فضا رہتی۔پہلے بچے کی وفات کے بعد جب حضرت مرزا ناصر احمدصاحب پیدا ہوئے تو حضرت اماں جانؓ کی گود میں ڈال دیے۔ یہ آپس کی محبت کی ایک عمدہ مثال تھی۔

حضرت سیدہ امۃ الحئی صاحبہ

آپ31؍ مئی 1914ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے عقد میں آئیں۔

(اولاد:صاحبزاہ مرزا خلیل احمد۔ صاحبزادی امۃ القیوم۔ صاحبزادی امۃ الرشید)

قرآن پاک کی تعلیم کے شوق نے حضرت صاحب کو متاثر کیا ذہین خاتون تھیں خدمتِ دین کے لیے انتھک کام کرنے کا جذبہ رکھتی تھیں۔

خواتین کی تعلیم و تربیت میں ممدو معاون تھیں لجنہ اماء اللہ آپ کی تحریک پر قائم ہوئی۔قادیان میں ایک تعلیمی انقلاب آگیا بہت محنتی تھیں۔جان مار کے کام کرنے کا جذبہ تھا۔

لجنہ کے کاموں میں انہماک کی انتہا کا ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ ایک دن ملازمہ نے گوشت پکانے کے لیے رکھا جو بلی کھا گئی اس نے آپ کو بتایا تو آپ نے کام کرتے کرتے کہا اچھا تو پھر مونگ کی دال پکا لو اتنے میں کیا دیکھتی ہیں کہ حضورؓ سامنے کھڑے ہیں گوشت کی جگہ مونگ کی دال کا سن کر آپ نے بھی ڈانٹا نہیں بلکہ فرمایاکہ دال پکا لو امۃ الحئی کے گھر کی مونگ کی دال بھی مجھے قورمہ پلاؤ سے اچھی لگتی ہے( استفادہ از ہراول دستہ )

حضرت صاحب کی مزاج شناس تھیں آپس کی ہم آہنگی کی نہایت خوب صورت قابل رشک الفاظ میں تعریف فرماتے ہیں :

‘‘رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔الْاَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ کہ روحیں ایک دوسرے سے وابستہ اور پیوستہ ہوتی ہیں۔یعنی بعض کا بعض سے تعلق ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری روح کو امۃ الحئی کی روح سے ایک پیوستگی حاصل تھی…میں نہیں جانتا تھا یہ میری نیک نیتی اور اپنے اُستاد اور آقا کی خواہش کو پورا کرنے کی آرزو ایسے اعلیٰ درجہ کے پھل لائے گی اور میرے لیے اس سے ایسے راحت کے سامان پیدا ہوں گے۔مجھے بہت سی شادیوں کے تجربے ہیں۔میں نے خود بھی کئی شادیاں کی ہیں اور بحیثیت ایک جماعت کا امام ہونے کے ہزاروں شادیوں سے تعلق ہے اور ہزاروں واقعات مجھ تک پہنچتے رہتے ہیں مگر میں نے عمر بھر کوئی کامیاب شادی اور خوش کرنے والی شادی نہیں دیکھی جیسی میری یہ شادی تھی۔’’ ( خطباتِ محمود جلد 3صفحہ204تا205)

خوش قسمتی کا سلسلہ وفات کے بعد دعاؤں کی صورت میں جاری رہا۔ حضور ؓ فرماتے ہیں:

‘‘آج تک میں نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں امۃ الحئی مرحومہ کے لیے دعا نہیں کی۔’’ ( خطباتِ محمود جلد 3 صفحہ203)

حضرت سیدہ مریم النساء صاحبہ(ام ِطاہر)

آپ1921ء میں عقد زوجیت میں آئیں۔

( اولاد: حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ۔ صاحبزادی امۃ الحکیم۔صاحبزادی امۃ الباسط۔ صاحبزادی امۃ الجمیل )

انیس سال کی دلہن کو شوہر کی طرف سے مرحومہ بیوی کے تین بچے سنبھالنے کی ذمہ داری ملی جو آپ نے اتنی عمدگی سے ادا کی کہ دل جیت لیے۔دل جیتنے کے فن کا ذکر حضرت صاحب کی تحریروں میں کئی جگہ ملتا ہے۔ محبت بھرے الفاظ دیکھیے

‘‘ میں نے اُن سے وعدہ کیا کہ مریم ! تم ان بے ماں کے بچوں کو پالو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تم سے بہت محبت کروں گا اور میں نے خدا تعالیٰ سے رو رو کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی محبت میرے دل میں پیدا کردے اور اس نے میری دعا سن لی …علمی باتیں نہ کرسکتی تھیں مگر علمی باتوں کا مزا خوب لیتی تھیں جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ ہوتا تھا تو واپسی پر میں اس یقین کے ساتھ گھر میں گھستا تھا کہ مریم کا چہرہ چمک رہا ہوگا اور وہ جاتے ہی تعریفوں کے پُل باندھ دیں گی اور کہیں گی کہ آج بہت مزا آیا اور یہ میرا قیاس شاذ ہی غلط نکلتا۔ میں دروازے میں انہیں منتظر پاتا۔ان کے جسم کے اندر ایک تھرتھراہٹ سی پیدا ہورہی ہوتی تھی۔

مریم ایک بہادر عورت تھیں جب کوئی نازک موقع آتا میں یقین کے ساتھ ان پر اعتبار کرسکتا تھا۔ ان کی نسوانی کمزوری اس وقت دب جاتی تھی چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے تھے اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا اب موت یا کامیابی کے سوا اس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں ہے۔ یہ مر جائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی۔ ضرورت کے وقت راتوں اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے۔ اور تھکان کی شکایت نہیں کی۔ انہیں صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے یا سلسلہ کے لیے کوئی خطرہ یا بدنامی ہے اور وہ شیرنی کی طرح لپک کر کھڑی ہوجاتیں اور بھول جاتیں اپنے آپ کو بھول جاتیں کھانے پینے کو۔بھول جاتیں اپنے بچوں کو۔ بلکہ بھول جاتیں مجھ کو بھی اور صرف وہ کام ہی یاد رہ جاتا اور اس کے بعد وہ ہوتیں اور گرم پانی کی بوتلیں۔’’( تابعین اصحاب احمد صفحہ 364)

پانچ مارچ 1944ء کو خدا کے حضور حاضر ہوگئیں۔ حضورؓ نے بے حد دل گداز خراج عقیدت پیش کیا

ابکی علیک کل یوم و لیلۃ

ارثیک یا زوجی بقلب دامی

میری بیوی میں تجھ پر ہردن رات روتا ہوں

میں خون آلودہ دل سے تیرا مرثیہ کہتا ہوں

یا رب صاحبھا بلطفک دائما

واجعل لھا ماوٰی بقبر سامی

اے میرے رب اس پر ہمیشہ لطف کرتے رہنا

اور اس کا ٹھکانا ایک بلند شان قبر میں بنانا

یا رب انعمھا بقرب محمد

ذی المجد و الاحسان والاکرام

اے میرے رب اس کو قرب محمد کی نعمت عطا فرما

جو بزرگی اور بڑا احسان کرنے والے ہیں جن کو تونے عزت بخشی

حضرت مصلح موعود ؓ نے ‘میری مریم ’کے نام سے ایک مضمون لکھا جو الفضل 12؍ جولائی 1944ء کو شائع ہوا۔ یہ مضمون آپ کے لیے ایک بے نظیر خراجِ تحسین ہے۔

حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ

12؍ اپریل 1925ء کو نکاح ہوا31؍مئی کو قادیان تشریف لائیں۔

( اولاد: صاحبزادہ مرزا رفیع احمد۔ صاحبزادہ مرزا حنیف احمد۔ صاحبزادی امۃ النصیر )

بر آستانِ آنکہ زِ خود رفت بہرِ یار

چوں خاک باش و مرضی ٔیارے دَراں بجو

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر سیدہ سارہ بیگم نے اپنے خط میں لکھا تھا گویا اپنی زندگی کا خلاصہ بیان کر دیا تھا حضرت مصلح موعود ؓ ترجمہ کرتے ہیں

‘‘اگر تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کی تلاش کر جو خدا تعالیٰ کے لیے اپنے نفس کو کھو چکا ہو اور پھر اس کے دروازہ پر مٹی کی طرح بے خواہش ہو کر گر جا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر’’( انوار العلوم جلد 13صفحہ 77)

اس شادی میں بھی پیش نظر جماعتی مفاد اور خواتین کی تعلیم تھی آپ ؓ فرماتے ہیں

‘‘ یہ شادی محض جماعت کے بعض کاموں کو ترقی دینے کے لیے کی جارہی ہے تو خدا تعالیٰ سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ اس شادی کو میرے لیے بھی مبارک کرے …پھر وہ اس کمزور اور متروک صنف کے لیے بھی جو عورتوںکا صنف ہےمبارک کرے جس کے حقوق سینکڑوں سال سے تلف کیے جارہے ہیں۔’’

(خطبات محمود جلد 3صفحہ 208)

شادی کے بعد اپنے شوہر کے عزائم کی خاطر خود کو حصول علم میں جھونک دیا ۔ اپنے دیگر فرائض بھی بحسن و خوبی ادا کیے مگر عرصۂ حیات مختصر لائیں تھیں ۔آپ کی وفات کا حضور ؓکو بہت صدمہ ہوا جس کا اظہار آپ نے اپنے خطابات میں برملا کیا اورجانے والی کے لیے جاں گداز دعائیں کیں۔ فرماتے ہیں
‘‘سارہ بیگم کی زندگی کا اگر خلاصہ کیا جائے تو وہ ان تین لفظوں میں آجاتا ہے پیدائش پڑھائی اور موت ’’
‘‘میری سارہ ’’کے نام سے الفضل 27؍ جون 1933ء میں چھپنے والا حضور ؓ کا مضمون قابل رشک خراجِ تحسین ہے۔

حضرت سیدہ عزیزہ بیگم صاحبہ

یکم فروری 1926ءکو نکاح ہوا۔

(اولادصاحبزادہ مرزا وسیم احمد۔صاحبزادہ مرزا نعیم احمد)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس خواہش کا اظہار فرما یا تھا کہ مسلمانوں کی دوسری زبان عربی ہونی چاہیے۔ ان کی مادری زبان عربی تھی عربی زبان رائج کرنے کی خاطر ایک طریق یہ بھی تھا کہ بچوں میں عربی کا چرچا ہو۔

حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ( اُم متین۔ چھوٹی آپا)

30؍ستمبر 1935ء کو عقد میں آئیں

( اولاد: صاحبزادی امۃ المتین )

شادی کی غرض آپ یوں تحریر فرماتی ہیں:

‘‘عموما ًشادیاں ہوتی ہیں دلہا دلہن ملتے ہیں تو سوائے عشق و محبت کی باتوں کے کچھ نہیں ہوتا لیکن مجھے یاد ہے کہ میری شادی کی پہلی رات بے شک عشق و محبت کی باتیں بھی ہوئیں مگر زیادہ تر عشق الٰہی کی باتیں تھیں آپ کی باتوں کا لُب لباب یہ تھا اور مجھ سے ایک طرح عہد لیا جارہا تھا کہ میں دعاؤں اور ذکر الٰہی کی عادت ڈالوں دین کی خدمت کروں اور حضرت خلیفۃ المسیح کی ذمہ داریوں میں ان کا ہاتھ بٹاؤں بار بار آپ نے اظہار فرمایا کہ میں نے تم سے شادی اسی غرض سے طے کی ہے ’’

( الفضل 25؍ مارچ 1966ء)

حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش تھی کہ وہ اپنی بیگمات کو تعلیم دے کر احمدی خواتین کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کی خدمت پر لگادیں۔حضرت سیدہ امۃ الحئی حضرت سیدہ سارہ بیگم اور حضرت سیدہ ام طاہر کے عرصہ ٔحیات مختصر ہونے کی وجہ سے یہ شوق آپ کے بلند عزائم کے مطابق پورا نہ ہوسکا۔ یہ سعادت حضرت چھوٹی آپا کے حصے میں آئی اور خوب ہی آئی۔ایم اے تک تعلیم حاصل کی اور دینی تعلیم و تربیت اس پر مستزاد۔ قرآن کریم اور عربی صرف و نحو سبقاً سبقًا حضورؓ آپ کو پڑھاتے اور امتحان بھی لیتے۔
آپ نےتیزی سے لکھنے پر بہت دفعہ حضور ؓکی خوشنودی حاصل کی۔تفسیر کے نوٹس لکھنا آپ کی ایک بہت بڑی سعادت تھی۔حضورؓنے1947ء کے بعد با لعموم اپنےخطوط،مضامین اور تقاریر کے نوٹس آپ ہی سے لکھوائے۔

قرآن کریم اس جوڑے کا ہر آن ساتھی تھا۔ایک مرتبہ باتوں باتوں میں حضرت چھوٹی آپا نےحضور ؓسےپوچھا کہ آپ نے کبھی موٹر چلانی سیکھی ؟فرمایا ہاں ایک دفعہ کوشش کی تھی مگر اس خیال سے ارادہ ترک کردیا کہ ٹکر نہ ماردوں۔ہاتھ سٹیئرنگ پر تھے اور دماغ قرآن مجید کی آیت کی تفسیر میں اُلجھا ہوا تھا موٹر کیسے چلاتا۔

حضرت مصلح موعودؓ کے زیر سایہ رہ کر آپ کی معاملہ فہمی بھی بہت اعلیٰ تھی۔ چنانچہ اس کی ایک مرتبہ داد دیتے ہوئے حضور ؓنے فرمایا:

‘‘ان کی طبیعت ایسی ہے کہ میری رضا جوئی کے لیے جب بچے آپس میں لڑ پڑیں تو چاہے ان کی لڑکی کا قصور ہو اور چاہے کسی دوسرے بچے کا وہ اپنی لڑکی کو ہی سزا دیتی ہیں تا دوسرے بچوں کے دل میں یا میرے دل میں احساس پیدا نہ ہو کہ وہ اپنی لڑکی کی طرفداری کرتی ہیں اور بوجہ بنت العم ہونے کے مجھ سے دوہرا تعلق رکھتی ہیں اس لیے دوہری محبت ہے۔’’

(خطبات محمود جلد سوم صفحہ 584)

ضرورت پر تنبیہ فرماتے

حضورؓ بیگمات کی تربیت کی خاطر موقع کی مناسبت سے تنبیہ بھی فرماتے۔ چنانچہ ایک واقعہ ملتا ہےکہ ایک مرتبہ حضرت چھوٹی آپا نے حالات کی تنگی کی وجہ سے چندہ کچھ کم لکھو ایا۔اس پر حضورؓ نے فرمایا:
‘‘بے شک اجازت میں نے دی تھی لیکن تم سے میں یہ امید نہیں رکھتا تھا کہ کم کردوگی۔ جتنا میں تمہیں جیب خرچ دیتا ہوں اتنے میں بعض لوگ اپنے بیوی بچوں کا خرچ چلاتے ہیں (اس زمانے میں حضور ہمیں پندرہ روپے ماہوار بطور جیب خرچ دیتے تھے )۔’’(مصباح جنوری 1967ء )

دل داری اور مزاح

بعض چھوٹی چھوٹی گھریلو باتیں ہیںجو آپس کے پیار اور محبت بھرے تعلقات کو ظاہر کرتی ہیں۔
مثلاً حضرت چھوٹی آپا نے لکھا کہ آپ مجھے شادی کے بعد ہمیشہ ‘صدیقہ ’کہہ کر بلاتے۔

ایک واقعہ کا ذکر حضرت چھوٹی آپا اس طرح کرتی ہیں:

‘‘ایک دفعہ میرا اور حضور کا کھانا پکانے کا مقابلہ ہوا کھانا تیار ہونے پر میں نے حضور کو کہا کہ میری سوس زیادہ اچھی ہے۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ تم نے بالکل ٹھیک کہا واقعی تمہاری ساس (حضرت اماں جان ؓ) میری ساس سے زیادہ اچھی ہیں’’

( گلہائے محبت صفحہ 95 )

ایک اور موقع پر آپ نےبیان کیا:

‘‘اسی طرح ایک مرتبہ میرا اور حضورؓ کا دال پکانے کا مقابلہ ہوگیا۔ میں نے عام روایتی طریق سے دال پکائی لیکن حضور ؓنے مرغی کی یخنی میں دال پکائی جو ظاہر ہے بہت مزے دار تھی جب کہا گیا کہ اس طرح تو ہم بھی بنا سکتے تھے تو حضورؓ نے مسکراتے ہوئے فرمایا تو پھر بنا لیتی !’’(گلہائے محبت صفحہ 95)

کھانا سادہ پسند کرتے تھے مگر اچھا پکا ہوا۔ کھانا اکیلے بالکل نہیں کھا سکتے تھے۔کام کی وجہ سے خواہ کتنی بھی دیر ہوجائے جس بیوی کے گھر حضور ؓکی باری ہوتی تھی وہ اور بچے آپ جب تک فارغ ہوکر نہ آجائیں حضور ان کا انتظار کرتے رہتے تھے اور ساتھ کھاتے تھے تربیت کی غرض سے خود فرمایا کرتے تھے کہ بچوں کو خود ساتھ بٹھایا کرو۔ یہی تو وقت ہوتا ہے جس میں بچوں کی عادات اور اخلاق کا میں مطالعہ کرتا ہوں۔

( مصباح فروری 1995ء )

حضرت سیدہ چھوٹی آپا کو تیس سال کا زمانۂ رفاقت نصیب ہوا۔ آپ کے اپنے شوہر کے اوصاف بیان کرنے کا انداز ام المومنین حضرت خدیجہ ؓکی یاد دلا دیتا ہے جب پہلی وحی پر آپ نے چند الفاظ میں آنحضورﷺ کی ساری سیرت بیان کردی تھی۔ اپنی خوش قسمتی پر نازاں بھی ہیں اور شکر گزار بھی ہے۔ تحریر فرماتی ہیں :

‘‘چن لیا تونے مجھے ‘ابنِ مسیحا’ کے لیے

سب سے پہلے یہ کرم ہے مرے جاناں تیرا

ہزاروں درود و سلام آنحضرت ﷺ پر جن کے طفیل ہمیں اسلام جیسی نعمت حاصل ہوئی اور پھر ہزاروں سلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو اسلام کو دوبارہ لائے اور ہم نے زندہ خدا کا وجودان کے ذریعہ دیکھا۔آنحضرت ﷺ پر ان کی وجہ سے ایمان لانا نصیب ہوا اور میرے رب کا کتنا بھاری احسان مجھ ناچیز پرہے کہ اس نے مصلح موعود کے زمانے میں مجھے پیدا کیا نہ صرف اُن کا زمانہ عطا فرمایا کہ مجھے اُس پاک و نورانی وجود اس قدرت و رحمت اور قربت کے نشان اور مثیلِ مسیح کے لیے چُن لیا۔آپ کی صحبت سے فیض حاصل کرنے ،آپ کی تربیت میں زندگی گزارنے اور پھر اس پاک وجود کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔خدا تعالیٰ کی کیا شان ہے دینے پر آئے تو جھولیاں بھر بھر کر دیتا ہے۔میں کیا اور میری ہستی کیا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اتنا بڑا انعام ہے کہ اس کے احسان اور انعام کا تصور کرکے بھی عقل حیران رہ جاتی ہے سر آستانۂ الوہیت پر جھک جاتا ہے اور منہ سے بے اختیار نکل جاتا ہے

مَیں تو نالائق بھی ہوکر پاگیا درگہ میں بار

(الفضل 25؍ مارچ 1966ء )

حضرت سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ(مہر آپا)

24؍ جولائی 1944ء کو حضورؓ کےعقد میں آئیں۔

آپ خوش مزاج خاتون تھیں ادب سے لگاؤ تھا۔گھریلو زندگی کے کئی واقعات تحریر کیے جو 26؍ مارچ 1966ءکے الفضل میں شائع ہوئے۔

آپ نے اپنی تمام جائداد جماعت کے نام کر دی تھی۔ اس کی آمد سے ہر سال مساجد فنڈ میں رقم ادا کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی جائداد میں برکت ڈالے۔

آپ حضور ؓکی بیگمات سے دلجوئی کے بارے میں تحریر فرماتی ہیں:

‘‘ ایک دفعہ ایسی صورت پیش آئی کہ گھر کے ملازم بوجہ بیماری رخصت پر تھے گھر کے کاموں کی مسلسل مصروفیت کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کا کام بھی پہلی دفعہ مجھے کرنا پڑا۔ حضورؓ نے کھانے کی خوب تعریف فرمائی بلکہ مزید حوصلہ افزائی اور قدردانی کے طور پر حضرت اماں جان کو بھی کھانا بھجوایا اور یہ صراحت فرمائی کہ ‘‘ یہ بشریٰ نے تیار کیا ہے’’…

ہم لوگ اس محنت اور کوفت کو بھول جاتے تھے جس میں ہم دن رات لگے رہتے یہی دل چاہتا کہ آپ ہم سے کام لیتے جائیں اور ہم بے تھکان کام کیے جائیں کام لینا بھی آپ پر ختم تھا۔ کام کے دوران … لطیفے اور قہقہے بھی ہوتے آپ کی مجلس و قربت باوجود شدید مصروفیت کے زعفران زار ہوتی۔’’

(سوانح فضل عمر جلد 5 صفحہ 374)

حضرت مصلح موعود ؓنے نہ صرف علمی اور اعتقادی لحاظ سے طبقہ اناث پر احسانات کیے بلکہ اپنے عملی نمونہ سے بھی اپنے گھر کو جنت نظیر بنا کرایک مشعل راہ قائم فرمائی۔

آپ کے گھر کے ماحول کا ایک بہت ہی خوبصورت اور دلکش نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘جب سے مَیں نے ہوش سنبھالا اپنی والدہ کی وفات تک ایک مرتبہ بھی ایسا واقعہ نہ دیکھا نہ سنا کہ ہماری بڑی والدہ حضرت اُم ناصرؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں شکایت پیش کی ہو کہ مریم نے فلاں دینی معاملہ میں میرے ساتھ تعاون نہیں کیا یااس کے برعکس کبھی میری والدہ نے کوئی شکوہ اس نوعیت کا حضور کی خدمت میں پیش کیا ہو کہ لجنہ اماء اللہ کے معاملات میں حضرت سیدہ اُم ناصر ؓنے میرے ساتھ یہ غیر منصفانہ سلوک کیا ہے۔

سالہا سال تک لجنہ اماء اللہ کی مجلسِ عاملہ کے اجلاس ہمارے گھر منعقد ہوتے رہے۔ کبھی ایک مرتبہ بھی میں نے کوئی تکرار نہیں سنی کوئی خلافِ ادب بات نہیں دیکھی گویا رشتوں کی طبعی رقابت کو اس مقدس دائرے میں قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی جیسے کسی مقدس عامل نے اپنی جادو کی چھڑی سے ان اجلاسات کے ماحول میں ایک دائرہ سا کھینچ دیا ہو کہ یہ رقابت اس دائرہ کے اندر قدم رکھنے کی قدرت نہ پائے۔
یہ مزاج شناس بیویاں اپنے خاوند کے مزاج پر نظر رکھتی تھیں اور ان کے دل اس کے دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر دھڑکتے تھے۔’’(سوانح فضلِ عمر جلد2صفحہ362)

حضور ؓ کی ایک صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ رقم کرتی ہیں:

‘‘حضور کی چار بیویاں ہیں اور ازدواجی زندگی میں تعدّد ازواج ایک بڑا نازک مرحلہ ہوتا ہے مگر حضور کے گھر کی جو کیفیت ہے اسے خدا تعالیٰ کا فضل اور حضور کی قوت قدسی کا اعجاز ہی کہنا چاہیے کیونکہ اتنے بڑے گھرانے میں جو محبت پیار کا نمونہ نظر آتا ہے دنیا اس کی نظیر لانے سے قاصر ہے۔ آپ اپنی بیویوں کے بارے میں کامل عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں۔ افراد کی نسبت سے خرچ دیتے ہیں ، کبھی کسی کو شکوہ شکایت کا موقع نہیں ملتا ، نہایت محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں ،سب بیویاں دل کی گہرائیوں سے حضور کی مدّاح ہیں ، سفروں میں باری باری ساتھ لے جاتے ہیں ،گھر میں باریاں مقرر ہیں اور ہر ایک کے حقوق کا پورا خیال رکھتے ہیں۔’’ (الفضل خلافت جوبلی نمبر 28؍ دسمبر 1939ء صفحہ 9)

میاں بیوی اور متعلقین کو نصائح

جس طرح حضورؓ نے اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنایا ،جس طرح آپ نے اپنی ازواج کا خیال رکھا اور ان کےحقوق کا پوری طرح خیال رکھا۔اسی طرح آپ چاہتے تھے کہ مسیح موعودؑ کی پیاری جماعت بھی انہی راہوں پر گامزن ہو۔ اس حوالے سے آپ نے ایک مرتبہ مردوں کو نصیحت فرمائی:

‘‘مرد شادی کے بعد عورت کو ایک حقیر جانور خیال کرتا ہے جو اُس کے پاس آنے کے بعد اپنے تمام تعلقات کو بھول جائے اور وہ یہ اُمید کرتا ہے کہ وہ بالکل میرے ہی اندر جذب ہو جائے اور میرے رشتہ داروں میں مل جائے۔ اگر وہ اپنے رشتہ داروں کی خدمت یا ملاقات کرنا چاہے تو یہ بات مرد پر گراں گزرتی ہے اور بعض اوقات تو وہ دیدہ دلیری سے ایسی بات یا حرکت کا مرتکب ہوتا ہے جو اُس عورت کے خاندان کے لیے ذلت کا باعث ہوتی ہے۔وہ نہیں سوچتا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے اندر بھی ویسا ہی دل رکھا ہے جیسا کہ اُس کے اپنے اندر۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت کی صحت خراب ہوجاتی ہے اور وہ بے چاری اپنے جذبات کو دبا دبا کر رکھتی ہے اور اِس کے نتیجے میں سِل اور دِق کا شکار ہوجاتی ہے اور میرے خیال میں آج کل ہسٹیریا وغیرہ کی بیماریاں ہیں اُن کا یہی سبب ہے۔ پس مرد سمجھتا ہے کہ عورت میں حِس ہی نہیں حالانکہ اُس کے پہلو میں بھی ویسا ہی دِل ہے جیسا کہ اُس کے اپنے پہلو میں اگر وہ سمجھتا ہے کہ اُس کی بیوی کے اندر ایک محبت کرنے والا دل ہے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ ماں جس نے اپنی بیٹی کو ایسی حالت میں پالا تھا جبکہ اگر وہ مرد اُس کو دیکھتا تو ہرگز دیکھنا بھی پسند نہ کرتا ، اسے وہ چھوڑ دے ؟ یہی حال آج کل کی ساسوں کا ہے وہ بھول جاتی ہیں اپنے زمانہ کو ،وہ بھول جاتی ہیں اُس سلوک کو جو ان کے خاوندوں نے یا اُن کی ساسوں نے اُن کے ساتھ کیا تھا۔ اسی طرح عورتیں اپنی بہوؤں کے جذبات اور طبعی تقاضوں کا خیال نہیں کرتیں اور بات بات پر لڑائی شروع کردیتی ہیں حالانکہ یہ طریق غلط ہے۔دنیا میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرد عورت کے جذبات کے متعلق اتنی بد خیالی کرتا ہے گویا عورت میں دل ہی نہیں یا عورت کے جذبات ہی نہیں۔ لیکن عورتوں میں یہ بات بہت ہی کم دیکھی گئی ہے۔ بعض عورتیں ہوتی ہیں جو زبردست ہوتی ہیں جو چاہتی ہیں کہ مرد سب کچھ بھول جائیں اور صرف اُنہی میں محو ہو جائیں مگر بہت کم ’’

(تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو، انوار العلوم جلد 15صفحہ216)

ساری جماعت کے لیے ایک جامع دعا

حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اُم طاہر کی وفات پر جو مضمون الفضل میں شائع کیا اس کا اختتام آپ نے ایک نہایت دل سوز اور مؤثر انداز میں ایک دعا کے ساتھ کیا جس میں اپنی وفات شدہ بیگمات کے ساتھ ساتھ تمام احباب جماعت کے لیے بھی اپنے مولا کے حضور فریاد کی۔ آپؓ کے ہی با برکت الفاظ پر اس مضمون کو ختم کرتی ہوں۔

حضور مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘ اے میرے رب !تو کتنا پیارا ہے۔ نہ معلوم میری موت کب آنے والی ہے اس لیے میں آج ہی اپنی ساری اولاد اور اپنے سارے عزیزو اقارب اور ساری احمدیہ جماعت تیرے سپرد کرتا ہوں۔ اے میرے رب !تُو ان کا ہوجا اور یہ تیرے ہوجائیں۔ میری آنکھیں اور میری روح ان کی تکلیف نہ دیکھیں ،یہ بڑھیں اور پھلیں اور پھولیں اور تیری بادشاہت کو دنیا میں قائم کردیں اور نیک نسلیں چھوڑ کر جو ان سے کم دین کی خادم نہ ہوں تیرے پاس واپس آئیں۔ خدایا !صدیوں تک تُو مجھے ان کا دکھ نہ دکھائیو اور میری روح کو ان کے لیے غمگین نہ کیجیو اور اے میرے رب! میری امۃ الحئی اور میری سارہ اور میری مریم پر بھی اپنے فضل کر اور ان کا حافظ و ناصر ہو جا اور ان کی ارواح کو اگلے جہان کی ہر وحشت سے محفوظ رکھ۔اللّٰھُمَّ آمین

اے مریم کی روح ! اگر خدا تعالیٰ تم تک میری آواز پہنچا دے تو لو یہ میرا آخری درد بھرا پیغام بھی سُن لو اور جاؤ خدا تعالیٰ کی رحمتوں میں جہاں غم کا کوئی نام نہیں جانتا ، جہاں درد کا لفظ کسی زبان پر نہیں آتا جہاں ہم ساکنانِ ارض کی یاد کسی کو نہیں ستاتی۔ وَالسَّلامُ۔

وَآخِرُ دَعوَانَا ودَعْوَاکُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ…

اس دنیا کی سب محبتیں عارضی ہیں اور صدمے بھی۔ اصل محبت اللہ تعالیٰ کی ہے۔اُس میں ہو کر ہم اپنے مادی عزیزوں سے مل سکتے ہیں۔ اور اُس سے جدا ہوکر ہم سب کچھ کھو بیٹھے ہیں۔ ہماری ناقص عقلیں جن امور کو اپنے لیے تکلیف کا موجب سمجھتی ہیں بسا اوقات اُن میں اللہ تعالیٰ کا کوئی احسان پوشیدہ ہوتا ہے۔ پس مَیں تو یہی کہتا ہوں میرا دل جھوٹا ہے اور میرا خدا سچا ہے۔ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ کُلِّ حَالٍ۔خدا تعالیٰ کے فضل کا طالب۔

مرزا محمود احمد

الفضل 12؍ جولائی 1944ء’’

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button