سیرت خلفائے کرام

حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض روح پرورواقعات

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

’’قَسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہو گیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا۔ ‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی الہامی بشارت کے نتیجے میں ایک وجود دُنیا میں آیا اور مصلح موعود کہلایا۔ اسی وجود نے دنیا کی اصلاح کے لیے مختلف را ہیں اور طور طریقےاختیار کیے۔ انہی طریقوں میں آپ کا ایک پر اثرطریق حضرت مسیح موعود ؑاور آپؑ کے صحابہ کرام کےواقعات کو بصیرت افروز انداز میں بیان کرنا تھا تاکہ سننے اور پڑھنے والے کوبات آسا نی سے سمجھ آسکے۔ آپ کے بیان کردہ واقعات کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے خطبات میں اِس طرح جماعت کے سامنے رکھا کہ اِن کے اندر ایک نئی جدت اورروح پیدا ہو گئی۔ اُن واقعات میں سے چند ایک حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زبانی یہاں پر پیش خدمت ہیں:

پیار و محبت جب بڑھتا ہے تو عشق بن جاتا ہے جس کی داستانیں دنیاوی و روحانی زندگی میں نظر آتی ہیں۔اِسی طرح کے نظارے اُن پروانوں کے بھی نظر آتے ہیں جو خدا کے بھیجے ہوئے کو اُس کی زندگی میں قبول کرتے ہیں اور صحابہ کا مقام پاتے ہیں۔

صحابہ کرام کا حضرت مسیح موعود ؑسے عشق

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 24؍جولائی 2015ء کے خطبہ جمعہ میں بیان فرماتے ہیں:

“صحابی حضرت منشی اروڑے خان صاحب کے آپ سے عشق کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ‘‘منشی اروڑے خان صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عشق تھا۔ وہ کپور تھلہ میں رہتے تھے اور کپور تھلہ کی جماعت کی اخلاص کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس قدر تعریف فرمایا کرتے تھے کہ آپ نے انہیں ایک تحریر بھی لکھ دی تھی جو انہوں نے (یعنی جماعت نے)رکھی ہوئی ہے کہ اس جماعت نے ایسا اخلاص دکھایا ہے کہ یہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بار بار درخواست کرتے کہ حضور کبھی کپورتھلہ تشریف لائیں۔ آپ نے بھی وعدہ کیا ہوا تھا۔ جب موقع ہوا آئیں گے۔ ایک بار جو فرصت ملی تو اطلاع دینے کا وقت نہیں تھا اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بغیر اطلاع کے چل پڑے اور کپورتھلہ کے اسٹیشن پر جب اترے تو ایک شدید مخالف نے آپ کو دیکھا جو آپ کو پہچانتا تھا۔ اگرچہ وہ مخالف تھا مگر بڑے آدمیوں کا ایک اثر ہوتا ہے۔ منشی اروڑا صاحب سناتے ہیں کہ ہم ایک دکان پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ وہ دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا کہ تمہارے مرزا صاحب آئے ہیں۔ یہ سن کر جوتی اور پگڑی وہیں پڑی رہی اور مَیں ننگے پاؤں اور ننگے سر سٹیشن کی طرف بھاگا۔ مگر پھر تھوڑی دورجا کر خیال آیا کہ ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ اطلاع دینے والا مخالف ہے اس نے مخول کیا ہو گا۔ مذاق کیا ہو گا۔ اس پر مَیں نے کھڑے ہو کر اسے ڈانٹنا شروع کر دیا۔ منشی صاحب کہتے ہیں میں نے اس شخص کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ تُو جھوٹ بولتا ہے مذاق اڑاتا ہے۔ مگر پھر خیال آیا کہ شاید آ ہی گئے ہوں اس لیے پھر بھاگا۔ پھر خیال آیا کہ ہماری ایسی قسمت نہیں ہو سکتی اور پھر اسے کوسنے لگا۔ وہ کہے مجھے برا بھلا نہ کہو مَیں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ اس پر پھر چل پڑے۔ غرضیکہ میں کبھی دوڑتا اور کبھی کھڑا ہو جاتا اسی حالت میں جا رہا تھا کہ سامنے کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لا رہے ہیں۔ تو یہ جنون ہونے والا عشق ہے اور ان کے معشوق ہونے کا خیال آتا تو دل کہتا کہ وہ ہمارے پاس کہاں آسکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے ہیں تو کچھ عرصے بعد منشی اروڑے خان صاحب قادیان آ گئے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ میں جب ان سے ملنے کے لیے باہر آیا تو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں دو یا تین اشرفیاں تھیں جو انہوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے دیں کہ امّاں جان کو دے دیں۔ مجھے اس وقت یادنہیں کہ وہ کیا کہا کرتے تھے، اماں جان یا اماں جی مگر بہرحال ماں کے مفہوم کا لفظ ضرور تھا۔ اس کے بعد انہوں نے رونا شروع کیا اور چیخیں مار مار کر اس شدت کے ساتھ رونے لگے کہ ان کا تمام جسم کانپ رہا تھا۔ اگرچہ مجھے یہ خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد انہیں رلا رہی ہے مگر وہ کچھ اس بے اختیاری سے رو رہے تھے کہ میں نے سمجھا کہ اس میں کسی اور بات کا بھی دخل ہے۔ غرضیکہ وہ دیر تک کوئی پندرہ بیس منٹ بلکہ آدھا گھنٹہ تک روتے رہے۔ مَیں پوچھتا رہا کہ کیا بات ہے۔ وہ جواب دینا چاہتے مگر رقت کی وجہ سے جواب نہ دیتے۔ آخر جب ان کی طبیعت سنبھلی تو انہوں نے کہا کہ میں نے جب بیعت کی اس وقت میری تنخواہ سات روپیہ تھی اور اپنے اخراجات میں ہر طرح سے تنگی کر کے اس کے لیے کچھ نہ کچھ بچاتا کہ خود قادیان جا کر حضور کی خدمت میں پیش کروں اور بہت سا رستہ مَیں پیدل طے کرتا تا کہ کم سے کم خرچ کر کے قادیان پہنچ سکوں۔ پھر ترقی ہو گئی اور ساتھ اس کے یہ حرص بھی بڑھتی گئی یعنی دینے کی۔ آخر میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں حضور کی خدمت میں سونا نذر کروں۔ جو تھوڑی سی تنخواہ میں سے علاوہ چندہ کے پیش کرنا چاہتا تھا لیکن جب تھوڑا تھوڑا کر کے کچھ جمع کر لیتا تو پھر گھبراہٹ سی پیدا ہوتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھے اتنی مدت ہو گئی ہے اس لیے قبل اس کے کہ سوناحاصل کرنے کے لیے رقم جمع ہوقادیان چلا آتا اور جو کچھ پاس ہوتا حضور کی خدمت میں پیش کر دیتا۔ آخر یہ تین پاؤنڈ جمع کیے تھے اور ارادہ تھا کہ خود حاضر ہو کر پیش کروں گا کہ آپ کی وفات ہو گئی۔ گویا ان کے تیس سال اس حسرت میں گزر گئے۔ انہوں نے اس کے لیے محنت بھی کی لیکن جس وقت اس کی توفیق ملی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو چکے تھے”۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد14صفحہ178تا180) (خطبہ جمعہ فرمودہ24؍جولائی 2015ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍اگست2015ءصفحہ7تا8)

22؍مئی 2015ء کے خطبہ جمعہ میں یہی موضوع آپ اِس طرح بیان فرماتے ہیں:

“حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کا جو عشق تھا اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ‘‘ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا۔ آپ کے دیکھنے والوں کو آپ سے جو محبت تھی اس کا اندازا وہ لوگ نہیں کر سکتے جو بعد میں آئے یا جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں عمر چھوٹی تھی۔ (آپ کے زمانہ میں تھے لیکن عمر چھوٹی تھی، اتنا شعور نہیں تھا۔ ) فرمایا ‘‘مگر مجھے خدا تعالیٰ نے ایسا دل دیا تھا کہ میں بچپن سے ہی ان باتوں کی طرف متوجہ تھا۔ میں نے ان لوگوں کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت کا اندازا لگایا ہے جو آپ کی صحبت میں رہے۔ میں نے سالہا سال ان کے متعلق دیکھا ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جدائی کی وجہ سے اپنی زندگی میں کوئی لطف محسوس نہ ہوتا تھا اور (حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد)دنیا میں کوئی رونق نظر نہ آتی تھی۔ فرمایا کہ حضرت خلیفہ اول جن کے حوصلے کے متعلق جو لوگ واقف ہیں جانتے ہیں کہ کتنا مضبوط اور قوی تھا۔ وہ اپنے غموں اور فکروں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے مگر انہوں نے کئی دفعہ جبکہ آپ اکیلے ہوتے اور کوئی پاس نہ ہوتا مجھے کہا میاں !جب سے حضرت صاحب فوت ہوئے ہیں مجھے اپنا جسم خالی معلوم ہوتا ہے اور دنیا خالی خالی نظر آتی ہے۔ میں لوگوں میں چلتا پھرتا اور کام کرتا ہوں مگر پھر بھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ آپ کے علاوہ کئی اور لوگوں کو بھی میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں رہے۔ ان کی محبت اور عشق ایسا بڑھا ہوا تھا کہ کوئی چیز انہیں لطف نہ دیتی اور وہ چاہتے کہ کاش ہماری جان نکل جائے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جا ملیں۔”

(ماخوذ ازخطبات محمود جلد 1صفحہ145-144۔ ) (خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مئی 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل 12جون 2015ءصفحہ6تا7)

دو طرفہ جذبہ ٔ عشق

عشق و محبت اُس وقت دیرپا رہتا ہے جب یہ دوطرفہ ہو۔ حضرت مسیح موعودؑ اورآپ کے صحابہ کرام کا آپس میں اِسی طرح کا عشق تھا۔ آپ 24؍جولائی 2015ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:

“حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مولوی عبدالکریم صاحب کو خاص عشق تھا اور ایسا عشق تھا کہ اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اس زمانے کو دیکھا۔ دوسرے لوگ اس کا قیاس بھی نہیں کرسکتے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ)وہ ایسے وقت میں فوت ہوئے جب میری عمر سولہ سترہ سال تھی اور جس زمانے میں مَیں نے ان کی محبت کو شناخت کیا ہے اس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہو گی…آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھے ہوتے تو یوں معلوم ہوتا کہ آپ کی آنکھیں حضور کے جسم میں سے کوئی چیز لے کر کھا رہی ہیں۔ اس وقت گویا آپ کے چہرے پر بشاشت اور شگفتگی کا ایک باغ لہرا رہا ہوتا تھا اور آپ کے چہرے کا ذرہ ذرہ مسرت کی لہر پھینک رہا ہوتا تھا۔ جس طرح مسکرا مسکرا کر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتیں سنتے اور جس طرح پہلو بدل بدل کر داد دیتے وہ قابل دید نظارہ ہوتا۔ اگر اس کا تھوڑا سا رنگ میں نے کسی اور میں دیکھا تو وہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے۔ غرض مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے خاص عشق تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی آپ سے ویسی ہی محبت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریق تھا کہ مغرب کی نماز کے بعد ہمیشہ بیٹھ کر باتیں کرتے۔ لیکن مولوی صاحب کی وفات کے بعد آپ نے ایسا کرنا چھوڑ دیا۔ کسی نے عرض کیا کہ حضور اب بیٹھتے نہیں؟ تو فرمایا کہ مولوی عبدالکریم صاحب کی جگہ کو خالی دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔ حالانکہ کون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو حیّ اور دوبارہ زندگی دینے والا یقین کرتا ہو۔ پس یہ یکطرفہ عشق نہیں تھا”۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد14صفحہ122) (خطبہ جمعہ فرمودہ24؍جولائی 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍اگست2015ءصفحہ7)

پھر آپ فرماتے ہیں:

“عربی کے بعض حروف ایسے ہیں جن کی خاص ادائیگی ہے اور غیر عرب اس کا صحیح تلفظ ادا نہیں کر سکتے۔ ایک دفعہ ایک عرب نے یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی گفتگو کے دوران کیا کہ آپ صحیح ادائیگی نہیں کر سکتے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعوؓد فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص آیا۔ آپ نے اسے تبلیغ کرنی شروع کی تو باتوں باتوں میں آپ نے فرمایا کہ قرآن میں یوں آتا ہے۔ پنجابی لہجے میں چونکہ ‘ق’ اور ‘ک’ اچھی طرح ادا نہیں ہو سکتااور عام طور پر لوگ قرآن کہتے ہوئے قاریوں کی طرح ق کی آواز گلے سے نہیں نکالتے بلکہ ایسی آواز ہوتی ہے جو ‘‘ق’’ اور ‘‘ک’’کے درمیان درمیان ہوتی ہے۔ آپ نے بھی قرآن کا لفظ اس وقت معمولی طور پر ادا کر دیا۔ اس پر وہ شخص کہنے لگا کہ بڑے نبی بنے پھرتے ہیں۔ قرآن کا لفظ تو کہنا آتا نہیں اس کی تفسیر آپ نے کیا کرنی ہے۔ جونہی اس نے یہ فقرہ کہا اس مجلس میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اسے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معاً ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور دوسری طرف مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیٹھے تھے۔ دوسرا ہاتھ انہوں نے پکڑ لیا۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر اسے تبلیغ کرنی شروع کر دی۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ صاحب سے فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس یہی ہتھیار ہے اگر ان ہتھیاروں سے بھی یہ کام نہ لیں تو بتلائیں یہ اور کیا کریں۔ اگر آپ یہی امید رکھتے ہیں کہ یہ بھی دلائل سے بات کریں اور صداقت کی باتیں ان کے منہ سے نکلیں تو پھر اللہ تعالیٰ کو مجھے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کا مجھے بھیجنا ہی بتا رہا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کا مجھے بھیجنا ہی بتا رہا ہے) کہ ان لوگوں کے پاس صداقت نہیں رہی۔ یہی اوچھے ہتھیار ان کے پاس ہیں اور (صاحبزادہ صاحب کو فرمایا کہ) آپ چاہتے ہیں کہ یہ ان ہتھیاروں کو بھی استعمال نہ کریں۔”

(الفضل 9؍ مارچ 1938ء صفحہ7نمبر55جلد26) (خطبہ جمعہ فرمودہ24؍جولائی 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍اگست2015ءصفحہ8)

صبر و تحمل کے پیکر۔حضرت مسیح موعودؑ

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلا م کا صبر وتحمل انتہا درجہ کا تھا۔حضورِانورنے 24؍جولائی 2015ء کو جمعہ کے خطبہ میں آپ کی اِس خداداد صفت کو بیان کرتےہوئے فرمایا:

“پھر صبر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعوؓد فرماتے ہیں کہ آپ کے صبر کی کیا حالت تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ دشمنان احمدیت کے ایسے ایسے گندے خطوط میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام پڑھے ہیں کہ انہیں پڑھ کر جسم کا خون کھولنے لگتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ رکھے ہوئے تھے صبر سے کام لیتے تھے اور فرماتے ہیں کہ پھر یہ خطوط ایسی کثرت سے آپ کو پہنچتے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اتنی کثرت سے میرے نام بھی نہیں آتے۔ میری طرف سال میں صرف چار پانچ خطوط ایسے آتے ہیں علاوہ ان کے جو بیرنگ آتے ہیں اور واپس کر دئیے جاتے ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف ہر ہفتے میں دو تین خط ایسے ضرور پہنچ جاتے تھے اور وہ اتنے گندے اور گالیوں سے پُر ہوا کرتے تھے کہ انسان دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اتفاقاً ان خطوط کو ایک دفعہ پڑھنا شروع کیا تو ابھی ایک دو خط ہی پڑھے تھے کہ میرے جسم کا خون کھولنے لگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو آپ فوراً تشریف لائے اور آپ نے خطوط کا وہ تھیلا میرے ہاتھ سے لے لیا اور فرمایا انہیں مت پڑھو۔ اس قسم کے خطوط کے کئی تھیلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جمع تھے۔ لکڑی کا ایک بکس تھا جس میں آپ یہ تمام خطوط رکھتے چلے جاتے۔ کئی دفعہ آپ نے یہ خطوط جلائے بھی مگر پھر بہت سے جمع ہو جاتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہی تھیلوں کے متعلق اپنی کتب میں لکھا ہے کہ میرے پاس دشمنوں کی گالیوں کے کئی تھیلے جمع ہیں۔ پھر صرف ان میں گالیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ واقعات کے طور پر جھوٹے اتہامات اور ناجائز تعلقات کا ذکر ہوتا تھا۔ پس ایسی باتوں سے گھبرانا بہت نادانی ہے۔ یہ باتیں تو ہمارے تقویٰ کو مکمل کرنے کے لیے ظاہر ہوتی ہیں۔ ان میں ناراضگی اور جوش کی کون سی بات ہے۔ آخر برتن کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہی اس میں سے ٹپکتا ہے۔ دشمن کے دل میں چونکہ گند ہے اس لیے گند ہی اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم نیکی اور تقویٰ پر زیادہ سے زیادہ قائم ہوتے چلے جائیں اور اپنے اخلاق کو درست رکھیں۔ اگر دشمن کسی مجلس میں ہنسی اور تمسخر سے پیش آتا ہے تو پھر تم اس مجلس سے اٹھ کر چلے آؤ۔ یہی خدا کا حکم ہے۔”

(ماخوذ از الفضل 9؍مارچ 1938ء صفحہ 7نمبر55 جلد26)(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍جولائی 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍اگست2015ءصفحہ8)

اولیاء کی قبروں پر دُعا کرنا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اولیاء اور بزرگان کی قبروں پر جا کر دُعا کرنا ثابت ہے۔ حضورِانور نے 24؍جولائی 2015ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا:

“ایک جگہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں …حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دفعہ دہلی تشریف لے گئے تو آپ مختلف اولیاء کی قبروں پر دعا کرنے کے لیے گئے۔ چنانچہ خواجہ باقی باللہ صاحب، حضرت قطب صاحب، خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء، شاہ ولی اللہ صاحب، حضرت خواجہ میر درد صاحب اور نصیر الدین صاحب چراغ کے مزارات پر بھی آپ نے دعا فرمائی۔ اس وقت آپ نے جو کچھ فرمایا تو جہاں تک مجھے یاد ہے گو ڈائری اس طرح چھپی ہوئی نہیں، یہ ہے کہ دلّی والوں کے دل مردہ ہو چکے ہیں۔ ہم نے چاہا کہ ان وفات یافتہ اولیاء کی قبروں پر جا کر ان کے لیے، ان کی اولادوں کے لیے اور خود دہلی والوں کے لیے دعائیں کریں تا کہ ان کی روحوں میں جوش پیدا ہو اور وہ بھی ان لوگوں کی ہدایت کے لیے دعائیں کریں۔ ڈائری میں صرف اس قدر چھپا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہم نے قبروں پر ان کے لیے بھی دعا کی اور اپنے لیے بھی دعا کی ہے اور بعض امور کے لیے بھی دعا کی ہے۔”

(بدر8؍نومبر1905ء) (خطبہ جمعہ فرمودہ24؍جولائی 2015ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14؍ اگست 2015ء صفحہ8تا9)

حضورِانورنے فرمایا:

“اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خالی ان لوگوں کے لیے دعا نہیں کی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قبر پرجا کر صرف مرنے والے کے لیے ہی دعا کرنی چاہیے، اس کا اس ڈائری سے ردّ ہوتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ہم نے ان کے لیے بھی دعا کی اور اپنے لیے بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقاصد میں کامیاب فرمائے اور اَور کئی امور کے لیے بھی۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ڈائری ہے جو بدر میں چھپی ہوئی موجود ہے۔”

(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍جولائی 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍اگست2015ءصفحہ9)

’’ایک جدید کرامت مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم کی‘‘

جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تذکرۃ الشہادتین تحریر فرما رہے تھے تو آپ کو درد گردہ کی شدید تکلیف شروع ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی دُعا کو سنا اور درد سےنجات ملی۔24؍جولائی 2015ءکو جمعہ کے خطبہ میں حضورِانورنے فرمایا:

“اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تذکرۃ الشہادتین میں تحریر فرماتے ہیں کہ میرا ارادہ تھا کہ گورداسپور ایک مقدمے پر جانے سے پیشتر اس کتاب کو (تذکرۃ الشہادتین کو) مکمل کر لوں اور اسے اپنے ساتھ لے جاؤں مگر مجھے شدید درد گردہ ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ یہ کام نہیں ہو سکے گا۔ اس وقت میں نے اپنے گھر والوں یعنی حضرت اُمّ المومنین سے یہ کہا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ آمین کہتی جائیں۔ چنانچہ اس وقت میں نے صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب شہید کی روح کو سامنے رکھ کر دعا کی کہ الٰہی اس شخص نے تیرے لیے قربانی کی ہے اور میں اس کی عزت کے لیے یہ کتاب لکھنا چاہتا ہوں تُو اپنے فضل سے مجھے صحت عطا فرما۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں ‘‘قَسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہو گیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا۔ ’’

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ74تا75)

اب دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمے پر جا رہے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ اس سے پیشتر کتاب مکمل ہو جائے مگر آپ سخت بیمار ہوگئے۔ اس پر آپ نے حضرت شہید مرحوم کی روح کو جو آپ کے خادموں میں سے ایک خادم تھے اپنے سامنے رکھ کر دعا کی کہ الٰہی اس کی خدمت اور قربانی کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ کتاب لکھنی چاہی تھی۔ تُو مجھے اپنے فضل سے صحت عطا فرما۔ اور پھر خدا نے آپ کی اس دعا کو قبول فرمایا۔ چنانچہ آپ نے اس واقعہ کا ہیڈنگ ہی یہ رکھا ہے کہ ‘‘ایک جدید کرامت مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی’’۔ صلحاء و اتقیاء کے طریق سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس رنگ میں کئی بار دعا فرمائی۔ جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ مردہ کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ وہ ہمیں کوئی چیز دے گا۔ یہ امر صریح ناجائز ہے اور اسلام اسے حرام قرار دیتا ہے۔ باقی رہا اس کا یہ حصہ کہ ایسے مقامات پر جانے سے رقّت پیدا ہوتی ہے یا یہ حصہ کہ انسان ان وعدوں کو یاد دلا کر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کیے ہوں دعا کرے کہ الٰہی اب ہمارے وجود میں تُو ان وعدوں کو پورا فرما۔ یہ نہ صرف ناجائز نہیں بلکہ ایک روحانی حقیقت ہے اور مومن کا فرض ہے کہ وہ برکت کے ایسے مقامات سے فائدہ اٹھائے۔ مثلاً جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار پر دعا کے لیے جائیں تو ہم اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ الٰہی یہ وہ شخص ہے جس کے ساتھ تیرا یہ وعدہ تھا کہ میں اس کے ذریعہ اسلام کو زندہ کروں گا۔ تیرا وعدہ تھا کہ میں اس کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔’’

(ماخوذ از الفضل 14؍ مارچ 1944ء صفحہ7جلد32 نمبر61)(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍جولائی 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍اگست2015ءصفحہ9)

رزّاق کے رزق دینے کے نرالے انداز

22؍مئی 2015ء کو جمعہ کے خطبہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں‘‘جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زلزلے کے متعلق اپنی پیشگوئیوں کی اشاعت فرمائی تو قادیان میں کثرت سے احمدی دوست آ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی دوستوں سمیت باغ میں تشریف لے گئے اور وہاں خیموں میں رہائش شروع کر دی۔ چونکہ ان دنوں قادیان میں زیادہ کثرت سے مہمان آنے لگ گئے تھے۔ ایک دن آپ نے ہماری والدہ سے فرمایا کہ اب تو روپے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ (بہت زیادہ اخراجات شروع ہو گئے ہیں۔ ) میرا خیال ہے کہ کسی سے قرض لے لیا جائے۔ (یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ )کیونکہ اب اخراجات کے لیے کوئی روپیہ پاس نہیں رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ ظہر کی نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ جب واپس آئے تو اس وقت مسکرا رہے تھے۔ واپس آنے کے بعد پہلے آپ کمرے میں تشریف لے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلے اور والدہ سے فرمایا کہ انسان باوجود خدا تعالیٰ کے متواتر نشانات دیکھنے کے بعض دفعہ بدظنی سے کام لیتا ہے۔ میں نے خیال کیا تھا کہ لنگر کے لیے روپیہ نہیں۔ اب کہیں سے قرض لینا پڑے گا مگر جب میں نماز کے لیے گیا تو ایک شخص جس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ آگے بڑھا اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دے دی۔ میں نے اس کی حالت دیکھ کر سمجھا کہ اس میں کچھ پیسے ہوں گے۔ (بھاری تھی اس لیے coinsکی وجہ سے سکّوں کی وجہ سے اس میں وزن آ گیا اور چند پیسے ہوں گے)مگر جب گھر آ کر اسے کھولا تو اس میں سے کئی سو روپیہ نکل آیا۔ اب دیکھو وہ روپیہ آج کل کے چندوں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا تھا۔ آج اگر کسی کو کہا جائے کہ تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کا ایک دن نصیب کیا جاتا ہے بشرطیکہ تم لنگر کا ایک دن کا خرچ دے دو تو وہ کہے گا ایک دن کا خرچ نہیں تم مجھ سے سارے سال کا خرچ لے لو لیکن خدا کے لیے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا ایک دن دیکھنے دو۔ مگر آج کسی کو وہ بات کہاں نصیب ہو سکتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں قربانی کرنے والوں کو نصیب ہوئی۔”

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 9صفحہ341) (خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مئی 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل 12جون 2015صفحہ 6)

پھر فرمایا:

“پھر ایک جگہ جماعتی کارکن جو ہیں خاص طور پر ایسے ممالک میں جہاں مہنگائی بھی بہت ہے اور غربت بھی بہت ہے، ان کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا خدا سے مانگیں بجائے اس کے کہ انجمن پر کسی کی نظر ہو۔ اور اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک چھوٹی سی بات کی مثال حضرت مصلح موعودنے دی۔ فرماتے ہیں کہ ‘‘حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی بہت سردی محسوس ہوتی تھی اس لیے آپ مشک کھایا کرتے تھے۔ (یہ دیسی حکیموں کا نسخہ ہے۔ مُشک کھانے سے سردی دور ہوتی ہے)شیشی بھر کے جیب میں رکھ لیا کرتے تھے اور ضرورت کے وقت استعمال کر لیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ایک شیشی (چھوٹی سی شیشی جیب میں آ جاتی ہے)۔ دو دو سال تک چلتی ہے۔ لیکن جب خیال آتا ہے کہ مشک تھوڑی رہ گئی ہے اور شیشی دیکھتا ہوں تو وہ ختم ہو جاتی ہے۔ (جب تک دیکھا نہیں جاتا، کھاتے رہتے ہیں اور اس میں برکت پڑتی رہتی ہے۔ فرمایا کہ جب میں دیکھتا ہوں تو کچھ عرصہ بعد ختم ہو جاتی ہے۔ )حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو غیب سے رزق بھیجتا ہے اور اس کے رزق بھیجنے کے طریقے نرالے ہیں۔ پس تم اس ذات سے مانگو جس کا خزانہ خالی نہیں ہوتا۔ انجمن سے کیوں مانگتے ہو جس کے پاس اتنی رقم ہی نہیں کہ وہ تمہارے گزارے بڑھا سکے۔ پس تم خدا پرست بن جاؤ۔ (خدا تعالیٰ کی عبادت کرو۔ )خدا تعالیٰ غیب سے تمہیں رزق بھیج دے گا۔ (اُس سے مانگو۔)صدر انجمن احمدیہ کے پاس اتنا روپیہ نہیں کہ وہ تمہیں زیادہ گزارہ دے سکے۔ آخر اس کے پاس جو روپیہ آتا ہے وہ جماعت کے چندوں سے ہی آتا ہے اور وہ اس قدر زیادہ نہیں ہوتا۔”

(ماخوذ از الفضل 18؍فروری 1956ء صفحہ 5 جلد 45/10نمبر42)(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مئی 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12جون 2015ءصفحہ 7)

حضرت مسیح موعود ؑکی قادیان سے محبت

22؍مئی 2015ء کو خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محبت تھی اور کس طرح آپ دیکھا کرتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جن مقاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کا تعلق ہوتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے متبرک بنا دئیے جاتے ہیں۔ قادیان بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے۔ یہاں خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ مبعوث ہوا اور اس نے یہاں ہی اپنی ساری عمر گزاری اور اس جگہ سے وہ محبت رکھتا تھا۔ چنانچہ اس موقع پر جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور گئے ہوئے تھے۔ (جب حضرت مسیح موعود آخری بیماری کے دنوں میں یا آخری دنوں میں لاہور گئے ہیں وہیں وفات ہوئی ہے) اور آپ کا وصال ہو گیا ہے۔ ایک دن آپ نے مجھے ایک مکان میں بلا کر فرمایا کہ محمود دیکھو یہ دھوپ کیسی زرد سی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں مجھے تو ویسی ہی معلوم ہوتی تھی جیسی ہر روز دیکھتا تھا تو میں نے کہا کہ نہیں اسی طرح کی ہے جس طرح ہر روز ہوا کرتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا نہیں یہاں کی دھوپ کچھ زرد اور مدھم سی ہے۔ قادیان کی دھوپ بہت صاف اور عمدہ ہوتی ہے۔ چونکہ آپ نے قادیان میں ہی دفن ہونا تھا اس لیے آپ نے یہ ایک ایسی بات فرمائی جس سے قادیان سے آپ کی محبت اور الفت کا پتا لگتا ہے۔”

(ماخوذ ازانوار خلافت، انوار العلوم جلد 3صفحہ 175)(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مئی 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12جون 2015صفحہ 7)

نبی کی مخالفت ترقی کا زینہ بنتی ہے

حضور نے خطبہ جمعہ 24؍ اکتوبر 2014ء کو فرمایا:

“مخالفت جو جماعت کی ہوتی ہے، نبی کی ہوتی ہے، یہ ترقی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ‘‘حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئی دفعہ ہم نے ایک واقعہ سنا ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ دشمن جب ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور مخالفت کرتے ہیں تو ہمیں امید ہوتی ہے کہ ان میں سے سعید روحیں ہماری طرف آ جائیں گی۔ لیکن جب نہ تو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور نہ ہی مخالفت کرتے ہیں اور بالکل خاموش ہو جاتے ہیں تو یہ بات ہمارے لیے تکلیف دِہ ہوتی ہے۔ آپ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے کہ نبی کی مثال اُس بڑھیا کی سی ہوتی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کچھ پاگل سی تھی اور شہر کے بچے اسے چھیڑا کرتے تھے اور وہ انہیں گالیاں اور بددعائیں دیا کرتی تھی۔ آخر بچوں کے ماں باپ نے تجویز کی کہ بچوں کو روکا جائے کہ وہ بڑھیا کو دِق نہ کیا کریں۔ چنانچہ انہوں نے بچوں کو سمجھایا۔ مگر بچے تو بچے تھے وہ کب باز آنے والے تھے۔ یہ تجویز بھی کارگر ثابت نہ ہوئی۔ آخر بچوں کے والدین نے فیصلہ کیا کہ بچوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے اور دروازوں کو بند رکھا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور دو تین دن تک بچوں کو باہر نہ نکلنے دیا۔ اس بڑھیا نے جب دیکھا کہ اب بچے اسے تنگ نہیں کرتے تو وہ گھر گھر جاتی اور کہتی کہ تمہارا بچہ کہاں گیا ہے؟ کیا اسے سانپ نے ڈس لیا ہے؟ کیا وہ ہیضے سے مر گیا ہے؟ کیا اس پر چھت گر پڑی ہے؟ کیا اس پر بجلی گر گئی ہے؟ غرض وہ ہر دروازے پر جاتی اور قسم قسم کی باتیں کرتی۔ آخر لوگوں نے سمجھا کہ بڑھیا نے تو پہلے سے بھی زیادہ گالیاں اور بددعائیں دینا شروع کر دی ہیں۔ اس لیے بچوں کو بند رکھنے کا کیا فائدہ۔ انہوں نے بچوں کو چھوڑ دیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ یہی حالت نبی کی ہوتی ہے۔ جب مخالفت تیز ہوتی ہے تب بھی اسے تکلیف ہوتی ہے۔ اور جب مخالف چُپ کر جاتے ہیں تب بھی اسے تکلیف ہوتی ہے کیونکہ جب تک مخالفت نہ ہو لوگوں کی توجہ الٰہی سلسلے کی طرف نہیں ہوسکتی۔’’

(ماخوذ از رسول کریمﷺ کی زندگی کے تمام اہم واقعات… انوارالعلوم جلد 19صفحہ 152)(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍اکتوبر2014ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍نومبر2014ءصفحہ 7تا8)

‘درّثمین’۔ہدایت کا ذریعہ

پھر اِسی خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:

‘‘ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک مولوی صاحب آئے۔ وہ شاعر بھی تھے اور بڑے مشہور ادیب بھی تھے۔ نواب صاحب رام پور نے انہیں اردو محاورات کی لغت لکھنے پر مقرر کیا ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ نواب صاحب رام پور کے پاس مشہور شاعر مینائی کے مسودات پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے اردو کی ایک بڑی بھاری لغت لکھی ہوئی تھی مگر ابھی اسے مکمل نہیں کیا تھا کہ نواب صاحب وفات پا گئے۔ (ان کے جانشین) نواب صاحب رام پور نے وہ مسودات مجھے دیے ہیں اور کہا ہے کہ تم انہیں مکمل کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا کہ رام پور میں تو ہماری بڑی مخالفت ہے اور آپ وہاں کے رہنے والے ہیں۔ آپ کو بیعت کرنے کی توجہ کیسے ہوئی؟ وہ کہنے لگے کہ مجھے کسی نے درّثمین دی تھی۔ مَیں چونکہ خود شاعر ہوں۔ میں نے آپ کا کلام پڑھا جس کی وجہ سے میں بہت متاثر ہوا کیونکہ اس میں محبت رسول بھری پڑی تھی۔ اس کے بعد مولوی ثناء اللہ صاحب وہاں آئے اور انہوں نے ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں انہوں نے بتایا کہ مرزا صاحب اسلام کے سخت دشمن ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں۔ مَیں نے ان کی تقریر سن کر سمجھا کہ مرزا صاحب ضرور سچے ہیں ورنہ ان مولوی صاحب کو آپ کے متعلق اتنا جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ جس شخص کے اندر اس قدر محبت رسول ہے کہ اس کا کلام اس سے بھرا پڑا ہے اس کے متعلق اگر کوئی مولوی کہتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن ہے تو وہ مولوی یقینا ًجھوٹا ہے۔ اور جس شخص پر وہ ہتک رسول کا الزام لگاتا ہے وہ سچا ہے۔ ورنہ اس تقریر کرنے والے کو جھوٹے دلائل دینے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ سچی بات کہتا کہ اگرچہ اس شخص نے درّثمین میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی تعریف کی ہے، خدا تعالیٰ کی بڑی تعریف کی ہے مگر ہے جھوٹا۔ اگر وہ ایسا کہتا تو پھر کوئی بات نہیں تھی۔ لیکن اس نے سچائی کو بالکل ترک کر دیا اور کہا کہ یہ شخص خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بدگوئی کرتا ہے۔ میں نے اس کی تقریر سنی تو فوراً سمجھ لیا کہ مرزا صاحب اپنے دعوے میں سچے ہیں اور مَیں آپ کی بیعت کے لیے تیار ہوگیا۔ تو حقیقت یہ ہے کہ بسا اوقات دشمن تو یہ کوشش کرتا ہے کہ مومنوں کے خلاف لوگوں میں جوش پیدا کرے لیکن بجائے جوش ابھرنے کے وہ بات مومنوں کے حق میں مفید ہو جاتی ہے۔”

(ماخوذ از الفضل ربوہ 31؍ اگست 1956ءصفحہ 6-5 نمبر204 جلد 45/10)(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍اکتوبر2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍نومبر2014ءصفحہ 8)

‘‘آج حسن اتفاق سے ہمیں شیطان مل گیا ہے’’

پھر فرما تے ہیں:

“اسی طرح کا ایک پرانا، شروع کا، ابتدائی زمانے کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ‘‘گجرات کے ضلع میں چک سکندر کے قریب بھاؤ گھسیٹ پور ایک گاؤں ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں چندنہایت ہی مخلص بھائی رہا کرتے تھے۔’’لکھتے ہیں کہ ‘‘مَیں اس وقت چھوٹا تھا مگر مجھے خوب یاد ہے کہ وہ بڑے شوق سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں آ کر بیٹھا کرتے تھے اور بڑے محظوظ ہوا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک سالے تھے (یعنی بیوی کے بھائی) جن کا نام علی شیر تھا۔ (یہ پہلی بیوی کے بھائی تھے۔)…اور وہ آنے والے احمدیوں کو ورغلاتے رہتے تھے اور کہتے تھے کہ میں تو اس کا بھائی اور رشتہ دار ہوں۔ مَیں جانتا ہوں کہ اس نے صرف ایک دکان کھول رکھی ہے اور کچھ نہیں ہے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں کہ صرف دکان کھولی ہے اور کچھ نہیں ہے نبوت کا ڈھکونسلا ہے۔ یہ باتیں سن کے)کمزور لوگوں کو دھوکہ لگ جاتا کہ بھائی جب یہ باتیں کہہ رہا ہے تو ٹھیک ہی ہوں گی۔ ایک دفعہ تحصیل کھاریاں کے یہی پانچوں بھائی جن کا پہلے شروع میں ذکر ہوا ہے، قادیان آئے۔ اس وقت تک ابھی بہشتی مقبرہ نہیں بنا تھا۔ یہ اس سے بہت پہلے کی بات ہے۔ اس زمانے میں جو لوگ قادیان آیا کرتے تھے انہوں نے متبرک مقامات کی زیارت کے لیے یا تو مسجد مبارک میں چلے جانا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی مجلس میں چلے جانا یا پھر ہمارے دادا کے باغ میں چلے جانا۔ وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد کا باغ ہے اس لیے یہ بھی متبرک جگہ ہے۔ اس باغ کے رستے میں وہ جگہ تھی جہاں محلہ دارالضعفاء بنا تھا۔ اس محلے کے بننے سے پہلے یہ زمین علی شیر صاحب کے پاس تھی (یعنی یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بیوی کے بھائی تھے) اور وہ اس میں شوق سے باغیچہ لگایا کرتے تھے۔ ایک لمبی سی سیخ انہوں نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہوتی تھی۔ داڑھی بھی بڑی لمبی تھی مگر سلسلے کے سخت دشمن تھے اور ہمیشہ اس تاڑ میں رہتے تھے کہ کوئی احمدی ملے تو اسے ورغلاؤں۔ ایک دفعہ یہ پانچوں بھائی قادیان آئے (جیسا کہ ذکر ہوا ہے) اور باغ دیکھنے کے لیے چل پڑے۔ ان میں سے ایک بھائی تیز تیز قدم اٹھائے ہوئے سب سے آگے جارہا تھا۔ مرزا علی شیر نے انہیں دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ باہر کے آدمی ہیں اور انہوں نے زور سے آواز دی کہ بھائی صاحب ذرا میری بات سننا۔ اس آواز پر وہ آ گئے۔ مرزا علی شیر نے ان سے کہا کہ آپ یہاں کس طرح آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا تھا کہ مرزا صاحب نے مہدی اور مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس لیے یہاں ہم ان کی زیارت کے لیے آئے ہیں کیونکہ ہمیں وہ اپنے دعویٰ میں سچے معلوم ہوتے ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ تم اس کے دھوکے میں کس طرح آ گئے۔ تم نہیں جانتے یہ تو اس شخص نے اپنی روزی کمانے کے لیے ایک دکان کھول رکھی ہے۔ یہ میرا بھائی ہے اور مَیں اس کے حالات کو خوب جانتا ہوں۔ تم تو باہر کے رہنے والے ہو۔ تمہیں اصل حالات کا کیا علم ہو سکتا ہے۔ تم اس کے دھوکے میں نہ آنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ وہ احمدی دوست مرزا علی شیر کی یہ بات سن کر بڑے شوق سے آگے بڑھے اور کہنے لگے کہ ذرا دست پنجہ تو لیں۔ (یعنی مصافحہ کریں۔ اپنا ہاتھ پکڑائیں۔)تو علی شیر نے سمجھا کہ میری باتوں کا اس پر اثر ہو گیا ہے اور میری بزرگی کا یہ قائل ہو گیا ہے کیونکہ ان کی عادت تھی کہ وہ باتیں بھی کرتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ سبحان اللہ اور استغفراللہ بھی کہتے جاتے تھے۔ تو علی شیر نے بڑے شوق سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور سمجھا کہ آج ایک اچھا شکار میرے قابو آ گیا ہے۔ تو بھائیوں میں سے یہ جو ایک احمدی بھائی آگے تھے، انہوں نے زور سے ان کا ہاتھ پکڑا اور باقی چاروں بھائیوں کو زور زور سے آوازیں دینی شروع کر دیں کہ جلدی آنا ایک ضروری کام ہے۔ حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ ہمارے ماموں نے سمجھا کہ اس پر میری بات کا اثر ہو گیا ہے اور اب یہ اپنے بھائیوں کو اس لیے بلا رہا ہے کہ انہیں بتائے کہ یہ ٹھیک کہہ رہا ہے اور وہ اپنے دل میں بڑے خوش ہوئے کہ آج میرا حربہ کارگر ہوا ہے۔ مگر جب ان کے بھائی وہاں پہنچ گئے۔ پانچوں بھائی اکٹھے ہو گئے تو جو پہلے بھائی آئے ہوئے تھے کہنے لگے ہم قرآن اور حدیث میں پڑھا کرتے تھے کہ دنیا میں ایک شیطان ہوا کرتا ہے مگر وہ ہمیں ملتا نہیں تھا۔ آج حسن اتفاق سے ہمیں شیطان مل گیا ہے۔’’

(ماخوذ از الفضل ربوہ 31؍ اگست 1956ءصفحہ 6-5نمبر204 جلد 45/10) (خطبہ جمعہ فرمودہ24؍اکتوبر2014ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍نومبر2014ءصفحہ 8)

ایک الہام۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ

20؍فروری 2015ء کو خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

“حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ‘‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی جبکہ خلافت کا کوئی سوال بھی ذہن میں پیدا نہیں ہو سکتا تھا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ یعنی وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لائیں گے ان لوگوں پر جو تیرے مخالف ہوں گے قیامت تک غالب رہیں گے۔ یہ الہام میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سنایا اور آپ نے اسے لکھ لیا۔ یہ وہی آیت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں آتی ہے مگر وہاں الفاظ یہ ہیں کہ

وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ (آل عمران: 56)

کہ مَیں تیرے منکروں پر تیرے مومنوں کو قیامت تک غلبہ دینے والا ہوں۔ مگر مجھے جو الہام ہوا وہ یہ ہے کہ

اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِِ۔

جو پہلے سے زیادہ تاکیدی ہے۔ یعنی مَیں اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں یقینا ًتیرے ماننے والوں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غلبہ دوں گا۔ یہ الہام جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا اور آپ نے اسے لکھ لیا۔ میں عرصہ دراز سے یہ الہام دوستوں کو سناتا چلا آ رہا ہوں۔ اس کے نتیجے میں دیکھو کہ کس کس طرح میری مخالفت ہوئی مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے فتح دی۔ غیر مبائعین نے حضرت خلیفہ اول کے زمانے میں یہ کہہ کہہ کر کہ ‘ایک بچہ ہے جس کی خاطر جماعت کو تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے’پروپیگنڈہ کیا مگر بالکل بے اثر ثابت ہوا۔ مَیں ان باتوں سے اس وقت اتنا ناواقف تھا کہ ایک دن صبح کی نماز کے وقت میں حضرت امّاں جان کے کمرے میں جو مسجد کے بالکل ساتھ ہے نماز کے انتظار میں ٹہل رہا تھا کہ مسجد میں سے مجھے لوگوں کی اونچی اونچی آوازیں آنی شروع ہو گئیں جیسے کسی بات پر جھگڑ رہے ہوں۔ ان میں سے ایک آواز جسے میں نے پہچانا وہ شیخ رحمت اللہ صاحب کی تھی۔ میں نے سنا کہ وہ بڑے جوش سے یہ کہہ رہے ہیں کہ تقویٰ کرنا چاہیے۔ خدا کا خوف اپنے دل میں پیدا کرنا چاہیے۔ ایک بچے کو آگے کر کے جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ ایک بچہ کی خاطر یہ سارا فساد برپا کیا جا رہا ہے۔ میں اس وقت ان باتوں سے اس قدر ناواقف تھا کہ مجھے ان کی یہ بات سن کر سخت حیرت ہوئی کہ وہ بچہ ہے کون جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جا رہے ہیں۔ چنانچہ مَیں نے باہر نکل کر غالباً شیخ یعقوب علی صاحب سے پوچھا کہ آج مسجد میں یہ کیسا شور تھا اور شیخ رحمت اللہ صاحب یہ کیا کہہ رہے تھے کہ ایک بچے کی خاطر یہ سارا فساد برپا کیا جا رہا ہے۔ وہ بچہ ہے کون جس کی طرف شیخ صاحب اشارہ کر رہے تھے۔ وہ مجھ سے ہنس کر کہنے لگے کہ وہ بچہ تم ہی ہو اور کون ہے۔ گویا میری اور ان کی مثال ایسی تھی جیسی کہتے ہیں کہ ایک نابینا اور بینا دونوں کھانا کھانے بیٹھے۔ نابینے نے سمجھا کہ مجھے تو نظر نہیں آتا اور اسے سب کچھ نظر آتا ہے۔ لازماً یہ مجھ سے زیادہ کھا رہا ہو گا۔ چنانچہ یہ خیال آتے ہی اس نے جلدی جلدی کھانا کھانا شروع کر دیا۔ پھر اسے خیال آیا کہ میری یہ حرکت بھی اس نے دیکھ لی ہو گی اور اب یہ بھی جلدی جلدی کھانے لگ گیا ہو گا تو مَیں کیا کروں۔ چنانچہ اس نے دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا۔ پھر سمجھا کہ اب یہ بھی اس نے دیکھ لیا ہو گا اور اس نے بھی دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا ہوگا۔ مَیں اب کس طرح زیادہ کھاؤں۔ اس خیال کے آنے پر اس نے ایک ہاتھ سے کھانا شروع کیا اور دوسرے ہاتھ سے چاول اپنی جھولی میں ڈالنے شروع کر دئیے۔ پھر اسے خیال آیا کہ میری یہ حرکت بھی اس نے دیکھ لی ہو گی اور اس نے بھی ایسا ہی کرنا شروع کر دیا ہو گا۔ یہ خیال آنے پر اس نے تھالی اٹھائی (جو بڑا ڈش تھا)۔ کہنے لگا کہ اب میرا حصہ رہ گیا ہے تم اپنا حصہ لے چکے ہو۔ اور جو دوسرا آدمی تھا اس بیچارے کی یہ حالت تھی کہ اس نے ایک لقمہ بھی نہیں کھایا تھا۔ وہ اس نابینا کی حرکت دیکھ دیکھ کر ہی دل میں ہنس رہا تھا کہ یہ کر کیا رہا ہے۔ (فرماتے ہیں کہ)یہی میرا اور ان کا حال ہے۔ یہ بھی اس نابینا کی طرح ہمیشہ سوچتے رہتے ہیں کہ اب یہ یوں کر رہا ہو گا۔ اب یہ اس طرح جماعت کو ورغلانے کی کوشش کر رہا ہو گا۔ اور مجھے کچھ پتا ہی نہیں تھا کہ میرے خلاف کیا کچھ ہو رہا ہے۔ میں سوائے خدا تعالیٰ کی ذات پر توکّل رکھنے کے اور کچھ بھی نہیں کرتا تھا اور حالات سے ایسا ناواقف تھا کہ سمجھتا تھا کہ کوئی اور بچہ ہے جس کا یہ ذکر ہو رہا ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ یہ لوگ اس وقت بڑا رسوخ رکھتے تھے اور جماعت پر ان کا خاص طور پر اثر تھا اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام پروپیگنڈے کو بے اثر کیا اور مجھے اس نے فتح اور کامرانی عطا فرمائی۔’’

(ماخوذاز‘‘الموعود’’،انوارالعلوم جلد17صفحہ579تا581)(خطبہ جمعہ فرمودہ20؍فروری 2015ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍مارچ 2015ءصفحہ 8)

یوم مصلح موعود کا حق ادا کرنے کے طریق

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 18؍فروری 2011ء کے خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا:

“پس آج ہمارا بھی کام ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں۔ اپنے علم سے، اپنے قول سے، اپنے عمل سے اسلام کے خوبصورت پیغام کو ہر طرف پھیلا دیں۔ اصلاحِ نفس کی طرف بھی توجہ دیں۔ اصلاحِ اولاد کی طرف بھی توجہ دیں اور اصلاحِ معاشرہ کی طر ف بھی توجہ دیں۔ اور اس اصلاح اور پیغام کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے بھرپور کوشش کریں جس کا منبع اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بنایا تھا۔ پس اگر ہم اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں گے تو یومِ مصلح موعود کا حق ادا کرنے والے ہوں گے، ورنہ تو ہماری صرف کھوکھلی تقریریں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے”۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍فروری 2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11مارچ 2011ءصفحہ 9)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button