کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

’’وہ بیوی کرے گا اور اُس کی اولاد ہوگی‘‘

حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں:

یاد رہے کہ مسیح موعود کی خاص علامتوں میں سے یہ لکھا ہے کہ (۱)وہ دو زرد چادروں کے ساتھ اُترے گا (۲) اور نیز یہ کہ دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اترے گا (۳) اور نیز یہ کہ کافر اُس کے دم سے مریں گے (۴) اور نیز یہ کہ وہ ایسی حالت میں دکھائی دے گا کہ گویا غسل کرکے حمام میں سے نکلا ہے اور پانی کے قطرے اُس کے سر پر سے موتیوں کے دانوں کی طرح ٹپکتے نظر آئیں گے (۵) اور نیز یہ کہ وہ دجّال کے مقابل پر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا (۶) اور نیز یہ کہ وہ صلیب کو توڑے گا (۷) اور نیز یہ کہ وہ خنزیر کو قتل کرے گا(۸) اور نیز یہ کہ وہ بیوی کرے گا اور اُس کی اولاد ہوگی (۹) اور نیز یہ کہ وہی ہے جو دجّال کا قاتل ہوگا (۱۰) اور نیز یہ کہ مسیح موعود قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ فوت ہوگا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں داخل کیا جائے گا۔ وتلک عشرۃ کاملۃ۔

پس دو زرد چادروں کی نسبت ہم بیان کر چکے ہیں کہ وہ دو بیماریاں ہیں جو بطورعلامت کے مسیح موعود کے جسم کو اُن کا روزِ ازل سے لاحق ہونا مقدر کیا گیا تھا۔ تا اس کی غیر معمولی صحت بھی ایک نشان ہو۔
اور دو فرشتوں سے مُراد اس کے لیے دو قسم کے غیبی سہارے ہیں جن پر ان کی اتمام حجت موقوف ہے (۱)ایک وَہبی علم متعلق عقل اور نقل کے ساتھ اتمام حجت جو بغیر کسب اور اکتساب کے اُس کو عطا کیا جائے گا (۲) دوسری اتمام حجت نشانوں کے ساتھ جو بغیر انسانی دخل کے خدا کی طرف سے نازل ہوںگے اور دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر اُس کا اُترنا اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی ترقی کے لیے غیب سے سامان میسر ہوںگے اور اُن کے سہارے سے کام چلے گا۔ اور میں اس سے پہلے ایک خواب بیان کر چکا ہوں کہ میں نے دیکھا کہ ایک تلوار میرے ہاتھ میں دی گئی ہے جس کا قبضہ تو میرے ہاتھ میں ہے اور نوک اُس کی آسمان میں ہے اور میں دونوں طرف اُس کو چلاتاہوں اور ہر ایک طرف چلانے سے صدہا انسان قتل ہوتے جاتے ہیں جس کی تعبیر خواب ہی میں ایک بندہ صالح نے یہ بیان کی کہ یہ اتمامِ حجت کی تلوار ہے اور دہنی طرف سے مُراد وہ اتمام حجت ہے جو بذریعہ نشانوں کے ہوگا اور بائیں طرف سے وہ اتمام حجت مُراد ہے جو بذریعہ عقل اور نقل کے ہوگا اور یہ دونوں طور کا اتمام حجت بغیر انسانی کسب اور کوشش کے ظہور میں آئے گا۔

اور کافروں کو اپنے دم سے مارنا اِس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح موعود کے نفس سے یعنی اُس کی توجہ سے کافر ہلاک ہوںگے اور مسیح موعود کا ایسا دکھائی دینا کہ گویا وہ حمام سے غسل کرکے نکلا ہے اور موتیوں کے دانوں کی طرح آبِ غسل کے قطرے اُس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں اس کشف کے معنے یہ ہیں کہ مسیح موعود اپنی بار بار کی توبہ اور تضرّع سے اپنے اس تعلق کو جو اس کو خدا کے ساتھ ہے تازہ کرتا رہے گا گویا وہ ہر وقت غسل کرتا ہے اور اُس پاک غسل کے پاک قطرے موتیوں کی طرح اس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں یہ نہیں کہ انسانی سرشت کے بر خلاف اس میں کوئی خارق عادت امر ہے ہر گز نہیں ہر گز نہیں۔ کیا لوگوں نے اِس سے پہلے خارق عادت امرکا عیسیٰ بن مریم میں نتیجہ نہیں دیکھ لیا جس نے کروڑہا انسانوں کو جہنم کی آگ کا ایندھن بنا دیا تو کیا اب بھی یہ شوق باقی ہے کہ انسانی عادت کے برخلاف عیسیٰ آسمان سے اُترے، فرشتے بھی ساتھ ہوں اور اپنے مُنہ کی پھونک سے لوگوں کو ہلاک کرے اور موتیوں کی طرح قطرے اُس کے بدن سے ٹپکتے ہوں۔ غرض مسیح موعود کے بدن سے موتیوں کی طرح قطرے ٹپکنے کے معنے جو مَیں نے لکھے ہیں وہ صحیح ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے کڑے دیکھے تھے تو کیا اِس سے کڑے ہی مُراد تھے؟ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گائیاں ذبح ہوتے دیکھیں تو اس سے گائیاں ہی مُراد تھیں؟ ہرگز نہیں بلکہ اِن کے اور معانی تھے۔ پس اِسی طرح مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس رنگ میں دیکھنا کہ گویا وہ غسل کرکے آتا ہے اور غسل کے قطرے موتیوں کی طرح اس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ بہت توبہ کرنے والا اور رجوع کرنے والا ہوگا اور ہمیشہ اُس کا تعلق خدا تعالیٰ سے تازہ بتازہ رہے گا گویا وہ ہر وقت غسل کرتا ہے اور پاک رجوع کے پاک قطرے موتیوں کے دانوں کی طرح اُس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کو غسل سے مشابہت دی ہے جیسا کہ نماز کی خوبیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کسی کے گھر کے دروازے کے آگے نہر ہو اور وہ پانچ وقت اُس نہر میں غسل کرے تو کیا اُس کے بدن پر مَیل رہ سکتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں۔ تب آپؐ نے فرمایا کہ اِسی طرح جو شخص پانچ وقت نماز پڑھتا ہے (جو جامع توبہ اور استغفار اور دعا اور تضرّع اور نیاز اور تحمید اور تسبیح ہے) اُس کے نفس پر بھی گناہوں کی مَیل نہیں رہ سکتی گویا وہ پانچ وقت غسل کرتا ہے۔ اِس حدیث سے ظاہر ہے کہ مسیح موعود کے غسل کے بھی یہی معنے ہیں ورنہ جسمانی غسل میں کونسی کوئی خاص خوبی ہے۔ اِس طرح تو ہندو بھی ہر روز صبح کو غسل کرتے ہیں اور غسل کے قطرے بھی ٹپکتے ہیں۔ افسوس کہ جسمانی خیال کے آدمی ہر ایک روحانی امر کو جسمانی امور کی طرف ہی کھینچ کر لے جاتے ہیں اور یہود کی طرح اسراراور حقائق سے نا آشنا ہیں۔

اور یہ امر کہ مسیح موعود دجّال کے مقابل پر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا یعنی دجّال بھی خانہ کعبہ کا طواف کرے گا اور مسیح موعود بھی۔ اس کے معنی خود ظاہر ہیں کہ اس طواف سے ظاہری طواف مراد نہیں ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ دجّال خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے گا یا یہ کہ مسلمان ہو جائے گا۔ یہ دونوں باتیں خلاف نصوص حدیثیہ ہیں۔ پس بہرحال یہ حدیث قابلِ تاویل ہے اور اس کی وہ تاویل جو خدا نے میرے پر ظاہر فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہوگا جس کا نام دجّال ہے وہ اسلام کا سخت دشمن ہوگا اور وہ اسلام کو نابود کرنے کے لیے جس کا مرکز خانہ کعبہ ہے چور کی طرح اُس کے گرد طواف کرے گا تا اسلام کی عمارت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ دے اور اس کے مقابل پر مسیح موعود بھی مرکز اسلام کا طواف کرے گا جس کی تمثیلی صورت خانہ کعبہ ہے اور اس طواف سے مسیح موعود کی غرض یہ ہوگی کہ اس چور کو پکڑے جس کا نام دجّال ہے اور اس کی دست درازیوں سے مرکز اسلام کو محفوظ رکھے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ رات کے وقت چور بھی گھروں کا طواف کرتا ہے اور چوکیدار بھی۔ چور کی غرض طواف سے یہ ہوتی ہے کہ نقب لگاوے اور گھروالوں کو تباہ کرے اور چوکیدار کی غرض طواف سے یہ ہوتی ہے کہ چور کو پکڑے اور اُس کو سخت عقوبت کے زندان میں داخل کراوے تا اس کی بدی سے لوگ امن میں آجاویں۔ پس اِس حدیث میں اسی مقابلہ کی طرف اشارہ ہے کہ آخری زمانہ میں وہ چور جس کو دجّال کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ناخنوں تک زور لگائے گا کہ اسلام کی عمارت کو منہدم کر دے۔٭ اور مسیح موعود بھی اسلام کی ہمدردی میں اپنے نعرے آسمان تک پہنچائے گا اور تمام فرشتے اس کے ساتھ ہو جائیں گے تا اِس آخری جنگ میں اُس کی فتح ہو۔ وہ نہ تھکے گا اور نہ درماندہ ہوگا اور نہ سُست ہوگا اور ناخنوں تک زور لگائے گا کہ تا اُس چور کو پکڑے اور جب اُس کی تضرّعات انتہاتک پہنچ جائیں گی تب خدا اس کے دل کو دیکھے گا کہ کہاںتک وہ اسلام کے لیے پگھل گیا تب وہ کام جو زمین نہیں کر سکتی آسمان کرے گا اور وہ فتح جو انسانی ہاتھوں سے نہیں ہو سکتی وہ فرشتوں کے ہاتھوں سے میسر آجائے گی۔

اس مسیح کے آخری دنوں میں سخت بلائیں نازل ہوں گی اور سخت زلزلے آئیں گے اور تمام دنیا سے امن جاتا رہے گا۔ یہ بلائیں صرف اس مسیح کی دعا سے نازل ہوں گی تب اِن نشانوں کے بعد اُس کی فتح ہوگی۔ وہی فرشتے ہیں جو استعارہ کے لباس میں لکھا گیا ہے کہ مسیح موعود اُن کے کاندھوں پر نزول کرے گا۔ آج کون خیال کر سکتا ہے کہ یہ دجّالی فتنہ جس سے مراد آخری زمانہ کے ضلالت پیشہ پادریوں کے منصوبے ہیں انسانی کوششوں سے فرو ہو سکتا ہے ہر گز نہیں۔ بلکہ آسمان کا خدا خود اس فتنہ کو فرو کرے گا۔ وہ بجلی کی طرح گرے گا اور طوفان کی طرح آئے گا اور ایک سخت آندھی کی طرح دنیا کو ہلا دے گا کیونکہ اس کے غضب کا وقت آگیا مگر وہ بے نیاز ہے۔ قدرت کی پتھر کی آگ انسانی تضرعات کی ضرب کی محتاج ہے آہ کیا مشکل کام ہے۔ آہ کیا مشکل کام ہے۔ ہم نے ایک قربانی دینا ہے جب تک ہم وہ قربانی ادا نہ کریں کسر صلیب نہیں ہوگا ایسی قربانی کو جب تک کسی نبی نے ادا نہیں کیا اس کی فتح نہیں ہوئی اور اُسی قربانی کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ ہے

وَ اسۡتَفۡتَحُوۡا وَ خَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیۡدٍ(ابراہیم : 16)

یعنی نبیوں نے اپنے تئیں مجاہدہ کی آگ میں ڈال کر فتح چاہی پھر کیا تھا ہر ایک ظالم سر کش تباہ ہو گیا اور اسی کی طرف اس شعر میں اشارہ ہے۔

تا دلِ مردِ خدا نامد بدرد

ہیچ قومے را خدا رُسوا نکرد

اور صلیب کے توڑنے سے یہ سمجھنا کہ صلیب کی لکڑی یا سونے چاندی کی صلیبیں توڑی جائیں گی یہ سخت غلطی ہے اس قسم کی صلیبیں تو ہمیشہ اسلامی جنگوں میں ٹوٹتی رہی ہیں بلکہ اس سے مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود صلیبی عقیدہ کو توڑ دے گا اور بعد اس کے دنیا میں صلیبی عقیدہ کا نشو و نما نہیں ہوگا ایسا ٹوٹے گا کہ پھر قیامت تک اس کا پیوند نہیں ہوگا۔ انسانی ہاتھ اس کو نہیں توڑیں گے بلکہ وہ خدا جو تمام قدرتوں کا مالک ہے۔ جس طرح اُس نے اس فتنہ کو پیدا کیا تھا اسی طرح اس کو نابود کرے گا۔ اس کی آنکھ ہر ایک کو دیکھتی ہے اور ہر ایک صادق اور کاذب اس کی نظر کے سامنے ہے وہ غیر کو یہ عزت نہیں دے گا مگر اس کے ہاتھ کا بنایا ہوا مسیح یہ شرف پائے گا جس کو خدا عزت دے کوئی نہیں جو اس کو ذلیل کر سکے وہ مسیح ایک بڑے کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے سو وہ کام اس کے ہاتھ پر فتح ہوگا اُس کا اقبال صلیب کے زوال کا موجب ہوگا۔ اور صلیبی عقیدہ کی عمر اس کے ظہور سے پوری ہو جائے گی اور خود بخود لوگوں کے خیالات صلیبی عقیدہ سے بیزار ہوتے چلے جائیں گے جیسا کہ آج کل یورپ میں ہو رہا ہے اور جیسا کہ ظاہر ہے کہ ان دنوں میںعیسائیت کا کام صرف تنخواہ دار پادری چلا رہے ہیں اور اہل علم اس عقیدہ کو چھوڑتے جاتے ہیں پس یہ ایک ہوا ہے جو صلیبی عقیدہ کے برخلاف یورپ میں چل پڑی ہے اور ہر روز تُند اور تیز ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہی مسیح موعود کے ظہور کے آثار ہیں کیونکہ وہی دو فرشتے جو مسیح موعود کے ساتھ نازل ہونے والے تھے صلیبی عقیدہ کے بر خلاف کام کر رہے ہیں اور دنیا ظلمت سے روشنی کی طرف آتی جاتی ہے اور وہ وقت قریب ہے کہ دجّالی طلسم کھلے کھلے طور پر ٹوٹ جائے کیونکہ عمر پوری ہو گئی ہے۔
اور یہ پیشگوئی کہ خنزیر کو قتل کرے گا یہ ایک نجس اور بد زبان دشمن کو مغلوب کرنے کی طرف اشارہ ہے اور اس کی طرف اشارہ ہے کہ ایسا دشمن مسیح موعود کی دعا سے ہلاک کیا جائے گا۔

اور یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود کی اولاد ہوگی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا اس کی نسل سے ایک ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو اس کا جانشین ہوگا اور دین اسلام کی حمایت کرے گا جیسا کہ میری بعض پیشگوئیوں میں یہ خبر آچکی ہے۔

اور یہ پیشگوئی کہ وہ دجّال کو قتل کرے گا اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے ظہور سے دجّالی فتنہ رو بزوال ہو جائے گا اور خود بخود کم ہوتا جائے گا اور دانشمندوں کے دل توحید کی طرف پلٹا کھا جائیں گے۔ واضح ہو کہ دجّال کے لفظ کی دو تعبیریں کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ دجّال اُس گروہ کو کہتے ہیں جو جھوٹ کا حامی ہو اور مکر اور فریب سے کام چلاوے۔ دوسری یہ کہ دجّال شیطان کا نام ہے جو ہر ایک جھوٹ اور فساد کا باپ ہے پس قتل کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اُس شیطانی فتنہ کا ایسا استیصال ہوگا کہ پھر قیامت تک کبھی اس کانشوو نما نہیں ہوگا گویا اس آخری لڑائی میں شیطان قتل کیا جائے گا۔

اور یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود بعد وفات کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں داخل ہوگا اس کے یہ معنی کرنا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھودی جائے گی یہ جسمانی خیال کے لوگوں کی غلطیاں ہیں جو گستاخی اور بے ادبی سے بھری ہوئی ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسیح موعود مقام قرب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدرہوگا کہ موت کے بعد وہ اس رُتبہ کو پائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کا رتبہ اس کو ملے گا۔ اور اس کی روح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح سے جا ملے گی۔ گویا ایک قبر میں ہیں۔ اصل معنے یہی ہیں جس کا جی چاہے دوسرے معنےکرے۔ اِس بات کو روحانی لوگ جانتے ہیں کہ موت کے بعد جسمانی قرب کچھ حقیقت نہیں رکھتا بلکہ ہر ایک جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روحانی قرب رکھتا ہے اس کی روح آپ کی روح سے نزدیک کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ۔ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ(الفجر:30-31)

اوریہ پیشگوئی کہ وہ قتل نہیں کیا جائے گا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خاتم الخلفاء کا قتل ہونا موجب ہتکِ اسلام ہے اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قتل سے بچائے گئے۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 320تا326)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button