سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام: آپؑ کی تہجد اور نفل عبادت کا بیان

(’اے ولیم‘)

آپؑ کی تہجد اور نفل عبادت کا بیان

نماز استسقاء

حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے بیان کیا کہ

“میری اہلیہ مجھ سے کہتی تھی کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں نماز استسقاء پڑھی گئی تھی یہ نماز عید گاہ میں ہوئی تھی۔اور اسی دن شام سے قبل بادل آگئے تھے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 418)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بیان کیا کہ

“حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ نماز استسقاء ہو ئی تھی جس میں حضرت صاحب بھی شامل ہوئے تھے اور شاید مولوی محمداحسن صاحب مرحوم امام ہو ئے تھے۔لوگ اس نماز میں بہت روئے تھے مگر حضرت صاحب میں چونکہ ضبط کمال کا تھا اس لئے آپ کو میں نے روتے نہیں دیکھا اور مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد بہت جلد بادل آکر بارش ہو گئی تھی۔بلکہ شاید اسی دن بارش ہو گئی تھی۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 435)

نماز کسوف و خسوف

“رسولِ کریم ﷺ کی کسوف و خسوف کی پیشگوئی کے مطابق “مشرقی ممالک میں 21 مارچ 1894ء کو چاند گرہن اور 6 اپریل 1894ء کو سورج گرہن ہوا۔اگلے سال امریکہ میں بھی مجوزہ تاریخوں میں کسوف و خسوف ہوا۔یہ کسوف و خسوف اپنے اندر خاص ندرت رکھتا تھا یہی وجہ تھی کہ اس کے مشاہدہ کے لئے سائنسدانوں نے ہندوستان میں خاص طور پر ایک رصدگاہ تعمیر کی اور امریکہ اور یورپ اور دیگر ممالک سے بھی بہت سے منجم اسے دیکھنےکےلئےآئے۔تصویری زبان میں گویا یہ ایک آسمانی نظارہ تھا جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتباہ کیا گیا تھا کہ امت کے آفتاب و ماہتاب یعنی علماء بے نور ہو چکے ہیں ۔اخبار‘‘سول اینڈ ملٹری گزٹ” لاہور (1894ء) میں ان گرہنوں کو عجیب قرار دیا گیا۔

سورج گرہن کے موقعہ پر قادیان میں کئی دوست گرہن دیکھنے میں مشغول تھے۔ابھی خفیف سی سیاہی شروع ہوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کسی نے عرض کیا کہ سورج کو گرہن لگ گیا ہے آپ نے دیکھا تو نہایت ہی خفیف سی سیاہی معلوم ہوئی۔حضورؑ نے اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ گرہن ہم نے تو دیکھ لیا مگر یہ ایسا خفیف ہے کہ عوام کی نظر سے اوجھل رہ جائیگا اور اس طرح ایک عظیم الشان پیشگوئی کا نشان مشتبہ ہو جائیگا۔تھوڑی دیر بعد سیاہی بڑھنی شروع ہوئی حتٰی کہ آفتاب کا زیادہ حصہ تاریک ہوگیا۔اس موقع پر حضرت مولانا سید محمد احسن صاحب امروہوی کے قلم سے‘‘اشتہار جلاء البصر فی انخساف الشمس و القمر” شائع ہوا۔جس میں اس عظیم آسمانی نشان کے ظہور پر خوب روشنی ڈالی گئی تھی۔یہ اشتہار امرتسر کے ریاض ھند پریس میں چھپا تھا۔نماز کسوف بھی حضرت مولوی صاحب نے پڑھائی جو مسجد مبارک پر قریباً تین گھنٹہ جاری رہی۔”

(تاریخ احمدیت جلد1 صفحہ502-501)

حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔

“صبح حضرت اقدس ؑ کے ساتھ کسوف کی نماز پڑھی جو کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے مسجد مبارک کی چھت پر پڑھائی۔ قریباً تین گھنٹہ یہ نماز وغیرہ جاری رہی۔”

(اصحاب احمدؑ جلد 1 صفحہ 93 روایت حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ )

حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحبؓ بیان کرتے ہیں:

“حضور نماز امام کے پیچھے پڑھتے تھے۔خود امام نہ ہوتے تھے عیدین کی نمازیں حضرت مولوی صاحب پڑھاتے تھے اور جمعہ اکثر مولوی عبدالکریم صاحب پڑھاتے تھے۔1904ء میں سورج گرہن کے وقت حضرت مولوی نورالدین صاحب نے نماز خسوف مسجد اقصیٰ میں پڑھائی۔مگر ایک دفعہ رکوع کر کے پھر قراءت پڑھی۔اور پھر رکوع کیا اور پھر سجدہ میں گئے۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد11صفحہ 78 روایت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحبؓ)

حضرت فضل الٰہی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں :

“نماز کسوف خسوف کی عاجز نے قادیان میں جا کر حضرت اقدس کی معیت میں پڑھی تھی۔”

(رجسٹر روایات جلد 6صفحہ 8 روایت حضرت فضل الٰہی صاحبؓ سکنہ احمدآباد ضلع جہلم)

حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب ؓ بیان فرماتے ہیں :

“رمضان کے مہینے میں چاند اور سُورج کو گرہن لگنے کی پیشگوئی دار قطنی وغیرہ احادیث میں بطور علامت مہدی بیان ہوئی ہے۔ مارچ 1894ء میں پہلے چاند ماہ رمضان میں گہنایا۔ جب اسی رمضان میں سورج کو گرہن لگنے کے دن قریب آئے تو دونوں بھائی اس ارادہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ یہ نشان دیکھیں ،اور کسوف کی نماز ادا کریں ۔ ہفتہ کی شام کو لاہور سے روانہ ہوکر قریباً گیارہ بجے رات بٹالہ پہنچے ۔ اگلے دن علی الصبح (6؍اپریل 1894ء کو)گرہن لگنا تھا۔آندھی چل رہی تھی۔ بادل گرجتے اور بجلی چمکتی تھی۔ ہوا مخالف تھی ،اور مٹی آنکھوں میں پڑتی تھی۔ قدم اچھی طرح نہیں اُٹھتے تھے۔اور راستہ صرف بجلی کے چمکنے سےنظرآتا تھا۔ساتھ آپ کے اہل وطن دوست مولوی عبدالعلی صاحب بھی تھے۔سب نے ارادہ کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو راتوں رات قادیان پہنچنا ہے۔ چنانچہ تینوں نے راستہ میں کھڑے ہوکر نہایت تضرع سے دعا کی کہ اے اللہ جو زمین و آسمان کا قادر مطلق خدا ہے! ہم تیرے عاجز بندے ہیں، تیرے مسیح ؑ کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ،اور ہم پیدل سفر کررہے ہیں ،سردی ہے،تو ہی ہم پر رحم فرما،ہمارے لئے راستہ آسا ن کردے،اور اس بادِ مخالف کو دور کر!ابھی آخری لفظ دعا کا منہ میں ہی تھا کہ ہوا نے رُخ بدلا اور بجائے سامنے کے پشت کی طرف چلنے لگی اور ممد سفر بن گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہوا میں اڑے جارہے ہیں ۔ تھوڑی ہی دیر میں نہر پر پہنچ گئے۔ اس جگہ کچھ بوندا باندی شروع ہوئی۔ نہر کے پاس ایک کوٹھا تھا اس میں داخل ہوگئے۔ ان ایام میں گورداسپور کے ضلع کی اکثر سڑکوں پر ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی تھیں ۔ دیا سلائی جلا کر دیکھا تو کوٹھا خالی تھا،اور اس میں دو اُپلے اور ایک موٹی اینٹ پڑی تھی۔ ہر ایک نے ایک ایک سرہانے رکھی اور زمین پر سو گئے۔ کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو ستارے نکلے ہوئے تھے اور آسمان صاف تھا،اور بادل اور آندھی کا نام و نشان نہ تھا۔ چنانچہ پھر روانہ ہوئے اور سحری حضرت ؑ کے دستر خوان پر کھائی۔

صبح حضرت اقدس ؑ کے ساتھ کسوف کی نماز پڑھی ،جو کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے مسجد مبارک کی چھت پر پڑھائی۔ قریباً تین گھنٹہ یہ نماز وغیرہ جاری رہی۔ کئی دوستوں نے شیشے پر سیاہی لگائی ہوئی تھی۔ جس میں سے وہ گرہن دیکھنے میں مشغول تھے۔ ابھی خفیف سی سیاہی شیشے پر شروع ہوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کسی نے کہا کہ سورج کو گرہن لگ گیا ہے۔ آپؑ نے اس شیشہ میں سے دیکھا تو نہایت ہی خفیف سی سیاہی معلوم ہوئی۔ حضور ؑنے اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ اس گرہن کو ہم نے تو دیکھ لیا،مگر یہ ایسا خفیف ہے کہ عوام کی نظر سے اوجھل رہ جائے گا۔ اور اس طرح ایک عظیم الشان پیشگوئی کا نشان مشتبہ ہوجائے گا۔ حضورؑ نے کئی بار اس کا ذکر کیا۔ تھوڑی دیر بعد سیاہی بڑھنی شروع ہوئی حتیٰ کہ آفتاب کا زیادہ حصہ تاریک ہوگیا۔ تب حضور ؑ نے فرمایا کہ ہم نے آج خواب میں پیاز دیکھا تھا اس کی تعبیر غم ہوتی ہے۔ سو شروع میں سیاہی کے خفیف رہنے سے ظہور میں آیا۔”

(اصحاب احمد جلد1صفحہ92تا94روایت حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ )

نماز عید

حضرت منشی پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ تحریر فرماتے ہیں:

“مجھے خوب یاد ہے نماز عیدین تو حضرت خلیفہ اولؓ ہی پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے بڑ کے درخت کے نیچے جا کر فرمایا ہمیشہ تو مولوی نور الدین صاحب نماز پڑھاتے ہیں آج سید محمد احسن صاحب کو کہہ دیں کہ یہ نماز پڑھا دیں اور خطبہ بھی یہی پڑھا دیں۔ میں نے یہ بات خلیفہ اولؓ سے کہہ دی۔ انہوں نے فرمایا کہ بشیر ہے پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب (امروہوی) آج تم نماز پڑھائو پس مولوی صاحب نے نماز پڑھائی۔ نماز سے پہلے مولوی صاحب نے عرض کیا کہ بخاری میں اول رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ تکبیریں آئی ہیں۔ ارشاد ہو تو کروں؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ کیا مضائقہ ہے بیشک اب ایسا ہی کرو۔ بات یہ ہے کہ ہمیشہ اُسی طرح سے عید کی نماز پڑھی جاتی تھی کہ حنفی تین تکبیریں کہتے ہیں مگر اس سال سے سات اور پانچ تکبیریں عام رائج ہو گئیں۔”

(الحکم مؤرخہ 21-14 مئی 1919ء صفحہ 6)

دیگر نوافل

حضرت مرزا محمد دین محمد صاحب لنگروال نے بیان کیا کہ

“آپؑ (یعنی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام)مسجد میں فرض نماز ادا فرماتے۔سنتیں اور نوافل مکان پر ہی ادا فرماتے۔عشاء کی نماز کے بعد آپؑ سوجاتے تھے اور نصف رات کے بعد آپ جاگ اٹھتے تھے اور نفل ادا کرتے تھے اس کے بعد قرآن مجید پڑھتے مٹی کا دیاآپ جلاتے تھے۔تلاوت فجر کی اذان تک آپ کرتے۔”

(شمائل احمد صفحہ44)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضور علیہ السلام کو جمعہ کے روزمسجد اقصیٰ میں دو رکعت ہی پڑھتے ہو ئے بار ہا دیکھا ہے۔عام طور پر لوگ قبل از نماز جمعہ چار رکعت پڑھتے ہیں لیکن حضور علیہ السلام کو دو رکعت ہی پڑھتے دیکھا ہے شاید وہ دو رکعت تَحِیَّۃُ الْمَسْجِد ہوں کیونکہ باقی نمازوں میں سنتیں گھر میں ہی پڑھ کر مسجد مبارک میں تشریف لاتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر1461)

حضرت محمد جمیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“جن دنوں پہلے پہل بیماری طاعون پڑی تھی اور حضرت اقدس باغ میں ڈیرا لے گئے تھے اور ہم لوگ راتوں کو پہرہ دیا کرتے تھے۔رات کے جس حصہ میں بھی ہم لوگ حضرت صاحب کے کیمپ کے پاس سے گذرتے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز میں ہی مصروف نظر آتے خدا جانے آپ سوتے کس وقت ہوں گے۔ایک دفعہ حضرت اقدس لاہور تشریف لے گئے اس کے چند دنوں بعد حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو کہ اس وقت ہیڈ ماسٹر تھے اور ہم کو پڑھاتے بھی تھے لاہور جاتے وقت ہماری کلاس کو بھی لاہور لے گئے اس وقت بھی ہم لوگوں کو حضرت صاحب کے کمرہ کے ساتھ ہی جگہ ملی۔ہم دیکھتے کہ حضرت صاحب قریباً رات کے گیارہ بجے تک مہمانوں کی ملاقات میں مصروف رہتے اور پھر تمام رات تہجد میں ہی گزار دیتے اور خدا معلوم وہ رات کے کس حصہ میں سوتے ہوں گے۔کیونکہ جس وقت بھی ہم کو نیند سے بیداری ہوتی حضرت اقدس نماز ہی پڑھتے نظر آتے۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد6صفحہ 22-21 روایت محمد جمیل صاحبؓ)

…………………(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button