الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

چند شہدائے احمدیت

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔ ذیل میں صرف اُنہی شہداء کے حالات شائع کیے جارہے ہیں جن کا ذکرخیر اس کالم میں قبل ازیں شائع نہیں ہوا۔

مکرم محمد اشرف صاحب شہید

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ مکرم محمد اشرف صاحب آف جلہن (ضلع گوجرانوالہ) 1984ء میں خود احمدی ہوئے اور بہت جلد جلد ترقی کی۔ مجھے لکھا کرتے تھے کہ میں تو ہر وقت جان ہتھیلی پر لیے پھرتا ہوں سوائے بیوی بچوں کے کوئی میرا نہیں رہا۔

16؍دسمبر1992ء کی رات کو حملہ آوروں نے دھوکہ سے پہلے ان کا اعتماد حاصل کیا۔ رات ان کے پاس ٹھہرے۔ کھانا کھایا اور پھر سوتے میں ان کے سر اور چہرے پر پستول سے فائر کرکے شہید کردیا۔ ان کی اہلیہ نے اپنے بیٹے کو ساتھ کے گاؤں اطلاع دینے کے لیے بھجوایا تو سب خبر سن کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے مگر خدا کی راہ میں جان دینے والے اس دوست کے بیٹے نے اُن لوگوں کو تسلیاں دیں کہ میرا باپ نیک انجام کو پہنچا ہے۔ میری والدہ بھی خوش ہیں اور راضی ہیں۔

شہید مرحوم نے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور چھ بیٹے چھوڑے۔

مکرم مبشر احمد صاحب شہید

جماعت احمدیہ عالمگیر نے جب صد سالہ جشن کی تقریبات منائیں تو تیماپور (کرناٹک۔بھارت) کی جماعت نے بھی شایانِ شان پروگرام بنایا۔ اس سے وہاں کے شرپسند غیراحمدیوں میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور شرارتیں کرنے لگے۔ 29؍جون1990ء کو ایک احمدی خاتون کی وفات پر جنازے کو اٹھانے کے لیے مقامی مسجد کی انتظامیہ سے ڈولا مانگا گیا تو انہوں نے دینے سے انکار کردیا۔ وہاں کے مقامی رواج کے مطابق جنازے کو قبرستان تک پہنچانے کے لیے چارپائی کی جگہ ڈولا استعمال کیا جاتاہے۔ اگلے دن پولیس انسپکٹر کی موجودگی میں دوبارہ مطالبہ کیا گیا تو نہ صرف یہ کہ انکار کردیا گیا بلکہ پہلے سے تیارشدہ منصوبے کے مطابق اُن چند احمدیوں پر ایک جمِّ غفیر نے لاٹھیوں اور پتھروں سے حملہ کردیا۔ اس حملے میں چند احمدی سخت زخمی ہوگئے جن میں سے مکرم مبشر احمد صاحب ناگُنڈ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔

مکرم احمد نصراللہ صاحب شہید

آپ مکرم ڈاکٹر اعجازالحق صاحب آف آسٹریلیا کے بیٹے اور حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے نواسے تھے۔ آپ انتہائی نیک نفس، سادہ اور پُروقار طبیعت کے مالک تھے۔ بچپن سے ہی تہجد گزار تھے۔ خدا کے فضل سے موصی بھی تھے اور ہر مالی قربانی میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ آپ اپنی والدہ مکرمہ اَمَۃالحئی صاحبہ اہلیہ مکرم چودھری حمید نصراللہ صاحب امیر ضلع لاہور کے پاس لاہور میں رہتے تھے۔ 5؍فروری 1994ء کو بعض نامعلوم حملہ آوروں نے آپ کے کمرے میں گھس کر آپ کے سر پر آہنی سریہ مار مار کر آپ کو شہید کردیا اور جاتی دفعہ دروازے کو باہر سے مقفّل کرگئے۔ اگلے دن شام کے وقت آپ کی شہادت کا علم ہوا۔ تدفین ربوہ کے عام قبرستان میں ہوئی۔ آپ غیرشادی شدہ تھے۔

مکرم وسیم احمد بٹ صاحب شہید اور مکرم حفیظ احمد بٹ صاحب شہید

مکرم وسیم احمد بٹ صاحب 1969ء میں مکرم محمد رمضان بٹ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے اور مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ پھر پاورلومز کا کام کرنے لگے۔ جماعت سے بہت لگاؤ رکھتے تھے اور دعوت الی اللہ میں خوب حصہ لیتے تھے۔ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے اور چندہ میںبھی بہت باقاعدہ تھے۔ غریب پرور تھے۔ 30؍ اگست 1994ء کو ایک شخص مشتاق اور اس کے ساتھیوں نے آپ پر اور آپ کے بھائیوں پر رائفلوں سے گولیاں برسائیں، جن میں سے ایک گولی آپ کے دل پر اور دوسری بائیں ٹانگ پر لگی اور آپ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ بوقت شہادت آپ کی عمر 25؍سال تھی اور غیرشادی شدہ تھے۔

اس حملے میں آپ کے بڑے بھائی محمد امین بٹ اور دو چچازاد بھائی مکرم حفیظ احمد بٹ صاحب اور مکرم اختر کریم بٹ صاحب بھی شدید زخمی ہوئے جن میں سے حفیظ بٹ صاحب ابن اللہ رکھا بٹ صاحب نے الائیڈ ہسپتال پہنچ کر دَم توڑ دیا۔ شہید مرحوم بہت ہمدرد، ملنسار اور ایک مخلص احمدی تھے اور دعوت الی اللہ کابہت شوق رکھتے تھے۔ نماز باجماعت کے علاوہ تہجد بھی ادا کیا کرتے تھے اور چندہ جات میں بہت باقاعدہ تھے۔ بوقت شہادت عمر اٹھارہ سال تھی اور غیرشادی شدہ تھے۔ پسماندگان میں آپ کے والدین، چھ بھائی اور چار بہنیں شامل تھے۔

دونوں شہداء کی تدفین ربوہ کے قبرستان عام میں ہوئی۔

پروفیسر ڈاکٹر نسیم بابر صاحب شہید

مکرم پروفیسر ڈاکٹر نسیم بابر شہید 1952ء میں محترم ڈاکٹر سید محمد جی احمدی اور محترمہ سیدہ امۃالوحید صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ حضرت سید محمد شاہ صاحبؓ آپ کے دادا تھے۔ آپ بچپن سے ہی غیرمعمولی ذہین تھے۔ مڈل سے لے کرPh.D. تک مسلسل تعلیمی وظائف حاصل کرتے رہے۔ طالبعلمی کا زمانہ راولپنڈی میں ایک مستعد متحرک خادم کے طور پر گزارا اور مختلف شعبوں کے ناظم رہے۔

وارسا ٹیکنیکل یونیورسٹی پولینڈ سے .Ph.D کرنے کے بعد 1980ء میں واپس آئے۔ پولینڈ میں قیام کے دوران محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مرحوم کے ادارے انٹرنیشنل سنٹر فار تھیوریٹیکل فزکس سے مختصر کورسز بھی کیے اور اسی دوران سویڈن، جرمنی اور اٹلی کی کئی یونیورسٹیوں سے بھی آپ کا رابطہ ہوگیا۔ چنانچہ بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر آپ کو بارہا جانے کا موقع ملا۔ ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن میں تقریباً ایک سال گزارا اور پھر اس یونیورسٹی سے اپنے قریبی روابط کی بِنا پر Defects in Semi-conductor Materials اور High Temperature Super Conductivity کے میدان میں ایسی اعلیٰ اور قابل قدر ریسرچ کی کہ برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ فزکس میں آپ کی نگرانی میں Semi-conductor Materials پر مزید تحقیق کے لیے ایک شعبہ کھولنے کی منظوری دے دی۔ اس سلسلے میں تمام انتظامات مکمل تھے اور جرمنی سے اہم سائنسی آلات کی درآمد شروع ہونے والی تھی کہ آپ کی شہادت ہوگئی۔

10؍ اکتوبر1994ء کی رات ساڑھے دس بجے آپ نے گھنٹی بجنے پر اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو چہرے پر نقاب اوڑھے ہوئے ایک شخص نے اچانک کلاشنکوف کے دو فائر کئے۔ ایک آپ کے دل پر لگا اور دوسرا گردن پر۔ دونوں گولیاں جسم سے پار ہوگئیں۔ قاتل فوری طور پر دیوار پھلانگ کر عقبی جنگل میں فرار ہوگیا۔ آپ کی اہلیہ مکرمہ تمکین بابر صاحبہ کے شور مچانے پر ہمسایہ پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی دوڑے آئے اور آپ کو اپنی کار میں ڈال کر ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے لیکن راستے ہی میں روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔

شہید مرحوم نے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے چھوڑے۔ آپ کی شہادت پر پاکستان میں متعیّن جرمنی کے سفیر کے علاوہ قائداعظم یونیورسٹی کے مختلف پروفیسرز اور دیگر شخصیات نے، نیز قومی اخبارات ‘‘دی نیوز’’ راولپنڈی، ہفت روزہ Pulse اسلام آباد، ‘‘دی مسلم’’ اسلام آباد نے ملائیت اور مذہبی تعصب کو جتنا بھی وہ برا بھلا کہہ سکتے تھے، کہا اور آپ کی وفات پر آپ کے پسماندگان سے تعزیت کی۔

مکرم قاضی بشیر احمد صاحب کھوکھر شہید

مکرم قاضی بشیر احمد صاحب کھوکھر ایڈووکیٹ یکم ستمبر 1930ء کو مکرم قاضی کلیم احمدصاحب آف شیخوپورہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1974ء میں آپ وکالت کا امتحان پاس کرکے پنجاب بار کونسل کے ممبر بن گئے ۔ آپ بڑے مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ تنگدستی کے باوجود وصیت کے چندہ کی ادائیگی اور جماعتی ذمہ داریاں خوب نبھاتے تھے ۔ 1974ء میں مسجد ہنجراں والا کے خطیب اللہ دتہ اور دوسرے مولویوں نے ایک احمدی خاتون کی تدفین کے وقت بہت فساد مچایا۔ اسی ہنگامہ آرائی کے دوران آپ کسی کام سے گھر سے باہر نکلے تو مفسدین نے آپ کو شدید زدوکوب کرنے کے بعد ایک تندور میں پھینک دیا۔ مگرعورتوں کے شور مچانے پر کچھ آدمیوں نے آپ کو تندور سے باہر نکال لیا اور آپ اعجازی طورپر بچ گئے۔ 1988ء میں جلسہ سالانہ لندن میں بھی شمولیت کی توفیق پائی۔

20؍اکتوبر1989ء کو ایک بیرنگ خط میں آپ کو احمدیت نہ چھوڑنے کی صورت میں سانحہ چک سکندرکاحوالہ دے کر قتل کی دھمکی دی گئی ۔ اس کے تین ماہ بعد ایک روز جب آپ کچہری سے اپنی سائیکل پر گھرآ رہے تھے تو موٹرسائیکل سوار دو مجرموں نے آپ پر چاقوئوں کے متعدد وار کئے اورفرار ہو گئے اور آپ کسی طبّی امداد کے ملنے سے پہلے ہی شہید ہوگئے۔ آپ کی عمر ساٹھ سال تھی اور آپ بطور سیکرٹری جائیداد شیخوپورہ فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ پسماندگان میں آپ نے بیوہ کے علاوہ ایک لڑکا اور چار لڑکیاں یادگار چھوڑیں۔

………٭………٭………٭………

خیرالدین باربروسا

خیرالدین پاشا باربروسا دنیا کے مشہور امراء البحر میں سے تھا۔ ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ اگست 2011ء میں باربروسا کے تعارف میں مکرم مظفر احمد خان صاحب رقمطراز ہیں کہ حکومتِ عثمانیہ کی ملازمت سے پہلے خیرالدین پاشا عیسائی جہازوں کو لُوٹا کرتا تھا۔ وہ اپنی داڑھی کو مہندی لگایا کرتا تھا اور چونکہ پرتگالی زبان میں سرخ داڑھی والے کو بربوزا کہا جاتا ہے اس لیے ترکی زبان میں یہ لفظ باربروسا ہوگیا اور اُس کے نام کا جزو بن گیا۔

1533ء میں خیرالدین پاشا باربروسا کو ترکی بحری بیڑے کا امیرالبحر مقرر کیا گیا۔ اگلے ہی سال اُس نے تیونس فتح کرلیا۔ 1546ء تک اُس نے بحیرہ روم میں متعدد لڑائیوں میں حصہ لیا اور سب میں کامیابی حاصل کی۔ اسی دوران الجزائر کو فتح کرکے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنایا۔ اُس دَور میں عیسائی دنیا کا مشہور امیرالبحر انڈریا ڈوریا تھا جسے باربروسا نے متعدد شرمناک شکستیں دیں۔

باربروسا کا انتقال 1596ء میں استنبول میں 90 سال کی عمر میں ہوا۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button