یادِ رفتگاں

مولوی محمد احمد جلیل صاحب۔ ایک نابغۂ روزگار شخصیت

(پروفیسر رشیدہ تسنیم خان(مرحومہ)۔ امریکہ)

1955-56ء کا زما نہ تھا میرے ابا جی نے ہمیں حا فظ آباد سے ربوہ کے پر سکون ما حول میں پڑھنے کے لیے بھجوا دیا۔ گرمیوں کی تعطیلات کے بعد نصرت گرلز ہائی سکول کی کچی عمارت میں آج میرا پہلا دن تھا۔ گر میوں کے دن تھے ہماری کلاس کمرے کے سائے میں ٹاٹوں پر ہوا میں بیٹھی تھی۔انگلش کی استانی صاحبہ تشریف لا ئیں۔ محتر مہ استا نی صاحبہ کی عا دت تھی کہ جو نہی گاڑی کی آواز آ تی ، ما تھے پر ہا تھ کا چھجا بنا کر گا ڑی کا نظارہ کر تیں۔ آج نظارہ کر نے کے بعد فر ما نے لگیں:“سالانہ امتحان میں تھوڑا وقت رہ گیا ہے۔ اب تم لو گوں کو محنت سے پڑھنا ہو گا۔پرا ئیویٹ طالبات ایک طرف ہو جا ئیں۔”اس کے ساتھ ہی ایک جمِ غفیر باقی کلاس سے الگ ہو گیا۔یہ وہ طالبات تھیں جن کو نظارت تعلیم کی طرف سے فری کلاسیں اٹینڈ کر نے کی اجا زت تھی۔ استانی صاحبہ نے ان کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا :“یہ تو مو سمی پرندے ہیں” پھر ان طالبات کی لا ئین بنوائی جن سے فرسٹ ڈویژن لینے کی امید تھی۔ بعد ازاں کلاس کی عمومی لیاقت پرکھنے کے لیے سوا لات پوچھنے شروع کیے۔‘‘gardener کے کیا سپیلنگ ہیں؟”میں نے ہاتھ بلند کیا، اور جواب دیا:“garden کے آ گے -er لگا دیں۔”استا نی صاحبہ نے انگلی کے اشارے سے مجھے ذہین فطین لائین میں بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا۔جہاں ٹاٹ پر بیٹھی ایک لڑکی نے اپنی خورد بینی نظر سے میرا جا ئزہ لیا۔ اور پرے کھسک کر میرے بیٹھنے کے لیے جگہ بنا دی۔یوں استانی جی کی دریا دلی سے ایک کم مایہ قطرے کو گہر ہو نے میں چند لمحے لگے!

ان talented لڑکیوں نے اچھے نتا ئج دکھا کر سکول کا نام رو شن کر نا تو تھا ہی، اس کے علاوہ ان کے ذمے چھٹی کے بعد نلکے سے نمکین پا نی کی با لٹیاں بھر بھر کر کمرے کے اندر اور با ہر چھڑکاؤ اور جھاڑو بہا رو بھی کر نا ہو تا تھا۔

یہ حاتم طائی صفت لڑکی جس نے میرے لیے اپنے پاس ٹاٹ پر جگہ بنائی تھی، حضرت مولانا محمد اسما عیل حلال پوریؓ کی پوتی اور مو لانا محمد احمد جلیل صاحب کی بڑی صاحبزادی امۃالمجید نا صر عرف “جیدی” تھی۔قصہ مختصر یوں میرا مو لوی صاحب کے گھر سے تعا رف ہوا۔ جیدی مجھے بڑے اصرار اور محبت سے اپنے گھر لے کر گئی ۔اس زمانے میں مو لانا انجمن کے کو ارٹر میں رہا کر تے تھے، جو دو کمروں اور ایک با ورچی خانے پر مشتمل تھا۔اس با بر کت گھر میں چار پا نچ چار پا ئیاں اور اتنی ہی کین کی کر سیاں تھیں، جو سرمائی اور گر مائی ضرورت کے مطا بق اندر با ہر جگہ بدلتی رہتی تھیں۔

سارا دن آنے جانے والوں کا تا نتا سا بندھا رہتا ۔ مو لوی صاحب کے ساتھ اکثراوقات کوئی نہ کو ئی مہما ن ہو تا، جو آپ کے چھا بے کی رو ٹیوں اور سالن کے پیا لے میں شریک طعام ہو تا۔ مو لوی صاحب سب سے پہلے روٹیوں کے نیچے سے بچا ہوا ٹکڑا نکال کر کھا تے۔اور ٹھنڈا پا نی پی کر نسبتاً اونچی آ واز میں الحمدُ للہ پڑھتے۔ میں نے آپ کو کبھی اونچی آواز میں بات کر تے اور کسی پر اعتراض کر تے نہیں سنا۔ جب ہم سہیلیوں کا گروپ قر آنِ پاک کے درس اور تراویحوں میں شامل ہو نے کا پرو گرام بناتا، تو دورجا نے والیوں کو ان کے گھروں تک چھوڑ کر آ تے۔اور مولوی صاحب کے گھر سے کسی کو ساتھ لے لیتے۔

گریجو یشن کے بعد ہم نے پنجاب یونی ورسٹی لا ہور میں داخلہ لیا، تو مو لوی صاحب اس زمانے میں جما عتی کا موں کے لیے اکثر لا ہور آ تے جا تے رہتے تھے۔ کئی بار ہمارے ہم سفر ہوتے، اکثر خا موش رہتے، ایک دو بار کھا نے کا پو چھتے، اور ہمیں ہو سٹل تک چھوڑ کر آ تے۔ جیدی اکثر اپنی روم میٹس کو جسونت بلڈ نگ میں اپنے ما موں فدا صاحب اور ممانی آ پا نعیمہ کے ہاں مد عو کر تی۔ جہاں پر اچھی ضیا فتوں کے ساتھ مو لوی صاحب کی دعا ؤں سے بھی حصہ ملتا رہتا۔ مجھے یاد نہیں مولوی صاحب نے ہماری پڑھائی اور رزلٹ و غیرہ کے بارے میں کبھی پو چھا ہو۔سلام کا جواب ایک مطمئن سی مسکرا ہٹ کے ساتھ دیتے، اور یہی کا فی ہو تا۔

پڑھائی سے فرا غت پا تے ہی جا معہ نصرت کالج کا جان سے پیارا ما حول پھر سے ہمارا منتظر تھا۔ 1960ءکی دہائی میں پروازی صاحب بھی جیدی کی انتہائی مصروف بزم میں آ گئے۔ آئے تو تھے اس خیال سے کہ چرا غوں میں رو شنی نہ رہےگی، لیکن “ہر چہ در کانِ نمک رفت، نمک شُد ’’کے مصداق اندر ہی کہیں گھل مل گئے۔حسنِ اتفاق سے میری شادی بھی تعلیم الاسلام کالج کے ایک لیکچرر کے ساتھ ہو گئی۔ اب ہمارا سماجی، معا شرتی اور سیاسی ما حول ایک سا ہو گیا، روابط مزید گہرے ہو گئے۔ بچوں کی پیدائشوں ، خوشیوں اور غمیوں میں ایک دوسرے کے گھر قیام بھی کر لیا کر تے۔ بچوں کی ایک دوسرے کے ساتھ خوب دوستیاں بڑ ھیں۔ ہر اہم کام میں مولوی صاحب سے مشورے اور دعا ئیں لی جا تی تھیں۔

اسی زمانے میں مو لوی صاحب جامعہ احمدیہ کے کوارٹر نمبر ایک میں منتقل ہو گئے۔یہاں تین کمرے تھے۔ایک دروازہ جامعہ کی طرف اور دوسرا ریلوے لا ئن کی طرف کھلتا تھا۔میں نے یہ دونوں در وازے کبھی بند نہیں دیکھے۔جا معہ کے ارد گرد چار دیواری کی وجہ سے جن خوا تین کو اپنا گھر دور پڑتا، ان کے لیے مولوی صاحب کے گھر کا صحن شاہراہِ عام تھا۔

عین صحن کے در میان پلنگ پو شوں سے ڈھکی دو چار پا ئیوں کے ساتھ چند کر سیاں رکھی رہتیں اور درمیان میں ایک چھوٹی سی میز ، جس پر ساری ہانڈی کا سا لن ڈونگے میں آ جا تا۔ رو ٹیاں پک کر آتی رہتیں۔ اس دستر خوان پر اکثر پانچ سے بیس تک مہمان کھانے وا لے ہوتے۔عصر کی نماز کے بعد مو لوی صاحب کے پاس کو ئی نہ کو ئی عورت اپنے نہا یت نجی قسم کے جھگڑوں کی تفاصیل بیان کر رہی ہوتی۔ گھر سے باہر مردانے میں بھی یہی سلسلہ جا ری رہتا، جبکہ گھر والے گردو پیش سے بے نیاز اپنی روز مرہ کی زندگی کو جاری رکھے رہتے۔ امی جی (جیدی کی امی)کا اگر کو ئی زیادہ لاڈ لا مہمان آ جا تا تو چا ئے کے ساتھ بر فی یا سیب ضرور منگوا لیتیں۔ مو لوی صاحب اور امی جی کے بہن بھا ئی ہوں یا دیہات سے علاج کی غرض سے آ نے والے غیر از جماعت رشتہ دار ، سب کو یہاں حتی الوسع آرام دہ سکونت ملتی۔ اگلی نسل کے بچوں کے رشتے یہاں طے پا تے۔ اور موت و حیات میں یہی گھر دیوانوں اور فرزانوں کی اماجگاہ بنا رہتا۔

آپ کبھی کبھار نہایت سادہ الفا ظ میں کسی آیہ کریمہ کی تفسیر بھی کر دیا کر تے تھے۔ایک دن گھر میں ملکی حالات کے خراب ہونے پر تبصرے ہو رہے تھے۔ تو مو لوی صاحب نے فر مایا:‘‘بچپن میں اس آیہ کریمہ کی سمجھ نہیں آیا کر تی تھی کہ جس نے ایک معصوم بے گناہ کو قتل کیا اس نے سارے لو گوں کو قتل کیا”اب سمجھ آ ئی ہے کہ ایک انسانی جان لینے کے بعد احترامِ انسانیت ختم ہو جا تا ہے۔

رمضان میں اگر زیادہ لو گ روزہ سے ہو تے تو گرم اور سرد مشروب اور اچھے کھا نوں کا اہتمام ہو تا۔ اگر اکیلے مو لوی صاحب کا رو زہ ہو تا تو قطعی کو ئی تکلف نہ ہو تا۔ مولوی صاحب کا معمول تھا کہ ٹھنڈے پا نی کے دو چار گھونٹ پی کر نماز پڑھنے چلے جاتے ، اور واپس آ کر کھا نا کھا تے۔ ایک بار میں نے حیران ہو کر پو چھا “مو لوی صاحب آپ کا روزہ تھا؟ ’’آپ نے اچٹتی سی نگاہ ڈال کر کہا:“ہاں روزہ رکھ لیں پھر تو بو ڑھے ہو جا نا ہے۔” ہماری چا ئے کی جمی ہو ئی مجلس میں چائے پی کر نل پر دانت نکال کر دھوتے۔ اور کلی کر کے دوبارہ منہ میں لگا کر مسکراتے ہو ئے کہتے:‘‘لو گ کہتے ہیں چا ئے کے بعد ٹھنڈے پا نی سے کلی نہیں کرنی چا ہئے، دانت نکل جا تے ہی۔ اسی لیے میں پہلے دانت نکال لیتا ہوں۔”اور خا مو شی سے ہمیں کچھ کہے بغیرنماز کے لیے چلے جا تے ۔ہمارے اندر کا ملامتی تیشہ امّاری بت پر ٹھا ئیں ٹھائیں تراش خراش شروع کر دیتا، اور ہم اکثر کھسیا نی سی ہو کر جہاں بیٹھی ہو ئی ہو تیں وہیں نماز کی نیت کر لیتیں ۔

غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی مہما نوں کے سو نے کا انتظام ہو نا شروع ہو جا تا ۔ گر میوں میں سارا صحن چار پا ئیوں سے کھچا کھچ بھر جا تا۔ اگر کو ئی مہمان جا نے کا پرو گرام بنا نے لگتا تو امی جی اُسے “صرف چند دن اور”رکنے کا اس طرح اصرار کر تیں کہ جیسے یہ نعمت پھر کبھی ہا تھ نہیں آ ئے گی۔ گر میوں میں ایک درمیانی سی عام چار پا ئی جس کی پائینتی پر دری بچھی ہو تی اور اوڑھنے کے لیے ایک تہ شدہ چادر اور ایک تکیہ ہو تا، مو لوی صاحب عشاءکی نماز کے بعد آکر صحن میں شور و ہنگامے سے بے نیاز سکون سے اس پر سو جا تے۔ کسی کو اپنے آرام کے لیے خا موش وغیرہ کرانے کا اس گھر میں رواج نہیں تھا۔ مو لوی صاحب آنکھ کے آپریشن کے بعد بھی ایک چھوٹی حما ئل شریف ہا تھ میں رکھتے ، اور ہلکی آواز میں تلاوت کر تے رہتے۔ آپ اتنے انہماک سے کر سی پر بیٹھ کر مطالعہ کر تے کہ نووارد کے لیے فیصلہ مشکل ہو تا کہ آپ سو رہے ہیں کہ جا گ رہے ہیں۔بیماریوں میں بھی آپ کا یہی رویہ ہو تا۔

پر وازی صاحب کے سویڈن اور آپ کے بڑے نواسے ماہر احمد کے لندن جا نے کے بعد جیدی کی امی جان کی لمبی نازک علالت میں جیدی مجھے اکثر رات کے لیے روک لیتی۔ میری جب آنکھ کھلتی مو لوی صاحب نفل ادا کر رہے ہو تے۔تازہ دم ہو نے کے لیے نل پر جا کر بار بار ٹھنڈے پانی سے وضو کر تے ۔ یہ سلسلہ اتنا لمبا ہو تا کہ میں تھک کر سو جا تی۔ سر دیوں میں گیس کے ہیٹر اور گرمیوں میں پنکھے کے نیچے مو لوی صاحب کی چار پا ئی کے پاس ایک یا دو بلیاں ضرور بیٹھی ہو تیں۔

اس تین کمروں پر مشتمل حیرت کدہ میں مو لوی صاحب کے سب بچوں نے و ظیفے لیے، اور اعلیٰ تعلیم حا صل کی۔دو بچے ڈاکٹر بنے، پتہ نہیں ان کی کتا بیں کہاں ہو تی تھیں اور یہ پڑھتے کہاں تھے ؟ انہی کمروں میں مہمان ٹھہر تے اور انہی میں سب بچوں کی شادیاں ہو ئیں ۔

مو لوی صاحب کا مزاح بہت مختصر اور ذو معنی ہو تا۔ ایک بار فر ما نے لگےکہ ربوہ کے resident magistrateملنے آئے ہو ئے تھے۔ایک احمدی دوست کے بارے میں پو چھنے لگے کہ “نماز پڑھتا ہے کہ نہیں؟ ’’میں نے جواب دیا : “ولی ولی را می شنا سد ’’(در اصل یہ صاحب خود بھی پا بند صوم و صلوٰۃ نہیں تھے)۔ مولوی صاحب جواب دے گئے اور کسی کی پردہ دری بھی منا سب نہ سمجھی ۔

عصر کی نماز اکثر ہمارے محلے کی مسجد الانوار میں پڑھتے اور بعد از نماز ہمارے گھر تشریف لا تے اور اچھی محفل رہتی۔ ایک بار میرے کسی وا قف کار نے ویزے کے سلسلے میں شو کر نے کے لیے مجھ سے کچھ رقم ما نگی۔ ہم سفید پو شوں کے ساتھ یہ بڑی مشکل ہو تی ہے کہ ہم اپنی اوقات چھپا کر رکھتے ہیں۔ میرے پاس ذاتی طور پر اتنی رقم نہ تھی مگر کسی کی اما نت میرے پاس مو جود تھی…اب میں پریشان کہ اگر دے دوں اور یہ وا پس نہ کر سکے تو کیا کروں گی۔ اچا نک مو لوی صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے ساری بات آپ کو بتا دی۔ آ پ نے رقم پو چھی اور چیک کا ٹ دیا۔ ہفتے عشرے میں رقم واپس مل گئی اور میری عزت بھی رہ گئی۔

میرے بیٹے محمد مسعود خان کا نکاح اس کی خوا ہش پر مو لوی صاحب نے پڑھایا۔اسی دن شام کو ملنے چلے آ ئے ، اور فر مایا : “میں دیکھنے آ یا ہوں کہ نکاح میں نے پڑھایا تھا کہیں ٹوٹ نہ گیا ہو!”شادی کے لیے ہم نے بذریعہ ہوائی جہاز کرا چی جا نا تھا۔ نماز فجر کے بعد مو لوی صا حب بھی تشریف لے آ ئے ۔ میں نے کہا: “منہ اندھیرے تو آپ ایسے آ ئے ہیں، جیسے پلے رقم باندھ کر لائے ہوں۔” فر مانے لگے “تم مانگ کر تو دیکھو۔”ساتھ ہی کہا “مسعود کو اگر کینیڈا جا نے کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑی تو زمین بیچنے سے پہلے مجھ سے بات کر لینا۔”اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور آپ کی دعا سے کبھی ایسی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ مسعود کو کینیڈا جا تے وقت نصیحت کی “قرضہ وغیرہ لے کر پڑھ لینا۔ اگر چھوٹے مو ٹے کام سے پیسے کا چسکہ پڑ گیا تو پڑھ نہیں سکو گے۔”اس بچے نے اللہ تعا لیٰ کے فضل سے مو لوی صاحب کی اس نصیحت کو پلے باندھ لیا اور کینیڈا اور امریکہ کی یونیورسٹیوں سے C.P.U اور chartered accountantکی ڈگریاں حاصل کیں ۔ الحمدللہ

جب جیدی کی امی شدید بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل تھیں۔ میں حسبِ دستور ساتھ ٹھہری ہو ئی تھی کہ ڈاکٹر میاں مبشراحمد صاحب را ؤنڈ پر آ ئے۔ میری طرف اشارہ کر کے مولوی صاحب سے پو چھنے لگے “آپ کی آ پس میں کیا رشتہ داری ہے؟ ’’مو لوی صاحب کچھ سو چ میں پڑ گئے ۔ ڈاکٹر صاحب دو بار “ہوں ہوں ’’کہہ کرمریضہ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ مجھے تھو ڑا سا برا لگا اور خفگی کا اظہار میرے چہرے سے ہو گیا۔ مولوی صاحب اگلے دن ہی ملنے چلے آ ئے ، اس وقت میری بڑی سمدھن بھی موجود تھیں۔ مو لوی صاحب ان کو مخاطب کر کے کہنے لگے:“رشتہ داری پکی کر لی ہے، پتہ کر لیا ہے نہ کہ رشیدہ کیسی ہے؟”انہوں نے جواب دیا:‘‘جی بڑی اچھی ہیں۔”مولوی صاحب نے کہا: “ہاں اچھی ہے ذرا غصے وا لی ہے۔”اور ساتھ ہی ہسپتال والا سارا وا قعہ بیان کر نے کے بعد فرمایاکہ “میرا دل نہیں چا ہتا تھا کہ میں اس کا جیدہ کی سہیلی کے طور پر تعا رف کراؤں، میں سوچ ہی رہا تھا کہ بھا نجی کہوں یا بھتیجی ؟ اور یہ ناراض ہی ہو گئی ۔’’اور پھر ایک کہانی سنا ئی: “دو دو ستوں نے آ پس میں ایک کچا دھا گہ پکڑ رکھا تھا، دھا گہ کبھی ٹوٹتا نہ تھا۔لوگوں نے وجہ پو چھی تو انہوں نے بتا یاکہ جب ایک طرف سے کھچا ؤ بڑھتا ہے تو دوسرا ڈھیلا کر دیتا ہے۔ آج میں یہ کھچا ؤکم کر نے آ یا ہوں۔”مختلف وقتوں میں جب جیدی جا پان اور سویڈن چلی گئی تو بھی ہمارے روا بط میں کو ئی فرق نہ پڑا۔ اپنے پیارے والدین کی وفات کے بعد مو لوی صاحب کو دعا کا کہہ کر مجھے بڑی تسلی ہو جا یا کرتی تھی۔

مو لوی صاحب نے امی جی کی وفات کے بعد جب اپنے بیٹے ڈاکٹر مبشرا حمدسلیم کے پاس لندن منتقل ہو جا نا تھا، تو ہم سرِشام ہی آپ کو الوداع کہہ آ ئے۔دل کے اندر ایک عجیب طرح کی اداسی تھی۔ اگلے دن صبح صبح جب میں اور شریف صاحب سیر کو نکل رہے تھے تو آپ تشریف لے آ ئے۔ میں نے کہا:مولوی صاحب!آپ نے بڑا ہی اچھا کیا، ہم اُداس ہو رہے تھے۔ مسکرا کر فر ما نے لگے:“ابھی تو میں جب مروں گا تو تم کو پتہ چلے گا…!’’ اور یہ ہماری آپ سے آخری ملا قا ت تھی۔

مولوی صاحب !میرا رحیم وکریم خدا آپ کو اپنی خوشنودی کی بے حساب جنتیں عطا فرمائے۔

یہ لوگ چمنستانِ مہدی مو عود علیہ السلام کے ثمرِاثمر تھے۔ اے میرے خالق اور رحیم خدا، ہم کمزوروں کو بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی تو فیق عطا فر ما۔ آ مین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button