متفرق مضامین

قدرت کے نظارے

(محمد شفیع خان۔پاکستان)

چہار سُو جلوہ گر قدرت کے نظارے

ازل سے نیک عمل اور بد عمل کے اچھے اور بُرے نتائج اور اثرات روز روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن ان سب عوامل کے باوجود انسان نے لاکھوں سال گزرنے کے باوجود اپنی اصلاح نہیں کی۔

ابلیس نے نافرمانی کی ۔ آدم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہدایات پر عمل نہیں کیا ۔ ہابیل اور قابیل دو بھائیوں نے انسانی قدروں کی پروا نہ کی یوں انسان روز اول سے ہی شیطان کے زیر ِاثر رہ کر خدا تعالیٰ کی رحمت و عنایات سے محروم ہو گیا۔

حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا جنت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنامیں شب و روز بسر کرتے تھے ۔ جنت کے پھل اور جملہ انعامات سے استفادہ کرتے تھے وہ با فراغت اور خوش و خرم زندگی بسر کرتے تھے لیکن جونہی اپنی غلطی کی وجہ سے جنت سے نکالے گئے ان کے لیے دنیا کی صعوبتیں اور ذمہ داریاں نافذ کر دی گئیں۔ توبہ واستغفار کے نتیجہ میں اللہ نے انہیں معاف تو فرما دیا لیکن وہ جنت میں جس مقام پر بے فکری کی پاک زندگی گذار رہے تھے اس پر دوبارہ فائز نہ ہو سکے گویا جب انسان اپنی کوتاہی یا بدعملی کی وجہ سے اپنے اعلیٰ معیار سے گر جاتا ہے تو دوبارہ اللہ تبارک و تعالیٰ اسے وہ مقام نہیں دیتے جو وہ کھو چکا ہو ۔ بدی ، بدعملی ، انکار اور ناشکرگزاری یہ سب راستے انسان کو امتحان میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔ یہیں سے گناہ کی ابتدا ہوتی ہے اور انسان نیکی سے دور اور گناہ کی دلدل میں پھنستا چلا جاتاہے۔

بزرگانِ دین اور ائمہ کرام کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن لالچ اور حرص و ہوس ہے جو جائز اور ناجائز کا فرق ختم کرکے ہوس زر کی آگ بھڑکاتا ہے جس میں بالآخر انسان خود جل کر خاکستر ہو جاتا ہے ایسے لوگوں کا مقدر جہنم کی آگ ہے۔ انسان اپنی اوقات سے غافل ہے ۔ وہ غور و خوض نہیں کرتا کہ جب حضرت آدم اور اماں حوا جنت میں تھے وہ ہر لحاظ سے پاک تھے ۔ جنت میں ناپاک یا گناہ گار کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جونہی وہ جنت سے نکالے گئے دنیا کی صعوبتوں اور کمزوریوں نے انہیں گھیر لیا ۔ وہ دنیا کے مصائب سے دو چار ہو گئے ۔ انسان کے لیے مقدر کی گئی تمام کمزوریاں اور قباحتیں ان کو لاحق ہو گئیں۔ اب وہ جبھی جنت میں رہائش کے اہل ہوں گے جب جسمانی اور روحانی طورپر پاکیزہ ہوں گے ۔ جبکہ پہلے وہ اللہ تبارک و تعالیٰٰ کی رحمت و برکات کے طفیل پاک زندگی جنت میں گزار رہے تھے ۔ ان کی پاکیزگی کی ضمانت اللہ تبارک و تعالیٰ نے دی تھی۔ گویا اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم پر عمل نہ کرنے کی پاداش میں انہیں سخت سرزنش اورآزمائشوں کا سامنا کرنا چاہیے ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو روز اول سے سیدھے اور ٹیڑھے راستے کے نتائج سے آگاہ کیا ہے اور باربار نصیحت فرمائی ہے کہ برائی سے بچواور نیکی پر عمل کرو۔ اس نے نیکی کی حدود بھی متعین کر دی ہیں ۔ انسان کی اصلاح کےلیے رب العزت نے حسب ِ ضرورت وقتاً فوقتاً اپنے ابنیاء علیھم السلام مبعوث فرمائے تا کہ انسان با عمل ، باکردار اور متقی وجود بن سکے ۔ اسے صرف جسمانی صفائی اور روحانی پاکیزگی ہی باخد ا بنا سکتی ہے انسان اگر اس حقیقت کو تسلیم کر کے اللہ تبارک و تعالیٰ کے واضح اور اٹل احکامات پر عمل کرے تو وہ دین و دنیا میں سرخ رو ہو سکتا ہے۔

اسلام اللہ تبارک و تعالیٰ کا آخری مذہب ہے جو ہر لحاظ سے مکمل اور مدلل ہے ۔ جس میں کسی قسم کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ۔ ہر انسان کے لیے اسلام ضابطہ حیات مہیا کرتاہے جس پر عمل کر کے ہر بشر دین ودنیا میں سرخرو ہو سکتا ہے ۔ اسلام کا ضابطہ حیات حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی حدود کا واضح تعین کرتا ہے اور یہ دونوں پہلوہر انسان کے لیے لازم ہیں کہ وہ ان پر عمل پیرا ہو جبھی اسے دین اور دنیا میں کامیابی نصیب ہو گی ۔ عبادات کی بر وقت ادائیگی اور جو اقرار عبادت کے دوران ایک انسان اللہ تبارک و تعالیٰ سے کرتا ہے اس کی پاسداری کے بغیر نہ حقوق اللہ مقبول ہیں نہ ہی حقوق العباد کا مقصد پورا ہو سکتا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ِپاک تو بے نیاز ہے اسے کسی کی عبادت سے یا انسانی حقوق کی ادائیگی سے کوئی فائدہ نہیں ۔ فائدہ تو عمل کرنے والے انسان کو ہے جس نے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے دوسرے انسان کی بوقت ضرورت مدد کی۔

یاد رہے کہ صرف عبادت میں یکسوئی اور رات دن گریہ و زاری سے اس وقت تک فیض حاصل نہیں ہو سکتا جب تک انسان کا دل گریہ وزاری کے نتیجہ میں موم ہو کر دنیا کے دوسرے انسانوں کی فلاح و بہبود اور دکھ و غم میں مغموم نہ ہو جائے ۔ ع

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

کہتے ہیں کوئی نیک فطرت غریب انسان تھا ۔ محنت مزدوری کر کے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا ۔ کسی کو کچھ خیرات یا صدقہ کرنے کے قابل نہیں تھا ۔ وہ جب مزدوری کے لیے گھر سے نکلتا تو راستے سے پتھر ، روڑے ، کانٹے دارجھاڑیاں وغیرہ صاف کرتا ہوا کام پر جاتا اور یہی عمل دہرا کر واپس گھر لوٹتا تاکہ آتے جاتےلوگوں کو راستہ چلنے میں ٹھوکر نہ لگے یا کانٹے نہ چبھیں۔ اس کی یہ نیکی اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول تھی۔

اللہ تعالیٰ نے غریب اور امیر کے لیے حصول نیکی کے یکساں مواقع پیدا فرمائے ہیں۔ پروردگار چاہے تو بے وسیلہ گناہ گار کے ادنیٰ سے ادنیٰ فعل یا عمل سے راضی ہو جائے اور اسے اجر عظیم سے نواز دے اور اگر چاہے تو کسی زاہد کی عمر بھر کی ریاضت اور صاحب حیثیت بندے کی عمر بھر کی نیکی اور راہِ خدا میں صدقہ اور خیرات کے عمل کو کسی وجہ سے پذیرائی نہ بخشے۔ یہی تو رب العزت کی بےشمار صفات میں سے ایک صفت ہے جسے اللّٰہ الصمدکہا گیا ہے۔

غور کریں رب العزت کس طرح معمولی معمولی فعل سے راضی ہو کر خطائیں معاف فرما دیتا ہے کہتے ہیں کہ ایک طوائف کسی ویرانے سے گزر رہی تھی اس نے دیکھا کہ کتے کا پلّا سخت دھوپ میں پیاسا لبِ جان ہے اس نے آس پاس دیکھا ایک گہرا گڑھا یا کنواں تھا جس میں پانی تھا ۔ پانی اس کی دسترس سے دور تھا اس نے اپنی اوڑھنی (دوپٹہ)کو پھاڑ کر آپس میں باندھ کر لمبا کیا اور اس کے ساتھ اپناجوتا باندھ کر کنویں کے گہرے پانی تک رسائی حاصل کی اور اپنے پانی بھرے جوتے سے کتے کے تڑپتے پلّے کی جان بچائی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس بندی کے اس فعل سے راضی ہوا اور اس کے زندگی بھر کے گناہ معاف فرما دیے۔

اب دوسری طرف غور کیجیے۔ ایک شخص جس کی ساری زندگی زہد و عبادت میں گذری تھی اس کے اعمال اس قدر وزنی تھے کہ جب اس کا انتقال ہوا تو سو(100)فرشتے اس کے نیک اعمال کا وزن اٹھائے جنت کے دروازے پر اس شخص کو لے کر پہنچے۔ جب وہ عابد و زاہد شخص جنت میں داخل ہونے لگا تو دربان نے اسے جنت میں داخل ہونےسے روکا اور فرشتوں سے کہا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم ہے کہ اسے دوزخ میں بھیج دیا جائے۔ سو ایک ایسے شخص کی عمر بھر کی ریاضت و عبادت اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور صرف اس لیے مقبول نہ ہو سکی کہ وہ تکبر کیا کرتا تھا ۔ سواللہ تبارک و تعالیٰ نے بے عمل گناہ گار کے لیے بھی بخشش کے ذرائع اور سامان پیدا کر رکھے ہیں اسی لیے حدیث پاک ہے الاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِیعنی اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ سو نیکی اور برائی کا تعلق دل سے ہے یہ دونوں ازل سے ساتھ ساتھ چلتی آئی ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے روز اول سے انسان کو ہدایت سے نوازا ہے تاکہ برائی سے باز رہے۔ برائی کا انجام بالآخر رسوائی ہے جیسا کہ فرمایاکہ جونہی انسان اس درخت کے قریب گیا جس سے اللہ تعالیٰ نے اسے منع فرمایا تھا او راس نے اس درخت کا پھل کھایا تو اسی وقت اس کی شرم اس پر ظاہر ہو گئی اور وہ اپنے آپ کو پتوں سے ڈھانپنے لگا ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے برائی میں حد سے بڑھنے والوں کو خوف ناک انجام سے بھی آگاہ فرمایاہے۔ ہابیل و قابیل کا واقعہ اور حضرت ابراہیم ؑکے والد کا اپنے بیٹے کو آگ میں جھونکنے کا واقعہ اور اسی طرح بہت سے واقعات ہیں جہاں برائی میں اندھے ہو کر نہ بھائی نے بھائی کی پروا کی نہ باپ نے بیٹے کی پروا کی ۔ یہ پند و نصائح اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی ہدایت اور اصلاح کےلیے بیان فرمائی ہیں تا کہ انسان عبرت حاصل کرے اور برائی سے دور رہے۔

ازل سے اچھائی اور برائی ساتھ ساتھ چلتے ہیں اس کے بےشمار شواہد اور مثالیں موجود ہیں ۔ مثلاًخشخاش کے پودے کو جو پھل لگتا ہے اسے ڈوڈا کہتے ہیں ۔ خشخاش کے بیج دل و دماغ کے لیے مقوی اور فرحت بخش ہوتے ہیں جبکہ ان بیجوں کا خول جس میں وہ بیج اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں وہ خول کا ذرہ بھر حصہ بھی انسان کے لیے مہلک اور نقصان دہ ہو سکتا ہے گویا اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت کے نظارے دیکھیں ایک ہی پودے کا ایک ہی پھل جس کا ایک حصہ فرحت بخش انسانی زندگی کے لیے مفرح اور مفید اور دوسرا حصہ انسانی زندگی کے لیے مہلک ہے اگر غور کریں تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت کے نظارے چار سُو جلوہ گر ہیں ۔ ایک ہی زمین میں ایک ہی پانی سے اگنے والی سبزیاں ، پھل اور اجناس مختلف ذائقے ، مختلف رنگ اور سائز میں ہوتی ہیں جبکہ ہر ایک کی تاثیر ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے ۔ انگور ، آم ، کینو ، سنگترا ، مالٹا کے پھلوں میں رنگ کون بھرتا ہے جب یہ کچے ہوتے ہیں سخت ترش ہوتے ہیں جب پک کر تیار ہو جاتے ہیں تو ان میں مٹھاس کہاں سے آجاتی ہے ۔ خود بخود میٹھے ذائقہ دار کیوں ہو جاتے ہیں ۔ اس کا فقط ایک ہی جواب ہے کہ کُن فَیَکُوْنُ کی تعمیل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول و حکم کے تحت اس کائنات کے پودے اپنے فرائض بجا لاتے ہیں ۔

کہا جاتا ہے کہ ہمارے سائنسدانوں نے تار ، ٹیلی فون ، ٹی وی ، ریڈیو ، انٹر نیٹ ایجاد کر لیا ہے ۔فضاؤں پر کمندیں ڈال کر ہوائی سفر اور نقل و حرکت کے جدید ذرائع ایجاد کر لیے ہیں ۔ ہواؤں کے دوش پر لاکھوں میل وائرلیس ٹیلی فون ، انٹر نیٹ کے ذریعے سے چند سیکنڈ میں رابطے کر لیے جاتےہیں وغیرہ وغیرہ۔

انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایجادات نہیں ہیں یہ تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرتوں کے راز ہیں جو انسان نے ہزاروں برس گزرنے کے بعد معلوم کیے ہیں ۔ یہ راز جسے آج ہم سائنس کا نام دیتے ہیں یا سائنسدانوں کی کاوشوں کا ثمر قرار دیتے ہیں ۔ یہ راز تو اللہ تعالیٰ جل شانہ ٗنے اسی دن وضع فرما دیے تھے جس دن اس نے دنیا کی ابتدا کی تھی ۔ یہ انسان کی غفلت اور لاعلمی ہے کہ وہ ہزاروں برس تک جہالت میں بھٹکتا رہا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی عنایات سے پہلے فائدہ نہ اٹھاسکا۔ ابھی تو قدرت کے بہت سے راز ہیں جن سے انسان روشناس نہیں ہو سکا۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے راز ازل سے ہیں جو انسانی نظروں سے اوجھل تھے ۔اب انیسویں 19ویں صدی میں ان تک اگر انسان نے کسی حد تک رسائی حاصل کی ہے تو اسے انسان کی ایجاد کہنا نامناسب اور غلط ہے۔ یہ تخلیق نہیں بلکہ تحقیق ہے جس کے نتیجہ میں انسان نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے وضع کردہ قواعد و ضوابط جسے قانون قدرت کہتے ہیں کے پوشیدہ رازوںتک رسائی حاصل کی ہے ۔

پس انسان کو ہر حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر گزار بندہ ہونا چاہیے کہ اس نے اسے ایک ناپاک نطفہ سے پیدا کرنے کے باوجود اس پر رحم وکرم کی عنایات نازل فرمائیں۔ اس کی جسمانی پرورش کے لیے سینکڑوں نعمتیں پیدا کیں اور روحانی پرورش اور غذا کے لیے اپنے مقربین انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے جبکہ آخری نبی رحمۃ للعالمین ﷺ اور رشد و ہدایت کی جامع اور مکمل دین و دنیا کی نجات دہندہ آسمانی متبرک کتاب کلام الٰہی قرآن مجید انسانیت کی اصلاح و بہبود کے لیے نازل فرمایا۔

اس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ نبوت کا مرتبہ آنحضرتؐ کی ذات میں اپنے معراج ، اپنے کمال کو پہنچ چکا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ دین اللہ تبارک و تعالیٰ نے مکمل فرما دیا ہے (شریعت مکمل ہو چکی ہے )اب صرف کلام ِ پاک کا فیض اور آنحضرت ﷺ کے نور مجسم کی روشنی کی کرنوں کے فیض سے ہر ہدایت اور ہر مرتبہ اور ہر مقام مشروط ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم اور منشاء سے اس کے مسیح و مہدی اور پھر آپ علیہ السلام کے بعدآپ کے خلفاء اوران کی اقتدا میں مقرب بندے شمع محمدی ؐکے پروانے بن کر دیوانہ وار اسلام پر نچھاور ہوتے رہیں گے ۔ انشا ء اللہ یہ نور محمدیؐ قیامت تک دنیا اور آخرت میں جگمگاتا رہے گا اور کوئی نہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے قائم کردہ نور کو بجھا سکے یا مدھم کر سکے ۔

……………………………………………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button