متفرق مضامین

شرک کی حقیقت کیا ہے؟

(انصر رضا۔واقفِ زندگی، کینیڈا)

کسی انسان میں ایسی صفات کا پایا جانا جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہوں اور وہ کسی دوسرے انسان میں نہ پائی جاتی ہوں علماء کا اس پر متفق ہونے کے باوجود وہ حضرت عیسیٰ ؑکو بعض صفات میں خدا تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں

امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریرات کے مطالعہ سےیہ بات واضح ہوتی ہے کہ شرک یہ ہےکہ بنی نوع انسان میں سے کسی شخص کو ایسی صفات میں خدا تعالیٰ کا شریک ماننا جو محض خدا تعالیٰ کے لیے مخصوص ہوں ۔جیسا کہ بعض غیر احمدی مسلمان علماء حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردوں کو زندہ کرنے والا، پرندوں کو تخلیق کرکے ان میں روح پھونکنے والا اور لوگوں کو ان کے گھروں میں کھایا پکایا بتانے والا سمجھتے ہیں۔سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

‘‘کاش یہ لوگ ایک منٹ کے لیے اپنے تعصّبوں سے خالی ہو کر ذرہ سوچتے کہ شرک کیا چیز ہے اور اس کی کیا حقیقت ہے اور اس کی مبادی اور مقدّمات کیا ہیں۔تا ان پرجلد کھل جاتا کہ خدا تعالیٰ کی ذات یا صفات یا اقوال و افعال یا اس کے استحقاق معبودیت میں کسی دوسرے کو شریکانہ دخل دینا گو مساوی طور پر یا کچھ کم درجہ پر ہو یہی شرک ہے جو کبھی بخشا نہیں جائے گا۔

اور اس کے مقدمات جن سے یہ پیدا ہوتا ہے یہ ہیں کہ کسی بشر میں کوئی ایسی خصوصیت اس کی ذات یا صفات یا افعال کے متعلق قائم کردی جاوے جو اس کے بنی نوع میں ہرگز نہ پائی جائے نہ بطور ظلّ اور نہ بطور اصل۔ اب اگر ہم ایک خاص فرد انسان کے لیے یہ تجویز کرلیں کہ گویا وہ اپنی فطرت یا لوازم حیات میں تمام بنی نوع انسان سے متفرد اور مستثنیٰ اور بشریت کے عام خواص سے کوئی ایسی زائد خصوصیت اپنے اندر رکھتا ہے جس میں کسی دوسرے کو کچھ حصہ نہیں تو ہم اس بے جا اعتقاد سے ایک تودہ شرک کا اسلام کی راہ میں رکھ دیں گےقرآن کریم کی صاف تعلیم یہ ہے کہ وہ خداوند وحید و حمید جو بالذات توحید کو چاہتا ہے۔ اس نے اپنی مخلوق کو متشارک الصفات رکھا ہے اور بعض کو بعض کا مثیل اور شبیہ قرار دیا ہے تا کسی فرد خاص کی کوئی خصوصیت جو ذات و افعال و اقوال اورصفات کے متعلق ہے اس دھوکہ میں نہ ڈالے کہ وہ فرد خاص اپنے بنی نوع سے بڑھ کر ایک ایسی خاصیت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص نہ اصلًاو نہ ظلًّا اس کا شریک نہیں اور خدا تعالیٰ کی طرح کسی اپنی صفت میں واحد لا شریک ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں سورۃ اخلاص اسی بھید کو بیان کررہی ہے کہ احدیّت ذات و صفات خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے۔دیکھو اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔

اور جب کہ واقعی یہی بات ہے کہ مخلوق کی شناخت کی بڑی علامت یہی ہے کہ بعض بعض سے مشارکت و مشابہت رکھتے ہیں اور کوئی فرد کوئی ایسی ذاتی خاصیت اور خصوصیت نہیں رکھتا جو دوسرے کسی فرد کو اس سے حصہ نہ ہو خواہ اَصلًایا ظِلًّاتو پھر اگر اس صورت میں ہم کوئی ایسا فرد افراد بشریہ سے تسلیم کرلیں جو اپنی بعض صفات یا افعال میں دوسروں سے بکلی ممتاز اور لوازم بشریت سے بڑھ کرہے اور خدا تعالیٰ کی طرح اپنے اس فعل یا صفت میں یگانگت رکھتا ہے تو گویا ہم نے خدا تعالیٰ کی صفت وحدانیت میں ایک شریک قرار دیا۔ یہ ایک دقیق راز ہے اس کو خوب سوچو۔’’

(آئینہ کمالاتِ اسلام،روحانی خزائن جلد5صفحہ44,45)

ممتازدیوبندی عالم سیّد ابوالحسن علی ندوی صاحب اپنی کتاب ‘‘تاریخِ دعوت و عزیمت’’کے حصہ پنجم میں شرک کی حقیقت کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒکا یہی نظریہ انہی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
‘‘مسئلہ توحید کی علمی تنقیح و تحقیق ۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے اصلاح عقائد اور توحید خالص کی دعوت کے سلسلہ میں قرآن مجید کے ترجمہ اور درس قرآن ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ایک عالم و محقق کے انداز سے اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا، عقیدۂ توحید ملت ابراہیمی ؑکا سب سے بڑا شعار اور حضرت ابراہیم ؑکی دعوت اور جدوجہد کا سب سے بڑا مقصد خاتم الرسلﷺ کی دعوت کی بنیاد اور ابتدا اور انتہا تھی، سارا قرآن اور احادیث کا دفتر اور سیرت نبویؐ اس پر شاہد ہے، آپ نے توحید و شرک کے درمیان ایسا خطِّ امتیاز کھینچا، توحید کی حقیقت کو اس طرح عیاں کیا، شرک کے ادنیٰ سے ادنیٰ شائبہ اور اس کی ہلکی سے ہلکی پرچھائیں کے خلاف ایسا جہاد کیا، امت کے عقائد میں شرک کے داخل ہوجانے اور عقائد میں فتور واقع ہونے کے ذرائع کا ایسا سدِّباب کیا جس سے زیادہ کا تصور ممکن نہیں، یہ سب حقائق ایسے متواتر اور بدیہی ہیں، جن کے لیے دلائل اور مثالوں کی ضرورت نہیں، جس کی قرآن و حدیث پر ذرا بھی نظر ہے وہ اس کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔پھر اس امت میں قرون مشہود لہا بالخیر کے گزرنے، نئے نئے ملکوں کی فتح، وہاں کی آبادی کے قبول اسلام، غیر مسلم اقوام کی مخالفت و مجاورت، اور مرورِ زمانہ کے اثر سے عوام کے ایک بڑے طبقے میں یہ مشرکانہ عقائد و اعمال کہاں سے داخل ہوگئے اور ان کو توحیدکے بہت سے شعائر و علامات کے ساتھ مسلم معاشرہ میں اپنی جگہ بنالینے کا کیسے موقع مل گیا اور بہت سے مدعّیان علم کو ان کی تاویل اور توجیہ کی اور ان کو گوارہ کرنے اور جائز قرار دینے کی جرأت کیسے ہوئی اور بہت سے پڑھے لکھے مسلمان کیسے اس مغالطہ کے شکار ہوگئے؟

شاہ صاحبؒ کے نزدیک اس کی وجہ توحید کی حقیقت اور مشرکین جاہلیت اور اہل عرب کے خدا کے خالق کائنات اور مدبّر امورِ عظام ہونے کے بارے میں عقیدہ کو صحیح طور پر نہ سمجھنا ہے۔عوام کے ایک بڑے طبقہ نے شرک کی حقیقت یہ سمجھی کہ کسی ہستی کو (خواہ وہ زندہ ہو یا فوت شدہ)خدا کا بالکل ہم سر اور ہم پایہ بنالیا جائے، خدا کی تمام صفات اور افعال اُس کی طرف منسوب کیے جائیں، اسی کو خالق، رازق اور مُحی و مُمیت (زندہ کرنے والا اور مارنے والا) حقیقتًا و اصالتًاسمجھ لیا جائے، باقی اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا اس کے کسی مقبول بندے کی طرف منسوب کرنا اور بعض افعال کا (جو خدا کے ساتھ مخصوص ہیں)ان سے صدور ماننا، قدرت کے بعض کارخانوں کا ان سے متعلق ہوجانااور اللہ کا اپنی مرضی سے اپنے بعض اختیارات ان کے سپرد کردینا، یہ توحید کے منافی اور شرک کے مترادف نہیں، اسی طرح کسی کی محض تقرّب الی اللہ اور شفاعت عند اللہ کے لیے ایسی حد سے بڑھی ہوئی تعظیم کرنا اور ان کے ساتھ ایسے اعمال و حرکات سے پیش آنا جو عبادت کے حدود میں داخل ہیں، داخل شرک نہیں کہ یہ محض رضائے خداوندی کے حصول کا ایک ذریعہ اور اس بارگاہ بے چون و بے چگوں تک پہونچنے کا (جس کے یہاں معمولی بشر کی رسائی نہیں)ایک مفید اور مؤثر طریقہ ہے، کفار عرب کہتے تھے: مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفیٰ (الزّمر:3)(وہ کہتے ہیں کہ)ہم ان کو اس لیے پوجتے ہیں کہ ہم کو خدا کا مقرب بنادیں۔ یہ وہ مغالطہ اور التباس تھا جس کی وجہ سے اس امت کے بھی کثیرالتعداد افراد شرک کی ارض ممنوعہ میں جاپڑے تھے اور اس سرحدی لکیر کو پار کرگئے تھے، جو توحید و شرک کی حد فاصل (Line of Demarcation) ہے، اس لیے سب سے پہلی اور اہم ضرورت یہ تھی کہ معلوم کیا جائے کہ اہل جاہلیت اور مشرکین عرب کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیا تھا، وہ اس کی ذات و صفات کے بارے میں کن کن چیزوں کے قائل تھے، اللہ تعالیٰ کو فاطر کائنات، خالق ارض و سماوات، اور قادر مطلق سمجھنے کے باوجود اللہ کے رسول نے ان کو کیوں مشرک گردانا اور قرآن نے ان کے مشرک ہونے کا کیوں اعلان کیا؟

شاہ صاحبؒ اپنی بے نظیر کتاب ‘‘الفوز الکبیر فی اصول التفسیر’’میں لکھتے ہیں:

‘‘شرک یہ ہے کہ ماسوا اللہ کے لیے ان صفات کو ثابت مانا جائے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ مختص ہوں، مثلًا عالم کے اندر تصرّفاتِ ارادی جس کو کُنْ فَیَکُوْنُ سے تعبیر کرتے ہیں، یا علمِ ذاتی جس کا اکتساب نہ حواس کے ذریعہ سے ہو نہ عقل کی رہنمائی سے اور نہ خواب و الہام وغیرہ کے واسطہ سے، یا مریضوں کو شفا دینا یا کسی شخص پر لعنت کرنا اور اس سے ناراض ہونا، جس کے باعث اس کو تنگ دستی اور بیماری اور شقاوت گھیرلیں، یا رحمت بھیجنا جس سے اس کو فراخ دستی، تندرستی اور سعادت حاصل ہو۔مشرکین بھی جواہر (اجسام)اور عظیم الشان امور کے پیدا کرنے میں کسی کو خدا تعالیٰ کا شریک نہیں جانتے تھے، ان کا اعتقاد تھا کہ جب خدا تعالیٰ کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو کسی میں اس کے روکنے کی قدرت نہیں ہے، ان کا شرک فقط ایسے امور کی نسبت تھاجو کہ بعض بندوں کے ساتھ مخصوص تھے۔ان لوگوں کا گمان تھا کہ جیسے شاہان عظیم القدر اپنے مقرّبان خاص کو ملک کے مختلف حصوں کا فرماں روا مقرر کرتے ہیں، اور بعض امور خاصّہ کے فیصل کرنے میں (جب تک کوئی شاہی حکم صریح موجود نہ ہو) ان کو مختار بنادیتے ہیں اور اپنی رعایا کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خود انتظام نہیں کرتے، اور اپنی کل رعایا کو حُکّام کے سپرد کردیتے ہیں، اور حکام کی سفارش ان کے ماتحت ملازمین اور متوسلین کے حق میں قبول کی جاتی ہے، ایسے ہی بادشاہ علی الاطلاق جلّ مجدہٗ نے بھی اپنے خاص بندوں کو رتبۂ الوہیت کے خلعت سے سرفراز کیا ہے، اور ایسے لوگوں کی رضامندی و ناراضی دوسرے بندوں کے حق میں مؤثر ہے، اس لیے وہ ان بندگان خاص کے تقرُّب کو ضروری خیال کرتے تھے تاکہ بادشاہ حقیقی کی درگاہ میں مقبولیت کی صلاحیت پیدا ہوجائے اور جزائے اعمال کے وقت ان کے حق میں شفاعت درجۂ قبولیت حاصل کرے اور ان خیالی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے وہ لوگ ان کو سجدہ کرنا اور ان کے لیے قربانی کرنا اور ان کے نام کی قسم کھانا اور ضروری امور میں ان کی قدرت کُنْ فَیَکُوْنُ سے مدد لینا جائز سمجھتے تھے۔انہوں نے پتھر، پیتل اور سیسہ وغیرہ کی مورتیں بنا کر ان (بندگانِ خاص)کی روحوں کی طرف متوجہ ہونے کا ایک وسیلہ قرار دیا تھا لیکن رفتہ رفتہ جہلاء نے ان پتھروں ہی کو اپنا اصلی معبود سمجھنا شروع کردیا اور خلطِ عظیم واقع ہوا۔’’

نیز ‘‘حجۃ اللّٰہ البالغہ’’میں لکھتے ہیں:

‘‘شرک کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کسی ایسے شخص کے بارے میں جو قابلِ تعظیم سمجھا جاتا ہے، یہ عقیدہ رکھے کہ اس سے جو غیر معمولی افعال و واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں، وہ اس بناء پر ہیں کہ وہ شخص صفات کمال میں سے کسی ایسی صفت کے ساتھ متّصف ہے جس کا مشاہدہ نوع انسانی کے افراد میں نہیں ہوا، وہ صفت واجب الوجود جلّ مجدہٗ کے ساتھ مخصوص ہے، اس کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی، اس کی چند ہی شکلیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ وہ واجب الوجود اپنی کسی مخلوق کو خلعت الوہیت سے سرفراز کرے، یا وہ مخلوق ذاتِ الٰہی میں فنا ہوکر باقی باللہ بن کر رہ جائے، یا اسی طرح کی کوئی شکل جو اس عقیدہ کے حامل نے اپنی طرف سے گھڑ لی ہو، حدیث میں مشرکین کے جس تلبیہ (حج میں لبّیک لبّیک کہنا) کے الفاظ نقل کیے گئے ہیں وہ اسی عقیدے کا ایک نمونہ اور اس کی مثال ہے، حدیث میں آتا ہے کہ مشرکین عرب (جاہلیت میں اور اسلام قبول کرنے سے پہلے)ان لفظوں میں لبیک کہتے تھے: لبّیک لبّیک لَا شَرِیْکَ لَکَ، اِلّا شَرِیْکًا ھُوَ لَکَ تَمْلِکُہٗ وَمَا مَلَکَ۔ خدایا!حاضر ہوں، حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، سوائے اس شریک کے جو تیرا بندۂ خاص ہے تو اس کا بھی مالک ہے اور اس کی مملوکات کا بھی مالک۔ اسی بناء پر یہ معتقد اس ہستی کے لیے (جس کو وہ خدا کے بعض صفات کا حامل اور خلعت الوہیت سے سرفراز سمجھتا ہے)اپنے انتہائی تذلُّل اور فروتنی کا اظہار کرتا ہے، اور اس کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جو بندوں کو خدا کے ساتھ کرنا چاہئے۔’’
حجۃ اللّٰہ البالغہ میں ایک دوسری جگہ مشرکین کے شرک کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اور اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں ان کے اور مسلمانوں کے درمیان (جو صحیح عقیدہ کے حامل ہیں)کئی باتوں پر اتفاق تھا، مشرکین عرب وجود باری اور اس کی یگانہ شان اور قدرت مطلقہ کے منکر نہیں تھے، صرف بعض صفات اور اختیارات میں وہ (خدا ہی کی مرضی اور منشا سے)اس کے بعض مقرّبین و محبوبین کو شریک اور صاحب اختیار سمجھتے تھے، اور اس لیے ان کے ساتھ عبودیت اور بندگی کا معاملہ کرتے تھے، باب التوحید کے عنوان کے ماتحت تحریر فرماتے ہیں:

‘‘مشرکین اس بارے میں مسلمانوں ہی کے ہم خیال اور ہم عقیدہ تھے کہ امور عظام کے سرانجام اور جس چیز کا اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمالیں اور اس کا ارادہ قطعی ہوجائے تو اس میں کسی غیر کا اختیار باقی نہیں رہتا، باقی دوسرے امور میں انہوں نے مسلمانوں سے الگ راستہ اختیار کیا تھا، ان کا خیال تھا کہ زمانۂ ماضی کے صلحاء نے عبادت کی کثرت کی اور خدا کا قرب حاصل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو الوہیت کا خلعت عطا فرمایا، اس بنا پر وہ خدا کے دوسرے بندوں کی عبادت کے مستحق بن گئے، جیسے شہنشاہ کا کوئی(مزاج داں)غلام بادشاہ کی خدمت کا حق ادا کردے تو شہنشاہ اس کو بادشاہی کا خلعت عطا فرماتا ہے اور اپنے ملک کے کسی شہر کا انتظام اس کے سپرد کردیتا ہے، تو اس طرح وہ شہر کے باشندوں کی سننے اور بات ماننے کا مستحق ہوجاتا ہے۔وہ اس بات کے قائل تھے کہ خدا کی بندگی جب ہی قبول ہوسکتی ہے جب ایسے مقبول اور برگزیدہ بندوں کی غلامی بھی اس میں شامل ہو، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں سے اس قدر بالا و برتر ہے کہ براہ راست اس کی عبادت کچھ کارگر اور اس کی وہاں رسائی نہیں ہے، ضروری ہے کہ ان مقرّبان بارگاہِ الٰہی کی عبادت کی جائے، تاکہ وہ اللہ تک پہنچادیں، وہ کہتے تھے کہ یہ (مقرّبین) سنتے، دیکھتے اور اپنے بندوں کی سفارش کرتے ہیں اور ان کے معاملات کا انتظام کرتے اور ان کی مدد کرتے ہیں۔انہوں نے ان کے ناموں کے پتھر تراشے اور ان کو اپنا قبلۂ توجہ بنالیا بعد میں وہ لوگ آئے جو ان بتوں اور جن کے نام پر یہ بُت تھے ان کے درمیان فرق کو نہیں سمجھ سکے اور انہوں نے ان کو بذات خود معبود سمجھ لیا۔’’

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:

‘‘مشرکین عرب اس کے قائل تھے کہ اللہ تعالیٰ کا آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں کوئی شریک نہیں، اسی طرح ان دونوں کے درمیان جو اجسام و اشیاء ہیں ان کی خلقت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں، نیز اہم امور کے سرانجام میں بھی کسی کی شرکت نہیں، اس کے فیصلہ کو کوئی ٹالنے والا، اور اس کے حکم قطعی کو کوئی روکنے والا نہیں، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:وَلَئِنْ سَأَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ(لقمٰن:25)اگر تم ان مشرکین سے پوچھو کہ آسمان و زمین کس نے پیدا کیا تو وہ یقیناًکہیں گے کہ اللہ نے۔قرآن خود شہادت دیتا ہے کہ یہ مشرکین خدا کو مانتے تھے اور اس سے دعا بھی کرتے تھے بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ (الانعام:41)بلکہ اسی سے مانگتے ہو۔ نیز فرماتا ہے:ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّا اِیَّاہُ (بنی اسرائیل:67)اسی سے دعا کرنا کام بناتا ہے، دوسروں سے دعا بے کارجاتی ہے۔حقیقت میں ان مشرکین کی گمراہی اور بے دینی یہ تھی کہ ان کا اعتقاد تھا کہ کچھ فرشتے اور ارواح ہیں جو (بڑے امور کو چھوڑ کر)اپنے پرستار کے ان جزئی و ضمنی معاملات کو سنبھال لیتے ہیں اور ان کا کام کردیتے ہیں، جن کا تعلق اس کی ذات، اولاد، اموال و املاک سے ہے، ان کے نزدیک ان کا خدا کے ساتھ ایسا ہی تعلق ہے جیسے کسی نازپروردہ غلام کا شہنشاہ سے اور سفارشیوں اور مصاحبوں کا باجبروت بادشاہ سے ہوتا ہے، شرائع الٰہی میں جو کہیں اس بات کا تذکرہ آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کام بعض فرشتوں کے سپرد کردیے ہیں یا یہ کہ مقرّبین کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، ان جاہلوں نے اسی کو بنیاد بنا کر ان کو ایسا صاحب اختیار اور صاحب تصرف مان لیا جیسے خود بادشاہ بنفس نفیس ہوتے ہیں، حالانکہ یہ قیاس الغائب علی الشاہد تھا اور اسی سے ساری خرابی پیدا ہوئی۔’’

(حجۃ اللّٰہ البالغہ باب ما کان علیہ حال اھل الجاھلیۃ فاصلحہ اللّٰہ جلد1صفحہ125)

اسی طرح شاہ صاحب ؒنے عوام اور خواص مشابہ بعوام کے بہت سے مشرکانہ عقائد و اعمال کی جڑ پکڑ لی اور اس مغالطہ کا پردہ چاک کیا، جس کی وجہ سے بہت سے جہلاء اور مدعیان علم ان اعمال و رسوم، شعائر شرک، نذر و ذبح لغیر اللہ، بزرگوں کے نام پر روزے رکھنے، اولیاء و صالحین سے دعا و التجا، خوف و رجا، استمداد و استعانت، ان کے مقامات و فن، اور ان سے نسبت رکھنے والی چیزوں کی حرم شریف اور بیت اللہ کی طرح تعظیم کرنے اور ان کے انہیں آداب کو مرعی رکھنے، ان کے جزئی تصرف فی الکائنات، انسان کی شقاوت و سعادت، مرض و صحت، فراخی رزق و تنگی میں مؤثر ہونے کے عقیدۂ مشرکانہ میں گرفتار اور ‘‘فَاْعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْنَ’’(الزمر:2) پر عمل کرنے اور انابت و اخبات، توکّل علی اللہ اور انقطاع الی اللہ جیسی بیش بہا دولت سے محروم تھے، اور جن کے بعض احوال سُن کر اور اعمال دیکھ کر بے اختیار قرآن مجید کی آیت یاد آتی تھی:وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَھُمْ مُّشْرِکُوْنَ (یوسف:106)اور یہ اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر (اس کے ساتھ)شرک کرتے ہیں۔

شاہ صاحب ؒ اور ان کے اخلاف کا اگر اس عقیدۂ توحید کی تجدید، اس کی تنقیح و توضیح اس کی اشاعت و ترویج اور اس کے سلسلہ کی غلط فہمیوں کے رفع کرنے کے سوا کوئی کارنامہ نہ ہوتا تو تنہا یہی کارنامہ ان کو مجدّدین امت میں شمار کرنے کے لیے کافی تھا۔’’

(تاریخ دعوت و عزیمت جلد پنجم صفحہ162-154از مولانا سیّد ابوالحسن علی حسنی ندوی)

اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ کسی انسان میں کسی ایسی صفت کے ہونے کا عقیدہ رکھنا جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہو اور اُس انسان کے علاوہ کسی دوسرے انسان میں نہ پائی جاتی ہو، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے نزدیک شرک ہے اور سیّد ابولحسن علی ندوی صاحب اس کی تائید کررہے ہیں۔لیکن اس کے باوجود یہ علماء حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان صفات سے متصف ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں جو محض اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں، اور اس طرح اپنے ہی مسلّمہ عقائد کی نفی کرتے ہیں۔لیکن جب سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نےیہی نظریات پیش فرمائے توغیر احمدی علماء نے یہ پراپیگنڈہ شروع کردیا کہ احمدیہ مسلم جماعت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے احیاء موتٰی، خلق طیر اور علم غیب کی صفات کاانکار کرکے اُن کی توہین کی مرتکب ہوتی ہے۔

حضرت شاہ اسماعیل شہید ؒ پر بھی مخالفین نے توہینِ انبیاء و اولیاء کا الزام لگادیا۔اس کی وضاحت اور ان پر لگائے گئے الزام کو غلط ثابت کرتے ہوئے علامہ خالد محمود صاحب لکھتے ہیں کہ توحیدِ خالص کا بیان اور کسی نبی میں اللہ تعالیٰ سے مخصوص صفات کے ہونے کا انکار کرنا اُس نبی کی توہین نہیں ہے۔
‘‘توحید خالص کے بیان اور شرک کی مذمت کو انبیاء و اولیاء کی توہین سمجھنے لگ جانا ایک بڑی غلطی اور حماقت ہے۔مسلمان جب یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے اور شریک نہیں تو نادان عیسائی اسے حضرت عیسیٰ کی توہین سمجھنے لگ جاتے ہیں۔’’

(شاہ اسمٰعیل محدث دہلوی شہید بالا کوٹ۔تالیف پروفیسر علامہ خالد محمود ایم اے پی ایچ ڈی۔ صفحہ۔62)

‘‘جو لوگ اسلام کے عقیدۂ توحید میں ترمیم کررہے تھے مولانا اسمٰعیل شہیدؒ کا بیان توحید ان پر ضرب کاری تھا، انتقامی جذبے کے ساتھ انہوں نے مولانا شہیدؒ کے خلاف یہ کارروائی کی کہ ان کے بیان توحید کو انبیاء علیہم السلام کی شان میں تنقیص کہنا شروع کردیا حالانکہ اللہ عزّ و جل کی توحید میں انبیاء و مرسلین کی ہرگز توہین نہ تھی۔ اسلام کے عقیدۂ توحید کو انبیاء علیہم السلام کی شان سے ٹکرانے کی بدعت مولانا شہیدؒ کے نادان مخالفوں کی ایجاد ہے۔’’

(شاہ اسمٰعیل محدث دہلوی شہید بالا کوٹ۔تالیف پروفیسر علامہ خالد محمود صفحہ92)

‘‘حضرت شاہ اسمٰعیل شہیدؒ جب کہتے ہیں کہ اللہ کے دینے سے بھی کوئی غیب دانی کا مالک نہیں ہوتا۔اس سے ان کی مراد ان اُمورغیبیہ کی نفی ہرگز نہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرّبین کو مختلف موقعوں اور ضرورتوں پر اطلاع بخشی ہے۔ وہ صرف عطاء مستقل کی نفی کررہے ہیں کہ کسی کو یہ قوت عطا ہوجائے کہ جب چاہے اور جو چاہے از خود معلوم کرلیا کرے اور ہر ہر بات کے جاننے میں وہ خدا کا محتاج نہ ہوا کرے۔ کسی صفت سے حقیقی طور پر متصف ہوجانا،خواہ خدا کے دینے سے ہی ہو، اس میں آئندہ خدا سے احتیاج نہیں رہتا اور یہ ہرگز درست نہیں۔ خدا تعالیٰ کی شان صمدیت کا تقاضا ہے کہ ہر مخلوق کو اس کی ضرورت اور احتیاج رہے۔ بے نیازی صرف اسی کی شان ہے اور کوئی بے نیاز نہیں ہے۔’’

(شاہ اسمٰعیل محدث دہلوی شہید بالا کوٹ۔تالیف پروفیسر علامہ خالد محمود صفحہ۔84)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button