کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ مجھے خدا نے مامور کیا ہے

ہماری جماعت کے لیے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے۔ چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معاً دوست رشتہ دار اور برادری الگ ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بھائی بہن بھی دشمن ہو جاتے ہیں۔ السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے۔ اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ تم انبیاء و رسل سے زیادہ نہیں ہو۔ ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لیے آتی ہیں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقعہ ملے۔ دعاؤں میں لگے رہو۔ پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء و رسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیار کرو۔ تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ دوست جو تمہیں قبول حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے۔ ورنہ چاہیے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا تمہیں چاہئےکہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ اُن سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ اُن کے لیے غائبانہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے۔ تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ دیکھو میں اس امر کے لیے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سُنکر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو۔ اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو۔ بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش کے ساتھ مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسدانہ طریق ہو۔جس سے سُننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو۔ لیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا تو خود اُسے شرم آجاتی ہے اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔ صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے۔ صبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کر لیتا ہے۔ یقیناً یاد رکھو کہ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں یہ سُنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے۔ اس طریق کو میں ہر گز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے بلکہ میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہانتک اس امر کی تائید کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اِس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے۔ نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں تو اس معاملہ کو خدا کے سپرد کر دو۔ تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ میرا معاملہ خدا پر چھوڑ دو۔ تم ان گالیوں کو سُن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ میں ان لوگوں سے کس قدر گالیاں سُنتا ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گندی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آتے ہیں اور کھلے کارڈوں میں گالیاں دی جاتی ہیں بیرنگ خطوط آتے ہیں جن کا محصول بھی دینا پڑتا ہے اور پھر جب پڑھتے ہیں تو گالیوں کا طومار ہوتا ہے۔ ایسی فحش گالیاں ہوتی ہیں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ کسی پیغمبر کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئی ہیں۔ اور میں اعتبار نہیں کرتا کہ ابو جہل میں بھی ایسی گالیوں کا مادہ ہو۔ لیکن یہ سب کچھ سُننا پڑتا ہے۔ جب میں صبر کرتا ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو۔ درخت سے بڑھ کر تو شاخ نہیں ہوتی۔ تم دیکھو کہ یہ کب تک گالیاں دیں گے۔ آخر یہی تھک کر رہ جائیں گے۔ اُن کی گالیاں ، اُن کی شرارتیں اور منصوبے مجھے ہر گز نہیں تھکا سکتے اگر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو بیشک میں اُن کی گالیوں سے ڈر جاتا۔ لیکن میں یقیناً جانتا ہوں کہ مجھے خدا نے مامور کیا ہے۔

(ملفوظات جلد7صفحہ 203تا 204۔ایڈیشن1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button