از افاضاتِ خلفائے احمدیتمتفرق مضامین

وطن سے محبت کے متعلق اسلامی تعلیمات

وفاداری ایک بہت بڑی خوبی ہے جس کے بہترین مظہر اور نمونہ خدا تعالیٰ کے انبیاء ہوتے ہیں

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جرمنی میں وفاق کی فوج سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘وطن سے وفاداری اور محبت’’کہنا یا سننا بہت آسان ہےلیکن درحقیقت یہ چند الفاظ اپنے اندر بہت وسعت ، خوب صورتی اور گہرائی سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان الفاظ کے معانی اور تقاضوں کو سمجھنا دراصل بہت مشکل ہے ۔ بہر حال اس مختصر سے وقت میں مَیں وطن سے وفاداری اور محبت کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر پیش کرنے کی کوشش کروں گا ۔

اسلام کی سب سے پہلی او ربنیادی اصل یہ ہے کہ کسی شخص کے قول و فعل میں کسی بھی قسم کا تضاد یا منافقت نہ پائی جائے۔ حقیقی وفاداری ایک مخلصانہ تعلق کی متقاضی ہوتی ہے۔ نیز یہ کہ انسان کا ظاہر اور باطن ایک ہو۔

قومی نقطۂ نظر سے یہ اصول اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کسی بھی ملک کے شہری کے لیے ضروری ہے کہ اس کا اپنے وطن سے رشتہ حقیقی وفاداری پر مبنی ہو۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ پیدائشی طورپر اس ملک کا باسی ہے یا بعد میں ایمیگریشن یا کسی اَور طریق سے اُس نے اُس ملک کی شہریت حاصل کی ہے۔

وفاداری ایک بہت بڑی خوبی ہے جس کے بہترین مظہر اور نمونہ خدا تعالیٰ کے انبیاء ہوتے ہیں ۔ خدا سے اُن کی محبت اور تعلق اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ ہر حال اور تمام معاملات میں ان کے پیش ِنظر الٰہی احکام ہوتے ہیں اور وہ کما حقہٗ احکام ِالٰہی پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح خدا سے ان کی وفاداری کے اسلوب اور بہترین معیار کا پتہ چلتا ہے ۔ لہٰذا صرف انبیاء ہی کی وفاداری کے معیار کو مثال اور نمونہ کے طورپر پیش کرنا چاہیے۔ تا ہم اِس پر مزید بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حقیقی وفاداری کا مطلب کیا ہے؟

اسلامی تعلیمات کے مطابق وفاداری کی صحیح تعریف اپنے عہد و پیمان کو ہر سطح اور ہر طرح کے حالات میں مشکلات کے باوجود غیر مشروط طورپر ادا کرنا ہے ۔ اسلامی تعلیم کی رو سے یہ وفاداری کا حقیقی معیار ہے ۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ انہیں اپنے وعدے اور عہد ضرور پورے کرنے چاہئیںکیونکہ خدا اُن سے اُن کے تمام عہدوں کے متعلق جو انہوں نے کیے پوچھے گا۔ مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ اپنے تمام عہدوں کو پورا کریں جس میں خدا تعالیٰ سے کیے گئے عہد بھی شامل ہیں اور دوسرے تمام وعدے بھی جو انہوں نے اپنے اپنے درجہ اور عہدہ کی رعایت سے کیے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے نزدیک خدا تعالیٰ اور مذہب سب سے زیادہ اہم ہیں لہٰذا خدا سے وفاداری کا عہد اِن کی اوّلین ترجیح ہے ۔ نیز خدا سے کیا ہوا عہد باقی ہر چیز پر فوقیت رکھتا ہے جسے وہ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وطن سے وفاداری اور ملکی قوانین کی پاسداری کا عہدثانوی حیثیت کا حامل ہے ۔ لہٰذا عین ممکن ہے کہ کسی موقع پر وہ وطن کے وعدہ کو خدا کے لیے قربان کرنے پر تیار ہو جائیں۔

اِس خدشہ کے جواب میں سب سے پہلے مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے خود یہ تعلیم دی ہے کہ ‘‘وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔’’ لہٰذا اسلام اپنے ہر پیروکار سےمخلصانہ حب الوطنی کا تقاضا کرتا ہے ۔ خدا اور اسلام سے سچی محبت کرنے کے لیے کسی بھی شخص کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے وطن سے محبت کرے ۔ لہٰذا یہ بالکل واضح ہے کہ کسی شخص کی خدا سے محبت اور وطن سے محبت کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ہو سکتا۔ چونکہ وطن سے محبت کو اسلام کا ایک رکن بنا دیا گیا ہے اس لیے یہ واضح ہے کہ ایک مسلمان کو اپنے وطن سے وفاداری کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیےکیونکہ یہ خدا سے ملنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس لیے یہ ناممکن ہے کہ ایک حقیقی مسلمان کی خدا سے محبت، اس کی وطن سے سچی محبت اور وفاداری کی راہ میں کبھی رکاوٹ کا باعث بنے۔ بدقسمتی سے بعض ممالک میں مذہبی حقوق یا تو محدود کر دیے گئے ہیں یا مکمل طو رپر انہیں دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ اس لیے یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنہیں اپنے ملک میں مظالم کا نشانہ بنایا گیا ۔ کیا و ہ پھر بھی قوم اور وطن سے محبت اور وفاداری کا تعلق قائم رکھ سکتے ہیں؟ انتہائی افسوس کے ساتھ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ پاکستان میں ایسے حالات ہیں جہاں حکومت نے ہماری جماعت کے خلاف قانون سازی کر رکھی ہے اور احمدیت کی مخالفت میں ان قوانین کو عملاً لاگو کیا گیا ہے ۔ پس پاکستان میں تمام احمدی مسلمانوں کو قانوناً غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے۔ وہ خود کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتے ۔ پاکستان میں احمدیوں پر مسلمانوں کی طرح عبادت کرنے اور اسلامی روایات کےمطابق عمل کرنے کی جس سے ان کے مسلمان ہونے کا اظہار ہوتا ہو، پابندی ہے ۔ اس طرح خود حکومت پاکستان نے ہماری جماعت کے افراد کو عبادت کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔

اِس تناظر میں قدرتی طورپر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے حالات میں کیا احمدی مسلمان حکومت وقت کے قوانین کی پاسداری کر سکتے ہیں ؟ اپنے وطن سے وفاداری کا اظہار کر سکتے ہیں؟ واضح ہو کہ جہاں ایسی انتہائی صورت پیدا ہو جائے وہاں ملکی قانون اور وطن سے محبت دو مختلف چیزیں بن جاتی ہیں۔ احمدی مسلمان کا ایمان ہے کہ مذہب کے متعلق فیصلہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے اور یہ کہ مذہبی معاملات میں کوئی جبر رَوا نہیں رکھا جا سکتا۔ پس اس بنیادی حق میں قانون کی مداخلت بلاشبہ انتہائی ظلم اور زیادتی کی بات ہے ۔ کسی حکومت کی طرف سے عرصۂ دراز سے مسلسل لگائی جانے والی پابندیوں کی دنیا کی بڑی اکثریت مذمت کرتی ہے۔

یورپ کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس براعظم کے لوگ بھی مذہبی ستم گری کا شکار رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ہزاروں لوگ اپنا وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک ہجرت کر گئے۔ عام منصف مزاج مؤرخین، حکومتیں اور لوگ اسے ایذارسانی اور انتہائی ظلم قرار دیتے ہیں ۔ اس قسم کےحالات میں اسلامی تعلیم یہ ہے کہ جہاں مذہب کی وجہ سے زیادتیاں حد سے بڑھ جائیں اور ناقابلِ برداشت ہو جائیں تب کسی شخص کو وہ شہر یا ملک چھوڑ دینا چاہیے اور کسی ایسی جگہ ہجرت کر جانی چاہیے جہاں وہ آزادی اور امن کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو سکے۔ تاہم اس ہدایت کےساتھ ساتھ اسلام یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ جیسے بھی کٹھن حالات کیوں نہ ہوں کسی فرد کو ملکی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ہے اور نہ ہی اسے یہ حق ہے کہ وہ اپنے وطن کے خلاف کسی منصوبہ یا سازش کا حصہ بنے۔ یہ اسلام کا ایک بالکل واضح اور غیر مبہم حکم ہے۔

شدید تکالیف کو برداشت کرنے کے باوجود لاکھوں احمدی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ اس امتیازی سلوک او ر زندگی کے ہرپہلو میں مسلسل ظلم کو برداشت کرنے کے باوجود انہوں نے اپنے ملک سے مکمل وفاداری اور سچی اطاعت کا رشتہ قائم رکھا ہوا ہے ۔ وہ جس شعبہ میں جہاں کہیں بھی تعینات ہیں، اپنے ملک کی ترقی اور کامیابی کے لیے متواتر کوشاں ہیں۔ کئی دہائیوں سے مخالفینِ احمدیت یہ الزام لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ احمدی پاکستان کے وفا دار نہیں ہیں لیکن کبھی بھی وہ اس بات کو ثابت نہیں کر سکے یا اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کوئی دلیل نہیں لا سکے۔ اس کی بجائے حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی بھی اپنے وطن پاکستان کے لیے قربانی کی ضرورت پیش آئی ہے احمدی مسلمان ہمیشہ صفِ اوّل میں دکھائی دیے ہیں اور وطن کے لیے ہمیشہ ہر قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار رہے ہیں۔

قانون کا نشانہ بننے اور شکار ہونے کے باوجود احمدی مسلمان ہی ہیں جو کسی بھی دوسرے سے بہتر طور پر ملکی قانون کی پیروی اور پاسداری کرتے ہیں ۔ اِس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ سچے مسلمان ہیں جو حقیقی اسلام پر عمل پیرا ہیں۔

……………باقی آئندہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button