حضرت مصلح موعود ؓ

عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے (قسط نمبر2)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

ایک عورت کا اخلاص

چنانچہ جنگ احد کا واقعہ ہے کہ کفار تین ہزار کا لشکر لے کر آئے اور ادھر سے ایک ہزار جاں نثار آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے۔ لڑائی کے وقت مسلمانوں کے ایک گروہ سے ایسی غلطی ہوئی کہ جس کی وجہ سے اسلامی لشکر کے پاؤں اکھڑ گئے اور رسول کریمؐ تنہا رہ گئے۔ کفار نے آپؐ کو اتنے پتھر مارے کہ آپؐ زخمی ہو کر گر پڑے اور لاشوں کے نیچے دب گئے۔ اس سے شبہ پیدا ہوا کہ آپؐ شہید ہوگئے ہیں۔ جب یہ خبر مدینہ پہنچی جو احد سے چار میل کے فاصلہ پر ہے تو سب مردو عورت گھبرا کر باہر نکل آئے اور اصل حقیقت دریافت کرنے کے لیے راستہ پر کھڑے ہوگئے۔ ادھر لاشوں کے نیچے سے جب آنحضرتﷺ کو باہر نکالا گیا تو معلوم ہوا کہ آپؐ زندہ ہیں۔ یہ سن کر سب مسلمان جمع ہوگئے اور کافر بھاگ گئے۔ مسلمان جب مدینہ کو واپس لوٹے اور لوگوں نے انہیں دیکھا تو ایک عورت آگے بڑھی ۔ جو رسول کریم ﷺ کی کوئی رشتہ دار نہ تھی وہ مدینہ کی رہنے والی تھی اور مکہ کے لوگ مدینہ والوں سے علیحدہ تھے۔ وہ محض دین کی وجہ سے رسول کریمﷺ سے اخلاص رکھتی تھی۔ اس نے ایک صحابی سے جو آگے آگے آرہا تھا پوچھا رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے چونکہ آپؐ زندہ تھے اور پیچھے تشریف لارہے تھے اس لیے اس نے اس سوال کو معمولی سمجھ کر جواب نہ دیا اور کہا تیرا باپ مارا گیا ہے۔ اس پر عورت نے کہا ۔ میں نے اپنے باپ کے متعلق نہیں پوچھا بلکہ یہ دریافت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے مگر اس نے اس کا جواب نہ دیا اور کہاتیرا خاوند بھی مارا گیا ہے۔ یہ سن کر اس نے کہا میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق پوچھتی ہوں ان کا کیا حال ہے۔ اس کا بھی اس نے جواب نہ دیا اور کہا تیرا بھائی بھی مارا گیا ہے۔ اس پر اس نے کہا تم میرے سوال کا جواب نہیں دیتے۔ میں تو پوچھتی ہوں رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے اس نے کہا اچھے ہیں اور تشریف لا رہے ہیں یہ سن کر اس نے کہا الحمد للہ اگر رسول اللہ ﷺ زندہ ہیں تو پھر اور کسی کی مجھے پرواہ نہیں ہے۔(سیرت ابن ہشام اردو حصہ دوئم صفحہ 84مطبوعہ لاہور1975ء)

اس سے اس عورت کی رسول اللہ ﷺ سے محبت اور الفت کا اندازہ لگاؤ۔ جو محض دین کی وجہ سے تھی اور خیال کرو کہ کیسا اخلاص تھا مگر اس زمانہ میں دیکھو اگر کسی کا چھوٹا سا بچہ مرجائے تو اس کا کیاحال ہوتا ہے مگر اس کا باپ مارا جاتا ہے۔ خاوند شہید ہوتا ہے۔ بھائی قتل کیا جاتا ہے ۔ بیٹا کوئی ہے نہیں اور یہی قریبی سے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں جن کو اگر کوئی تکلیف اور دکھ پہنچے تو عورتوں کا کیا مردوں کے دل بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں مگر اس عورت کے اندر ایسا قوی اور مضبوط دل تھا کہ اسے باپ اور بھائی اور خاوند کے مرنے کی خبر سنائی ہے مگر وہ آنحضرتﷺ کی خیریت کی خبر سن کر الحمدللہ کہتی ہے اور کسی صدمہ کی پرواہ نہیں کرتی۔

اس قسم کے اور کئی واقعات ہیں یہ تو میں نے آنحضرتؐ کے وقت کا واقعہ سنایا ہے۔ ایک آپ کی وفات کے بعد کا سناتا ہوں۔

ایک اَور مثال

ہندہ ایک عورت تھی جو آنحضرتﷺ کی ابتدا میں اس قدر دشمن تھی کہ جب آپؐ کے چچا حضرت حمزہ ؓ شہید ہوئے تو اس نے ان کا کلیجہ نکال کر دانتوں سے چبایا تاکہ آنحضرتﷺ کو تکلیف پہنچے لیکن جب آپؐ پر ایمان لائی تو دین کی بڑی خدمت کرتی رہی اور کئی جنگوں میں شامل ہوئی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے وقت جب مسلمانوں کا عیسائیوں کے ایک کثیر التعداد لشکر سے مقابلہ ہوا جس میں ایک مسلمان کے مقابلہ میں چودہ(14)عیسائی تھے تو مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے۔ اس وقت ہندہ نے اپنی ساتھی عورتوں کو کہا یہ مرد ہو کر دشمن کے مقابلہ سے ہٹ رہے ہیں۔ آؤ ہم عورتیں ہو کر انہیں سبق دیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے خیموں کی چوبیں نکال لیں اور صف باندھ کر کھڑی ہوگئیں اور مسلمانوں کے گھوڑوں کو سوٹےمار مار کر واپس لوٹا دیا۔ اس وقت ہندہ نے اپنے خاوند کو کہا۔ کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ کفر کے زمانہ میں تو اسلام کا بڑے زور شور سے مقابلہ کرتا رہا ہے اور اب پیٹھ دکھاتا ہے۔(فتوح الشام عربی جلد1صفحہ137)تو عورتوں نے ایسے ایسے بہادری کے کام کیے ہیں۔

عورتوں کا اہم امور میں مشورہ دینا

پھر رسول کریمﷺ کی عادت تھی اور احادیث سے ثابت ہے کہ آپؐ بڑے بڑے اہم امور میں اپنی بیویوں سے مشورہ لیتے تھے۔ چنانچہ جب آپؐ حج کو گئے ہیں اور کفار نے مکہ جانے سے روک دیا ہے تو آپؐ نے مسلمانوں کو فرمایا کہ احرام کھول دیں لیکن انہوں نے نہ کھولے۔ تو آپؐ بیوی کے پاس گئے اورجا کر سب بات بتائی۔ انہوں نے کہا آپؐ خاموش ہو کر جائیں اور قربانی کر کے اپنا احرام کھول دیں یہ دیکھ کر سب ایسا ہی کریں گے۔ آپؐ نے ایسا ہی کیا اور سب مسلمانوں نے احرام کھول دیئے۔(بخاری کتاب الشروط باب فی الجھاد و المصالحۃ مع اھل الحرب و کتابۃ الشروط)تو ہمیشہ عورتیں بڑی بڑی خدمتیں کرتی اور امور مہمہ میں مشورے دیتی رہی ہیں۔ پس آج کل کی عورتوں کا یہ غلط خیال ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتیں حالانکہ وہ بہت کچھ کر سکتی ہیں اور جس طرح مردوں کے لیے دوسروں کو دین سکھانا ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لیے ضروری ہے۔

عورتیں کیا کرتی رہی ہیں

رسول کریمﷺ کی بیویاں مسائل میں غلطی کرنے والے مردوں کو ڈانٹ دیتی تھیں اور حضرت عائشہؓ قرآن کریم کا درس دیا کرتی تھیں۔ جسے مرد بھی آکر سنا کرتے تھے۔ پھر بعض عورتیں ایسی بھی گزری ہیں جو درمیان میں پردہ لٹکا کر مردوں کو پڑھاتی رہیں۔ مگر آج یہ مصیبت ہے کہ عورتیں خود اَن پڑھ ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہم کیا کرسکتی ہیں۔ کچھ بھی نہیں حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ پہلے جو عورتیں پڑھی ہوئی نہ بھی تھیں ان میں بھی یہ خیال نہ پایا جاتا تھا۔

موجودہ زمانہ کی ایک عورت کی مثال

اب بھی دیکھا گیا ہے کہ جن عورتوں کو دین سے محبت اور پیار ہے ان میں بڑا اخلاص پایا جاتا ہے۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ایک عورت آئی اور آپ کے سامنے آکر بہت روئی کہ میرا بیٹا عیسائی ہوگیا ہے۔ آپ دعا کریں کہ وہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے۔ پھر خواہ مر ہی جائے۔ لڑکا عیسائیوں کا سکھایا پڑھایا تھا۔ باوجود بخار چڑھے ہونے کے بھاگ گیا اس کی ماں بھی اس کے پیچھے بھاگی اور پھر پکڑ کر لے آئی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اسے سمجھایا اور کچھ دن کے بعد اسے سمجھ آگئی اور مسلمان ہوگیا۔ مسلمان ہونے کے دوسرے تیسرے دن اس کی جان نکل گئی اور اس پر ماں نے کچھ غم نہ کیا۔

تواب بھی ایسی عورتیں ہیں گوشاذ ہیں۔ جو ایمان کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتیں۔ مگر عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگرخاوند عیسائی ہوجاوے تو بیوی بھی عیسائی ہوجاتی ہے اور جو مذہب اس کے خاوند کا ہو وہی اس کا ہوتا ہے۔ مگر ایسی بھی عورتیں ہیں جو جان دینا تو پسند کرتی ہیں مگر اسلام چھوڑنا گوارانہیں کرتیں لیکن ایسی کون عورتیں ہوتی ہیں وہی جو مذہب کو سمجھ کر قبول کرتی ہیں اور اس سے پوری پوری واقفیت پیدا کرتی ہیں۔

عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے

پس سب سے ضروری بات یہ ہے کہ عورتیں مذہب سے واقف ہوں۔ مذہب سے ان کا تعلق ہو۔ مذہب سے انہیں محبت ہو۔ مذہب سے انہیں پیار ہو۔ جب ان میں یہ بات پیدا ہوجائے گی تو وہ خود بخود اس پر عمل کریں گی اور دوسری عورتوں کے لیے نمونہ بن کر دکھائیں گی اور ان میں اشاعت اسلام کا ذریعہ بنیں گی۔ ہاں انہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح مرد مردوں کو دین سکھا سکتے ہیں اسی طرح عورتیں عورتوں کو سکھا سکتی ہیں اور دین کی خدمت کر سکتی ہیں۔ اس کے ثبوت میں کہ عورتیں دین کی خدمت کر سکتی ہیں۔ میں نے مثالیں پیش کی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ عورتیں بھی دین کی خدمت کرتی رہی ہیں۔ پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ کچھ عورتوں نے ایسا کیا ہے تو معلوم ہوا کہ اور بھی کرسکتی ہیں پہلے زمانہ کی عورتوں کے متعلق یہ کہنا کہ وہ بڑی پارسا اور پرہیزگار تھیں۔ ہم ان جیسے کام کہاں کر سکتی ہیں۔ کم حوصلگی اور کم ہمتی ہے۔ بہت عورتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ کیا ہم عائشہؓ بن سکتی ہیں کہ کچھ کوشش کریں۔ انہیں خیال کرنا چاہیے کہ عائشہؓ کس طرح عائشہؓ بنیں۔ انہوں نے کوشش کی، ہمت دکھائی تو عائشہؓ بن گئیں۔ اب بھی ان جیسا بننے کے لیے ہمت اور کوشش کی ضرورت ہے۔ بغیر کچھ کیے ہمت ہار دینا ایساہی ہے جیسا کہ ایک بچہ کو نصیحت کی جائے کہ تعلیم حاصل کر لو تو تم بھی فلاں کی طرح ایم۔اے ہوجاؤ گے۔ لیکن وہ کہے کہ میں کہاں فلاں کی طرح ایم۔ اےہوسکتا ہوں۔اس لیے تعلیم ہی حاصل نہیں کرتا۔ اس نے کوشش کی تھی اس لیے ایم ۔اے ہوگیاتھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ بھی کوشش کرے تو ایم۔ اے نہ ہوجائے۔

صحابہ نے کس طرح درجے حاصل کیے

دیکھو صحابی کس طرح رسول کریم ﷺ کے صحابہ بنے اور کس طرح انہوں نے بڑے بڑے درجے حاصل کیے۔ اسی طرح کہ کوشش کی ورنہ یہ وہی لوگ تھے جو رسول کریم ﷺ کے جانی دشمن تھے اور آپؐ کو گالیاں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو آنحضرتﷺ کے بعد دوسرے خلیفہ ہوئے ہیں ابتدا میں آنحضرت ﷺ کے ایسے سخت دشمن تھے کہ آپؐ کو قتل کرنے کے لیے گھر سے نکلے تھے راستہ میں ایک شخص ملا جس نے پوچھا کہاں جا رہے ہو۔ انہوں نے کہا محمد (ﷺ) کو قتل کرنے جاتا ہوں۔ اس نے کہا پہلے اپنی بہن اور بہنوئی کو تو قتل کر لو جو مسلمان ہو گئے ہیں۔ پھر محمد (ﷺ) کو مارنا۔ یہ سن کر وہ غصہ سے بھر گئے اور اپنی بہن کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ آگے جا کر دیکھا تو دروازہ بند تھا اور ایک شخص قرآن کریم سنا رہا تھا اور ان کی بہن اور بہنوئی سن رہے تھے۔ اس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہ ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو۔ ان کی آواز سن کر اندر والوں کو ڈر پیدا ہوا کہ مار دیں گے۔ اس لیے انہوں نے دروازہ نہ کھولا۔ حضرت عمرؓ نے کہا اگر دروازہ نہ کھولو گے تو میں توڑ دوں گا۔ اس پر انہوں نے قرآن کریم سنانے والے مسلمان کو چھپا دیا اور بہنوئی بھی چھپ گیا صرف بہن نے سامنے آ کر دروازہ کھولا ۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا۔ بتاؤ کیا کر رہے تھے او رکون شخص تھا جو کچھ پڑھ رہا تھا۔ انہوں نے ڈر کے مارے ٹالنا چاہا۔ حضرت عمرؓ نے کہا جو پڑھ رہے تھے مجھے سناؤ۔ ان کی بہن نے کہا آپ اس کی بے ادبی کریں گے۔ اس لیے خواہ ہمیں جان سے مار دیں ہم نہیں سنائیں گے۔ انہوں نے کہا نہیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ بے ادبی نہیں کروں گا۔ اس پر انہوں نے قرآن کریم سنایا۔ جسے سن کر حضرت عمرؓ رو پڑے اور دوڑے دوڑے رسول کریم ﷺ کے پاس گئے تلوار ہاتھ میں ہی تھی۔ رسول کریم ﷺ نے انہیں دیکھ کر کہا عمر یہ بات کب تک رہے گی۔ یہ سن کر رو پڑے اور کہا میں نکلا تو آپؐ کے مارنے کے لیے تھا لیکن خود شکار ہو گیا ہوں۔(تاریخ الخمیس مصنفہ شیح حسین بن محمد بن الحسن الدیار بکری جلد1صفحہ 295مطبوعہ بیروت ) تو پہلے یہ حالت تھی جس سے انہوں نے ترقی کی۔ پھر یہی صحابہ تھے جو پہلے شراب پیا کرتے تھے۔ آپس میں لڑا کرتے تھے اور کئی قسم کی کمزوریاں ان میں پائی جاتی تھیں لیکن جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کو قبول کیا اور دین کے لیے ہمت اور کوشش سے کام لیا تو نہ صرف خود ہی اعلیٰ درجے پر پہنچ گئے بلک دوسروں کو بھی اعلیٰ مقام پر پہنچانے کا باعث ہو گئے۔ وہ پیدا ہی صحابی نہیں ہوئے تھے بلکہ اسی طرح کے تھے جس طرح کے اور تھے مگر انہوں نے عمل کیا اور ہمت دکھائی تو صحابی ہو گئے۔ آج بھی اگر ہم ایسا ہی کریں تو صحابی بن سکتے ہیں۔ یہ شیطان کا جال اور پھندا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ کوئی انسان دین کی راہ میں کوشش کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے آگے روک ڈال دیتا ہے کہ تم کیا کر سکتے ہو اور اس کی مثال مکڑی کے جالے کے طرح ہوتی ہے کہ جب مکھی زور کر کے اسے توڑ دیتی ہے تو وہ اور تن دیتی ہے۔ شیطان بھی اسی طرح بندوں کے اردگرد پھرتا رہتا ہے او رجب دیکھتا ہے کہ میرے بند ٹوٹنے لگے ہیں تو اور باندھ دیتا ہے۔ ان بندوں میں سے ایک یہ بھی بند ہے کہ جب کوئی عورت یا مرد نیک کام کرنا چاہتا ہے تو وہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ کیا ہم فلاں بن جائیں گے۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا اس لیے کرنا ہی نہیں چاہیے۔ حالانکہ فلاں بھی کوشش کر کے ایسا بن گیا تھا پھر جب یہ کوشش کرے گا تو کیوں نہ ویسا ہی بن جائے گا۔

صرف نبی کی بیوی ہونا فضیلت کی وجہ نہیں

تو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ حضرت عائشہؓ وغیرہ تو نبی کی بیویاں تھیں۔ اس لیے انہوں نے دین کی خدمت کی۔ ہم کیا کر سکتی ہیں۔ اگر انہوں نے نبی کی بیویاں ہونے کی وجہ سے دین کی خدمت کی تو کیا حضرت نوحؑ کی بیوی نبی کی بیوی نہ تھی یا حضرت لوطؑ کی بیوی نبی کی بیوی نہ تھی لیکن انہوں نے کیا کیا؟ نبی کے ماننے سے ہی انکار کر دیا اور تباہ و برباد ہو گئیں۔ اگر صرف نبی کی بیوی ہونا کوئی چیز ہوتا تو وہ کیوں نیک نہ ہوتیں خدا سے تعلق نہ پیدا کرتیں اور دین کی خدمت کر کے نہ دکھاتیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ انہوں نے خدا کے احکام پر عمل نہ کیا اس لیے تباہ اور ہلاک ہو گئیں او رہمارے رسول کریم ﷺ کی بیویوں نے عمل کیا اس لیے انہیں اعلیٰ درجہ حاصل ہو گیا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے

وَالَّذِينَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنكبوت: 70)

کہ جو ہم تک پہنچنے کے لیے کوشش کرتا ہے۔ اس کے لیے ہم دروازے کھول دیتے ہیں۔ پس وہ مرد و عورت جنہوں نے آنحضرتﷺ کے وقت کوشش کی۔ دین کے لیے گھر سے بے گھر ہوئے۔ مال و جان کو خدا کی راہ میں لگا دیا۔ اپنے خیالات اور عزیزوں، رشتہ داروں، وطن غرضیکہ ہر ایک پیاری سے پیاری چیز کو قربان کردیا۔ ان کو دین میں بھی بڑے بڑے رتبے حاصل ہو گئے اور دنیا میں بھی بڑے بڑے انعام مل گئے۔ آج بھی اگر مرد و عورتیں اسی طرح کریں۔ خود دین سیکھیں او رعمل کر کے دکھائیں۔ دوسروں کو سمجھانے اور عمل کرانے کی کوشش کریں۔ دین کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہ کریں تو ویسی ہی بن سکتی ہیں۔

………………باقی آئندہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button