از افاضاتِ خلفائے احمدیت

امن و آشتی عدل و انصاف کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے

ہلاکت نتیجہ ہے طاقتور کے ہاتھوں ناانصافی، جبرو استبداد اور ظلم و ستم کا جبکہ امن و آشتی عدل و انصاف کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

یہ ایک بڑا نازک مگر عالمی امن کے قیام کے لئے بہت ضروری سوال ہے کہ اقوام متحدہ کسی ملک کے داخلی معاملات میں کس حد تک مداخلت کر سکتی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اگر اقوام متحدہ کی پالیسی کامل انصاف پرمبنی نہ ہو اور سب قوموں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سلوک نہ کیا جائے تو اس صورت میںاقوام متحدہ کو مختلف ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مزید اختیارات دینے سے مسائل پیدا زیادہ ہوںگے اور حل کم ہوں گے۔ پس یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر ٹھنڈے دل کے ساتھ غیر جانبدارانہ طور پر تفصیل سے غور ہونا چاہئے۔

قرآن کریم کے نزدیک دنیا کو آج ایک ایسے ادارہ کی ضرورت ہے جس کا کام صرف عدل اور انصاف کو قائم کرنا ہو کیونکہ عدل و انصاف کے قیام کے بغیر امن کا تصور بھی نہیںکیا جا سکتا۔ بزعم خود امن اور آزادی ضمیر کے نام پر جنگ تو برپا کی جاسکتی ہے مگر اس کا نتیجہ سوائے ہلاکت اور بربادی کے کچھ اور نہیں نکل سکتا۔ افسوس تو یہ ہے کہ آج دنیا بھر کے عظیم سیاست دانوں میں سے محض گنتی کے چند نام ہوں گے جو ہلاکت اور امن کے فرق کو سمجھتے ہیں۔ ہلاکت نتیجہ ہے طاقتور کے ہاتھوں ناانصافی‘ جبرو استبداد اور ظلم و ستم کا جبکہ امن و آشتی عدل و انصاف کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں کئی بار امن کا ذکر آیاہے اورہر بار یہ ذکر عدل و انصاف کے ضمن میں کیا گیا ہے۔ بالعموم امن کو عدل و انصاف کے قیام کے ساتھ مشروط قرار دیاگیا ہے۔ دو مسلمان افراد یا اقوام کے مابین اختلاف اگر جنگ اور محاذ آرائی کی شکل اختیار کرے تو قرآن کریم نے اس کا مندرجہ ذیل حل تجویز فرمایا ہے۔

وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَ اَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۔اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ

(سورۃ الحجرات آیات10۔11)

ترجمہ:۔ اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کروائو۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کر رہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کروائو اور انصاف کرو۔ یقینا ًاللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ مومن تو بھائی بھائی ہی ہوتے ہیں۔ پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو ۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

ان آیات کریمہ میں مومنوں کا ذکر ہے۔ غیر مسلموں کا ذکر نہ کرنے کی واضح وجہ یہ ہے کہ ان سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ قرآن کریم کی اطاعت کا جؤا اٹھائیں گے۔ بایں ہمہ یہ بھی درست ہے کہ ان آیات میں بیان فرمودہ تعلیم ساری دنیا کے لئے ایک بہترین ماڈل کے طور پر کام دے سکتی ہے۔

آج دنیا یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ عالمی تنازعات کے حل کے لئے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل پہلے سے کہیں زیادہ فعال، مؤثر، وسیع اور بامعنی کردار ادا کرے گی اور کرہ ارض امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گا یہ سب امیدیں اپنی جگہ، لیکن ماضی میں اقوام متحدہ کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو یہ خواب شرمندئہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

آج دنیا ایک عجیب منظر پیش کر رہی ہے۔ اپنے مدّمقابل پر برتری حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کے جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں، سازشیں کی جاتی ہیں، جتھے بنائے جاتے ہیں، پریشر گروپس بنانے کے لئے ڈپلومیسی کی انتہا کر دی جاتی ہے، سیاست کی یہ وہ دنیا ہے جہاں دیانت اور شرم و حیا بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں اور جہاں ضمیر کا داخلہ ممنوع ہے۔ ایسا ادارہ (اپنے اختلاف اور تضادات کے باوجود)قوموں کا ایک جمِّ غفیر تو کہلا سکتا ہے مگر اسے اقوام متحدہ کہنا ایک سنگین مذاق سے کم نہیں۔ اگر اسے اتحاد کہتے ہیں تو میں ایسی اقوام میں رہنے کا خطرہ مول لے لوں گا جو بے شک باہمی تفرقہ کا شکا رہیں لیکن کم از کم صدق اور عدل و انصاف کے معاملہ میں تو متحد ہیں۔

اپنے دشمنوں اور مخالفوں کو کچلنے کے لئے طاقت حاصل کرنا اور باتیں امن کی کرنا۔ قول و فعل میں یہ تضاد ہی وہ اہم ترین مسئلہ ہے جسے ہر قوم اور ہر ملک کو حل کرنا ہو گا۔ یہ حیرت اور دکھ کی بات ہے کہ اقوام متحدہ جیسے شاندار ادارہ کے رکن ممالک نہ جانے کب تک ان خطرات سے آنکھیں بند کئے بیٹھے رہیں گے جو اس طریق میں مضمر ہیں جس کے مطابق آج کل اقوام عالم کے معاملات کو چلایا جا رہا ہے۔ آج امن عالم کا مستقبل غیر یقینی ہو چکا ہے اور اس موہوم سی امید سے وابستہ ہے کہ شاید ایک دن دنیا میں عدل و انصاف کا دَور دَورہ ہو جائے۔

(اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل صفحہ 289تا 294)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button