حاصل مطالعہ

فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے آئینِ پاکستان کو تکفیری عمل سے پاک کرنا ضروری ہے

کنورخلدون شاہد پاکستان کے ایک ابھرتے ہوئے جرأت منداور حق گو دانشور ہیں ۔ عموماً انگریزی جرائد میں مضامین اور کالم لکھتے ہیں جو گہرے نفسیاتی تجزیہ پر مبنی فکرانگیز تبصرے کے حامل ہوتے ہیں۔
معروف جریدے “دِی ڈِپلومیٹ” ( The Diplomat) کی اشاعت 15 دسمبر 2016ء میں آپ لکھتے ہیں کہ

“سوموار کو ایک ہزار سے زائد مسلمانوں پر مشتمل ہجوم نے چکوال میں احمدیہ مسلم کمیونٹی کی مسجد پر ہلہ بول دیا۔چکوال دارالحکومت اسلام آبادسے تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ہے۔انہوں نے فائرنگ کی، پتھراؤبھی کیا اور مسجد کے متعدد حصوں کو نذرِآتش کردیا۔وہ مسجدپر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ واقعہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کے یوم ولادت یعنی عید میلاد النبی کے روز ہوا۔اس روزمذہبی جنونی مسمار شدہ مسجد کو پیغمبرِ اسلام کے حضوربطور “نذرانہ” پیش کرنا چاہتے تھے۔

ملاں کی طرف سےاحمدیوں پر زندیق ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے،وہ اسلامی تعلیم سے منحرف گردانے جاتے ہیں۔ اس بنا پر 1974ءمیں دوسری آئینی ترمیم کے ذریعہ انہیں دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا۔1984ءمیں ایک آرڈیننس کے ذریعہ انہیں اپنے عقیدےکی تبلیغ نیز اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے قانوناً روک دیا گیا۔آرڈیننس کی رو سےاگر کوئی احمدی خود کو مسلمان ظاہر کرے تو اسے تین سال کی سزاہو سکتی ہے۔

چکوال میں یہ حملہ وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے دارالحکومت میں قائم ایک فزکس سنٹر کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کرنے کے ایک ہفتہ بعد پیش آیا۔ڈاکٹر عبدالسلام پہلے مسلمان نوبیل انعام یافتہ ہیں۔ان کی خدمات کو پاکستان نے ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے رد کر رکھا تھا۔

اس “پروفیسر عبدالسلام سنٹر فار فزکس ’’کے نام کے اعلان کے اگلے ہی روز پنجاب کے انسداد دہشت گردی محکمےسے تعلق رکھنے والے اہل کاروں نے احمدیہ ہیڈکوارٹر پر چھاپہ مارا اور چاراحمدیوں کو کمیونٹی کے اخبار ورسائل شائع کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا۔اس کارروائی کا مقصد غالباً سنٹر فار فزکس کے اعلان کے بعد ملّاں کو خوش کرنا تھا لیکن تب تک صورتِ حال ان کے ہاتھ سے نکل چکی تھی اور چکوال میں سانحہ ہوگیا۔

پاکستان کو جس طرح متعدد محاذوں پر جہادی تنظیموں کا سامنا ہے،ان سب کی اٹھان اورافزائش احمدیہ مسئلہ سے جڑی ہوئی ہے۔اس کی وجہ نہ صرف جماعت احمدیہ کی قومی وملی خدمات کو یکسر نظراندازکرنا ہے بلکہ ان کے بنیادی شہری حقوق سلب کردینا اوراس مقصد کے لیے آئین کو بطورآلہ کاراستعمال کرتے ہوئے قانون میں ان سے متعلق باقاعدہ دفعات شامل کرکے خود سے انہیں جداکردینابھی ہے۔

اس قانون سازی نے نہ صرف اسلامی شدت پسندوں کولائسنس جاری کردیا کہ وہ جیسے چاہیں احمدیوں کو اپناٹارگٹ بنائیں بلکہ پاکستان میں اُن سُنی العقیدہ مسلمانوں کی بالادستی کوبھی یقینی بنادیا جو دیگر مذاہب کے علاوہ متعدداسلامی فرقوں کو بھی قومی وملی دھارے سے کاٹ کر الگ کردیناچاہتے ہیں۔

چنانچہ دو ہفتہ قبل کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے مسرورجھنگوی پنجاب اسمبلی کے کا رکن منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے۔وہ اور ان کی تنظیم کھلے بندوں شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کاعندیہ دیتے رہے ہیں۔

اس کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے سابق ممبران پارلیمنٹ احمدیوں کے بعدشیعوں کو بھی غیر مسلم قراردلوانے کے بِل اسمبلی میں پیش کر چکے ہیں۔

جب کوئی ریاست دباؤ میں آکرمحض اختلافی نظریات کی بنیادپرایک مسلمان فرقہ کوخارج ازاسلام اورزندیق قراردے ڈالے تو اس کامنطقی نتیجہ ا یک ایسے سلسلہ یعنی “چین ری ایکشن”کو جاری کردینا ہوتا ہے جس کا اختتام ایک انتہائی تنگ نظرمخصوص برانڈکے اسلام کی بالادستی اور اس کے دوام و استحکام پر ہی ہوتاہے۔
شدت پسند جہادی تنظیمیں “تکفیر ’’یعنی کسی فرد یا گروہ کو غیر مسلم قرار دینے کے اصول اور عمل کو بنیادبنا کرکام کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان تنظیموں کی دہشت گردی کا نشانہ زیادہ تر مسلمان ہی بنتے ہیں۔وہ مسلمان جو ان کی وضع کردہ ‘مسلمان’کی تعریف پر پورا نہیں اترتے ،ان کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جب تک پاکستان کا آئین “تکفیر”کے اس عمل کا شراکت دار بنا رہے گا،یہ ریاست “جہادی آئیڈیالوجی ’’(یعنی مذہب کے نام پر کی جانے والے دہشت گردی )کو چیلنج کرنے کادعویٰ کبھی بھی نہیں کرپائے گی۔

دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ کی کامیابی ریاست کی طرف سے احمدیوں کو مسلمان تسلیم کرنے سے ہی وابستہ ہے”۔

بحوالہ : https://thediplomat.com/2016/12/to-win-its-war-on-terror-pakistan-must-accept-ahmadis-as-muslims/

(ترجمہ وتلخیص۔طارق احمدمرزا،آسٹریلیا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button