الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

چند شہدائے احمدیت

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔

حضرت منشی علم دین صاحب شہید

حضرت منشی علم دین صاحب آف کوٹلی (کشمیر) نے 1934ء میں کافی تحقیق اور مطالعہ کے بعد احمدیت قبول کی۔ قبولِ احمدیت سے قبل جلسہ سالانہ پر قادیان بھی جاتے رہے۔ پہلے آپ کٹر اہل حدیث تھے۔ آپ چونکہ عرائض نویس تھے اس لیے احمدی ہونے کے بعد جو لوگ آپ کے پاس درخواستیں لکھوانے کی غرض سے آتے آپ انہیں تبلیغ کرتے رہتے۔ بعض اوقات انہیں کہتے کہ الفضل کا یہ صفحہ پڑھ کر سناؤ تو تمہاری درخواست لکھنے کا معاوضہ نہیں لوں گا۔جس دن آپ کی شہادت ہوئی اس سے پہلے تمام رات خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزاری۔

13؍اگست1979ء کی صبح آپ گھر سے کچہری کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ دشمن نے آپ کا گلا کاٹ کر آپ کو شہید کردیا۔ قاتل گرفتار ہوا لیکن اُس کے خاندان نے اُسے دماغی مریض قرار دے کر بغرضِ علاج ضمانت پر رہا کرالیا۔ لیکن تقدیرِ الٰہی غالب آکر رہی اور قاتل واقعۃً پاگل ہوگیا۔جب اُس کی وجہ سے علاقے کے لوگ خوف میں مبتلا رہنے لگے تو گھر والوں نے پہلے اسے مقفّل رکھا۔ اور پھر اُس کے قول و فعل کی ذمہ داری سے اعلانیہ بریّت کا اعلان کرکے اُسے آزاد چھوڑ دیا۔ بعدازاں یہ قاتل احمدیوں کی دکانوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر پہروں کھڑا رہتا۔اور قریباً آٹھ سال کی ذلّت آمیز زندگی گزارنے کے بعد اُس نے نشّہ آور دوائیں کھاکر خودکشی کرلی۔

مکرم چودھری مقبول احمد صاحب شہید

مکرم چودھری مقبول احمد صاحب شہید آف پنوںعاقل سندھ نے 1967ء میں بیعت کی تھی جس کے بعد شدید مخالفت ہوئی۔ مولوی آپ کو دھمکیاں دیتے، رات کو گھروں پر پتھراؤ کرتے اور دروازے کھٹکھٹاتے تھے۔ آپ کا لکڑی کا آرا تھا۔ 19؍فروری 1982ء کو ایک نقاب پوش لکڑی خریدنے کے بہانے آیا اور خنجر نکال کر آپ پر پے در پے وار کیے اور وہیں شہید کردیا۔

مکرم چودھری مقبول احمد صاحب شہید نے پسماندگان میں بیوہ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑیں۔ شہادت کے بعد ان کی بیوی کو سسرال والوں نے کہا کہ احمدیت چھوڑ دوگی تو ہم تمہیں پناہ دیں گے۔ دشمن بھی دھمکیاں دیتے رہے کہ احمدیت چھوڑ دولیکن انہوں نے ان سب کو حقارت سے ردّ کردیا اور کہا کہ جو کچھ کر سکتے ہو کرگزرو، کسی قیمت پر بھی مَیں احمدیت کو نہیں چھوڑوں گی جس کی خاطر میرے شوہر کو شہید کیا گیا ہے۔

مکرم ماسٹر عبدالحکیم ابڑو صاحب شہی

محترم ماسٹر عبدالحکیم ابڑو شہید دورِ خلافتِ رابعہ کے پہلے اور سندھ میں سندھی قوم کے بھی پہلے شہید ہیں۔ آپ 10؍ اپریل1932ء کو پیدا ہوئے۔ نہایت غربت اور تنگدستی میں پرورش پائی اور ایامِ طفولیت میں ہی شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے۔ لیکن ملازمت کے ساتھ تعلیم جاری رکھتے ہوئے سندھ یونیورسٹی سے ایم۔اے، ایم۔ایڈ پاس کرلیا۔قرآن کریم کے عاشق تھے۔ گھر میں بچوں کو اس وقت تک ناشتہ کی اجازت نہ تھی جب تک تلاوت قرآن کریم نہ کرلیں۔ تبلیغ کے شیدائی تھے اور کوئی موقع تبلیغ کا ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔حتی کہ سرکاری دفاتر میں جماعتی اخبارات اور رسائل جاری کروادیے۔ خلافت احمدیہ سے عشق تھا۔ خود بھی بار بار مرکز تشریف لاتے اور دوسروں کو بھی نہ صرف تلقین کرتے بلکہ بعض کے سفر کے اخراجات بھی خود برداشت کرتے۔ بوقتِ شہادت جماعت احمدیہ وارہ کے صدر تھے۔

16؍ اپریل 1983ء کی صبح قریباً دو بجے دو آدمی آپ کے گھر میں گھس آئے جن کے پاس کلہاڑیاں تھیں۔ آپ اس وقت سو رہے تھے۔ انہوں نے آپ پر کلہاڑیوں کے پے در پے وار کیے۔ حملہ آوروں اور شہیدکی آوازیں سن کر باقی افرادِ خانہ بھی بیدار ہوگئے۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم ریاض احمد صاحب ناصر مربی سلسلہ نے (جو اُن دنوں جامعہ احمدیہ میں پڑھتے تھے اور چھٹیوں پر گھر آئے ہوئے تھے) ایک حملہ آور کو پکڑنے کی کوشش کی مگر اُن کو بھی زخمی کردیا گیا اور وہ بے ہوش ہوکر گِرگئے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ کے سر پر بھی کلہاڑی کے کاری زخم لگائے گئے اور آپ کی ایک بچی بھی زخمی ہوئی۔ آپ نے اس حالت میں بھی لوگوں سے یہی کہا کہ جس مسلک کو میں نے اپنایا ہے خدا کی قسم وہ جھوٹا نہیں ہے، نہ ہی میں نے کوئی بزدلی دکھائی ہے اور نہ ہی میرے قدم اس رستے میں ڈگمگائے ہیں۔ ہاں میرے مقدّر میں اے مخالفو! شہادت ہے اور تمہارے مقدّر میں نحوست اور ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پھر آپ نے بآواز بلند سندھی میں یہ نعرہ لگایا: احمدیت سچی آہے ، احمدیت سچی آہے، احمدیت سچی آہے۔ آپ نے حالتِ نزع میں اپنے واقف زندگی بیٹے ریاض احمد ناصر کو نصیحت فرمائی کہ ‘‘میں تو اب بچ نہیں سکوں گا۔ مگر یاد رکھو کہ احمدیت بالکل سچی اور برحق ہے اور تم اپنا وقف ہرگز نہ توڑنا’’۔ حملے کے قریباً ایک گھنٹہ بعد آپ مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔

آپ کی نماز جنازہ کھنڈو میں ہوئی۔ آپ کے گھر کے پاک نمونہ اور آپ کی بلاامتیاز خدمت خلق کے غیراحمدی بھی معترف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بارہ ہزار لوگ آپ کے جنازے میں شریک تھے۔ بہت سے غیراحمدی افراد بھی دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ پہلے آپ کو کھنڈو میں امانتاً دفن کیا گیا اور پھر دسمبر1983ء میں میت ربوہ لائی گئی جہاں بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق آپ کے جسم پر کلہاڑیوں کے 27 زخم تھے جن میں سے بعض دو سے تین انچ تک گہرے تھے۔ اگلی صبح ہائی سکول کے لڑکوں نے شفیق استاد کے وحشی قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے جلوس نکالا۔ قاتل اُسی روز گرفتار کرلیے گئے۔

پسماندگان میں شہید مرحوم نے بیوہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور چار بیٹے یادگار چھوڑے۔

ڈاکٹر مظفر احمد صاحب شہید امریکہ

محترم ڈاکٹر مظفر احمد صاحب کو ڈیٹرائٹ (امریکہ) میں 8؍ اگست 1983ء کو 37 سال کی عمر میں شہید کردیا گیا۔ امریکہ کی سرزمین پر اپنے خون سے شجر احمدیت کی آبیاری کرنے والے آپ پہلے شہید ہیں۔
محترم ڈاکٹر مظفر احمد صاحب1946ء میں ماہل پور ضلع ہوشیارپور میں محترم رشید احمد صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے F.Scکرنے کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے 1971ء میں M.B.B.Sکیا اور پھر فوج میں ملازمت کرلی۔ 1975ء میں امریکہ چلے گئے اور مختلف ہسپتالوں میں کام کرنے کے بعد بالآخر ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں کام شروع کردیا۔ آپ ایک اچھے ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب داعی الی اللہ بھی تھے۔ شہادت کے وقت بھی آپ امریکہ کے نیشنل جنرل سیکرٹری اور علاقائی قائد کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ عیسائیت کے موضوع پر آپ خاص دسترس رکھتے تھے چنانچہ آپ اپنے سٹاف کے عیسائی ممبران کے ساتھ عیسائیت کے موضوع پر بحث کرتے رہتے۔ 8 اور 9؍اگست 1983ء کی درمیانی رات ایک سیاہ فام آپ کو ملنے گھر آیا۔ آپ اُسے تبلیغ کرتے رہے۔ بعد ازاں جب آپ اس کو الوداع کہنے کے بعد دروازے کی طرف مڑے تو اس نے پیچھے سے فائر کر دیا۔ ایک گولی گردن کے پیچھے لگی، دو اَور گولیاں آپ کے چہرے اور بازوؤں میں سے گزر گئیں اور آپ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ بعد ازاں قاتل نے احمدیہ مرکز کو بم سے اڑانے کی کوشش کی لیکن خود بھی ساتھ ہی جل مرا اور اس طرح کیفرکردار کوپہنچا۔

محترم ڈاکٹر صاحب کی میّت پاکستان لائی گئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ربوہ میں نماز جنازہ پڑھائی۔ اگلے خطبہ جمعہ میں حضورؒ نے فرمایا: ‘‘اے ڈیٹرائٹ اور امریکہ کے دوسرے شہروں میں بسنے والے احمدیو! اور وہ بھی جو امریکہ سے باہر بس رہے ہو یعنی اے مشرق اور مغرب میں آباد اسلام کے جاںنثارو! اِس عارضی غم سے مضمحل نہیں ہونا کہ یہ اَن گنت خوشیوں کا پیش خیمہ بننے والا ہے۔ اس شہید کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہے اور اُس راستہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹو جس پر چلتے ہوئے وہ مردِ صادق بہت آگے بڑھ گیا۔ تمہارے قدم نہ ڈگمگائیں، تمہارے ارادے متزلزل نہ ہوں۔ … اے مظفر تجھ پر سلام کہ تیرے عقب میں لاکھوں مظفر آگے بڑھ کر تیری جگہ لینے کے لیے بےقرار ہیں۔ اور اے مظفر کے شعلۂ حیات کو بجھانے والو! تم نے تو اُسے ابدی زندگی کا جام پلا دیا۔ زندگی اس کے حصّہ میں آئی اور موت تمہارے مقدّر میں لکھی گئی’’۔

شہید مرحوم نے پسماندگان میں بیوہ مکرمہ آسیہ بیگم صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے چھوڑے۔ چھوٹے بیٹے آپ کی شہادت کے دو ماہ بعد پیدا ہوئے۔

………٭………٭………٭………

سنوکر

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ جنوری 2011ء میں مکرم کامران احمد صاحب کا سنوکر کے کھیل کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے۔

سنوکر برطانوی فوج کے حکام کی طرف سے انڈیا میں ایجاد کی گئی اور دولت مشترکہ کے اکثر ممالک میں کھیلی جاتی ہے۔ اس کے قواعد 1882ء میں مدراس میں تیار کیے گئے۔ برطانوی چیمپئن جان رابرٹس نے 1885ء میں انڈیا کا سفر کیا تو اس کھیل کو برطانیہ میں متعارف کروانے کا فیصلہ کیا۔ پہلی انگلش Ammature چیمپئن شپ 1916ء میں اور پہلی عالمی چیمپئن شپ 1927ء میں ہوئی جو ڈیوس نے جیت لی۔ ڈیوس 1946ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک ہر عالمی چیمپئن شپ جیتتا رہا۔

سنوکر سبز رنگ کے Baizeکپڑے والے ٹیبل پر کھیلی جاتی ہے۔ یہ ٹیبل چھ فٹ چوڑی اور بارہ فٹ لمبی ہوتی ہے۔ اس کے چاروں کونوں میں اور دونوں طویل اطراف کے وسط میں سوراخ ہوتے ہیں جنہیں پاکٹ کہتے ہیں۔ اس کے لیے ایک سفید کیو گیند استعمال ہوتی ہے جس کو ڈیڑھ میٹر کی ایک چھڑی سے ضرب لگائی جاتی ہے اور اس کی مدد سے 15 سرخ اور 6دیگر مختلف رنگوں کی گیندیں پاکٹ میں ڈالی جاتی ہیں۔ سرخ گیند کا ایک سکور ہوتا ہے جبکہ زرد رنگ کی گیند کے 2، سبز گیند کے 3، بھوری گیند کے 4، نیلی گیند کے 5، گلابی گیند کے 6 اور سیاہ رنگ کی گیند کے 7 سکور ہوتے ہیں۔ زیادہ سکور کرنے والا کھلاڑی ایک فریم (Frame) جیتتا ہے۔ ہر میچ میں فریموں کی تعداد مخصوص ہوتی ہے۔

پاکستان میں سنوکر کے سب سے مشہور کھلاڑی محمدیوسف ہیں جو 1952ء میں پیدا ہوئے۔ 1994ء میں انہوں نے IBSF ورلڈ سنوکر چیمپئن شپ جیتی اور 2006ء میں IBSF ورلڈ ماسٹرز چیمپئن شپ کا اعزاز جیتا۔

………٭………٭………٭………

ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ اکتوبر 2011ء میں مکرم عبدالکریم قدسی صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:

دل کی بستی کو محبت سے نہ خالی رکھنا

اپنے آباء کی وراثت کو سنبھالی رکھنا

عجز نے رفعتیں پائی ہیں ہمیشہ لوگو

سچے ہو کر بھی طبیعت نہ جلالی رکھنا

روشنی بن کر زمانے میں بکھرتے رہنا

شہر ظلمات میں کردار مثالی رکھنا

شعر کہنے کا سلیقہ تو ہے تجھ میں قدسیؔ

دھیان میں اُن کا مگر منصبِ عالی رکھنا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button