متفرق مضامین

قومی اموال کی حفاظت

(عطاء الحئی ناصر۔ یوکے)

آج اگر ہم دنیا کو طائرانہ نظر سے دیکھیں ، تو معلوم ہو گا کہ دنیا کے اکثر ممالک بے شمار قدرتی وسائل ہونے کے باوجود دوسرے ممالک کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔

مثلاً پاکستان ہی کو دیکھ لیجیے۔ معدنیات کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجودیہاں کی اکثر عوام کو بجلی جیسی بنیادی سہولت بھی میسّر نہیں۔جو سر زمین، کوئلہ کے وسیع ذخائر سے مالا مال ہو، اور اِس کے علاوہ دیگر قیمتی معدنیات بھی رکھتی ہو، دُنیا کی 8؍ایٹمی طاقتوں میں سے ایک، جبکہ واحدمُسلم ایٹمی طاقت ہو،اُس ملک میں توانائی کا بحران،انسان کو سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے!عرب کے اکثر مسلم ممالک کے پاس تیل کے وسائل ہونے کے باوجود ان کی حالت قابلِ رحم ہے۔یورپ، جو کہ اپنی طاقت پر نازاں ہے ، اُس کے22.4فیصد عوام غربت کی زندگی گزار رہے ہیں یا سطحِ غربت کے قریب قریب ہیں۔
ان سب مسائل کا سبب یہی ہے کہ یہ تمام ممالک اپنے قومی اموال کے درست استعمال اور اُن کی حفاظت سے قاصر ہیں۔

قومی اموال سے مراد کیا ہے؟

قومی اموال سے مراد وہ تمام اشیاء اور مختلف اقسام کے اموال ہیں جن کا مجموعی طور پر کسی خاص قوم سے ایک تعلق ہو۔یا وہ اموال اُس قوم کی خصوصیت ہوں۔یعنی وہ اموال کہ جن پر اُس قوم کی بقا منحصر ہواور اُس ملک کی معیشت بھی اُن اموال پر ہی منحصر ہو۔مثلاً عمارات یا مقامات کے علاوہ تمام قومی اثاثہ جات یاقومی ادارےوغیرہ۔ خواہ وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری۔

یہ بات انسانی فطرت کا حصہ ہے کہ وہ اپنا مال بچاتا ہے اور اس میں نفع چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا

اور مال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو۔(الفجر:21)

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہےکہ انسان اپنا مال بچانے کی خاطر قومی اموال کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتا۔

اسلام کی بنیادی تعلیم ہے کہ اپنے مُلک یا وطن سے محبت اور وفاداری کا تعلق رکھنا چاہیے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ

حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانْ

یعنی وطن سے محبت ایمان کا حصّہ ہے۔

وطن سے محبت اور وَفاداری کا یہ تقاضا ہے کہ اپنے وطن کی ہر چیز کے ساتھ محبت اور وفاداری کا رِشتہ ہو اور اُس کی حفاظت کےلیےکوشش کی جائے۔اور قومی اموال کی حفاظت کےلیے ہر کوشش بروئے کار لائی جائے۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔

اور اپنے ہی اموال اپنے درمیان جھوٹ فریب کے ذریعہ نہ کھایا کرو۔اور نہ تم انہیں حُکّام کے سامنے (اس غرض سے)پیش کرو کہ تم گناہ کے ذریعہ لوگوں کے(یعنی قومی) اموال میں سے کچھ کھا سکو حالانکہ تم (اچھی طرح)جانتے ہو۔ (البقرہ:189)

حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس آیت کا ترجمہ یوں بیان فرمایا :

‘‘یعنی آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طور پر مت کھایا کرو اور نہ اپنے مال کو رشوت کے طور پر حکام تک پہنچایا کرو تا اس طرح پر حکام کی اعانت سے دوسرے کے مالوں کو دبا لو۔’’

(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب،صفحہ105)

پھر فرمایا:

‘‘ناجائز طور پر ایک دوسرے کے مال مت کھاؤ۔’’

(شہادۃ القرآن، رُوحانی خزائن، جلد 6،صفحہ 331)

مزید فرمایا:

‘‘تم ایک دوسرے کے مال کو ناحق کے طور پر مت کھاؤ۔’’

(شہادۃ القرآن، رُوحانی خزائن، جلد 6،صفحہ 336)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

‘‘رشوت نہ دو اور نہ یُونہی مقدمہ بازی میں ناحق خرچ کرو۔بَاطِلْ کہتے ہیں اس کو کہ اجازتِ شرعیہ کے خلاف کچھ حاصل کیا جائے۔’’

(ضمیمہ اخبار بدر قادیان،8؍اپریل1909ء)

حضرت مصلحِ موعودؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ

‘‘قرآن کریم اکثر قومی زندگی پر زور دینے کے لیے عام انسانوں یا اپنے اہلِ ملک یا اہل قوم کی اشیاء کو اپنی اشیاء کہہ کر پکارتا ہے تا اس طرف اشارہ کرے کہ جو اپنی قوم کے افراد کو نقصان پہنچاتا ہے وہ اپنے آپ کونقصان پہنچاتا ہے۔یہاں بھی اپنے مال سے مراد دوسرے بنی نوع انسان کے اموال ہیں لیکن مذکورہ بالا اصول کی طرف توجّہ دلانے کے لیے اپنے مال کہہ کر انھیں پکارا ہے۔’’

(تفسیرِ صغیر،زیر آیت سورت البقرۃ:189)

حضرت مصلحِ موعودؓ اِس آیت کی تفسیر میں مزید فرماتے ہیں:

‘‘تُدْلُوْا بِھَااصل میں لَا تُدْلُوْا بِھَا کے معنوں میں ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ (۱)ایک دوسرے کے مال حکام کے پاس نہ لے جاؤ۔یعنی جھوٹے مقدمات بنا کر اُن کے مال نہ لو (۲)حاکموں کو بطور رشوت مال نہ دو۔

اپنے مال کو تو انسان کھایا ہی کرتا ہے پس لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مال باطل کے ساتھ مت کھاؤ۔انسان دوسرے کا مال کئی طرح کھاتا ہے۔اوّلؔ جھوٹ بول کر۔دومؔ ناجائز ذرائع سے چھین کر۔سومؔ سود کے ذریعہ سے۔چہارمؔ رشوت لےکر یہ سب امور باطل میں داخل ہیں۔

وَ تُدْلُوْا بِھَا اِلیَ الْحُکَّامِ میں بتایا کہ جس طرح آپس میں ایک دوسرے کا مال کھانا ناجائز ہے۔اِسی طرح تم حکّام کو بھی روپیہ کا لالچ نہ دو تاکہ اس ذریعہ سے تم دوسرے کا مال کھا سکو۔اس آیت میں افسران بالا کو رشوت دینے کی ممانعت کی گئی ہے اور اُسے حرام اور ناجائز قرار دیا گیا ہے۔

دوسرےؔ معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اپنے مالوں کو حکّام کے پاس نہ لے جاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصّہ تم گناہ کے ذریعہ کھا جاؤ۔یعنی اُن کے متعلق جھوٹے مقدمات دائر نہ کرو۔اور یہ نہ سمجھو کہ اگر حاکم انصاف کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے تمہیں کسی کا حق دلا دے گا تو وہ تمہارے لیے جائز ہوجائےگا۔ کیونکہ دنیوی عدالتوں سے بالا ایک آسمانی عدالت بھی ہے اور جب اُس نے اپنے قانون میں ایک چیز کو ناجائز قرار دے دیا ہے تو دنیا کی کوئی عدالت خواہ اُسے جائز بھی قرار دے دے وہ بہر حال ناجائز اور حرام ہی رہے گا۔’’
(تفسیرِ کبیر جلد دوم ،صفحہ 415)

پس سورۃ البقرہ کی اس آیت میں جس اصول کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے اُس کے تحت یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کے اموال (قومی اموال)کو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد اور فوائد کےلیے ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔مثلاً اگر کوئی شخص اپنی کسی غرض کی تکمیل کے لیے رشوت کا سہارا لیتا ہے، تو گو بظاہر وہ اپنا مال استعمال کر رہا ہے، مگر حقیقت میں وہ قومی اموال میں سے ناجائز طور پر خرچ کر رہا ہے۔اور قومی اموال کا ضیاع کر رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کے تمام تر وسائل اور تمام تر اشیاء ، جو کہ ہمیں نظر آتی ہیں، وہ سب کےلیے یکساں طور پر پیدا کی گئی ہیں۔جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا (البقرہ:30)

یعنی جس قدر چیزیں دنیا میں پائی جاتی ہیں ، وہ سب کی سب خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے پیدا کی ہیں۔اور وہ کسی ایک شخص کےلیے نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے یکساں طور پر پیدا کی گئی ہیں۔اور وہ سب کے سب بحیثیت انسان ، اُن اشیاء کے مالک ہیں۔اور اُن تمام اشیاء کی حفاظت کا ذمہ بھی انسانوں پر ہی عائد ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی، جیسے کہ ایک چرواہا اپنی بھیڑوں یا بکریوں کی حفاظت پر مامور ہوتا ہے۔گو کہ وہ اُن کا حقیقی مالک تو نہیں ہوتا مگر اُن کا محافظ ضرور ہوتا ہے۔

جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ

کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہ

یعنی تم میں سے ہر کوئی ایک چرواہے کی مانند ہے۔اور تم سب اپنی ذمہ داری کے بارہ میں جوابدہ ہو۔
(صحیح البخاری،کتاب النّکاح، باب المرأ ہ راعیۃ فی بیت زوجھا)

حضرت مصلحِ موعودؓ سورۃ البقرہ کی آیت 30کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

‘‘یعنی جس قدر چیزیں دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے پیدا کی ہیں۔اگر تمہیں دنیا میں پہاڑ نظر آتے ہیں ،اگر تمہیں دنیا میں دریا نظر آتے ہیں ،اگر تمہیں دنیا میں کانیں نظر آتی ہیں ،اگر تمہیں دنیا میں ترقی کی اور ہزاروں اشیاء نظر آتی ہیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کا نظریہ اِن اشیاء کے متعلق یہ ہے کہ یہ سب کی سب بنی نوع انسان میں مشترک ہیں اور سب بحیثیت مجموعی ان کے مالک ہیں۔کانوں سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا جاتا ہے ،دریاؤں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جاتا ہے ، پہاڑوں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایاجاتا ہے ،مثلاً بجلیاں پیدا کی جاتی ہیں ،سونا چاندی اور دوسری قیمتی دھاتیں حاصل کی جاتی ہیں یا دوائیں وغیرہ وہاں پائی جاتی ہیں جن سے انسان فائدہ اُٹھاتا ہے علاج معالجہ کے رنگ میں بھی اور تجارت کے رنگ میں بھی اسی قسم کی اور ہزاروں چیزیں ہیں جو صنعت و حرفت میں کام آتی ہیں ان سب کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خَلَقَ لَکُمْ اے بنی نوع انسان!یہ سب کی سب چیزیں تمہارے لیے پیدا کی گئی ہیں۔یہ زیدکی خاطر نہیں،یہ بکر کی خاطر نہیں،یہ نمرودکی خاطر نہیں، یہ ہٹلرکی خاطر نہیں،یہ سٹالن کی خاطر نہیں،یہ چرچل کی خاطر نہیں،یہ روزویلٹ کی خاطر نہیں بلکہ ہر فردِ بشر جو دنیا میں پیدا ہوا ہے اس کے لیے خدا نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں پس کوئی ہو،حاکم ہومحکوم ہو،بڑا ہوچھوٹا ہو، سیّد ہو چمار ہو،کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں صرف میرے لیے پیدا کی گئی ہیں۔قرآن کریم فرماتا ہے اے بنی نوع انسان یہ چیزیں تم سب کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور ان میں سے ہر چیز کے تم سب کے سب بحیثیت انسان مالک ہو۔’’

(اسلام کا اقتصادی نظام،انوار العلوم جلد 18، صفحہ15تا16)

آپؓ مزید فرماتے ہیں:

‘‘اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ دُنیا میں جو کچھ ہے سب بنی نوع انسان کی مشترک وراثت ہے ۔پس اس کا استعمال اس رنگ میں نہ ہونا چاہیےکہ وہ ایک فرد یا ایک قوم کی مخصوص ملکیّت ہو جائے اس نکتہ کو نظر انداز کر کے اس وقت یورپ تباہی کی طرف جا رہا ہے اگر قرآن کریم کی اس تعلیم پر عمل کیا جاتا تو یہ حسد اور بغض جو مختلف ممالک اور مختلف اقوام اور مختلف گروہوں اور مختلف افراد میں پیدا ہو رہا ہے کبھی نہ ہوتا۔اسلام نے صدقہ اور زکوٰۃ کا حکم بھی اسی اصل پر مبنی رکھا ہے کہ اصل میں زمین کی سب اشیاء سب انسانوں کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور انسان مجموعی طور پر ان کا مالک ہے پس گو انفرادی قبضہ کو تسلیم کیا جائے مگر یہ ایسے رنگ میں نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرے حقدار اس سے فائدہ اٹھانے سے کلی طور پر محروم ہو جائیں۔’’

(تفسیرِ کبیر، جلد 1، صفحہ 268)

مادی دولت دراصل انسان کی آزمائش کا ایک ذریعہ ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر ملتا ہے :

اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔(سورۃ التغابن :16)

حضرت مصلحِ موعودؓ فرماتے ہیں کہ

‘‘کوئی چیز اچھے ماحول کے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔اچھی سے اچھی گٹھلی لو اور اُسے ایسی زمین میں دبا دو جو اُس کے مناسبِ حال نہ ہو یا گٹھلی کو اُگانے کی قابلیت اپنے اندر نہ رکھتی ہو تو وہ کبھی اچھا درخت پیدا نہیں کر سکتی۔لیکن اگر ماحول اچھا ہو تو معمولی اور ادنیٰ بیج بھی نشوونما حاصل کر لیتا ہے۔پس یہ وہ ماحول ہے جو اسلام نے پیش کیا اور ایسے ہی ماحول میں پبلک کے مفیدِ مطلب اقتصادی نظام چل سکتا ہے۔’’

(اسلام کا اقتصادی نظام،انوار العلوم ، جلد18، صفحہ 13)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

‘‘اسلام کی مثال اُس شخص کی طرح ہے جو باقاعد ہ ایک باغ لگاتا ،اُس کی آبپاشی کرتا اور اُس کے پودوں کی نگرانی رکھتا ہے۔’’(اسلام کا اقتصادی نظام،انوار العلوم ، جلد 18، صفحہ 14)

یعنی قومی اموال کی حفاظت کے ضمن میں اسلام ایک ایسی تعلیم پیش کرتا ہے ، جو کہ ہر پہلو سے عمدہ ہے۔ اور یہی وہ تعلیم ہے جو کہ کسی قوم کی ترقی کے لیے ایک بہترین راستہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے اموال کے حوالے سے جو تعلیم پیش کی ہے وہی تعلیم گذشتہ انبیاء ؑنے بھی پیش کی۔یعنی گذشتہ انبیاء ؑبھی بنی نوع انسان کو اموال کمانے اور اُن کو خرچ کرنے میں آزاد نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ اِس کے برعکس، وہ یہ سمجھتے تھے کہ اموال سب خدا تعالیٰ کے ہیں اوروہی اُن کا مالک ہے۔نیز خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف اُن کو خرچ کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔

تاریخِ انسانیت اِس بات پر شاہد ہے کہ جن اقوام نے اِس نظریہ کی حقیقت اور اہمیت کو سمجھا اور اُس پر عمل کیا وہ کامیاب ہوئیں۔مگر جنہوں نے اِس نظریہ کو اہمیت نہ دی، وہ تباہ و برباد ہوگئیں اور اُن کی اقتصادیات کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اپنے اموال کمانے یا اُن کو خرچ کرنے کے وہ راستے اختیار مت کرو، جن سے فساد پیدا ہو،تو اُن کی قوم نے اُن کا استہزاء کیا کہ روپیہ ہمارا، مال ہمارا،جائیدادیں ہماری،ہم جس کو چاہیں دیں اور جس کو چاہیں نہ دیں۔ اُن کی قوم نے اپنے اموال کے بارے میں جب خدا تعالیٰ کے نبی کی تعلیم کو نہ مانا، تو عذابِ الٰہی کے شکار ہوئے۔

انفرادی طور پرقومی اموال کی حفاظت مجموعی قومی اموال کی حفاظت کا ضامن ہے

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک انفرادی طور پر قومی اموال کی حفاظت نہیں کی جاتی قومی طور پر اِس کا تصوّر ہر گزممکن نہیںکیونکہ ایک قوم ، دَرحقیقت ا فراد کا مجموعہ ہی ہوتی ہے۔

اقبال کا ایک شعر ہے:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اَقوام کی تقدیر

ہر فَرد ہے مِلّت کے مقدّر کا ستارا

اگر ہم انفرادی طور پر بات کریں تو قومی اموال کی حفاظت کے لیے ایک بنیادی فرض یہ ہے کہ ہر شہری اپنا واجب الادا ٹیکس ایمانداری کے ساتھ ادا کرے۔کیونکہ اِسی ٹیکس کا ایک حصّہ قومی اثاثہ جات یا قومی اموال پر خرچ ہوتا ہے ۔ اور اُن اثاثہ جات کی پیداوار، مرمّت اور حفاظت پر خرچ ہوتا ہے۔

اگر ہم مقامی علاقوں کی بات کریں تو اُس میں موجود سڑکیں، صفائی ستھرائی کا نظام، نظامِ صحت ، نظامِ تعلیم اور دیگر انتظامات جو کہ مقامی لوگوں کی بہبود کےلیے کیے جاتے ہیں، قومی اموال میں شمار ہوتے ہیں۔

حضرت مصلحِ موعودؓ کے مطابق دنیا کی اقتصادی و مالی ترقی کےلیے تین نظام ہیں۔

1۔ غیر آئینی نظام

2۔ قومی نظام

3۔انفرادی نظام

یہاں انفرادی نظام سے مراد یہی ہے کہ ہر شہری اپنے ملک یا قوم کے اموال اور اقتصادیات کی ترقی کے لیے اپنا فرض ادا کرے۔

فضول خرچی سے اجتناب

قومی اموال کی حفاظت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہر اُس کام سے اجتناب کیا جائے جس میں فضول خرچی ہوتی ہو اور انفرادی مال کا ضیاع ہو۔ کیونکہ انفرادی اموال ہی مل کرمجموعی طور پر، قومی اموال بن جاتے ہیں۔ یعنی اگرکسی ملک کے شہری،اپنے اپنے انفرادی اموال کا فضول استعمال کریں گے ، تو مجموعی طور پر یہ قومی اموال کا ضیاع ہوگا ۔

حضرت مصلحِ موعودؓ نے اِس پہلو کو بڑی تفصیل کے ساتھ اور مثالوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔

حضرت مصلحِ موعودؓ ، بیہودہ اور لغو کاموں پر روپیہ برباد کرنے کی مثالیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
‘‘بعض عیاش اُمراء کنچنیوں کے ناچ پر ہزاروں روپیہ برباد کر دیتے ہیں۔بعض کو روپیہ صرف کرنے کا اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تو وہ مشاعرہ کی مجلس منعقد کر کے روپیہ ضائع کر دیتے ہیں۔اُن کے پڑوس میں ایک بیوہ عورت ساری رات اپنے بھوکے بچوں کو سینہ سے چمٹائے پڑی رہتی ہے وہ بھوک سے بلبلاتے اور چیختے چلاتے ہیں مگر اُسے اُن یتیم بچوں کو کچھ کھلانے کی توفیق نہیں ملتی اور ہزار ہزار روپیہ مشاعرہ پر برباد کر دیتا ہے۔محض اِس لیے کہ لوگوں میں شہرت ہو کہ فلاں رئیس نے یہ مشاعرہ کروایا ہے۔’’
(اسلام کا اقتصادی نظام،انوار العلوم جلد 18، صفحہ 21)

اس کے بارے میں تفصیلاً بیان کرتے ہوئے ، آخر پر یہ لکھتے ہیں کہ

‘‘سینما اور تھیٹروں وغیرہ پر بھی ملک کی دولت کا ایک بہت بڑا حصہ ضائع چلا جاتا ہے۔مَیں نے ایک دفعہ حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ کروڑوں کروڑ روپیہ سینما پر ہر سال خرچ ہوتا ہے۔ لاہور ہی میں کوئی پچیس کے قریب سینما سُنا جاتا ہےاور اوسط آمد ہر سینما کی ہفتہ وار دو تین ہزار بتائی جاتی ہےاگر اڑھائی ہزار اوسط آمد شمار کی جائے تو ماہوار آمد دس ہزار ہوئی۔ اور سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار ۔بیس سینما بھی اگر شمار کیے جائیں تو صرف لاہور کا سالانہ سینما کاخرچ چوبیس لاکھ کا ہوا۔ اگر ہندوستان کے تمام شہروں اور قصبات کو سینما کے لحاظ سے پچاس لاہور کے برابر سمجھا جائے گو یقیناً اِس سے زیادہ نسبت ہوگی تو بھی ایک ہزار سینما سارے ہندوستان میں بن جاتا ہےاور بارہ کروڑ کے قریب سالانہ خرچ سینما کا ہو جاتا ہےاور اگر سینما کے لوازمات کو بھی شامل کیا جاوے کہ ایسے لوگ بالعموم شراب خوری اور ایک دوسرے کی عیاشانہ دعوتوں میں بھی روپیہ خرچ کرتے ہیں تو پچیس تیس کروڑ روپیہ سے زائد خرچ سینما اور اِس کے لوازمات پر اُٹھ جاتا ہے اور یہ رقم حکومتِ ہند کی آمد کا1/4حصّہ ہے۔ گویاصرف سینما پر اِس قدر خرچ اُٹھتا ہے کہ جو سارے مُلک پر سال میں ہونے والے خرچ کا ایک چوتھائی ہے۔حالانکہ اِس کا کوئی بھی فائدہ نہ مُلک کو ہوتا ہے نہ قوم کوہوتا ہے اور نہ خود سینما دیکھنے والوں کو ہوتا ہے۔

قرآن کریم اس قسم کے تما م کاموں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور فرماتا ہے مومن وہی ہیں جو اس قسم کے لغو کاموں سے احتراز کریں اور اپنی کمائی کا ایک پیسہ بھی اِن پر ضائع نہ کریں۔ یورپ کی آزاد حکومتیں جو اپنی اقتصادی ترقی کے لیے ہمیشہ کوشش کرتی رہتی ہیں اُن کی تو یہ حالت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سینما اور تھیٹر بناتی ہیں۔ …لیکن اسلام قطعی طور پر ان تمام چیزوں کو جو بنی نوع انسان کے لیے مفید نہیں بند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔اگر اسلام کے اِن احکام پر پوری طرح عمل کیا جائے تو امراء کی ظاہری حالت بھی ایک حد تک مساوات کی طرف لوٹ آئے کیونکہ ناجائز کمائی کا ایک بڑا محرک ناجائز اور بے فائدہ اخراجات ہی ہوتے ہیں۔’’

(اسلام کا اقتصادی نظام،انوار العلوم ، جلد18،صفحہ 43-42)

شراب، سگریٹ نوشی اور جؤا

دورِ حاضر کی نمایاں بُرائیوں میں شراب، سگریٹ نوشی اور جُؤا ، شامل ہیں اور اِن کے باعث، قومی اموال کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

مغربی ممالک میں ان برائیوں کا کثرت سے موجود ہونا نہ صرف ان کے قومی اموال کے ضیاع کا باعث بن رہا ہےبلکہ اخلاقی اورروحانی لحاظ سے بھی بد نتائج پیدا کر رہا ہے۔

خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ ان برائیوں کے خلاف دو طرفہ جہاد کر رہی ہے۔ ایک طرف تو ان اقوام کو ان برائیوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مالی لحاظ سے جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کی طرف توجہ دلانا۔ جبکہ دوسری طرف احمدیوں کو تنبیہ کرنا کہ وہ معاشرے کے زیر اثر کہیں خدا نخواستہ ان بد عملیوں میں ملوث ہو کر اپنے اموال ، اخلاق اور روحانیت کو تباہ نہ کریں ۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گذشتہ چند سالوں میں مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر اپنے اختتامی خطاب میں ان برائیوں سے بچنے کی طرف خصوصی توجہ دلائی ہے اور ان کے نقصانات کو اجاگر فرمایا ہے۔چنانچہ 2016ء کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حضور انور نے ان برائیوں سے بچنے کے حوالے سے قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کے نقصانات کا تفصیلی ذکر فرمایااور احمدی نوجوانوں کو ان برائیوں سے مکمل طور پر بچنے کی نصیحت فرمائی۔

اسی طرح آج سے تقریباً تین دہائیاں قبل غیر از جماعت افراد کے ساتھ منعقدہ ایک تقریب میں شراب نوشی کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع ؒ نے فرمایا:

‘‘برطانیہ میں شراب نوشی پر ایک دِن میں جتنا خرچ ہوتا ہے اس سے افریقہ کے لاکھوں قحط زدہ لوگوں کا کئی ہفتوں تک پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔مگر ستم یہ ہے کہ افریقہ اور دیگر براعظموں کے غریب ترین ممالک میں بھی شراب نوشی کو ایک ایسی عیاشی نہیں سمجھا جاتا جس کے لوگ متحمل نہ ہو سکیں۔ افریقہ کے لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو نہ تو زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کر سکتے ہیں اور نہ اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتے ہیں مگر پینے کے لیے کسی نہ کسی طرح شراب ضرور حاصل کر لیتے ہیں۔جنوبی ہندوستان کے پسماندہ علاقوں میں جہاں فیکٹریوں کی تیار شدہ شراب خریدنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں وہاں اس کی بجائے خانہ ساز‘‘ٹوڈی’’ سے گزارہ کر لیا جاتا ہے۔اگرچہ غربت اس ام الخبائث کو پھیلنے سے کسی حد تک روکتی ضرور ہے لیکن جونہی فی کس آمدنی بڑھتی ہے شراب پراٹھنے والے خرچ میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔’’

(اسلام اور عصرِ حاضرکے مسائل، صفحہ 183-182)

شراب نوشی کے باعث ،قومی اموال کو اِس لحاظ سے نقصان ہوتا ہے کہ شراب نوشی کے باعث انسانی صحت پر بَد ترین اثر ہوتا ہے۔ اور پھر صحت کی بحالی پر بے شمار اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔اور یہ انفرادی اخراجات ہی ہیں جو کہ مجموعی طور پر قومی اخراجات بن جاتے ہیں۔شراب نوشی کی وجہ سے معاشرہ میں جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ اور اِس کے ذریعے بہت سا مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔مثلاً کوئی شرابی کسی جگہ یا عمارت کو آگ لگا دیتا ہے، یا اُس میں موجود کسی چیز کو توڑ پھوڑ کا شکار کردیتا ہےتو وہ قومی اموال کا ہی نقصان ہے۔ پھر جرائم کے نتیجہ میں معاشرہ کے رَدِّ عمل پر اٹھنے والے اخراجات بھی قومی اموال کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔غرض یہ کہ کسی کا انفرادی مالی نقصان ہو، یا پھر قومی مالی نقصان،ہر صورت میں وہ قومی اموال کا نقصان بَن جاتا ہے۔

The International Institute of Alcohol Studiesکی جانب سے 2؍مارچ2017ءکو شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق، برطانیہ کو شراب نوشی کے باعث سالانہ قریباً 8؍سے11؍بلین پاؤنڈز کا نقصان بلاواسطہ اٹھانا پڑتا ہے۔جبکہ شراب نوشی کے نتیجہ میں ہونے والے تشدّد اور جرائم وغیرہ کے باعث ہونے والے بالواسطہ اخراجات کا اندازہ 21؍سے50؍بلین کے درمیان لگایا گیا ہے۔

Tobacco Control Plan For Englandکے مطابق، سگریٹ نوشی کے باعث ملک کوسالانہ11؍بلین پاؤنڈز کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔جس میں سے 2.5؍بلین پاؤنڈز کا نقصانNHSکو، جبکہ5.3؍بلین پاؤنڈز کا نقصان Employersکو برداشت کرنا پڑتا ہے۔

مذکورہ بالا تمام اعداد و شمار یہ بات ثابت کرتے ہیںکہ سگریٹ اور شراب نوشی اور اُس کے نتیجے میں ہونے والے اخراجات قومی اَموال کو کِس قدر نقصان پہنچاتے ہیں۔جبکہ حقیقت یہی ہے کہ اگر اِنفرادی طور پر کاوشیں کی جائیںتو اِن اَخراجات کو کم کیا جا سکتا ہے یا بالکل ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح جوئے کی بیماری بھی قومی اموال کو تباہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع ؒ فرماتے ہیں:

‘‘یہ بات بہر حال طے ہے کہ جوئے میں ایک بہت بڑی اکثریت کو اکثر نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔لیکن تجربہ شاہد ہے کہ قمار خانے بالعموم مالی تباہی کا شکار نہیں ہوتے۔پس جوئے میں صرف چند لوگوں کے نفع کی خاطر لاکھوں لوگ تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔اپنی دولت لٹا کر انہیں صرف ایک ہیجانی لذت حاصل ہوتی ہے۔ بازی جیتنے کی امید یا ہار نے کے خوف کے درمیان بے یقینی کی وہ ہیجانی کیفیت اس وقت دم توڑ دیتی ہے جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ ہار گئے ہیں۔اپنی ہاری ہوئی رقم واپس لینے کی موہوم سی امید لیے ہوئے وہ پھر اپنامال داؤ پر لگاتے ہیں یہاں تک کہ ان کی پریشانی اور ذہنی دباؤاس ہیجانی لذت سے بہت بڑھ جاتا ہے جو اس سارے کاروبار میں انہیں حاصل ہوئی تھی۔اس ناکامی کے نتیجہ میں وہ شدید غم و غصہ اور ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں جو ان کی ذات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اس کا اظہار رشتہ داروں پر بھی ہونے لگتا ہے۔معاشرہ کے غریب طبقات میں افراد خانہ کی روزمرہ کی ضروریات تک جوئے کی نذر ہو جاتی ہیں۔ ’’(اسلام اور عصرِ حاضرکے مسائل، صفحہ184تا183)

اصل مالک خدا تعالیٰ ہے

اسلام کے نزدیک، دنیا کی دولت، تمام انسانوں کےلیے ہے۔اور اِس دولت کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے۔اس لیے انسان کو اپنے مال کو خرچ کرنے کا کُلّی اختیار حاصل نہیں۔بلکہ مالک کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اُسے اپنی آزادی کو محدود کرنا ہوگا۔ اور اپنے اموال کے مصرف کو محدود کرنا ہوگا۔ یعنی فضول خرچی سے اجتناب کرنا ہو گا۔ اور صحیح راہ میں خرچ کرنا ہوگااور اس کی حفاظت کرنی ہوگی۔

قومی اثاثہ جات کی حفاظت

قومی اموال کی حفاظت کا ایک اہم ترین پہلو یہ ہے کہ قومی اثاثہ جات یا اموال کو کسی بھی شہری کی ذات سے کسی بھی قسم کا ضَرَر نہ پہنچے۔ مثلاً کوئی بھی شہری کسی بھی عمارت یا عوامی مقام کو نقصان نہ پہنچائے۔ عمارت خواہ سرکاری ہو یا ذاتی، کسی بھی صورت میں اُس سے ناجائز فائدہ حاصل کرنے یا اُسے نقصان پہنچانے کی سوچ دِل میں نہیں لانی چاہیے۔

دنیا کی کچھ ایسی اقوام بھی ہیں جنہوں نے اس حقیقت کو سمجھا،تو ترقیات کے زینے عبور کرتی چلی گئیں۔چنانچہ جرمن قوم ہر طرح کی پابندیوں کے باوجود انفرادی کاوشوں سے ملک کو دوبارہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گئی۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران ایٹمی بَم حملوں کا شکار ہونے والی جاپانی قوم انفرادی کاوِشوں کے نتیجے میں آج دنیا کی ایک اُبھرتی ہوئی طاقت ہے۔اور پھر چینی قوم ہےکہ جن کی انفرادی کوشش نے انہیں ایسا کامیاب کیاکہ آج امریکہ جیسی Super Powerبھی ان کی مقروض ہے

حکمرانوں کی ذمہ داری

کسی خاص قوم یا مُلک کے قومی اموال کی حفاظت کےلیے سب سے بڑی ذمہ داری اُس کے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ ہر قوم یا مُلک کے حکمرانوں کا یہ بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنی رعایا اور قومی اموال کی حفاظت کریں۔اُن کا یہ فرض ہے کہ وہ قوم کی اقتصادی حالت کو ترقی دینے کےلیے کوشش کریں۔اور وہ تما م انتظامات بروئے کار لائیںکہ جن سے قومی اموال محفوظ ہوں۔اور جتنے بھی ذرائع قوم کی مالی حالت کو بہتر بنانے کےلیے ضروری ہیں،اُن کو استعمال کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَتَبٰرَکَ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا

اور ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بادشاہت ہے۔ (الزخرف:86)

جب کسی شخص کے ذمہ کوئی امانت سپرد کی جاتی ہے،تو وہ اُس امانت کی ادائیگی اور حفاظت کے بارے میں امانت سپرد کرنے والے کے سامنے جواب دِہ ہوتا ہے۔پس مذکورہ بالا آیت میں یہ وضاحت موجود ہے کہ چونکہ تمام جہان کی حکومتیں، بادشاہتیں اور اقتدار خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں اوراُس کی طرف سے بطور امانت انسانوں کے سپرد ہیں۔اس لیے تمام انسان ، اپنی بادشاہتوں اور ملکیتوں کے بارے میں خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہیں۔وہ بظاہر بادشاہ ہیں۔ مگر حقیقی متولّی خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔اِس لیے وہ خدا تعالیٰ کے سامنے اِن امانتوں کے صحیح مصرف کے بارے میں جواب دِہ ہوں گے۔یعنی قومی اموال کی حفاظت کے بارے میں انسان کو، خدا تعالیٰ کے حضور جواب دیناہو گا۔اگر کوئی عام انسان ہے ، تو اُس کو ذاتی اموال کے صحیح مصرف اور حفاظت کے حوالے سے جواب دینا ہوگا۔ جبکہ ایک بادشاہ یا صدرِ مملکت یا وزیر اعظم وغیرہ کواپنے قومی اموال کی حفاظت اور صحیح مصرف کے بارے میں جواب دینا ہوگا۔

اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے حکومت کو ملکیت نہیں بلکہ امانت قرار دیا ہے۔ اور لوگوں کی عزت ،جان اور مال (قومی اموال)کی حفاظت کو حکومت کا مقصد قرار دیا ہے۔

قرآنِ مجید کی سورۃ البقرہ کی آیت 206

اِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا وَیُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰہُ لَایُحِبُّ الْفَسَادَ

کی تشریح میں حکمرانوں کے فرائض بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

‘‘یعنی دنیا میں کئی بادشاہ اور حاکم ایسے ہوتے ہیں کہ جب اُنہیں بادشاہت مل جاتی ہے یعنی وہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ طاقتوں سے کام لے کر حکومت پر قابض ہو جاتے ہیں تو بجائے اِس کے کہ رعایا اور مُلک کی خدمت کریں،بجائے اِس کے کہ امن قائم کریں،بجائے اِس کے کہ لوگوں کے دلوں میں سکینت اور اطمینان پیدا کریں وہ ایسی تدابیر اختیار کرنی شروع کر دیتے ہیں جن سے قومیں قوموں سے قبیلے قبیلوں سے اور ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں اور مُلک میں طوائف الملوکی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اِسی طرح وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن سے مُلک کی تمدّنی اور اقتصادی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور آئندہ نسلیں بیکار ہو جاتی ہیں۔ حَرْث کے لغوی معنی تو کھیتی کے ہیں مگر یہاں حَرْث کا لفظ استعارۃً وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اوریہ بتایا گیا ہے کہ جتنے ذرائع ملک کی اقتصادی ترقی کے یا جتنے ذرائع ملک کی مالی حالت کو ترقی دینے والے یا جتنے ذرائع ملک کی تمدّنی حالت کو بہتر بنانے والے ہوتے ہیں اُن ذرائع کو اختیار کرنے کی بجائے وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے تمدّن تباہ ہو،اقتصاد برباد ہو،مالی حالت میں ترقی نہ ہو اِس طرح وہ نسلوں کی ترقی پر تبر رکھ دیتے ہیں………اِس آیت سے یہ نتیجہ نکل آیاکہ اسلام کے نزدیک وہی بادشاہ صحیح معنوں میں بادشاہ کہلا سکتا ہے جو لوگوں کے لیے ہر قسم کا امن مہیّا کرے،اُن کی اقتصادی حالت کودرست کرے او راُن کی جانوں کی حفاظت کرے۔کیا بلحاظ صحت کا خیال رکھنے کے اورکیا بلحاظ اِس کے کہ وہ غیر ضروری جنگیں نہ کرے اور اپنے ملک کے افراد کو بلا وجہ مرنے نہ دے۔گویا ہر قسم کے امن اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری اسلام کے نزدیک حکومت پر عائد ہوتی ہے اور وہ اِس امر کی پابند ہے کہ مُلک کی ترقی اور رعایا کی بہبودی کا ہمیشہ خیال رکھے۔’’(اسلام کا اقتصادی نظام،انوار العلوم ، جلد 18، صفحہ 7-6)

اس اقتباس کی روشنی میں قومی اموال کی حفاظت کا ایک اور پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ حکومتِ وقت اپنے قومی اموال کو غیر ضروری جنگوں میں استعمال کرکے ضائع نہ کرے۔ بلکہ اُن کو قوم کی ترقی کےلیے استعمال کریں۔مگر دَورحاضر میں یہ بات بالکل عیاں ہے کہ وہ ممالک جو خود کو ترقی یافتہ ممالک کی صَفِ اوّل میں شمار کرتے ہیں، اُن کے حکمران، اپنی قوم کے اموال کو غیر ضروری اور بے فائدہ جنگوں میں ضائع کر رہے ہیں۔ اور بظاہر خوشحال نظر آنے والے معاشرے، اندر ونی طور پر کھوکھلے ہوتے جارہے ہیں۔
حکمرانوں کے فرائض بیان کرتے ہوئے حضرت مصلحِ موعودؓ فرماتے ہیں:

‘‘حُکّام کو خدا نے اپنی شریعت میں یہ حکم دے دیا کہ دیکھو!ہمیشہ عدل اور انصاف سے کام لو، ملک کی اقتصادی حالت کو ترقی دینے کی کوشش کرو،رعایا کے جان و مال کی حفاظت کرو’’

(اسلام کا اقتصادی نظام،انوار العلوم ، جلد 18، صفحہ9)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم انفرادی طور بھی اپنے قومی اموال کی حفاظت کریں۔نیز تمام حکمران بھی اپنے فرض کو پورا کرتے ہوئے، اپنی قوم کے اموال کو درست سمت میں خرچ کرتے ہوئے، اُن کے محافظ بنیں۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button