از افاضاتِ خلفائے احمدیت

عہد و پیمان اور معاہدات کا احترام: برائی کا خاتمہ۔ ایک اجتماعی ذمہ داری

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

اسلامی معاشرہ میں باہمی عہدوپیمان کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ عہد کی پاسداری اور بین الاقوامی معاہدات کے احترام کو اسلامی معاشرہ کی وحدت کے تصور کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید مومنوں کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ

(سورۃ المومنون آیت 9)

ترجمہ۔ اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی نگرانی کرنے والے ہیں۔

……………………………………………………………………………

لوگوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری حکومتوں کے سر نہیں ڈالی گئی بلکہ بحیثیت مجموعی معاشرہ کے سب لوگوں پر عائد کی گئی ہے۔ یہ لوگوں کا فرض ہے کہ وہ برائی سے بچیں اور نیک اعمال بجا لائیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں گھروں، گلیوں اور بازاروں سے کوڑا کرکٹ اکٹھا کرکے اسے ٹھکانے لگانے کا کام چند مخصوص لوگوں کے سپرد ہوتا ہے۔ غریب ممالک میں خاتون خانہ گھر کے کوڑا کرکٹ کو گلیوں میں پھینک دیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ راستے غلاظت سے اس قدر بھر جاتے ہیں کہ گزرنا دو بھر ہو جاتا ہے۔ گھروں کو پاک صاف رکھنا بے شک گھر والوں کا فرض ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ گلیوں،محلوں اور راستوں کی صفائی کا بھی کوئی باقاعدہ انتظام ضرور ہونا چاہیے۔ مغرب نے پبلک مقامات کو صاف رکھنے کی سماجی ذمہ داری کی اہمیت کو جان لیا ہے مگر افسوس کہ وہ جرائم کی نجاست سے معاشرہ کو پاک رکھنے کی انتہائی اہم ضرورت اور ذمہ داری کو نہیں سمجھ سکے۔ یہ وہ گندگی اور نجاست ہے جو روزانہ گھروں سے نکل نکل کر گلیوں اور بازاروں اور سارے معاشرہ کو آلودہ کر رہی ہے۔

اسلام نے سماجی ماحول کے اس مسئلہ کو بڑی جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس کا حل تجویز فرمایا ہے۔ بدی کی نجاست کو کم سے کم کرنے کی اولین ذمہ داری گھر کے بڑوں اوربزرگوں پر عائد ہوتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ معاشرہ میں پاکیزگی ہو، نیکی کو فروغ حاصل ہو اور بدی کی غلاظت کم ہو۔ دوسرے اسلام معاشرہ پر بھی یہ ذمہ داری ڈالتا ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر برائی کے خلاف ایک جہاد شروع کرے۔ یہ جہاد نہ تو تلوار کے ذریعہ ہونا چاہیے اور نہ محض قانونی پابندیوں سے بلکہ حکمت کے ساتھ لوگوں کو سمجھانا چاہیے اور مسلسل نصیحت کرتے چلے جانا چاہیے۔ قرآن کریم کے نزدیک معاشرہ کو برائیوں سے پاک کرنے کا بہترین ذریعہ صبر کے ساتھ لوگوں کو وعظ و تلقین کرتے چلے جانا ہے۔ فرمایا۔

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

(سورۃ آل عمران آیت105)

ترجمہ۔ اور چاہیے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو۔ وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور نیکی کی تعلیم دیں اور بدیوں سے روکیں۔ اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

مذکورہ بالا آیت سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ حکومت وقت لوگوں کی اخلاقی صحت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری سے کلیۃًبری الذمہ ہو جاتی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلاشبہ قانون سازی اور قانون کے نفاذ کے اختیارات حکومت کے پاس ہیں۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام کے نزدیک صرف حکومتی مشینری جرائم کی حوصلہ شکنی اور ان کی بیخ کنی کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ایک بار جب گھروں میں اورمعاشرہ میں مجرمانہ رجحانات کو بڑھنے اور پھیلنے کی اجازت دے دی جائے اور یہ بیماری جڑ پکڑ جائے تو حکومت زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتی ہے کہ گاہے بگاہے اس بیماری کی بعض سطحی علامات کو دور کر دے۔ برائی کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنا حکومتوں کے بس کا روگ نہیں۔ قانون کے لمبے ہاتھ بھی برائی کے گہرے بنیادی اسباب تک نہیں پہنچ سکتے۔ پس بدی کا استیصال کرنے کی اولین ذمہ داری خاندان کے بزرگوں، مذہبی لیڈروں اور عوامی رہنمائوں پر عائد ہوتی ہے۔

قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت اور اسی مضمون کی دیگر بہت سی آیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ بدانجام سے اس لیے دو چار ہوئے کہ انہوں نے نافرمانی اورسرکشی اختیار کی اور ایک دوسرے کو بدی کے ارتکاب سے نہیں روکا۔ آپ نے مزید فرمایا۔
‘‘تم پر لازم ہے کہ نیکی کا حکم دو اور بری باتوں سے لوگوں کو روکو۔ اور ظالم کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے عدل سے کام لینے پر آمادہ کرو اور اسے حق پر مضبوطی سے قائم کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو باہم مشابہ کر دے گا اورتم پر ویسے ہی لعنت کرے گا جیسا کہ اس نے ان (پہلوں)پر لعنت کی’’

(سنن ابودائود وسنن الترمذی۔ابواب الفتن ،باب ماجاء فی الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر)

آنحضرتﷺ کے ارشاد کے مطابق کسی قوم کے تنزّل کی ایک خطرناک علامت یہ ہے کہ لوگ بدی کے اعلانیہ ارتکاب کے خلاف ناپسندیدگی اور نفرت کے اظہار کی جرأت کھو دیتے ہیں۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ایسے معاشرہ کے افراد کو ایک کشتی کے مسافروں سے تشبیہ دی ہے۔

حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے فرمایا: اس شخص کی مثال جو اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم رکھتا ہے اور جو ان کو توڑتا ہے ان لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے ایک کشتی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے قرعہ ڈالا۔ کچھ لوگوں کو اوپر کا حصہ ملا اور کچھ کو نیچے کی منزل میں جگہ ملی۔ جو لوگ نیچے کی منزل میں تھے وہ اوپر والی منزل سے گزر کر پانی لیتے تھے۔ پھر انہیں خیال آیا کہ خواہ مخواہ ہم اوپر کی منزل والے لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں۔ کیوں نہ ہم نیچے کی منزل میں سوراخ کر لیں اور وہاں سے پانی لے لیا کریں۔ اب اگر اوپر والے ان کو ایسا احمقانہ فعل کرنے دیں تو سب غرق ہوں گے اور اگر ان کو روک دیں تو سب بچ جائیں گے۔

(صحیح البخاری۔کتاب الشھادات۔باب القرعۃ فی المشکلات )

مجھے ڈر ہے کہ یہ تمثیل بڑی حد تک عصر حاضر کے معاشروں پر صادق آتی ہے۔ (اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل صفحہ 134تا 137)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button