حضرت مصلح موعود ؓمتفرق مضامین

اصلاحِ اعمال کی تلقین (قسط اول)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 16؍ فروری 1919ء کو لاہور میں میاں چراغ دین صاحب کے مکان پر ایک تقریر فرمائی جس میں آپؓ نے افرادِ جماعت کو تزکیۂ نفس اورروحانی اصلاح کی طرف توجہ دلائی۔ حضورؓ نے انتہائی خوبصورت پیرائے میں انبیاء کے وجود سے نکلنے والی روحانی لہروں کا ذکر فرماتے ہوئے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ انہیں ان لہروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قلوب کی صفائی کی طرف توجہ دینی چاہیے جس کے نتیجے میں انہیں اپنے عقائد پر ایسا یقین اور ثبات حاصل ہو گا کہ کوئی چیز انہیں متزلزل نہیں کر سکے گی۔

حضورؓ کا یہ مختصر لیکچر قارئینِ الفضل انٹرنیشنل کے استفادے کے لیے قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

حضورؓ نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر فرمایا:

انسان کی زندگی اور اس کی موت اس کے لیے بہت بڑے سبق اپنے اندر رکھتی ہے مگر ان کے لیے جو تدبر اور فکر کرتے ہیں۔

انسان اور حیوان کی زندگی میں فرق

انسان کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اس کی زندگی اور دوسرے حیوانوں کی زندگی میں بہت بڑا فرق پاتے ہیں۔ دوسرے جس قدر حیوانات ہیں ان کی زندگی ایک دوسرے کے ساتھ ایسی وابستہ نہیں ہے جیسی انسان کی۔ حیوان زیادہ سے زیادہ ایک نر اور ایک مادہ کامحتاج ہوتا ہے اس سے زیادہ ان کے لیے کسی ربط اور تعلق کی ضرورت نہیں ہے اور جو ادنیٰ درجہ کے حیوان ہیں ان کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک ہی وجود میں نَر اور مادہ کی طاقت ہوتی ہے ہاں جو ان سے بڑے ہوتے ہیں ان میں نَر کو مادہ کی اور مادہ کو نَر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ تیسرے کے وہ محتاج نہیں ہوتے۔مگر انسان کو خداتعالیٰ نے ایسا پیدا کیا ہے کہ اس کے متعلق ایک دو تین کا سوال نہیں بلکہ اس کی ضروریات ایسی وسیع ہیں کہ تمام بنی نوع انسان کی حرکات کا اثر ایک دوسرے پر پڑتا ہے اور باریک در باریک تغیر جو اگرچہ نہایت خفیف ہوتا ہے مگر اثرات کے لحاظ سے اس قدر وسیع ہوتا ہے کہ تمام دنیا میں پھیل جاتا ہے اور گو بہت سے اثر ایسے ہوتے ہیں جو نمایاں طور پر نظر نہیں آتے مگر حقیقتاً انسان کے اعمال، خیال، گفتگو اور حرکات پر بہت اثر ڈالتے ہیں اور بعض اثر ایسے بھی ہوتے ہیں جو نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔

کوئی حرکت ضائع نہیں ہوتی

ان باتوں کے سمجھنے کے لیے پہلے لوگوں میں اتنی قابلیت نہ تھی جتنی اب ہے کیونکہ اب نیچر کے قواعد کی رو سے معلوم کر لیا گیا ہے کہ باریک سے باریک اثر بھی ضائع نہیں جاتا بلکہ دوسری چیزوں کو مؤثر کرتا ہے۔ چنانچہ بے تار برقی کا پیغام اسی بات سے فائدہ اُٹھا کر بنایا گیا ہے کہ کوئی حرکت جو پیدا ہوتی ہے وہ ضائع نہیں جاتی بلکہ اس کی لہریں چلتی ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتی ہیں۔

روحانی دنیا کی لہریں

جس طرح مادی دنیا میں حرکات کی لہریں چلتی ہیں اسی طرح روحانی دنیا میں بھی چلتی ہیں۔ جو کبھی تو اتنی نمایاں ہوتی ہیں کہ ہر ایک انسان انہیں دیکھ لیتا ہے اورکبھی ایسی کہ اس آلہ بے تار کی طرح ان کاعلم ان ہی کو ہو سکتا ہے جن کے پاس ان کے معلوم کرنے کاآلہ ہوتا ہے۔

انبیاء کے وجود سے لہریں

بڑی بڑی لہریں انبیاء کے وجود سے پیدا ہوتی ہیں ان سے جو لہریں پیدا ہوتی ہیں وہ اپنی اپنی طاقت کے بموجب ایک ایک صوبہ ایک ایک ملک یا ساری دنیا میں پھیلتی ہیں۔ چنانچہ ایسی لہریں کئی دفعہ دنیا میں پھیلیں اور بہتوں نے محسوس کی ہیں۔ بہت پرانے زمانے کی تاریخیں موجود نہیں لیکن حضرت نوح علیہ السلام کا حال قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے۔ گو وہ دکھوں میں مبتلاء کئے گئے انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں مگر ان میں ایسی طاقت تھی کہ جس سے پیدا ہونے والی لہر کو بہتوں نے دیکھا اور محسوس کیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت لہر اُٹھی اور اس زور سے اُٹھی کہ جس نے ایک وسیع خطہ زمین کا احاطہ کر لیا۔

حضرت موسیٰ کے زمانہ کی لہر

پھر سب سے بڑی لہر جس کا اندازہ لگایا گیا وہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں پیدا ہوئی۔ دیکھئے کس قدر ادنیٰ درجہ سے قوم کو انہوں نے نکالا اور کیسے ظالم اور زبردست دشمنوں کے پنجہ سے چھڑایا۔ بظاہر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس نہ فوج تھی اور نہ کسی اور قسم کی قوت مگر ان کے اس دل میں جس میں خداتعالیٰ کے لیے عجز اور انکسار بھرا ہوا تھا جو لہر پیدا ہوئی اس نے ان کی قوم میں زندگی پیدا کر دی اور وہ قوم جو حد درجہ کی ذلیل ہوچکی تھی حتیٰ کہ کسی قبطی کی نظر اس قوم کے آدمی پر پڑ جاتی تو اسے واجب القتل قرار دے دیا جاتا۔ بادشاہ جب باہر نکلتا تو منہ پر نقاب ڈال کر نکلتا تاکہ کسی پر نظر نہ پڑے اس سے زیادہ کسی قوم کی ذلت اور کیا ہو سکتی ہے؟ آج ہندو کہتے ہیں کہ جس چیز کو مسلمان کا ہاتھ لگ جائے وہ ناپاک ہو جاتی ہے اور مسلمان اس پر چڑتے اور غصے ہوتے ہیں اور کسی حد تک ان کا غصہ جائز بھی ہوتا ہے مگر بنی اسرائیل اس قدر ذلیل سمجھے جاتے تھے کہ بادشاہ ان کو دیکھنا بھی برا سمجھتا تھا اورمنہ پر نقاب ڈال کر باہر نکلتا تھا۔ بنی اسرائیل اپنی ذلّت چھپانے کے لیے کہتے تھے کہ فرعون کوڑھی ہوتے ہیں۔ اس لیے منہ پر نقاب ڈال کر باہر نکلتے ہیں مگر تاریخ بتلاتی ہے کہ وہ اس لیے نقاب ڈالتے تھے کہ ناپاک بنی اسرائیل پر نظر نہ پڑے۔ تو جو لوگ ایسے ناپاک سمجھے جاتے تھے اور جن سے ادنیٰ سے ادنیٰ مثلاً اینٹیں پتھوانے کا کام لیا جاتا تھا اور وہ بغیر کسی شور و شر اور ناراضگی کے ایسے کام کرتے تھے ان میں کبھی ذلّت سے بچنے کاکچھ جوش آیا بھی تو فوراً دَب گیا اور پھر اسی طرح طبعی دنایت سے کام کرتے رہے۔ ایسی گری ہوئی اور ذلیل قوم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے اور ان کے ذریعہ ایسی لہر چلائی جو پھیلتے پھیلتے دور نکل گئی۔ اس کے بعد گو اس کا اثر نظر نہیں آتا مگر جیسا کہ میں ثابت کروں گا کوئی لہر ایسی نہیں جو اثر نہ کرے۔ اس کے بعد چھوٹی چھوٹی لہریں پیدا ہوتی رہیں مگر تیرہ سَو سال بعد ایک بڑی لہر پیدا ہوئی جو دنیا کے اکثر حصہ پر پھیل گئی۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی لہر

اور پھر سب سے آخر اور سب سے بڑی لہر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پیدا ہوئی اس وقت جبکہ دنیا میں لوگ غافل ہو کر تاریکی میں بھٹک رہے تھے اور سب پر مُردنی چھاگئی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ خداتعالیٰ نے روحانیت کے دریا میں پُر جوش لہر پیدا کی ۔جو کسی خاص زمانہ اور خاص مقام سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ تمام دنیا کے لیے ہے گو یہ لہر ملک عرب میں پیدا ہوئی جو بظاہر رتبہ اور درجہ میں کوئی امتیاز نہ رکھتا تھا۔ مگر خداتعالیٰ کے فضل سے پھیلتے پھیلتے تمام دنیا میں پھیل گئی یہ تو اس کا ظاہری اثر ہے جو دنیا کو نظر آ رہا ہے اور ہر شخص خواہ وہ کافر ہو یا مومن محسوس کرتا ہے۔ یورپ کے مؤرخ بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں اور اسلام کے مؤرخ بھی۔ یہودی بھی اس کو مانتے ہیں اور عیسائی بھی۔

انبیاء کے ذریعہ پیدا ہونے والی لہروں کا اعتراف

یہ بات دنیا تسلیم کرے یا نہ کرے کہ حضرت موسیٰ خدا کے نبی تھے لیکن اس میں شک نہیں کہ کوئی قوم اس سے انکار نہیں کر سکتی کہ حضرت موسیٰ کے ذریعہ ایک ایسی لہر ضرور پیدا ہوئی جو تمام بنی اسرائیل میں پھیل گئی پھر دنیا حضرت مسیح کے نبی اللہ ہونے کا انکار کرے تو کرے مگر اس بات کا انکار نہیں کر سکتی کہ ان کے زمانہ میں بھی ایک لہر اُٹھی تھی۔ اسی طرح یہ اور بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام لوگ خداتعالیٰ کا نبی نہ مانیں مگر اس میں شک نہیں کہ یہ بات ماننے کے لیے ساری دنیا مجبور ہے کہ آپ کے ذریعہ دنیا میں ایک ایسا تغیر ضرور پیدا ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں پیدا ہوا تھا۔ یہ نمایاں اور ہر ایک کو محسوس ہونے والا اثر ہے۔

روحانی لہر کا درپردہ اثر

پھر پوشیدہ اثر جس کو عام لوگ محسوس نہیں کرتے مگر واقعات بتاتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا عمل دنیا میں پھیلتا ہے اور ایک ہی جگہ نہیں ٹھہر جاتا اور جو مشین چلائی جاتی ہے وہ ٹھہرتی نہیں بلکہ آگے ہی آگے جاتی ہے اور جس طرح ہماری تمام حرکات اس جوّ میں پھیل جاتی ہیں اور ان کے اثرات دور تک پہنچتے ہیں۔ اسی طرح روحانی دنیا میں جو لہر اُٹھتی ہے وہ بھی پھیلتی ہے اور دور دور تک پہنچتی ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال جو نمایاں طور پر تاریخ میں محفوظ ہے اس کو لیتے ہیں۔

شرک کی رَو

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے زمانہ میںمبعوث ہوئے جس میں تمام اقوام عالم عموماً شرک میں مبتلاء تھیں عموماً کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا ہے کہ اس زمانہ میں بعض ایسے افراد بھی تھے جو فرداً فرداً وحدانیت کے قائل تھے لیکن ان کا کوئی اثر نہ تھا۔ عام طور پر ہر جگہ شرک ہی شرک تھا اور اس زمانہ میں ایک سے زیادہ خدا ماننا ایک فیشن کے طور پر ہو گیا تھا۔ جس کا ثبوت اس طرح ملتا ہے کہ جو قومیں توحید مانتی تھیں ان میں بھی کسی نہ کسی رنگ میں ایک سے زیادہ خدا تسلیم کئے جاتے تھے۔ بنی اسرائیل جن کی ساری کتابیں کہہ رہی تھیں کہ ایک کے سوا کسی کو خدا نہ مانو وہ بھی کہتے تھے کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے۔ اسی طرح زرتشتی جن کے مذہب کی بنیاد ابتداء میں خالص توحید پر تھی وہ بھی ایسی حالت میں تھے کہ بالکل شرک میں مبتلاء تھے۔ اِدھر ہندوستان میں بت پرستی کی یہ حالت تھی کہ گو وہ کہتے تھے ایک خدا کی پرستش کرنی چاہیے لیکن قسم قسم کے بتوں کو پوجتے اور ان کی پرستش کرتے تھے اور مسیحی تو حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنا ہی چکے تھے۔ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں تمام اقوام باوجود شرک کی منکر ہونے کے توحید پر قائم نہ رہی تھیں۔ گویا وہ ڈرتی تھیں کہ اگر توحید پر قائم رہیں تو مٹ جائیں گی جیسا کہ آج کل پردہ کے متعلق عام لوگوں کا خیال ہے اور اس کے خلاف اسی بناء پر ایک رَو چلی ہوئی ہے جس سے متاثر ہو کر مسلمان بھی کہتے ہیں کہ اب یا تو پردہ کو بالکل اُڑا دیا جائے یا اس قدر خفیف اور ہلکا کر دیا جائے کہ اہل یورپ کو معلوم نہ ہو سکے کہ ہم پردہ کے پابند ہیں۔ اسی طرح تعدد ازواج کے متعلق مسلمانوں کی کوشش ہے کہ یورپ سے اس کو چھپایا جائے اس کے لیے طرح طرح کے پیچ ڈالے جاتے ہیں لیکن اصل بات یہی ہے کہ آج کل جو رَو چلی ہوئی ہے اس سے ڈر پیدا ہو رہا ہے کہ اگر ہم اس کے سامنے کھڑے رہے اور اس کے ساتھ نہ بہنے لگے تو ہمارا مذہب قائم نہیں رہ سکے گا۔ اسی طرح اور مسائل ہیں مثلاً نماز اس کے متعلق کہا جاتا ہے ظاہر نماز کی کیا ضرورت ہے یہ پہلے لوگوں کے لیے تھی اب تو صرف اتنا ہی کافی ہے کہ میز کرسی پر بیٹھ کر خدا کی حمد گا لیں اور جب خدا کا نام آئے تو ذرا سر جھکا دیں اور بس۔ یہ کیوں کہا جاتا ہے؟ اس لیے کہ آج کل جو رَو چلی ہوئی ہے اس کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنے اصلی عقائد پر قائم رہے تو مٹ جائیں گے۔ یہی حالت توحید کی اس زمانہ میں ہو چکی تھی جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ تمام کے تمام مذاہب میں ایک رَو چل گئی تھی کہ ہم اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتے جب تک کہ کسی نہ کسی رنگ میں شرک کو اختیار نہ کر لیں۔ کس خبیث الفطرت انسان کے دل میں پہلے پہل یہ رَو پیدا ہوئی۔ تاریخ سے اس کا پتہ نہیں ملتا لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ گندی رَو پیدا ضرور ہوئی اور ابلیس کی تائید سے پھیلتی گئی۔

شرک کی رَو سے توحید کی رَو کا مقابلہ

اس رَو کا مقابلہ کرنے اور اس کی بجائے توحید پھیلانے کے لیے جو انسان اس زمانہ میں کھڑا ہوا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ گو اس وقت عرب میں ایسے لوگ تھے جو فرداً فرداً ایک خدا کو مانتے تھے مگر لوگوں کے سامنے اسے بیان کرنے سے ڈرتے تھے۔ ہاں وہ اپنے دل کی بھڑاس شعروں میں نکالتے تھے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں شرک کے خلاف رَو موجود تھی مگر ایسی ہی جیسی کہ دریا کے مقابلہ میں درخت کی پتی۔ اس لیے وہ شرک کے دریا کو کیا روک سکتی تھی۔ پس ان میں اتنی طاقت نہ تھی کہ شرک کے دریا کو روک سکتے لیکن خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ایسی رَو پیدا کی جس نے شرک کا مقابلہ کر کے اسے مٹا دیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یا تو یہ لہر چلی ہوئی تھی کہ ہر ایک مذہب والے اپنے مذہب میں شرک داخل کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ ہم اس سے خالی نہ رہیں یا یہ کہ پینتیس کروڑ بتوں کے ماننے والے بھی کہنے لگتے کہ ہم بھی توحید کے قائل ہیں۔ پھر وہ قوم جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے اور جو توحید کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے تیار تھے اور جنہوں نے توحید کی خاطر اپنی قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کرانا منظور کر لیا مگر اسی قوم کو جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد اس میں بھی شرک موجود تھا۔

(…………باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button