حاصل مطالعہ

اقامۃ الصلوٰۃ کے سات درجات

حضرت خليفة المسيح الثاني المصلح الموعود رضي اللہ عنہ سورة المومنون کي ابتدائي آيات کي تفسير کرتے ہوئے تفسير کبير جلد ششم ميں فرماتے ہيں کہ اللہ تعاليٰ نے صحيح معنوں ميں کامياب ہونے والے مومنوں کي جو صفات بيان فرمائي ہيں ان ميں سے ايک صفت جو سورة المومنون کي آيت نمبر 10 ميں بيان ہوئي ہے اس کے الفاظ ہيں:

وَ الَّذِيۡنَ ہُمۡ عَلٰي صَلَوٰتِہِمۡ يُحَافِظُوۡنَ  (23:10)

نمازوں کي حفاظت سے کيا مراد ہے اور کس طرح کرني چاہيے۔ اس سلسلہ ميں آپ نے فرمايا کہ روحاني ترقي کرنے کے مختلف درجات ہيں۔ پھر آپؓ فرماتے ہيں:

‘‘چھٹا درجہ يہ بتايا کہ وہ لوگ اپني نمازوں کي حفاظت کرتے ہيں ۔ يہاں نماز کا لفظ جمع کي صورت ميں آيا ہے۔ پس اس سے ايک تو اس طرف اشارہ ہے کہ وہ ہر قسم کي نمازيں يعني فرائض اور نوافل اچھي طرح ادا کرتے ہيں اور دوسرے اس ميں يہ بتايا گيا ہے کہ وہ اپني قوم ميں سے ہر ايک کي جسماني عبادت کي حفاظت کرتے ہيں يعني يہ ديکھتے رہتے ہيں کہ ان کي اولاد، ان کي بيوياں، ان کے رشتہ دار اور ان کے ہمسايہ اور ان کي سب قوم نماز کي پابند ہے يا نہيں۔ کيونکہ جب تک سارے خاندان بلکہ ساري قوم کے اعمال درست نہ ہو ں۔ اس وقت تک انسان کا اپنا عمل بھي خطرہ سے باہر نہيں رہ سکتا ۔ بہت دفعہ ايسا ہوتا ہے کہ جب ايک شخص صبح اپنے بچے کو نماز کے ليے جگانے لگتا ہے تو اس وقت فوراًجذباتِ محبت اس کے سامنے آ جاتے ہيں اور دل ميں کہتا ہے ، سخت سردي ہے، ميں اسے کيوں جگاؤں، اگر نماز کے ليے جگايا تو اسے سردي لگ جائے گي ۔ پھر وہ بيوي کو نماز کے ليے جگانے لگتا ہے تو اس وقت بھي محبت کے جذبات اس کے سامنے آجاتے ہيں اور وہ کہتا ہے، ساري رات يہ بچے کو اٹھا کر پھرتي رہي ہے ۔ اب ميں اسے جگاؤں گا تو اس کي نيند خراب ہو جائے گي بہتر ہے کہ يہ سوئي رہے۔ نماز پھر پڑھ لے گي۔

غرض کبھي سخت سردي اور کبھي سخت گرمي کا عذر اس کے سامنے آجاتا  ہے۔ چھ مہينے اس کے سامنے يہ سوال رہتا ہے کہ سخت سردي ہے ان ايام ميں بچہ کو نماز کے ليے کيوں جگاؤ ں اسے سردي لگ جائے گي اور چھ مہينے اس کے سامنے يہ سوال رہتا ہے کہ نازک اور پھول سا بچہ ہے نماز پڑھنے گيا تو اسے گرمي لگ جائے گي۔ پھر کبھي بيوي کو جگاتے وقت يہ خيال آجاتا ہے يہ ساري رات تو بچے کو اٹھائے پھرتي رہتي ہے۔ اس ليے بہتر ہے سوئي ر ہے۔ نماز پھر پڑھ لے گي۔ غرض قدم قدم پر جذبات اور احساسات اس کے سامنے آجاتے ہيں ۔ اور اس کا نتيجہ يہ ہوتا ہے کہ نہ ان کي اصلاح ہوتي ہے اور نہ اس کي اپني اصلاح مکمل ہوتي ہے۔ اسي ليے اللہ تعاليٰ نے قرآن کريم ميں فرمايا ہے۔ قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِيۡکُمۡ نَارًا ۔ يعني اے ميرے بندو۔ نہ صرف اپنے آپ کو دوزخ کي آگ سے بچاؤ بلکہ اپنے اہل و عيال کو بھي آگ سے بچاؤ ۔ تمہارا صرف اپنے آپ کو آگ سے بچا لينا کافي نہيں بلکہ دوسروں کو بچانا بھي ضروري ہے کيونکہ اگر دوسرا نہيں بچےگا تو وہ تمہيں بھي لے ڈوبے گا۔

مگر يہ بات ياد رکھني چاہيے کہ نماز کي پابندي کئي رنگ کي ہوتي ہے۔ سب سے پہلا درجہ جس سے اتر کر اور کوئي درجہ نہيں  يہ ہے کہ انسان بالالتزام پانچوں وقت کي نمازيں پڑھے ۔ جو مسلمان پانچ وقت کي نماز پڑھتا ہے اور اس ميں کبھي ناغہ نہيں کرتا وہ ايمان کا سب سے چھوٹا درجہ حاصل کرتا ہے۔

دوسرا درجہ نماز کا يہ ہے کہ پانچوں نمازيں وقت پر ادا کي جائيں جب کوئي مسلمان پانچوں نمازيں وقت پر ادا کرتا ہے تو وہ ايمان کي دوسري سيڑھي پر قدم رکھ ليتا ہے۔

پھر تيسرا درجہ يہ ہے کہ نماز باجماعت ادا کي جائے۔  باجماعت نماز کي ادائيگي سے انسان ايمان کي تيسري سيڑھي پر چڑھ جاتا ہے۔

پھر چوتھا درجہ يہ ہے کہ انسان نماز کے مطالب کو سمجھ کر ادا کرے ۔ جو شخص ترجمہ نہيں جانتا وہ ترجمہ سيکھ کر نماز پڑھے اور جو ترجمہ جانتا ہو وہ ٹھہر ٹھہر کر نماز کو ادا کرے۔ يہاں تک کہ وہ سمجھ لے کہ ميں نے نماز کو کماحقہٗ ادا کيا ہے۔

پھر پانچواں درجہ نماز کا يہ ہے کہ انسان نماز ميں پوري محويّت حاصل کرے ۔ اور جس طرح غوطہ زن سمندر ميں غوطہ لگاتے ہيں۔ اسي طرح وہ بھي نماز کے اندر غوطہ مارے۔ يہاں تک کہ وہ دو ميں سے ايک مقام حاصل کرلے۔ يا تو يہ کہ وہ خدا کو ديکھ رہا ہو اور يا يہ کہ وہ اس يقين کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو کہ خدا تعاليٰ اسے ديکھ رہا ہے۔ اس مؤخر الذکر حالت کي مثال ايسي ہي ہے۔ جيسے کوئي اندھا بچہ اپني ماں کي گود ميں بيٹھا ہو۔ اپني ماں کي گود ميں بيٹھے ہوئے اس بيٹے کو بھي تسلي ہوتي ہے جو بينا ہو اور اپني ماں کو ديکھ رہا ہو مگر ماں کي گود ميں بيٹھے ہوئے اس بيٹے کو بھي تسلي ہوتي ہے جو نابينا ہو۔ اس خيال سے کہ گو وہ اپني نابينائي کي وجہ  سے ماں کو نہيں ديکھ رہا مگر اس کي ماں اسے ديکھ رہي ہے۔ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم فرماتے ہيں کہ نماز پڑھتے وقت بندے  کو ان دو ميں سے ايک مقام ضرور حاصل ہونا چاہيے۔ يا تو يہ  کہ وہ خدا کو ديکھ رہا ہو۔ اور يا يہ کہ اس کا دل اس يقين سے لبريز ہو کہ خدا تعاليٰ اسے ديکھ رہا ہے۔ يہ ايمان کا پانچواں مقام ہے اور اس مقام پر بندے کے فرائض پورے ہو جاتے ہيں۔ مگر جس بامِ رفعت پر اسے پہنچنا چاہيے اس پر ابھي نہيں پہنچتا ۔

اس کے بعد چھٹا درجہ ايمان کا يہ ہے کہ نوافل پڑھے جائيں۔ يہ نوافل پڑھنے والا گويا خدا تعاليٰ کے حضور يہ ظاہر کرتا ہے کہ ميں نے فرائض کو تو ادا کرديا ہے مگر ان فرائض سے ميري تسلي نہيں ہوئي اور وہ کہتا ہے۔ اے خدا ميں يہ چاہتا ہوں کہ ميں ان فرائض کے اوقات کے علاوہ بھي تيرے دربار ميں حاضر ہوا کروں ۔ جيسے کئي لوگ جب کسي بزرگ کي ملاقات کے ليے جاتے ہيں تو وہ مقررہ وقت گزر جانے پر کہتے ہيں کہ دو منٹ اور ديجيے۔  اور وہ ان مزيد دو منٹ ميں لذت محسوس کرتے ہيں۔ اسي طرح ايک مومن جب فرض کي ادائيگي کے بعد نوافل پڑھتا ہے تو وہ خدا تعاليٰ سے کہتا ہے کہ اب ميں اپني طرف سے کچھ مزيد وقت حاضر ہونا چاہتا ہوں۔

ساتواں درجہ ايمان کا يہ ہے کہ انسان نہ صرف پانچوں نمازيں اور نوافل ادا کرے بلکہ رات کو بھي تہجد کي نماز پڑھے۔  يہ وہ سات درجات ہيں جن سے نماز مکمل ہوتي ہے۔ اور ان درجات کو حاصل کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہيں جن کے متعلق حديث ميں آتا ہے کہ خدا تعاليٰ رات کے وقت عرش سے اترتا ہے۔ اور اس کے فرشتے پکارتے ہيں کہ اے ميرے بندو خدا تعاليٰ تمہيں ملنے کے ليے آيا ہے۔ اٹھو اور اس سے مل لو۔

پس ان سات درجوں کو پورا کرنا ہر شخص کے ليے ضروري ہے۔  ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کا پابند ہو۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نمازوں کو وقت پر ادا کيا کرے۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز باجماعت ادا کيا کرے۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کو سوچ سمجھ کر اور ترجمہ سيکھ کر ادا کرے۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ علاوہ فرض نمازوں کے رات اور دن کے اوقات ميں نوافل بھي پڑھا کرے۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کے اندر محويت پيدا کرے اور اتني محويت پيدا کرے کہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے قول کے مطابق يا تو وہ خدا تعاليٰ کو ديکھ رہا ہو۔ يا وہ اپنے دل ميں يہ يقين رکھتا ہو کہ خدا تعاليٰ اسے ديکھ رہا ہے۔ پھر ہر شخص کو چاہئے کہ وہ فرائض اور نوافل اس التزام اور باقاعدگي سے ادا کرے کہ اس کي راتيں بھي دن بن جائيں۔ اسي طرح تہجد کي مناجات سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھانے کي کوشش کرے۔ جب تک کوئي شخص اپني نمازوں کي اس رنگ ميں حفاظت نہيں کرتا اس وقت تک اس کا يہ اميد کرنا کہ وہ اللہ تعاليٰ کو راضي کرے گا ايک وہم سے زيادہ کچھ حقيقت نہيں رکھتا۔

پھر فرماتا ہے انسان کي روحاني ترقي کا ساتواں درجہ يہ ہے کہ اللہ تعاليٰ ان کو ايسي جنت کا وارث کر ديتا ہے جو سب جنتوں کا مجموعہ ہے يعني فردوس۔ فردوس کے معني عربي زبان ميں ايسے باغ کے ہوتے ہيں جو ہر قسم کے باغوں کا مجموعہ ہو ۔ پس فردوس کا لفظ استعمال کرکے اس طرف اشارہ کيا گيا ہے کہ جس طرح يہ لوگ سب اعليٰ درجہ کے روحاني خواص اپنے اندر جمع رکھتے ہيں اسي طرح ان کو مقام بھي وہ ملے گا جو تمام خوبيوں کا جامع ہو گا اور  ہُمۡ فِيۡہَا خٰلِدُوۡنَ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمايا کہ جس طرح يہ لوگ اللہ تعاليٰ کي عبادت کي حفاظت کيا کرتے تھے اِسي طرح اللہ تعاليٰ بھي اس بات کي نگراني رکھے گا کہ وہ انعامات کے ہميشہ وارث رہيں اور کبھي ان پر تنزل کي گھڑي نہ آئے۔’’

(تفسير کبير جلد ششم صفحہ 135تا 137)

(مرسلہ: عطا ء المجيب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button