از افاضاتِ خلفائے احمدیت

تخلیق انسانی کا مقصدکیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کوئی امن نصیب نہیں ہو سکتا

حضرت خليفة المسيح الرابع رحمہ اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں:

قرآن کريم کے نظريہ کے مطابق اگر يہ کائنات محض بے جان اور بے شعور مخلوقات پر مشتمل ہوتي تو تخليقِ کائنات کافعل ہي نعوذ باللہ عبث اور لغو ٹھہرتا۔ اس کي وجہ يہ ہے کہ اگر ايک باشعور مخلوق نہ ہوتي تو خالق کا عرفان کسے نصيب ہوتا۔

تخليق ِکا ئنات کا مقصد دراصل ايک ايسے شعور کي تخليق تھا جسے رفتہ رفتہ ترقي اور وسعت دے کر ايک اعليٰ مقام تک پہنچانا تھا تا کہ تخليق کا اصل مقصد حاصل کيا جاسکے۔ ظاہر ہے کہ يہ کوئي معمولي مقصد نہيں ہے۔ اس کي پوري وضاحت ايک الگ تفصيلي بحث کي محتاج ہے جس کي آج کے خطاب ميں گنجائش نہيں ہے البتہ آسان لفظوں ميں مختصراً يوں کہہ سکتے ہيں کہ تخليق کائنات کي علّت غائي ايک اعليٰ درجہ کي باشعور ہستي کي پيدائش ہي تھي جو نہ صرف اپني مرضي سے اللہ تعاليٰ کے حسنِ کامل کے سامنے جو تمام کائنات ميں جلوہ گر ہے سر تسليم خم کرے بلکہ بني نوع انسان کي اس حقيقي مقصد کي طرف رہ نمائي بھي کرے يا کم از کم ان لوگوں کے ليے اس راہ پر چلنا ممکن بنا دے جو واقعي اللہ تعاليٰ کي اتباع کرنا چاہتے ہيں۔ اگر کچھ دير کے ليے فرض کر ليا جائے کہ تخليقِ کائنات کا کوئي مقصد نہيں تو اسي لمحہ پيدائش ِکائنات کا جواز ہي ختم ہو جاتا ہے۔ اس حقيقت کو سمجھنے کے ليے ايک سادہ سي مثال دي جا سکتي ہے۔ ايک  پھل دار درخت لگانے، اس کي آبياري، ديکھ بھال اور تراش خراش کا مقصد اس درخت کا پھل ہي تو ہے۔ اگر پھل نہ ہو تو درخت بھي نہ ہو۔ اگر مقصد کا حصول نہ ہو تو پودا لگانے اور اس کي ديکھ بھال اور پرورش کي تمام تر کوششيں فضول اور بے معني ہو کر رہ جاتي ہيں۔ اس لحاظ سے درخت کا وجود جس ميں جڑيں، تنا، شاخيں، پتے اور کونپليں سب شامل ہيں پھل ہي کا مرہون منت ہے۔ اس حقيقت کے باوجود کہ درخت کے يہ سب حصے پھل سے پہلے وجود ميں آئے پھر بھي يہ درخت کي علت غائي يعني پھل ہي کے ممنون ہيں۔ يہ علت غائي اور مقصد ہي کا فيض ہے جس کي وجہ سے تخليق کا عمل جاري و ساري ہے۔ تخليق کے اس مقصد و منتہيٰ يعني انسان اور باقي کائنات کے  باہمي تعلق کي روشني ميں اسلامي تعليمات کا مطالعہ کيا جائے تو يہ معلوم کر کے حيرت ہوتي ہے کہ اسلام صرف اللہ تعاليٰ اور انسان کے تعلق ہي کا احاطہ نہيںکرتا بلکہ انسان کے حيوانات اور جمادات سے تعلق پر بھي محيط ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے کائنات کي ہر چيز مقدس بن جاتي ہے اس ليے نہيں کہ وہ انسان سے اعليٰ ہے بلکہ اس ليے کہ خالقِ کائنات نے خاص طور پر اسے براہ راست يا بالواسطہ انسان کے ليے پيدا کيا ہے۔ اس لحاظ سے کائنات ميں کوئي شَے بھي فضول، بے معني اور الگ تھلگ نہيں رہتي۔ حتيٰ کہ کرۂ ارض سے بعيد ترين فاصلوں پر واقع ستاروں کا وجود بھي بامعني اور بامقصد ہو جاتا ہے اور تخليق کے منصوبہ ميں ان کا مقام واضح ہو جاتا ہے۔

يہي وہ نکتہ ہے جسے قرآن کريم نے بار بار مختلف زاويوں سے بيان کيا ہے…

حضورؒ مزيد فرماتے ہيں:

اللہ تعاليٰ کو چھوڑ کر کوئي امن نصيب نہيں ہو سکتا يہي وہ راز ہے جس کو جانے بغير نہ تو انسان کو اطمينانِ قلب نصيب ہو سکتا ہے اور نہ ہي معاشرہ ميں امن و سکون کي ضمانت دي جا سکتي ہے حقيقي امن اور اطمينان تک لے جانے والا اور کوئي راستہ نہيں ہے۔ اللہ تعاليٰ کي محبت ہي ہے جس کے نتيجہ ميں اس کي مخلوق کا سچا احترام دل ميں پيدا ہو سکتا ہے۔ مخلوق جس قدر اعليٰ درجہ کي ہو گي اسي قدر وہ خالق کے قريب تر ہو گي اور اس کا تعلق اپنے خالق سے اتنا ہي مضبوط تر ہو گا۔ انسان ايک عظيم تر اور اعليٰ ترمقصد کے ساتھ دوسرے انسانوں کا احترام کرنا شروع کر ديتا ہے يعني اپنے خالق کے احترام کي وجہ سے اس پر جو فرض عائد ہوتا ہے اس کے باعث وہ انسانيت کا احترام کرنا شروع کر ديتا ہے۔ خلاصةً يہ کہا جا سکتا ہے کہ يہ اللہ تعاليٰ کي محبت ہے جو اس کي مخلوق کي محبت ميں تبديل ہو جاتي ہے۔ اگر درميان سے اللہ تعاليٰ کي محبت نکال دي جائے تودفعةً انساني تعلقات کا سارا منظر ہي بدل جاتا ہے۔ اللہ تعاليٰ کے نہ ہونے سے جو خلا پيدا ہو گا اسے پُر کرنے کے ليے فوراً انسان کي اَنا سامنے آ جائے گي يہ ايک ناداني کي بات اور بے حد جاہلانہ فلسفہ ہے کہ انسان اللہ تعاليٰ کے بغير رہ سکتا ہے۔

بالآخر دہريت کا نتيجہ صرف يہي نہيں نکلتا کہ بقول شخصے خدا مر جاتا ہے بلکہ اس کے نتيجہ ميں اچانک ہزارہا جھوٹے خدا زندہ ہو جاتے ہيں۔ ہر وہ ذات جو شعور رکھتي ہے آن واحد ميں اپنے زُعم ميں خدا بن جاتي ہے۔ اَنا اور انتہا درجہ کي خود غرضي طاقت پکڑ ليتي ہے اور اس کي حکمراني ہو جاتي ہے۔ ايسے افراد پر مشتمل معاشرہ بھي ہميشہ اَناپرست اور خود غرض رہتا ہے۔ بےلوث ہو کر دوسروں کے ليے نفع رساں بننے کي کوئي منطق ہي باقي نہيں رہتي۔ ايک رحيم و کريم خدا کي شکل ميں کوئي بيروني حوالہ ہي باقي نہيں رہتا جو تمام انواع کي مخلوقات کو باہم متحد رکھنے اور يکجا کرنے کا واحد ذريعہ ہے۔

اس سے بڑھ کر اسلام کا کوئي اَور فلسفہ نہيں ہے۔ اللہ تعاليٰ کي طرف رجوع کيے بغير کوئي فرد حقيقي اطمينان حاصل نہيں کر سکتا اور حقيقي اطمينان کے بغير معاشرہ امن وآشتي کا گہوارہ نہيں بن سکتا۔ قيامِ امن کے ليے تمام ايسي کوششيں جن کا محرک ذاتي اغراض ہوں يقيناً ناکام اور بے نتيجہ رہتي ہيں۔ اگر اللہ تعاليٰ موجود نہيں تو پھر امن بھي نہيں اور اس حقيقت کا شعور ہي دراصل دانائي کا کمال ہے۔

(اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل صفحہ 308تا 314)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button