پیغام حضور انور

ہفت روزہ بدرقادیان کے خصوصی نمبر کی اشاعت کے موقع پر حضور انور کا خصوصی پیغام

پیارے قارئین بدر قادیان

السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ

مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ ہفت روزہ بدر کو ‘‘جماعت احمدیہ کے نقطۂ نظر سے جہاد کی حقیقت ’’ کے موضوع پر ایک خصوصی نمبر شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ہرلحاظ سے بابرکت فرمائے ۔آمین

مجھ سے اس موقع پر پیغام بھجوانے کی درخواست کی گئی ہے۔ میرا پیغام یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت ایسے وقت میں ہوئی جب ہرطرف سے اسلام پر حملے ہورہے تھے۔ غیرمسلم اسلام کو جبر وتشدد اور دہشت پھیلانے والا مذہب قراردے رہے تھے جبکہ مسلمان تلوارکے زورسے اسلام کے پھیلانے کو جہاد اور اسے اسلامی تعلیمات و عقائد کا لازمی جزو قراردے رہے تھے۔ آپ نے جہاں مخالفین اسلام کا دلائل کے ساتھ منہ بند کیا وہاں مسلمانوں کے غلط عقائد کی بھی اصلاح فرمائی۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

‘‘اس تاریکی کے زمانہ کا نورمیں ہی ہوں۔ جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایاجائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لیے تیار کیے ہیں ۔۔۔سو عیسائیوں سے سچی ہمدردی اور سچی محبت اس سے بڑھ کر اورکوئی نہیں کہ اس خداکی طرف ان کو رہبری کی جائے جس کے ہاتھ کی چیزیں اس کو تثلیث سے پاک ٹھہراتی ہیں۔ او رمسلمانوں کے ساتھ بڑی ہمدردی یہ ہے کہ ان کی اخلاقی حالتوں کو درست کیاجائے اوران کی ان جھوٹی امیدوں کوکہ ایک خونی مہدی اور مسیح کا ظاہرہونا اپنے دلوں میں جمائے بیٹھے ہیں جو اسلامی ہدایتوں کی سراسر مخالف ہیں زائل کیا جائے۔ ’’

(مسیح ہندوستان میں ۔روحانی خزائن جلد 15صفحہ 13تا14)

آپ اسلام کے ابتدائی دورکی جنگوں کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

‘‘اسلام میں جبرکو دخل نہیں۔ اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہرنہیں(۱)دفاعی طورپر یعنی بطریق حفاظت خود اختیاری۔(۲)بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون۔(۳) بطورآزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پرقتل کرتے تھے ۔’’

(مسیح ہندوستان میں۔ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 12)

آپ نے سیفی جہاد کے خاتمہ کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ آپ اپنی کتاب ‘‘گورنمنٹ انگریزی اور جہاد’’ میں فرماتے ہیں:‘‘یادرکھیں کہ درحقیقت یہ جہاد کا مسئلہ جیساکہ اُن کے دلوں میں ہے صحیح نہیں ہے اور اس کا پہلا قدم انسانی ہمدردی کا خون کرناہے۔یہ خیال اُن کا ہرگز صحیح نہیں ہے کہ جب پہلے زمانہ میں جہاد روارکھا گیاہے توپھر کیاوجہ ہے کہ اب حرام ہو جائے۔ اس کے ہمارے پاس دوجواب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ خیال قیاس مع الفارق ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کسی پر تلوار نہیں اٹھائی بجز ان لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلواراٹھائی ااور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پرہیزگارمردوں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کیااور ایسے دردانگیز طریقوں سے ماراکہ اب بھی اُن قصوں کو پڑھ کر رونا آتاہے۔ دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کرلیں کہ اسلام میں ایساہی جہادتھا جیساکہ ان مولویوں کا خیال ہے تاہم اس زمانہ میں وہ حکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہرہوجائے گا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہوجائے گا کیونکہ مسیح نہ تلواراٹھائے گااورنہ کوئی اور زمینی ہتھیارہاتھ میں پکڑے گابلکہ اُس کی دعااُس کا حربہ ہوگا اوراُس کی عقد ہمت اُس کی تلوارہوگی وہ صلح کی بنیادڈالے گا۔’’

(روحانی خزائن جلد 17صفحہ8)

حضورعلیہ السلام مزید فرماتے ہیں:‘‘اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کے پا ک کرنے کا جہاد باقی ہے ۔اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خداکایہی ارادہ ہے کہ صحیح بخاری کی اُس حدیث کو سوچو جو جہاں مسیح موعودکی تعریف میں لکھاہے کہ یَضَعُ الْحَرْبَ یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کردے گا۔’’

(روحانی خزائن جلد 17صفحہ15)

آپ اسلام پر موجودہ زمانے کے حملوںکے دفاع کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :‘‘اسلام پرجوحملے ہوتے ہیں وہ قلم کے ذریعہ ہوتے ہیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ قلم ہی کے ذریعہ ان کا جواب دیا جاوے……یہ نری خام خیالی اور بیہودگی ہے جو مخالف تواعتراض کریں اوراس کا جواب تلوارسے ہو۔خداتعالیٰ نے کبھی اس کو پسند نہیں کیا ۔یہی وجہ تھی جو مسیح موعود کے وقت میں اس قسم کے جہادکو حرام کردیا۔’’

(ملفوظات جلد 4صفحہ 372تا374)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیرکبیرمیں فرماتے ہیں :‘‘بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے جہادکے متعلق وہی تعلیم دی ہے جوقرآن کریم نے دی ہے ۔اورآپ کے زمانے میں جس جہادکو ملتوی کیاگیاہے وہ جہاد بالسیف ہے کیونکہ موجودہ زمانہ میں وہ حالات نہیں ہیں جن میں جہاد بالسیف ضروری ہوتاہے لیکن جہاد بالسیف سے زیادہ تاکیدی حکم جہاد بالقرآن کا ہے جس میں آپ ساری عمر مشغول رہے اور جس کی طرف اس آیت میں توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا یعنی قرآن کے ساتھ تم غیرمسلموں کا مقابلہ کرواوریہی بڑاجہاد ہے۔ ’’

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 517)

پس مسئلہ جہاد ایک وسیع مضمون ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت نے مختلف وقتوں میں اس کی جماعتی نقطۂ نظر سے وضاحت کی ہے ۔قارئین کو ان سب کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ پہلے خود اس کا صحیح ادراک حاصل کریں اورپھر دوسروں پر اس کی حقیقت کو آشکارکرسکیں۔اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطافرمائے۔آمین

والسلام

خاکسار

(دستخط)مرزا مسرور احمد

خلیفۃ المسیح الخامس

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button