سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

معجزات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا مختصر تذکرہ (قسط دوم آخر)

(محمد ناصر الدین حامد۔ قادیان)

پنڈت ليکھرام کي عبرت ناک ہلاکت کا معجزہ

پنڈت ليکھرام ايک گندہ دہن ،متعصب اور اسلام سے سخت دشمني رکھنے والا شخص تھا ۔ اسلام کي تضحيک اوراستہزاميںحد سے زيادہ بڑھ گياتھا۔ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کوگالياں ديتا اور قرآن کريم کامذاق اُڑاتاتھا۔اور اس قسم کي زبان درازي کو اپنے حلقہ ٔاحباب ميں بھي بڑے ذوق و شوق سے کيا کرتا تھا اور اکثر دسترخوان پر بيٹھ کر اسلام کو گالياں دينا اس کا محبوب مشغلہ تھا ۔ ايسي بد زبانيوں ميں اس کے آريہ مقتدي بھي شامل تھے۔اصل مسئلہ يہ تھا کہ عام فہم لوگ بنا کسي تحقيق کے اپنا ايک نظريہ قائم کر ليتے ہيں اور ليکھرام جيسے انسان ان کي مزيد گمراہي کا باعث بنتے ہيں۔ جب حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام نے 1887ءميں اپني کتاب‘‘سرمہ چشم آريہ’’شائع فرمائي اور اس کے اندرآريہ واعظوں کے سامنےويداور قرآن کريم کي حيثيت کامقابلہ کرنے کے ليے مباہلہ کي تجويز فرمائي تو ليکھرام جھٹ سامنے آگيا اور حضرت مسيح موعود عليہ السلام سے مباہلہ کر کےآسماني گرفت کے نيچے آگيا۔

اس نے لکھا:‘‘اے پر ميشور!دونوں فريقوں ميںسچا فيصلہ کرکيونکہ کاذب صادق کي طرح تيرے حضور ميں عزت نہيں پاسکتا۔’’

(خبط احمديہ، صفحہ344تا347۔بحوالہ حقيقة الوحي،صفحہ322)

ليکھرام نے نشان کا مطالبہ کرتے ہوئے نہايت شوخي سے لکھا: ‘‘اچھاآسماني نشان تو دکھاديں۔ اگر بحث نہيں کرنا چاہتے تو رب العرش خيرالماکرين سے ميري نسبت کوئي آسماني نشان تو مانگيں تا فيصلہ ہو۔’’(استفتا، صفحہ7)

حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے20؍فروري 1886ء والے اشتہار ميں ليکھرام سے استفسار فرماياکہ اگر اس کے متعلق پيشگوئي ميں کوئي ايساامر ہوجس کے ظاہر کرنے سےاسےرنج پہنچے تو اُسے ظاہر کيا جائے يانہ کياجائے؟اس کے جواب ميں ليکھرام نےبڑي شوخي اور دليري سے لکھا کہ مَيں آپ کي پيشگوئيوں کوواہيات سمجھتاہوں ميرے حق ميں جو چاہو شائع کرو۔ ميري طرف سے اجازت ہےاور ميں کچھ خوف نہيںکرتا۔

ليکھرام کااصرارتھاکہ ميعاد کي قيدکے ساتھ پيشگوئي بتلائي جائے۔ چنانچہ 20؍فروري 1893ءکو بہت توجہ اور دعا اور تضرع کے بعد معلوم ہواکہ آج کي تاريخ سےيعني20؍فروري 1893ءسے چھ برس کے اندرليکھرام پر عذاب شديد جس کے نتيجہ ميںموت ہے نازل کيا جائے گااور اس کے ساتھ يہ عربي الہام ہوا۔

‘‘عِجْلٌ جَسَدٌ لَہٗ خُوَارٌ۔لَہٗ نَصَبٌ وَّعَذَابٌ’’يعني يہ گوسالہ بے جان ہےجس ميں سے مہمل آواز آرہي ہے پس اس کےليے دکھ کي ماراور عذاب ہے۔چنانچہ آپ نے اسي تاريخ 20؍فروري 1893ءکو بذريعہ ايک اشتہارکے ليکھرام کے متعلق يہ پيشگوئي شائع فرمادي۔اس کےصفحہ2اور3پر يہ عبارت قابل توجہ ہے۔آپؑ نے لکھا:‘‘اب ميں اس پيشگوئي کو شائع کر کےتمام مسلمان اور آريوں اور عيسائيوں اور ديگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوںکہ اگراس شخص پرچھ بر س کے عرصہ ميں آج کي تاريخ سے کوئي ايسا عذاب نازل نہ ہوا،جو معمولي تکليفوں سے نرالااورخارق عادت اور اپنے اندر الٰہي ہيبت رکھتا ہوتو سمجھو کہ ميں خدا کي طرف سے نہيں اورنہ اس کي روح سے ميراتعلق ہے۔’’

آپ نے يہ بھي تحرير فرمايا کہ‘‘اب آريوں کو چاہيے کہ سب مل کردعا کريں کہ يہ عذاب ان کے اس وکيل سےٹل جائے۔’’

(مجموعہ اشتہارات، جلد اوّل، صفحہ372تا373)

اب دنيا انتظار کرنے لگي کہ حضرت باني سلسلہؑ کي پيشگوئي کب اور کيسے پوري ہوتي ہے۔ ادھرپنڈت ليکھرام اپني عاقبت سے کليةً لاپروا اپني شوخي اور بد زباني ميں مسلسل بڑھتا چلا گيا۔دوسري طرف خدا کے ملائکہ بڑي تيزي کے ساتھ اس شاتم رسول کواس کي بدزبانيوں اورگستاخيوں کي سزا دينے کے ليےاس کي طرف بڑھتےچلےآرہےتھے۔چنانچہ ابھي پيشگوئي کے پانچويںسال کاپہلا مہينہ يعني مارچ 1897ء شروع ہي ہوا تھاکہ قضاوقدرکي تيز دھارتلوار نے اس کا کام تمام کرديا۔

اس اجمال کي تفصيل يہ ہے کہ ليکھرام ان دنوں لاہورکے محلہ وچھووالي ميںکسي آريہ مہاشہ کے مکان پرايک گلي ميں رہا کرتاتھا۔ 6؍مارچ1897ءہفتہ کے دن ايسا بيان کيا جاتا ہےکہ پنڈت ليکھرام بالائي منزل پر نيم برہنہ ہوکربيٹھاکچھ لکھنے ميں مصروف تھا۔لکھنے سے فارغ ہو کر اُس نےانگڑائي لي جس سے اُس کا پيٹ آگے کو اُبھرآيا۔ايک نوجوان نے جوکچھ عرصہ پہلے اس کے پاس شُدھ ہونے يعني ہندو بننے کےليے آياتھااوراس شام کمبل اوڑھے اس کے پاس ہي بيٹھاتھا۔اس نےايک پورا ہاتھ خنجر کاليکھرام کي توند پرايساچلاياکہ انتڑياں باہر آگئيں۔ليکھرام کے منہ سےبيل کي طرح نہايت زور کي آواز نکلي جس کو سن کراُس کي بيوي اور والدہ اُس کمرے ميںآگئيں مگر قاتل جاچکا تھا۔ليکھرام کو پوليس نے ميوہسپتال لاہور ميں پہنچاياجہاں ايک انگريز سرجن ڈاکٹر پيري، نے اس کي جان بچانے کي انتھک کوشش کي مگر يہ شاتم رسول ساري رات اور اگلے دن کاکچھ حصہ تڑپ تڑپ کرگزارنے کے بعدراہي ملک عدم ہوگيااوراس طرح خدا کے فرستادہ کي پيشگوئي اسلام اور اُس کے مقدس رسول ﷺ کي صداقت پر ہزار سورج روشن کرتي ہوئي بڑي شان اور جلال وہيبت کے ساتھ پوري ہوکرخود آپ کي صداقت اور آپ کے منجانب اللہ ہونے کاايک زبردست نشان بن گئي۔يہ حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام کے معجزات ميں سے زبردست معجزہ جو کہ آپ کي صداقت کے ليے خدا تعاليٰ نے ظاہر کيا اورقتل کرنے والا کون تھا جو کہ باوجود کوششوں کے فرار ہو گيا۔ انسان تھايا خدا کي طرف سے مامور فرشتہ ۔جو بھي تھا يہ بات بہر حال يقيني ہے کہ يہ واقعہ انساني دخل سے بالا ہے۔

پنڈت ليکھرام کي موت پرحضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام نے فرمايا:

‘‘اگرچہ انساني ہمدردي کي رو سے ہميں افسوس ہےکہ اُس کي موت ايک سخت مصيبت اورآفت اور ناگہاني حادثہ کے طور پرعين جواني کے عالم ميںہوئي ليکن دوسرے پہلو کي روسے ہم خداتعاليٰ کا شکر کرتے ہيںجو اُس کے مونہہ کي باتيں آج پوري ہوگئيں۔ہميں قسم ہے اُس خدا کي جو ہمارے دل کو جانتا ہےکہ اگر وہ يا کوئي اورکسي خطرۂ موت ميں مبتلا ہوتا اور ہماري ہمدردي سے وہ بچ سکتاتوہم کبھي فرق نہ کرتے … يہ خداتعاليٰ کي طرف سے ايک عظيم الشان نشان ہے کيونکہ اُس نے چاہاکہ اُس کے بندہ کي تحقيرکرنے والےمتنبہ ہوجائيں۔’’

(مجموعہ اشتہارات، جلد2، صفحہ336تا337)

 ڈاکٹر جان اليگزنڈر ڈوئي کا عبرت ناک انجام

25؍مئي1847ء ميںEdinburgh, Scotlandميں ڈوئي کي پيدائش ہوئي۔بچپن ميں اپنے والدين کے ساتھ آسٹريليا چلے گئےجہاں1872ء کے قريب وہ ايک کامياب مقرر اور پادري کي حيثيت سے پبلک کے سامنے آئے۔اب غور کرنے والي بات يہ ہے کہ نبيوں کے دشمن جن کو نشانِ عبرت     بنايا جاتا ہے پبلک ميں ايک مقام رکھتے ہيں جيسا کہ نبي اکرمﷺ کا سخت مخالف ابو جہل کسي زمانے ميں ‘ابو الحکم ’کے لقب سے جانا جاتا تھا۔حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے مقابلہ پر آنے والے بھي بڑے بڑے اشخاص تھے ليکن وہ بات اور ہے کہ ان کو ان کے تعصب نے حقيقت سے محروم کرديا اور وہ آنے والوں کے ليے عبرت کا معجزانہ نشان بن گئے۔

خاکسار ڈوئي کے واقعہ کي طرف رجوع کرتا ہے،کچھ عرصہ بعد اس نے يہ اعلان کياکہ يسوع مسيح کے کفارہ پر ايمان لانے سےبيماروں کوشفا دينے کي قوت پيدا ہو جاتي ہے۔اور يہ طاقت اس زمانے ميں اس کو بھي عطا کي گئي ہے۔ 1888ء ميںوہ امريکہ کي نئي دنياميںاپنے خيالات پھيلانے کےليے سان فرانسسکوآگيا۔سان فرانسسکو کے قرب وجواراور دوسري مغربي رياستوں ميں کامياب جلسے کرنے کے بعداس نے 1893ء ميں شکاگو ميں اپني خاص سرگرمياں شروع کرديں  اور ‘‘زائن پرنٹنگ پبلشنگ ہاؤس’’کھولانيزايک اخبار‘‘Leaves of Healing’’کے نام سے جاري کيا۔تھوڑے ہي عرصہ ميںامريکہ کے طول وعرض ميںاسے بڑي شہرت حاصل ہوگئي اوراس کے ماننے والوں کي تعداد ميں تيزي سے اضافہ ہونے لگا۔ڈوئي نےيہ کاميابي ديکھ کر22؍فروري1896ءکو ايک نئے فرقہ کي بنياد رکھي اور اس کا نام‘‘کرسچن کيتھولک چرچ’’رکھا۔ بعد ازاں اس نے پيغمبري کا دعويٰ کيا اور اس فرقہ کو ‘‘کرسچن کيتھولک اباسٹک چرچ’’کانام دے ديا ۔

ڈوئي شروع ہي سے اسلام اور محمد ﷺ کاسخت دشمن تھا۔وہ آنحضرتﷺ کو (معاذ اللہ)کاذب اور مفتري خيال کرتاتھا۔اور اپني خباثت سے گندي گالياں اور فحش کلمات سے حضور ؐکو يادکرتا تھا۔جب ڈوئي اپني شوخيوں اوربے باکيوں ميں بہت بڑھ گياتوحضرت مسيح موعود عليہ السلام نےستمبر1902ءکو ايک مفصل اشتہار لکھاجس ميں حضورؑ نےتثليث پرستي پر تنقيد کرنےاور اپنے دعويٰ مسيحيت کا تذکرہ کرنے کے بعد تحرير فر مايا:

‘‘حال ميں ملک امريکہ ميںيسوع مسيح کا ايک رسول پيدا ہوا ہے جس کا نام ڈوئي ہے۔ اس کا دعويٰ ہے کہ يسوع مسيح نے بحيثيت خدادنيا ميں اُس کو بھيجاہے تا سب کو اس بات کي طرف کھينچےکہ بجز مسيح کےاور کوئي خدا نہيں …اور بارباراپنے اخبار ميں لکھتا ہےکہ اس کے خدايسوع مسيح نے اس کو خبر دي ہےکہ تمام مسلمان تباہ اور ہلاک ہوجائيں گےاوردنيا ميں کوئي زندہ نہيں رہے گا بجزاُن لوگوں کے جو مريم کے بيٹے کوخدا سمجھ ليںاورڈوئي کو اس مصنوعي خدا کارسول قرار ديں۔سو ہم ڈوئي صاحب کي خدمت ميں بادب عرض کرتے ہيںکہ اس مقدمہ ميں کروڑوں مسلمانوں کومارنے کي کيا حاجت ہے ايک سہل طريق ہےجس سے اس بات کا فيصلہ ہو جائے گاکہ آياڈوئي کا خدا سچاہےيا ہمارا خدا۔ وہ بات يہ ہے کہ ڈوئي صاحب تمام مسلمانوںکو باربار موت کي پيشگوئي نہ سنا ئيں بلکہ ان ميں سے صرف مجھےاپنے ذہن کے آگے رکھ کريہ دعا کرديںکہ ہم دونوں ميں سےجو جھوٹا ہےوہ پہلے مرجائے کيونکہ ڈوئي يسوع مسيح کو خدا مانتا ہےمگر ميںاس کو ايک بندہ عاجزمگر نبي مانتا ہوں۔اب فيصلہ طلب امر يہ ہےکہ دونوں ميں سے سچا کون ہے۔ڈوئي کوچاہيے کہ اس دعا کو چھاپ دےاور کم سے کم ہزار آدمي کي اس پر گواہي لکھے اور جب وہ اخبار شائع ہوکر ميرے پاس پہنچے گي تب ميں بھي بجواب اس کےيہي دعا کروں گااورانشاءاللہ ہزار آدمي کي گواہي لکھ دوں گااور ميں يقين رکھتا ہوںکہ ڈوئي کے اس مقابلہ سے اور تمام عيسائيوں کے ليے حق کي شناخت کےليےراہ نکل آئے گي۔ميں نے ايسي دعا کےليے سبقت نہيں کي بلکہ ڈوئي نے کي۔ اس سبقت کو ديکھ کر غيور خدا نےمير ے اندر يہ جوش پيدا کيا اور ياد رہے کہ ميں اس ملک ميں معمولي انسان نہيں ہوں۔ميں وہي مسيح موعود ہوں جس کا ڈوئي انتظار کر رہا ہے۔صرف يہ فرق ہے کہ ڈوئي کہتا ہے کہ مسيح موعود پچيس برس کے اندر پيدا ہوجائے گااور ميں بشارت ديتا ہوں کہ وہ مسيح پيدا ہوگيااور وہ ميں ہي ہوں۔ صدہا نشان زمين سے اور آسمان سے ميرے ليے ظاہر ہوچکے۔ ايک لاکھ کے قريب ميرے ساتھ جماعت ہےجو زور سے ترقي کررہي ہے۔’’(اشتہار ستمبر 1902ء)

نيز بڑي تحدي سے تحرير فرماياکہ ڈوئي اپنے دعويٰ رسول اور تثليث کے عقيدہ ميںجھوٹا ہے اگر وہ مجھ سے مباہلہ کرےتو ميري زندگي ميں ہي بہت حسرت اور دکھ کے ساتھ مرے گا اور اگر مباہلہ نہ بھي کرےتب بھي وہ خدا کے عذاب سےبچ نہيں سکتا۔

چنانچہ اب امريکہ کے لوگ اور اخبارات يہ انتظار کرنے لگےکہ ڈوئي اس چيلنج کاکياجواب ديتا ہے۔مگر جب اس بات پر کچھ عرصہ گزرگيا اور ڈوئي کے اندر نہ اخباري تبصروں سے کوئي حرکت پيداہوئي اور نہ اس نےحضرت بانئ سلسلہ کي چٹھيوں کا کوئي جواب دياتو آپ نے اپنا وہي مضمون مباہلہ بعض اہم اضافوںکے ساتھ امريکہ اور يورپ کے اخبارات ميں دوبارہ ارسال فر مايا جس ميں آپ نے ايک تويہ تحرير فرمايا کہ اب تک ڈوئي نےميري درخواستِ مباہلہ کا کچھ جواب نہيں ديا۔اس ليے ميں آج کي تاريخ سےجو23؍ اگست 1903ءہے، اسے پورے سات ماہ کي اَور مہلت ديتا ہوں اگر وہ اس مہلت ميںميرے مقابل پر آگياتو … جلد تر دنياديکھ لے گي کہ اس مقابلہ کا کيا انجام ہوگا۔ميں عمر ميں ستر برس کے قريب ہوںاوروہ جيسا کہ بيان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے …ليکن ميں نےاپني بڑي عمرکي کچھ پرواہ نہيںکي کيونکہ اس مباہلہ کافيصلہ عمروں کي حکومت سے نہيں ہوگابلکہ وہ خدا جو زمين آسمان کا مالک اور احکم الحاکمين ہے،وہ اس کا فيصلہ کرے گا۔

(اشتہار انگريزي، مورخہ 23؍اگست1903ء)

آپ کے اس اشتہار کا امريکي اور يورپي اخباروں ميں خوب خوب چرچا ہوا۔حضرت اقدس عليہ السلام کے اس اشتہار کےجواب ميںڈوئي ميدان مقابلہ ميں آگيااور26؍دسمبر 1903ءکواپنے اخبار ميں لکھاکہ لوگ مجھے بعض اوقات کہتے ہيںکہ کيوں تم فلاں فلاں بات کاجواب نہيں ديتے!کيا تم خيال کرتے ہو کہ ميں کيڑوں مکوڑوں کوجواب دوںگا۔اگر ميں اپنا پاؤں ان پر رکھوںايک دم ميں ان کوکچل سکتا ہوں۔مگر ميں ان کو موقع ديتا ہوں کہ ميرے سامنے سے دور چلے جائيںاور کچھ دن اَور زندہ رہ ليں۔

12؍دسمبر1903ء کو لکھا ‘‘اگر ميں خدا کي زمين پرخدا کا پيغمبر نہيں تو پھر کوئي بھي نہيں۔’’

اس کے معاً بعداس نے27؍دسمبر 1903ء کے اخبار ميںنہايت بد زباني سےحضور کے ليے ‘‘بيوقوف محمدي مسيح ’’کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے لکھا:

‘‘ہندوستان ميں ايک بيوقوف شخص ہے جو محمدي مسيح ہونے کادعويٰ کرتا ہے۔ وہ مجھے بار بار لکھتا ہے کہ حضرت عيسيٰ کشمير ميںمدفون ہےجہاں ان کا مقبرہ ديکھا جا سکتا ہےوہ يہ نہيں کہتاکہ اس نے خود وہ(مقبرہ)ديکھا ہےمگر بيچارہ ديوانہ اورجاہل شخص پھر بھي يہ بہتان لگا تا ہےکہ حضرت مسيح ہندوستان ميں فوت ہوئے۔ واقعہ يہ ہےکہ خداوندمسيح بيت عتياہ کے مقام پر آسمان پر اُٹھايا گياجہاںوہ اپنے سماوي جسم ميں موجود ہے۔’’

پھر23؍جنوري 1904ءکو مسلمانوں کي تباہي کي پيشگوئي دہراتے ہوئے لکھا ‘‘سينکڑوں ملين مسلمان جواس وقت ايک جھوٹے نبي کےقبضہ ميںہيں انہيں يا تو خداکي آواز سنني پڑے گي يا وہ تباہ ہو جائيں گے۔’’

حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي پيشگوئي کے مطابق ڈوئي کے خدا ئي قہر کي زد ميں آنے کي اولين صورت خود اس کے ہاتھوںيہ پيدا ہوئي کہ اس کي پيدائش ناجائز نکلي اور وہ ولد الحرام ثابت ہوا۔يہ حقيقت اخبار‘‘نيويارک ورلڈ’’کے ذريعہ منکشف ہوئي جس نے ڈوئي کے وہ خطوط شائع کيے جواس نے اپنے باپ‘‘جان مرے ڈوئي ’’کو اپني ناجائز ولديت کے بارے ميں لکھےتھے۔جب ملک ميں اس امر کا چرچا عام ہونے لگاتو خود ڈاکٹر جان اليگزنڈر ڈوئي نے 25؍ ستمبر1904ءکو اعلان کياکہ وہ چونکہ ڈوئي کا بيٹا نہيں اس ليےڈوئي کالفظ اس کے نام کے ساتھ ہرگز استعمال نہ کيا جائے۔

اس اخلاقي موت کے ايک سال کے بعد يکم اکتوبر 1905ء کواس پر فالج کا شديد حملہ ہوا۔ابھي اس کےاثرات چل رہے تھےکہ 19؍دسمبر 1905ءکو اس پر دوبارہ فالج گرا اور وہ اس سخت بيماري سے لا چار ہو کرصيحون سے ايک جزيرہ کي طرف چلاگيا۔

جونہي ڈوئي نے صيحون سے باہر قدم رکھااس کے مريدوں کو تحقيقات سے معلوم ہواکہ وہ ايک نہايت ناپاک اورسياہ کار انسان ہے وہ مريدوںکو شراب پلايا کرتاتھا۔چنانچہ اس کے ذاتي کمرےسے شراب بر آمد ہوئي۔ يہ بھي معلوم ہواکہ اس کے تعلقات بعض کنواري لڑکيوںسے تھے۔قر يباً85 لاکھ روپےکي اس کي خيانت بھي ثابت ہوئي کيونکہ يہ روپيہ صيحون کے حساب ميں سے کم تھا۔يہ بھي ثابت ہواکہ ايک لاکھ سے زيادہ روپيہ اُس نےصرف بطور تحائف صيحون کي خوبصورت عورتوں کو دے ديا تھا۔ ان الزامات سے ڈوئي اپني بريت ثابت نہ کر سکا۔1906ءکوڈوئي کي کيبنٹ کے نمائندوں کي طرف سے ڈوئي کوتار ديا گيا کہ ہم تمہاري بجائے والوا کي قيادت کو تسليم کرتےہيں اور تمہاري منافقت،جھوٹ، غلط بيانيوں،فضول خرچيوں،مبالغہ آميزيوں اور ظلم و استبداد کے خلاف زبردست احتجاج کرتے ہيں۔اس تار ميں اسے متنبہ کياگيا کہ اگر اس نے نئے انتظام ميں کوئي مداخلت کي تو اس کے تمام اندروني رازوں کا پردہ چاک کر ديا جائے گا اور اس کے خلاف قانوني چارہ جوئي کي جائے گي۔

بالآخرڈوئي 9؍مارچ 1907ءکي صبح کوبڑے دکھ اور حسرت کے ساتھ دنيا سےکوچ کر گيا اور خدا کے مقدس مسيح موعود کے يہ الفاظ‘‘کہ وہ ميرے ديکھتے ديکھتے اس دنيا فاني کو چھوڑ دے گا ’’عبرت ناک رنگ ميں پورے ہوگئے۔

 ڈوئي کي موت پر يورپ کے اخبارات نے اداريے لکھے اور کھلے بندوں اس امر کا اعتراف کيا کہ ڈوئي کي موت حضرت مرزا غلام احمد قادياني عليہ السلام کي پيشگوئي کے عين مطابق واقع ہوئي ہےاور يہ کہ اس کي موت محمدي مسيح کي فتح اور ڈوئي کي شکست ہے۔

پھرحضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام نے اپني کتاب ‘‘انجام آتھم’’ميں ايسے تمام علماء ،گدّي نشينوںاور پيروں کو جو آپ کي توہين، اور تکفير کرتے تھےمباہلہ کي دعوت دي۔ دعوت مباہلہ ميں آپؑ نے فرمايا کہ

‘‘اور يوں ہو گا کہ تاريخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد ميں ان تمام الہامات کے پرچہ کو جو لکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ ميں لے کر ميدان مباہلہ ميں حاضر ہوں گا اور دعا کروں گا کہ يا الٰہي اگر يہ الہامات جو ميرے ہاتھ ميں ہيں ميرا افترا ہے اور تو جانتا ہےکہ ميں نے ان کو اپني طرف سے بنا ليا ہے يا اگريہ شيطاني وساوس ہيں اور تيرےالہام نہيں تو آج کي تاريخ سے ايک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے۔ يا کسي ايسے عذاب ميں مبتلا کر جوموت سے بد تر ہو اور اس سے رہائي عطا نہ کر جب تک کہ موت آجائے۔…ليکن اے خدائے عليم وخبير اگر تو جانتا ہے کہ يہ تمام الہامات جو ميرے ہاتھ ميں ہيں تيرے ہي الہام ہيں۔اور تيرے ہي منہ کي باتيں ہيں۔ تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہيں ايک سال کے عرصہ تک نہايت سخت دکھ کي مار ميں مبتلا کر۔کسي کو اندھا کر دے اور کسي کو مجذوم اور کسي کومفلوج اور کسي کومجنون اور کسي کومصروع اورکسي کوسانپ ياسگِ ديوانہ کاشکار بنا۔اور کسي کے مال پرآفت نازل کراور کسي کي جان پراور کسي کي عزت پر…

گواہ رہ اے زمين اور اے آسمان کہ خدا کي لعنت اس شخص پرکہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ ميں حاضر ہوا اور نہ تکفير اور توہين کو چھوڑےاور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کي مجلسوںسے الگ ہو۔’’

(انجام آتھم،روحاني خزائن جلد11، صفحہ65تا67)

حضرت مسيح موعودعليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں:

‘‘يہ ان لوگوں کي غلطي ہے ۔اور سراسر بدقسمتي ہے کہ ميري تباہي چاہتے ہيں۔ميں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقيقي نےاپنے ہاتھ سے لگايا ہے جوشخص مجھے کاٹناچاہتاہے اِس کانتيجہ بجز اس کے کچھ نہيںکہ وہ قارون اور يہودا اسکر يوطي اور ابوجہل کے نصيب سے کچھ حصہ لينا چاہتاہے…اے لوگو! تم يقيناً سمجھ لو کہ ميرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخير وقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاري عورتيں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اورتمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر ميرے ہلاک کرنے کےليے دعائيں کريں يہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائيں اورہاتھ شل ہوجائيں تب بھي خدا ہرگز تمہاري دعا نہيں سنے گا اور نہيں رُکے گاجب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کر لے۔’’

(روحاني خزائن، جلد 17،ضميمہ تحفہ گولڑويہ، صفحہ 49تا50)

پنجاب ميں طاعون کا پھيلنا اور جماعت احمديہ کے افراد کا معجزانہ طور پر اس سے محفوظ رہنا

 6؍ فروري1898ء کو حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے خواب ميں ديکھا کہ

‘‘خدا تعاليٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات ميں سياہ رنگ کے پودے لگا رہے ہيں اور وہ درخت نہايت بد شکل اور سياہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہيں ۔ميں نے بعض لگانے والوں سے پو چھا کہ يہ کيسے درخت ہيں؟ تو انہوں نے جواب ديا کہ‘‘يہ طاعون کے درخت ہيں جو عنقريب ملک ميں پھيلنے والي ہے ۔’’ميرے پر يہ امر مشتبہ رہا کہ اس نے يہ کہا کہ آئندہ جاڑے ميں يہ مرض بہت پھيلے گا يا يہ کہا کہ اس کے بعد کے جاڑے ميں پھيلے گا ليکن نہايت خوفناک نمونہ تھا جو ميں نے ديکھا۔ اور مجھے اس سے پہلے طاعون کے بارہ ميں الہام بھي ہوا اور وہ يہ ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ اِنَّہٗ اٰوَي الْقَرْيَةَ يعني جب تک دلوں کي وبا اور معصيّت دور نہ ہو تب تک ظاہر ي وبا بھي دور نہيں ہو گي…۔

(ايام الصلح ، روحاني خزائن، جلد14،صفحہ 361)

 حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے ايک اشتہار شائع فرماياجس ميں طاعون کے متعلق پيشگوئي شائع کي اور لوگوں کو طاعون کي وبا سے بچنے کےليے حفظ ماتقدم کے طور پر صحت کے اصولوں کو اپنانے کي نصيحت فرمائي۔ اس اشتہار کا نکلنا تھا کہ مکذبين اور مکفرين کو استہزا کا ايک موقع ہاتھ آگيا کيونکہ جس وقت حضور ؑنے اشتہار شائع فرمايا اس وقت پنجاب ميں طاعون کا نام و نشان بھي نہيں تھا ۔اخبارات نے بھي ہنسي اڑائي ۔چنانچہ پيسہ اخبار نے جو اس وقت لاہور کے چوٹي کے اخبارات ميں شمار ہوتا تھا لکھا کہ مرزا اسي طرح لوگوں کو ڈرايا کرتا ہے۔ ديکھ لينا خود اسي کو طاعون ہو گا ۔

اب جبکہ ملک ميں طاعون پھوٹ پڑا اور کہيں کہيں اس سے موتيں ہونا شروع ہو گئيں تو حضورؑ نے از راہ ہمدردي پھر ايک اشتہار ‘‘طاعون’’کے عنوان سے شائع فرمايا ۔جس ميں26؍  فروري 1898ء کي پيشگوئي کو ياد دلانے کے بعد لکھا :

‘‘سو اے عزيزو!اس غرض سے پھر يہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ سنبھل جائواور خدا سے ڈرو اور ايک پاک تبديلي دکھلائو،تا خدا تم پر رحم کرے اور وہ بلا جو بہت نزديک آگئي ہے۔ خدا اس کو نابود کرے ۔اے غافلو! يہ ہنسي اور ٹھٹھے کا وقت نہيں ہے ۔يہ وہ بلا ہے جو آسمان سے آتي ہے اور صرف آسمان کے خدا کے حکم سے دور ہوتي ہے …ميں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ايک شہر جس ميں مثلاً دس لاکھ کي آبادي ہو، ايک بھي کامل راستباز ہو گا تب بھي يہ بلا اس شہر سے دفع کي جائے گي ۔پس اگر تم ديکھو کہ يہ بلا ايک شہر کو کھاتي جاتي ہے اور تباہ کرتي جاتي ہے تو يقيناً سمجھو کہ اس شہر ميں ايک بھي کامل راستباز نہيں…جب يہ بلا ايک کھا جانے والي آگ کي طرح کسي شہرميں اپنا منہ کھولے تو يقين کر و کہ وہ شہر کامل راستبازوں کے وجود سےخالي ہے۔ تب اس شہر سے جلد نکلو يا کامل توبہ اختيار کر و ۔’’

(مجموعہ اشتہارات ، جلد3،صفحہ 402، اشتہار17؍ مارچ1901ء)

 حضرت مسيح موعود عليہ السلام کو خدا تعاليٰ نے يہ بات بھي واضح الہام ميں بتا دي تھي کہ تيرے گھر کي چارديواري ميں رہنے والوں کي ميں حفاظت کروں گا اور وہ چار ديوار صرف جسماني نہيں بلکہ روحاني بھي ہے يعني حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي مبارک جماعت ۔ اس کے بعد حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے ‘‘کشتي نوح’’کے نام سے ايک رسالہ شائع فرمايا جس ميں آپؑ نے اپني جماعت کے افراد کو يہ نصيحت فرمائي کہ اگر وہ خدا کے غضب سے بچنا چاہتے ہيں تو اس الٰہي سلسلہ ميں حقيقي معنوں ميں شامل ہو جائيں کيوں کہ محض زباني دعاوي انسان کو خداکے غضب سے نہيں بچا سکتے ۔

حضرت مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں:

‘‘واضح رہے کہ صرف زبان سے بيعت کا اقرار کرنا کچھ چيز نہيں ہے جب تک دل کي عزيمت سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو پس جو شخص ميري تعليم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس ميرے گھر ميں داخل ہو جاتا ہے جس کي نسبت خدا تعاليٰ کي کلام ميں يہ وعدہ ہے اِنِّيْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ يعني ہر ايک جو تيرے گھر کي چارديوار کے اندر ہے ميں اس کو بچاؤں گا اس جگہ يہ نہيں سمجھنا چاہيے کہ وہي لوگ ميرے گھر کے اندر ہيں جو ميرے اس خاک و خشت کے گھر ميں بودوباش رکھتے ہيں بلکہ وہ لوگ بھي جو ميري پوري پيروي کرتے ہيں ميرے روحاني گھر ميں داخل ہيں۔’’(کشتي نوح روحاني خزائن جلد 19صفحہ 11)

خدا تعاليٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کا وقت آيا اور بالآخر جيسا کہ اللہ تعاليٰ نے آپ ؑ کو بتايا تھا اگلے ہي جاڑے ميں جالندھر اور ہوشيار پور کے اضلاع ميں طاعون کي بيماري پھوٹ پڑي اور يہ بيماري اس قدر پڑي کہ گورنمنٹ کو اس کي روک تھام کےليے انتظام کرنا مشکل ہو گيا۔ قاديان ميں بھي انسداد طاعون کےليے ايک جلسہ کيا گيا جس ميں گورنمنٹ کي احتياطي تدابير کو سراہا گيا ۔طاعون زدہ مريضوں کے ليے حضور نے ايک دوائي تيار فرمائي جس کا نام ‘‘ترياق الٰہي’’رکھا اور طاعون کي گلٹي اور زخم پر لگانے کے ليے ايک دوا تيار فرمائي جس کا نام‘‘مرہم عيسيٰ’’ رکھا ۔

حضرت خليفة المسيح الثاني ؓ اس طاعون کي ہولناکيوںاور پھر حضورؑکي اس پيشگوئي کے عظيم الشان رنگ ميںپورا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں :

‘‘طاعون کي ابتدا گو بمبئي سے ہوئي تھي اور قياس چاہتا تھا کہ وہيں اس کا دورہ سخت ہونا چاہيے مگر وہ تو پيچھے رہ گيا اور پنجاب ميں طاعون نے اپنا ڈيرہ لگا ليا اور اس سختي سے حملہ کيا کہ بعض دفعہ ايک ايک ہفتے ميں تيس تيس ہزار آدميوں کي موت ہو ئي اور ايک ايک سال ميں کئي کئي لاکھ آدمي مر گئے ۔سينکڑوں ڈاکٹر مقرر کيے گئے اور بيسيوں قسم کے علاج نکالے گئے مگرکچھ فائدہ نہ ہوا ۔ہر سال طاعون مزيد شدت اور سختي کے ساتھ حملہ آور ہوئي اور گورنمنٹ منہ ديکھتي کي ديکھتي رہ گئي اور بہت سے لوگوں کے دلوں نے محسوس کيا کہ يہ عذاب مسيح موعودؑ کے انکار کي وجہ سے ہے اور ہزاروں نہيں بلکہ لاکھوں آدميوں نے اس قہري نشان کو ديکھ کر صداقت کو قبول کيا اور اللہ تعاليٰ کے مامور پر ايمان لائے اور اس وقت تک طاعون کے زور ميں کمي نہ ہوئي جب تک اللہ تعاليٰ نے اپنے مامور کو نہ بتايا کہ طاعون چلي گئي بخار رہ گيا ۔اس کے بعد طاعون کا زورٹوٹنا شروع ہو گيا اور برابر کم ہوتي چلي گئي …ميرے نزديک يہ پيشگوئي ايسي واضح اور مومن کافر سے اپني صداقت کا اقرار کرانے والي ہے کہ اس کے بعد بھي اگر کوئي شخص ضد کرتا ہے تو اس کي حالت نہايت قابل رحم ہے ۔’’

(دعوة الامير، صفحہ311)

شديد زلزلہ کي پيشگوئي

سيدنا حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے انذاري پيشگوئيوں ميں زلزلوں کي پيشگوئياں بھي کي ہيں۔ ايک زلزلہ جو پنجاب ميں 4؍اپريل1905ءکو آيا اوراس کے ذريعہ سے کل اديان کے پيروئوں پر صداقت اسلام اور صداقت مسيح موعودعليہ السلام کے متعلق حجت قائم ہوئي، اس کے متعلق حضرت اقدس عليہ السلام نے يہ الہام شائع کيے تھے ۔‘‘زلزلہ کا دھکا ’’عَفَتِ الدِّيَارُ مَحَلُّھَا وَ مَقَامُھَا۔

(روحاني خزائن، جلد21،ضميمہ براہين احمديہ حصہ پنجم،صفحہ248)

يعني ايک خطرناک زلزلہ آئے گا جس سے لوگوں کي مستقل سکونت کے مکانات بھي تباہ ہوجائيں گے اور عارضي سکونت کے کيمپ بھي تباہ ہو جائيں گے ۔

زلزلہ سے کچھ عرصہ قبل حضرت اقدس مسيح موعودعليہ السلام نے ايک اشتہار شائع کيا جس ميں آپ ؑ لکھتے ہيں کہ

‘‘اب ميں ديکھتا ہوں کہ وہ وقت بہت قريب آگيا ہے۔ ميں نے اس وقت جو آدھي رات کے بعد چار بج چکے ہيںبطور کشف ديکھا ہے کہ دردناک موتوں سے عجيب طرح پر شور قيامت برپا ہےميرے منہ پر يہ الہام الٰہي تھا کہ موتا موتي لگ رہي ہے کہ ميں بيدار ہو گيا اور اسي وقت جو ابھي کچھ حصہ رات کاباقي ہے،ميں نے يہ اشتہار لکھنا شروع کيا ۔دوستو!اٹھو اور ہوشيار ہو جائو کہ اس زمانہ کي نسل کےليے نہايت مصيبت کا وقت آگيا ہے ۔اب اس دريا سے پار ہونے کےليے بجز تقويٰ کے اور کوئي کشتي نہيں ۔’’

(مجموعہ اشتہارات، جلد3،صفحہ 515)

ان الہامات کے شائع کرنے کے ايک عرصہ بعد جبکہ کسي کو وہم وگمان بھي نہيں تھا، کانگڑے کي خاموش پہاڑي جنبش ميں آئي اور 4؍ اپريل1905ء کي صبح کے وقت جبکہ لوگ نمازوں سے فارغ ہوئے ہي تھے اس نے سينکڑوں ميل تک زمين کو ہلا ديا ۔کانگڑہ اور اس کے مندر اور اس کي سرائيں برباد ہو گئيں۔ آٹھ ميل پر دھرم سالہ کي چھائوني تھي اس کي بيرکيں زمين بوس ہو گئيں اور ان کوٹھيوں کي جو موسم گرما ميں انگريزوں کي سکونت کےليے تھيں اينٹ سے اينٹ بج گئي ۔ڈلہوزي اور بکلوہ کي چھائونيوں کي عمارتيں بھي ٹکڑے ٹکڑے ہوگئيں۔ ديگر شہروں اور ديہات کو بھي سخت صدمہ پہنچا اور بيس 22؍ہزار آدمي اس زلزلے سے موت کا شکار ہوئے ۔يہ خدا کے فرستادہ کي بے جا مخالفت اور ہنسي ٹھٹھے کا نتيجہ تھا کہ خدا تعاليٰ نے آپؑ کي شان کو قائم رکھنے کے ليے اپنے وعدہ کے مطابق آپ کي صداقت ميں يہ معجزہ ظاہر فرمايا۔

قبوليت دعا کے چندمعجزات

حضرت مسيح موعودؑکے معجزات ميں سے قبوليت دعا کے معجزات کا شمار کرنا ممکن نہيں۔آپ کي دعاؤں کوکثرت سے  شرف قبوليت بخشي گئي ۔يہ قبوليت کے تمام واقعات آپؑ کي صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہيں۔

آپ عليہ السلام قبوليت دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں:

‘‘يہ بالکل سچ ہے کہ مقبولين کي اکثر دعائيں منظور ہوتي ہيں بلکہ بڑا معجزہ ان کا استجابت دعا ہي ہے۔جب ان کے دلوں ميں کسي مصيبت کے وقت شدت سے بے قراري ہوتي ہے اور اس شديد بے قراري کي حالت ميں وہ اپنے خدا کي طرف توجہ کرتے ہيں تو خدا اُن کي سنتا ہے اور اس وقت ان کا ہاتھ گو يا خدا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ خدا ايک مخفي خزانہ کي طرح ہے کامل مقبولين کے ذريعہ سے وہ اپنا چہرہ دکھلاتاہے۔ خدا کے نشان تبھي ظاہر ہوتے ہيں جب اس کے مقبول ستائے جاتے ہيں اور جب حد سے زيادہ اُن کو دُکھ ديا جاتاہے تو سمجھو کہ خدا کا نشان نزديک ہے بلکہ دروازہ پر کيونکہ يہ وہ قوم ہے کہ کوئي اپنے پيارے بيٹے سے ايسي محبت نہيں کرے گا جيساکہ خدا ان لوگوں سے کر تاہے جو دل و جان سے اس کے ہو جاتے ہيں وہ ان کے ليے عجائب کام دکھلاتا ہے اور ايسي اپني قوت دکھلاتا ہے کہ جيسا ايک سوتا ہوا شير جاگ اٹھتا ہے۔ خدا مخفي ہے اور اس کے ظاہر کرنے والے يہي لوگ ہيں، وہ ہزاروں پردوں کے اندر ہے اوراس کا چہرہ دکھلانے والي يہي قوم ہے۔’’

(حقيقة الوحي ،روحاني خزائن جلد22صفحہ20تا21)

آپؑ کي قبوليت دعا کے ايک نشان کا آپؑ ہي کےالفاظ ميں ذکر کر کے خاکسار اس مضمون کو ختم کرتا ہے۔ آپؑ نے فرمايا:

‘‘سردار نواب محمد علي خان صاحب رئيس ماليرکوٹلہ کا لڑکا عبد الرحيم خان ايک شديد محرقہ تپ کي بيماري سے بيمار ہو گيا تھا اور کوئي صورت جان بري کي دکھائي نہ ديتي تھي گويا مردہ کے حکم ميں تھا ۔اس وقت ميں نے اس کے ليے دعا کي تو معلوم ہوا کہ تقدير مبرم کي طرح ہے تب ميں نے جناب الٰہي ميں عرض کي کہ يا الٰہي ميں اس کے ليے شفاعت کرتا ہوں۔اس کے جواب ميں خدا تعاليٰ نے فرمايا مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلَّا بِإِذْنِہِ يعني کس کي مجال ہے کہ بغير اذن الٰہي کے کسي کي شفاعت کر سکے تب ميں خاموش ہو گيا بعد اس کے بغير توقف کے يہ الہام ہوا اِنَّکَ اَنْتَ الْمَجَاز يعني تجھے شفاعت کرنے کي اجازت دي گئي ہے تب ميں نے بہت تضرع اور ابتہال سے دعا کرني شروع کي تو خدا تعاليٰ نے ميري دعا قبول فرمائي اور لڑکا گويا قبر سے نکل کرباہر آيا اور آثار صحت ظاہر ہوئے اور اس قدر لاغر ہو گيا تھا کہ مدت دراز کےبعد وہ اپنے اصلي بدن پر آيااور تندرست ہو گيا اور زندہ موجود ہے۔’’

(روحاني خزائن جلد 22حقيقة الوحي صفحہ 229)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button