پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

{2019ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب}

مجرمانہ کردار رکھنے والا ملا ايک احمدي طالبعلم کو گرفتار کروانے ميں سرگرم

لاہور 12؍نومبر2019ء:ملا حسن معاويہ کي درخواست پرFIAنے چھاپہ مار کر جامعہ احمديہ کے ايک طالبعلم وقار احمد کو گرفتار کر ليا۔اس کے علاوہ استاد جامعہ احمديہ مکرم اظہر منگلا اور پرنسپل جامعہ احمديہ مکرم سيد مبشر اياز کو بھي ايف آئي آر ميں نامزد کيا گيا ہے ۔

اس کيس کي ايف آئي آر نمبر 152/2019تھانہ سائبر کرائم  ونگ لاہور ميں  298-C،295-A اور  295-، اليکٹرانک کرائم ايکٹ PECA-11 ا ور PPCs 120-B, 109, 34نيز  295-Bجيسي دفعات مذکور ہيں ۔

ايف آئي آر کے مطابق وقار احمد پر ايک ايسے پراجيکٹ ميں ملوث ہونے کا الزام ہے جس کا تعلق قرآن کريم کے ترجمہ سے ہے۔

ملا حسن معاويہ نے، جو کہ فورتھ شيڈول ميں شامل ہے اور جماعت مخالف کارروائيوں ميں سرگرم ہے، جامعہ احمديہ کے اس طالب علم پر يہ الزام لگايا ہے کہ يہ قرآن کريم کے ترجمہ سے متعلق ايک پراجيکٹ کا حصہ تھا اور ملّا نے اس فعل کو گھناؤنا قرار ديا ہے۔

ملا نے اس بات کو تسليم کيا ہےکہ اس نے جعلي نام استعمال کرکے اس طالبعلم سے فون پر رابطہ کر کے اس کو جال ميں پھنسايا ہے۔    

ملزم کو تعزيرات پاکستان کي 295-Aاور 295-B جيسي سخت دفعات کے تحت قصور وارٹھہرايا گيا ہے جو کہ اس کيس پر لاگو ہي نہيں ہوتيں ۔ ان دفعات کو صرف توہين رسالت جيسے سخت قانون کو شامل کرنے کےليے لگايا گيا ہے۔ PECRکي دفعات کو اس ليے شامل کيا گيا تاکہ FIAکو اس کيس ميں شامل کيا جا سکے۔ يہاں يہ امر قابل ذکر ہے کہ ايف آئي آر قرآن کريم کا ترجمہ کرنے کےالزام کي بنياد پردرج کي گئي جوقرآن ايکٹ کي خلاف ورزي کے زمرہ ميں آتا ہے ليکن چارج شيٹ ميں قرآن ايکٹ مذکور ہي نہيں ۔

يہ کيس بھي  احمديوں پر بننے والے من گھڑت ديگر کيسوں کي طرح جھوٹ ، دھوکےاور ظلم کي بنيادوں پر قائم ہے اور  مشکوک کردار کے مالک ايک ملّا کي رياستي مشينري کے غلط استعمال کي واضح مثال ہے ۔ يہ ان سينکڑوں مقدمات ميں سے ايک ہے جو کہ ہزاروں احمديوں کے خلاف دائر کيے گئے۔ افسوس کي بات ہے کہ مشکوک نوعيت کے قوانين معصوم شہريوں کو اذيت دينے اور چھوٹي چھوٹي باتوں پر تکاليف پہنچانے کےليے استعمال ہو رہے ہيں۔

سائبر کرائم  قوانين کو ابتدائي طور پر رياست اور معاشرے کے خلاف ہونے والي سرگرميوں کو روکنے کےليے بنايا گيا تھا۔ مگر يہاں ہم ديکھتے ہيں کہ ايک معصوم نوجوان کو جس پر قرآن کريم کا ترجمہ کرنے کا الزام ہے ايک کينہ پرور ملّا اور متعلقہ سرکاري حکام نے قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے نشانہ بنايا ہے۔پنجاب کے اردو پريس نے چند دنوں بعد اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے مختلف “ايجنسيوں”کے بيانات کے حوالے سے خبريں شائع کيںجن کا بيانيہ نہايت گمراہ کن ، يک طرفہ اور نفرت انگيز تھا۔ اس واقعہ کے حوالے سے درج ذيل من گھڑت باتيں لکھي گئيں:

٭…FIAکے سائبر کرائم ونگ لاہور نے بروقت اور فوري اقدام کرتے ہوئے اسلام مخالف قادياني عزائم کو ناکام بنا ديا۔

٭…ترجمہ تحريف شدہ تھا۔

٭…تراجم playstoreاورappstoreپراپ لوڈ ہو چکے تھے اور وائرل ہونے والے تھے۔

٭…اگر بروقت کارروائي نہ کي جاتي تو تحريف شدہ مواد اپ لوڈ کرديا جاتا ۔ گرفتار ملزم سے قرآن کريم کي تحريف شدہ کاپياں بر آمد کي گئيں ۔ (يہ سراسر جھوٹ پر مبني ہے کيونکہ جو قرآن کريم احمديوں نے ماضي ميں شائع کيے ہيں ان ميں اور غيراحمديوں کے شائع شدہ قرآن کريم ميں ايک شعشہ کا بھي فرق نہيں ہے۔)

٭…اگر قادياني اپنے ناپاک عزائم ميں کامياب ہو جاتے تو اس مواد کو انٹرنيٹ سے ہٹانا بہت مشکل ہو جاتا۔(يہ ايک اور  غير حقيقي دعويٰ ہے کيونکہ جماعت احمديہ ايک عالمگير جماعت  ہونے کے ناطے اس پوزيشن ميں ہے کہ پاکستان سے باہر ديگر درجنوں ممالک سے قرآنِ کريم کو اپ لوڈ کر سکتي ہے۔)

مذکورہ بالا خبر يں روزنامہ امن، ايکسپريس، نئي بات اور جہانِ پاکستان وغيرہ ميں يکم دسمبر کو شائع ہوئيں۔

FIRسے معلوم ہوتا ہےکہ چھاپہ مار ٹيم ميں اسسٹنٹ ڈائريکٹر ، ايک انسپکٹر، ايک سب انسپکٹر اور ہيڈ کانسٹيبل  اور ممکنہ طور پر ملّا اور اس کے مزيد ساتھي بھي شامل تھے۔ يہ  واقعہ اس مسلح چھاپے کي ياد تازہ کرتا ہے جو دسمبر 2016ء  ميں CTD پنجاب نے جماعت کے مرکزي دفاتر ميں مارا تھا ۔ ختم نبوت کي قيادت نے دعويٰ کيا تھاکے يہ اقدام ان کي درخواست پر کيا گيا تھا اور يہ چھاپہ بغير کسي سرکاري وارنٹ کے اور غير قانوني تھا۔ USCIRF يعني United States Commission on International Religious Freedom نے ايک پريس ريليز شائع کي تھي جس ميں جماعت کے مرکزي دفاتر پر چھاپے کي مذمت کي گئي تھي ۔اسي طرح اب يہ چھاپہ بھي مشکوک کردار کے مالک ملّا معاويہ کو خوش کرنے کے ليے مارا گيا ہے ۔  

 قرآن کريم کا ترجمہ کرنا ايک قابل ِستائش علمي سرگرمي ہے جسے علماء کي طرف سے قدر کي نگاہ سے ديکھا جاتا ہے۔   قرآن کريم کے بيسيوں تراجم جنوبي ايشيا کي کئي زبانوں ميں  موجود ہيں ۔ ترجمےکے حوالے سے ہر ايک کا اپنا اپنا معيارہے  اور تراجم ميں ايک دوسرے سے نظرياتي اختلاف بھي پايا جاتا ہے ۔ يہاں يہ  بات قابل ذکر ہے کہ مصر کي مشہور اسلامي يونيورسٹي نے حضرت سر ظفر اللہ خان صاحب اور حضرت مولوي شير علي صاحب رضي اللہ عنہما کي طرف سے کيے جانے والے انگريزي تراجم قرآن کو بہترين اور معياري قرار ديا ہے۔

وفاقي وزير ، اعظم سواتي کا احمديوں کے خلاف قابلِ مذمّت الفاظ کا استعمال

وفاقي وزير برائے پارليماني اموراعظم سواتي کے ايک تبصرے پر جماعت احمديہ کے مرکزي دفاتر ربوہ کے پريس سيکشن نےمورخہ11؍ نومبر 2019ء کو ايک پريس ريليز جاري کيا۔ اس تبصرے ميں انہوں نے احمديوں کے حوالے سے ايک نجي ٹي وي چينل ‘ہم نيوز’ پراپني اور وزير اعظم پاکستان عمران خان کي طرف سے جماعت احمديہ کے خلاف نامناسب الفا ظ کہے۔

(اس پريس ريليز کا مکمل متن الفضل انٹرنيشنل کے شمارہ15؍نومبر2019ءصفحہ 24پرشائع ہو چکا ہے۔)

پنجاب کے دارالحکومت لاہور ميں احمديہ مسجد خطرہ ميں

جوہر ٹاؤن لاہور نومبر 2019ء : بيت الرحمٰن لاہور ميں ايک احمديہ مسجد ہے۔ نومبر کے شروع سے ہي بيت الرحمٰن کے خلاف سرگرمياں زور پکڑ گئي تھيں۔ مخالفين کي بھرپور کوشش ہے کہ حکام کي ملي بھگت سے يہ مسجد بند کروا دي جائے۔ اس سلسلے ميں مسجد کے ہمسائے ميں سے ايک ديو بندي ملّا احسان الحق لئيق ، ايک نام نہاد مقامي رہ نما  شيخ ناصر اور بدنامِ زمانہ ملّا حسن معاويہ سرگرم ہيں۔ انہوں نے مسجد کے عقب ميں واقع ايک دکاندار سے اجازت لي تا کہ وہ اس کي چھت سے ہوتے ہوئےاس مسجد ميں آنے والے  احمدي عبادت گزاروں کے خلاف شرارت کر سکيں ، شروع ميں پانچ سے سات مخالفين مسجد کے سامنے کھڑے ہوگئے اور نماز کے ليے آنے والے احمديوں سے بحث کرنے کي کوشش شروع کر دي نيز بدزباني بھي کرتے رہے۔ 

9؍نومبر 2019ء کو مخالفين جماعت نے پو ليس کو اطلاع دي کہ ايک موٹر سائيکل سوار مسجد سے نکل کر ايک عورت سے ٹکرايا ہے ۔ پوليس موقع پر پہنچي اور واقعات کا جائزہ ليا اور اسي طرح مسجد کا بھي معائنہ کرنا شروع کر ديا ۔بعد از تحقيقات ثابت ہوا کہ مخالفين کي يہ اطلاع محض دروغ گوئي تھي ۔چنانچہ اس طرح کي مسلسل ايذا رسانيوں کے ازالے کے ليے مقامي احمدي احباب  ايس۔پي صدر سے ملے اور اس کو اس معاملہ سے آگاہ کيا جس نے ڈي ۔ايس ۔ پي (Deputy superintendent of police)کو تحقيقا ت کرنے کا حکم ديا۔

 اگلے روز ڈي۔ ايس۔ پي نے فريقين کو بلايا اور اس نے بھي مخالفين کي طرف داري  ہي ميں اپني خيريت جاني۔ چنانچہ احمديوں کو کہا گيا کہ ان کے پاس کوئي NOCنہيں ہے ۔ تاہم اس کو علم تھا کہ ڈي۔سي آفس سے پہلے ہي يہ بيان جاري ہو چکا ہے کہ احمدي عبادت گاہوں کے NOC کےليے کوئي پاليسي نہيں ہے۔ گذشتہ سال بھي اسي ڈي۔ ايس۔ پي کو متعدد بار احمديہ مسجد کے ملکيتي کاغذات دکھائے جا چکے تھے۔ اس نے کہا کہ گذشتہ سال يہ بات طے پائي تھي کہ مسجد ميں مقيم خاندان ہي وہاں عبادت کر سکتا ہے۔ جبکہ اس ڈي۔ ايس ۔ پي نے ہي کہا تھا کہ عام نمازي بھي  مسجد ميں آسکتے ہيں مگر ان کي تعداد ميں اضافہ نہيں ہونا چاہيے۔

 ميٹنگ ميں ڈي۔ ايس ۔ پي نے فريقين کوضمانتي مچلکے جمع کروانے کو کہا تاکہ فريقين کسي بھي قسم کي کوئي غير قانوني حرکت نہ کر سکيں بصور ت ديگر ان کو قانوني اخراجات کے علاوہ دس لاکھ روپے جمع کروانے ہوں گے۔اس کے علاوہ ا س نے  فريقين کو ايک مصالحتي معاہدہ پر دستخط کرنے کو کہا جس ميں يہ تحر ير تھا کہ اس مسجد کے رہائشي ہي اس ميں عبادت کر سکتے ہيں۔احمديوں نے مچلکےدينے اور غير منصفانہ معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کرديا۔ اس بات پر وہ ڈي ايس پي برہم ہو گيا اور احمديوں کو کہنے لگا کہ دستخط نہ ہونے کي صورت ميں وہ ان کے خلاف گرفتاري کے احکامات جاري کر دے گا۔ اس نے مزيد دھمکي دي کہ وہ احمدي مبلغ کو بھي آئندہ سماعتوں ميں شامل ِتفتيش کرے گا۔ چنانچہ اسي رات  پوليس نے مسجد اور مربي  ہاؤس ميں چھاپہ مارا مگر وہاں پر موجود سيکورٹي گارڈ نے مصلحت سے ان کو واپس بھجوا ديا۔ اس پر  ايس ايچ او نے مربي صاحب کو فون کيا اور کہا کہ ايک گھنٹے کے اندر اس خادم مسجد کو لے کر تھانے ميں رپورٹ کريں ورنہ پوليس دوبارہ چھاپہ مارے گي ۔ بعدميں ايس ايچ او نے بتايا کہ  ايس پي 13؍نومبر کو فريقين کے ساتھ ميٹنگ کريں گے۔

اس ميٹنگ ميں فريقين نے اپنا معاملہ پيش کيا اور ايس پي نے احمديوں سے کہا کہ ہائي کورٹ کے آرڈر آنے تک يہاں صرف مقامي احمدي احباب ہي عبادت کر سکتے ہيں۔ لگتا ہے کہ  مخالفين نے ڈي سي کو فريق بناتے ہوئے ڈي سي کے مسجد والے فيصلے سے متعلق ہائي کورٹ ميں درخواست دائر کر رکھي ہے۔

ضلع لاڑکانہ (سندھ) ميں احمديوں پر حملہ

مسن باڈہ ضلع لاڑکانہ اکتوبر 2019ء: يہاں پر احمديہ جماعت کے خلاف عداوت بڑھ رہي ہے ۔ احمديت مخالف عناصر سوشل ميڈيا پر ايک مہم شروع کر چکے ہيں۔

11؍اکتوبر 2019ءکو پانچ چھ مخالفين نے گوٹھ مسن ميں ايک احمدي محمد يونس ولد انور علي پر ڈنڈوں سے حملہ کر ديا ۔ جب احمدي پوليس سٹيشن ميں FIR درج کروانے گئے تو مخالفين بھي وہاں پہنچ گئے اور پوليس پر دباؤ ڈالا اور احمديوں کے خلاف ايک جھوٹي رپورٹ درج کروانے ميں کامياب ہو گئے۔ 

اگلے روز دو احمدي بھائي عمران علي اور اکبر علي پسران انور علي پر دس غنڈوں نے حملہ کيا جس کے نتيجہ ميں عمران علي کے سر ميں چوٹ آئي اور چھ ٹانکے لگے۔ پوليس نے FIR درج کرنے سے انکار کر ديا اور کچھ فساديوں کو گرفتار کر ليا اور بعد ميں ان کو رہا بھي کر ديا۔ ايک اَور احمدي 16؍ اکتوبر کو حملے سے بال بال بچ گئے۔ مخالفين نے ختم نبوت کا ايک پمفلٹ خود پھاڑ کر احمديوں کے خلاف FIRدرج کروانے کي کوشش کي جس پر  ايس ايچ او نے  FIR درج کرنے سے انکار کيا تو يہ لوگ ايس پي تک پہنچ گئے۔ جس  کے نتيجے ميں ڈي ايس پي نے تين احمديوں کو پوليس سٹيشن ميں زيرِ حراست رکھا۔ احمديت مخالف سرگرمياں اور تشدد کا مقصد وہاں موجود احمديہ مسجد کو بند کروانا ہے۔

(جاري ہے)

اللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَّ سَحِّقْھُمْ تَسْحِيْقًا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button