رپورٹ دورہ حضور انور

’’کیا آج مذہبِ اسلام مغربی تہذیب و تمدن سے متصادم ہے!!؟؟‘‘

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2019ء

ہوٹل ADLON KEMPINSKIمیں ایک پُر وقار تقریب کا انعقاد

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیر ت افروز تاریخی خطاب

………………………………………………

22؍اکتوبر2019ءبروزمنگل

………………………………………………

حضورانورايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے صبح 6 بج کر45منٹ پرمسجدخديجہ برلن ميں تشريف لاکرنمازِ فجر پڑھائي۔نمازکي ادائيگي کےبعد حضورانورايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزاپني رہائش گاہ پر تشريف لےگئے۔

صبح حضورانورايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنےدفتري ڈاک ملاحظہ فرمائي اور ہدايات سےنوازا۔ حضورانورکي مختلف دفتري امورکي انجام دہي ميں مصروفيت رہي۔

2بجےحضورانورايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنےتشريف لاکرنمازِ ظہروعصرجمع کرکےپڑھائيں۔نمازوں کي ادائيگي کے بعد حضورانورايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز اپني رہائش گاہ تشريف لےگئے۔

ممبران پارليمنٹ اور مذہبي و سياسي شخصيات کي حضورانور سے ملاقات

جرمن نيشنل پارليمنٹ کےقريب، امريکي و برطانوي  سفارت خانوں اورجرمني کي پہچان برانڈن برگ دروازے (BRANDENBURG GATE)سے چند قدم دور واقع ہوٹلADLON KEMPINSKI ميں ايک اہم تقريب کااہتمام کياگياتھا۔جس ميں بڑي تعداد ميں ممبران پارليمنٹ اورديگراعليٰ حکومتي حکام اورمتعدد سياسي اورمذہبي شخصيات شرکت کررہي تھيں۔

پروگرام کے مطابق ساڑھے پانچ بجے حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز مسجد خديجہ سے روانہ ہوئے اور چھ بجے اس ہوٹل ميں تشريف آوري ہوئي۔

حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز ہوٹل کے ميٹنگ روم ميں تشريف لے آئے جہاں پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق Mr Niels Annenجوکہ منسٹرآف سٹيٹ اور ڈپٹي فارن منسٹرہيں نے حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز کے ساتھ ملاقات کي۔

موصوف کے ساتھ دو ممبرانِ پارليمنٹ بھي موجود تھے۔ ان ميں سے ايک Mr Frank Heinrichجوکہ ہيومن رائٹس کے spokesperson ہيں اور دوسرے Mr Omid Nourpour جوکہ فارن افيئرز کے spokesperson ہيں ۔

٭    منسٹرآف سٹيٹ  Niels Annen  نے حضور انور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز کي خدمت ميں عرض کياکہ  يہاں آنا اور حضورانورکا خطاب سننا ميرے ليے باعث اعزاز ہے۔ ميں ہمبرگ ميں ايک ضلع کي نمائندگي کرتاہوں جہاں جماعت احمديہ بہت فعال ہے۔ احمديوں کے ساتھ ميرا بہت اچھا تعلق رہاہے اور ميں احمديوں سے بہت متاثر ہوں۔ اب حضور سے ملاقات کر کے بہت خوش ہوں اور فخر محسوس کرتاہوں۔

حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:

  آپ تو پہلے سے ہي احمديہ کميونٹي کوجانتے ہيں ۔ اس پر موصوف نے عرض کياکہ ميں بہت اچھي طرح جانتاہوں۔

موصوف نے حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز کے دورہ  کے حوالہ سے دريافت کيا جس پر حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:

ميں اس سال  پہلے جلسہ سالانہ جرمني کے ليے بھي آياتھا۔ ليکن اب جرمني کے اِس دورہ کا مقصد چند مساجد کا افتتاح کرنا اور آج کي اس تقريب ميں شامل ہونا تھا۔

برلن کي تقريب کے حوالہ سے بات ہوئي جس پر حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا: يہاں جرمني ميں آجکل

‘Islamic Civilization and Culture and its Integration’

کے موضوع کا بہت چرچاہے۔جرمني جماعت نے اس خواہش کا اظہارکياتھاکہ ميں يہاں آؤں اور اس موضوع پر ايڈريس کروں۔ تو ميں اسي ليے يہاں آيا ہوں کہ ميں بتاؤں کہ اسلام سے خوفزدہ ہونے کي کوئي وجہ نہيں ہے۔ جب مغربي ثقافت اتني مضبوط ہے تو پھر ڈرنے کي کيابات ہے کہ اس ثقافت کوآساني سے ختم کردياجائے گا؟ آج اسي موضوع پر کچھ بيان کروں گا۔

موصوف کے استفسار پر حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:

ابھي يہاں جرمني ميں چند دن اور قيام ہے۔ اب برلن سے کل ہمبرگ کي طرف جارہاہوں۔ آپ کي constituency  ميں جارہاہوں۔

٭  موصوف منسٹر نے اپنے ساتھي   Omid Nouripour جن کا تعلق گرين پارٹي سے ہے کا تعارف کرواتے ہوئے بتاياکہ يہ بھي مسلمان ہيں۔ اس پر حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:    

آج کي تقريب کے بعد مسلمان ممبر پارليمنٹ کو اسلام کا دفاع کرنے کے ليے بہترين دلائل مہيا ہوجائيں گے۔

موصوف Omid Nourpour نے عرض کيا کہ فرانکفرٹ ميں جس طرح احمديہ کميونٹي خدمت کررہي ہے وہ غير معمولي ہے اور جماعت احمديہ کي طرف سے integration کي اعليٰ مثال ہے۔ جماعت بہترين رنگ ميں integrate  کررہي ہے۔ جماعت کي طرف سے بہت تعاون ملتاہے۔

حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے ڈپٹي منسٹر سے دريافت  فرمايا کہ فارن منسٹرکي حيثيت سے آپ کے کيا چلينجزہيں؟ کيا Brexitکے معاملہ ميں بھي آپ involved ہيں؟ يہ معاملہ تو بڑي مشکل صورت حال ميں ہے۔

اس پر موصوف نے عرض کياکہ

يقيناً ايک تو Brexitہي ہے۔آج بھي اس حوالہ سے نئي پيش رفت ہوئي ہے اور کہاجارہاہے کہ جلد ہي برطانيہ ميں عام انتخابات منعقد ہوں گے۔ ہم تو يورپين يونين کو متحد رکھنا چاہتے ہيں اور اس کے ليے جرمني کي خاص ذمہ داري ہے۔

٭  تيسرے مہمان CDUپارٹي کے ممبرآف پارليمنٹ Frank Heinrichنے عرض کياکہ ميں جماعت احمديہ کا شکريہ اداکرنا چاہتاہوں کہ وہ جرمني ميں زبردست کام کررہي ہے۔ آپ کي جماعت کے لوگ نہ صرف ہمارے اندر جذب ہوگئے ہيں بلکہ معاشرے کي بھلائي ميں بھي اچھا خاصا حصہ ڈال رہے ہيں۔

٭  بعدازاں پاکستان ميں احمديوں پر ہونے والے مظالم کا ذکرہواتو حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:    

پاکستان ميں احمديوں کے حالات ايک لمبے عرصہ سے ايک جيسے ہي ہيں۔ وہاں کا قانون احمديوں کو نہ صرف تبليغ کرنے سے منع کرتاہے بلکہ اپنے مذہب پر عمل کرنے سے بھي روکتاہے۔ اگر ہم ‘السلام عليکم’بھي کہيں يا بچے کا اسلامي نام رکھيں تو قانون کي رو سے سزاکے مستحق بنتے ہيں۔قانون اس کي اجازت نہيں ديتا۔ جب تک يہ قانون باقي ہے حالات تبديل ہونے کي کوئي اميد نہيں ہے۔

حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:

جولوگ ہم سے  ہمدردي رکھتے ہيں ہم انہيں يہي کہتے ہيں وہ صرف پاکستاني حکومت کو مخلوط انتخابات کروانے پر زور ديں۔ Joint Electionہو اور بغير کسي مذہب کي تميز کے اليکشن ہو۔ ہر ايک کو اپنے مذہب سے بالاہوکر ووٹ دينے کا حق حاصل ہوناچاہيے۔ ہميں يہ کہا جاتاہے پہلے اپنے آپ کو غير مسلم سمجھو اور پھر غير مسلم کے ليے جو سيٹيں ہيں ان پر اليکشن لڑو۔ ہم کہتے ہيں کہ ہم مسلمان ہيں اور ہميں ملک کے ايک شہري کي حيثيت سے ووٹ دينے کا حق ملنا چاہيے۔

Blasphemy Lawsکے حوالہ سے بات ہوئي تو حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:           

ميرا نہيں خيال کہ يہ لوگ مولويوں کے خوف سے ‘توہين رسالت کے قوانين’کو ختم کريں گے ليکن صرف ايک ہي صورت حال ہے اور وہ مخلوط انتخابات ہيں۔ مخلوط انتخابات ہوں تو ہم پارليمنٹ ميں جائيں اور وہاں آواز اُٹھائيں۔ اس سے ہميں بعض بنيادي حقوق واپس ملنے شروع ہوجائيں گے۔ موجودہ حکومت بھي اسي ڈگر پر چل رہي ہے جس پر پہلي حکومتيں چلتي رہي ہيں۔

حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:

جو بھي ہو، ہم خودکو کبھي بھي غير مسلم نہيں کہيں گے کيونکہ يہ ہمارے ضمير اور ايمان کے خلاف ہے۔

٭  ممبر پارليمنٹ Frank Heinrichنے  عرض کياکہ ميں بھي جرمن ہيومن رائٹس کميٹي کا حصہ ہوں اور  ميں يہ کہنا چاہتاہوں کہ ہميں آپ لوگوں کے ساتھ ہونے والي زيادتيوں سے تکليف ہوتي ہے۔ ميں جاننا چاہتاہوں کہ آپ کا يورپ ميں ديگر مسلمان فرقوں کے ساتھ کيسا تعلق ہے؟

اس پر حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:

مغربي دنيا ميں بھي جماعت احمديہ کے خلاف پراپيگنڈہ کياجاتاہے۔ہمارے مخالف کہتے ہيں کہ ہم ايک نئے نبي کو مانتے ہيں اور ہم رسولِ کريم ﷺ کو خاتم النبيين نہيں مانتے اور آپ ﷺ کي نبوت کي خاتميت کو رد کرتے ہيں۔ حالانکہ يہ بات درست نہيں ہے۔ ليکن اس کے باوجود مولويوں کي طرف سے ہمارے خلاف يہي پراپيگنڈہ کياجارہاہے کہ ہم ختم نبوت کے خلاف ہيں۔ ہمارے مخالفين عام مسلمانوں کے دماغوں کو ہمارے خلاف آلودہ کررہے ہيں۔ تاہم اس کے باوجود کافي مسلمان حتيٰ کہ بعض  سکالرز اور اہلِ علم لوگ جانتے ہيں کہ احمدي درست ہيں ۔ وہ ہمارے ساتھ ہيں اور ہمارے ساتھ ہونے کا اظہاربھي کرتے ہيں اور احمديوں پر ہونے والے مظالم کي مذمت کرتے ہيں۔ ليکن عام لوگ ہماري مخالفت کرتے ہيں اور ان مغربي ممالک ميں ہماري براہِ راست مخالفت تو نہيں کرتے بلکہ اپنے طور پر کرتے ہيں ، اپنے دلوں ميں رکھتے ہيں۔ بہر حال اس پراپيگنڈہ کي وجہ سے ان ممالک ميں بھي ہم بد گمانيوں کا شکار ہيں۔

٭  Omid Nouripour کے استفسار پر حضور انور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:پاکستان ميں پہلے وقتوں ميں تو بعض خاندان ايسے ہوتے تھے جن کے ساتھ احمدي بڑے دوستانہ ماحول ميں رہتے تھے۔ ليکن مخالفانہ پراپيگنڈہ کي وجہ سے ايسے لوگ بھي دورہورہے ہيں۔

موصوف کے استفسار پر کہ عمران خان کے وزيراعظم  بننے کے بعد کوئي تبديلي آئي ہے، حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:     

اس سوال کا جواب آپ کو اس بات سے مل جائے گاکہ جب عمران خان صاحب اکنامک ايڈوائزري کميٹي تشکيل دے رہے تھے تو اس کميٹي ميں انہوں نے ايک احمدي ممبرکو  رکھاتھا۔ اس پر مولويوں نے بہت شور مچايا جس کي وجہ سے عمران خان صاحب کو اس احمدي کو اس کميٹي سے نکالنا پڑا۔ موجودہ حکومت بھي ملاؤں کے آگے بے بس ہے۔ عمران خان کے آنے کے بعد بھي احمديوں کے حالات ميں کوئي تبديلي نہيں ہے بلکہ احمديوں کے خلاف پہلے سے زيادہ کيسز ہورہے ہيں۔

حضورانور نے فرمايا:پاکستان ميں کئي سياستدان ہيں جو کہتے ہيں مولويوں کے دباؤ کي وجہ سے ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہيں کيونکہ مولوي کے پاس لوگو ں کو سڑکوں پر لے کر آنے کي طاقت ہے۔

٭  ممبرآف پارليمنٹ Frank Heinrich    نے  عرض کياکہ کيا Brexit کے بعد حضور يوکے ميں رہنے سے مطمئن ہوں گے؟ 

اس پر حضورانور نے فرمايا:جہاں مذہبي آزادي ہوگي اور تمام لوگوں کو ان کے شہري حقوق مل رہے ہوں گے وہاں ميں مطمئن ہي ہوں گا۔

ايک سوال کے جواب ميں حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:پاکستان ميں چاليس سال سے زائد عرصہ سے ہم مظالم کا سامنا کررہے ہيں۔پاکستاني احمدي جو کہ پاکستان ميں رہ رہے ہيں وہ بھي خاموشي سے يہ تکاليف برداشت کررہے ہيں۔ جو برداشت نہيں کرپاتے وہ وہاں سے ہجرت کرجاتے ہيں۔ بہرحال ميري توجہ تو دنيا بھر ميں ساري جماعت پرہے۔ نيپال ميں ، ملائيشيا ميں، تھائي لينڈ ميں اور سري لنکا ميں بہت سے احمدي ہيں جو مشکلات برداشت نہ کرسکنے کي وجہ سے پاکستان سے وہاں پہنچے ہيں۔ ان ممالک ميں UNHCR ان کے کيسز سنتي ہے اور پھر يہ لوگ يورپ اور دوسرے ممالک ميں چلے جاتے ہيں۔ ہماري مخالفت صرف پاکستان ميں ہي  نہيں ہے ۔ مثال کے طور پر ملائيشيا کي بعض سٹيٹس ميں بھي ہميں غير مسلم سمجھاجاتا ہے۔ 

٭  مسلمان ممبرآ ف پارليمنٹ Omid Nouripourنے عرض کياکہ  آپ لوگوں کو ملائيشيا ميں بھي مسائل کا سامناہے، يہ سن کر بڑا دُکھ ہواہے کيونکہ ملائيشيا تو دعويٰ کرتاہے کہ وہ مسلمان ممالک ميں سب سے زيادہ تحمل اور برداشت رکھنے والا ملک ہے۔

اس پر حضورانور نے فرمايا:بالعموم مولويوں کے اندر برداشت کا مادہ صفر ہے۔ تمام فرقے ايک دوسرے کي برائياں بيان کرتے ہيں۔ بے شک انہوں نے ديگر فرقوں کو ہماري طرح غير مسلم قرار نہيں دياليکن آپس ميں ان کي دشمنياں ضرور ہيں۔ ليکن ہمارے خلاف 1974ء ميں قانون بناتھا کہ you are not Muslim for the purpose of law and constitution۔ جب يہ قانون بنا تھاتو اس وقت جائنٹ اليکشن ہي ہوتاتھا۔ بعد ميں يہ ختم کيا گيا۔ پھر 1984ء ميں ضياء الحق نے جو قانون بنايا اس ميں ہم پر سخت پابندياں لگادي گئيں کہ ہم مسجد کو مسجد نہيں کہہ سکتے، بچے کا نام احمد، محمد يا اسلامي نام نہيں رکھ سکتے۔ السلام عليکم نہيں کہہ سکتے۔ ہمارے خلاف سخت قوانين بنائے گئے۔

٭  گفتگو کے دوران  يہ ذکر ہوا کہ جرمن حکومت  سيرياکے مسائل کو سياسي طور پر حل کرنے ميں بہت فعال ہے۔اس پر حضورانور نے وہاں موجود سياستدانوں سے فرماياکہ

اس وقت کردش لوگوں کو في الواقع عالمي برادري کي طرف سے مدد کي ضرورت ہے۔

٭  اس استفسار پر کہ بنگلہ ديش  ميں جماعت کي کيا صورت حال ہے حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:         

بنگلہ ديش کي حکومت انصاف کرنے کي کوشش کرتي ہے  ليکن نچلي سطح پر بعض علاقوں ميں لوکل حکام کي طرف سے ملاں کي وجہ سے مسائل ہيں۔حکومت ہمارے خلاف نہيں ہے ليکن وہاں کا ملاں ہمارے خلاف ہے۔ نيشنل ليول پر تو لوگ عقلمند ہيں، انہيں پتہ ہے کہ اگر انہوں نے احمديوں کے ساتھ وہي سلوک کياجو پاکستان نے کياتھا تو پھر وہ بھي پاکستان کي طرح  مشکلات کا سامنا کريں گے کيونکہ اس سے شدت پسند گروہوں کومزيد ترقي کرنے کا موقع ملتاہے۔

يہ ميٹنگ سات بجے تک جاري رہي۔ اس کے بعد ان تينوں ممبران نے حضور انور کے ساتھ تصوير بنوانے کا شرف پايا۔

…………………………………………………………………………

بعدازاں7بج کر10منٹ پر حضور انور ايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزاس ہال ميں تشريف لےآئےجہاں تقريب کا انعقاد ہورہا تھا۔ حضورانورکي آمدسےقبل مہمانانِ کرام اپني اپني نشستوں پربيٹھ چکے تھے۔

آج کي اس تقريب ميں شامل ہونے والے مہمانوں ميں 27ممبران قومي اسمبلي جرمني ، جن ميں 14؍اپني پارٹي کے نمائندہ ہيں،شامل تھے۔اس کے علاوہ دفتر وزارت خارجہ کے 3نمائندے تھے۔ جن ميں‘‘مذہب اورسياست’’کے ڈائريکٹر بھي ہيں۔ وزارت داخلہ اور ڈويلپمنٹ منسٹري کے نمائندے بھي تھے۔جرمن آرمي کے 3ڈائريکٹرصاحبان تھے۔يوايس اےاورفرنچ ايمبسيز کےپوليٹيکل آفيسرزشامل تھے۔ ممبران نيشنل اسمبلي کےآفسزکے11نمائندے تھے۔ پريس اينڈميڈيا کے6نمائندےبھي شامل تھے۔5پروفيسر حضرات بھي شامل تھے جن ميں برلن يونيورسٹي کي نائب صدر اور جرمني ميں مشرق وسطيٰ پر اس وقت سند مانے جانے والے پروفيسر شٹائن باخ بھي شامل تھےاس کےعلاوہ کئي سياستدان،مذہبي ليڈراورويلفيئرايسوسي ايشن اورسول سوسائٹي سےتعلق رکھنے والےلوگ شامل تھے۔مجموعي طورپر82مہمان شامل تھے۔

سٹيج پرحضورانورکےساتھMR. NIELS ANNEN (MINISTER OF STATE AND DEPUTY FOREIGN MINISTER) MR. FRANK HEINRICHممبرآف پارليمنٹ سپوکس پرسن فارہيومن رائٹس اور OMID NOURIPOUR ممبرآف پارليمنٹ سپوکس پرسن فار فارن افئيرزبيٹھے تھے۔

پروگرام کاآغازتلاوت قرآن کريم سےہواجومکرم جري اللہ مبلغ سلسلہ جرمني نے کي اوربعدازاں اس کاجرمن ترجمہ پيش کيا۔

اس کےبعدمکرم داؤداحمدمجوکہ نيشنل سيکرٹري امور خارجيہ جرمني نے جماعت کاتعارف کروايا۔

بعد ازاں مکرم اميرصاحب جرمني عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب نےاپنا استقباليہ ايڈريس پيش کيا اورمہمانوں کوخوش آمديدکہا۔

امير صاحب نے کہا کہ احمديہ مسلم جماعت ايک روحاني جماعت ہے جو 200 سے زائد ممالک ميں پھيلي ہوئي ہے اور اس کے کئي ملين ممبرز ہيں۔ جماعت اور اس کے ممبران ہر وقت خدا تعاليٰ کي رحمانيت کا آئينہ بننے، معاشرے ميں امن قائم کرنے اور بني نوع انسان کے دکھ اور تکاليف کو کم کرنے ميں مشغول رہتے ہيں۔ ہميں اس بات کا يقين ہے کہ مذہب کے ذريعہ ہي انسانوں ميں اتحاد پيدا کيا جاسکتا ہے کيونکہ ايک مسلمان کے ليے يہ لازم ہے کہ وہ تمام انبياء اور مقدس کتب پر ايمان لائے۔

امير صاحب نے کہا:تاريخي طور پر اگر ديکھا جائے تو جماعت احمديہ 1923ء سے ہي جرمني ميں قائم ہوگئي تھي جب برلن ميں ايک مسجد کي سنگ بنياد رکھي گئي تھي۔ ليکن اس کا تعميري کام inflation اور اس وقت کے اقتصادي حالات کي وجہ سے مکمل نہيں ہو سکا تھا۔ پہلي مسجد اس لحاظ سے پھر 1957ء ميں جنگ کے بعد ہمبرگ ميں تعمير ہوئي ۔ ٹھيک 60سال قبل يعني 1959ء ميں پھر فرينکفرٹ ميں بھي ايک مسجد بنائي گئي۔ يہ جرمني کي پہلي 2 مساجد تھيں جو جنگ کے بعد بنيں۔ آج جماعت احمديہ جرمني کي تجنيد50,000کے قريب ہے جو 255 جماعتوں ميں لوکل طور پر تقسيم ہيں۔ جماعت کے ممبران لوکل سطح پر مختلف طور پر سوسائٹي کي خدمت سر انجام ديتے ہيں اور interreligious dialoguesميں حصہ ليتے ہيں۔ مختلف پروگرامز منعقد کيے جاتے ہيں جيسا کے نئے سال کے موقع پر وقارِعمل، خون کا عطيہ دينے کے منصوبے،charity walks اور tree planting وغيرہ۔ اس کے علاوہ 2008ء ميں جامعہ احمديہ جر مني کا قيام ہوا جو کہ جرمني ميں پہلا ادارہ تھا جو مبلغين تيار کرتا ہے۔ يہ 7سالہ پڑھائي اب تک تقريبا60ً نوجوان مکمل کر چکے ہيں۔ اس کے علاوہ ايک سال قبل ايک welfare organizationقائم کي گئي جو ريفيوجيز، بے گھر افراد اور کنڈر گارٹن کي امداد وغيرہ کا کام سرانجام دے رہي ہے۔

امير صاحب نے بتايا احمديہ مسلم جماعت قوم کے تمام قوانين کي پيروي کرنالازمي سمجھتي ہے۔ ممبران جماعت کے ليے جرمني ان کا وطن بن چکا ہے کيونکہ ان کي اب کئي نسليں ادھر جرمني ميں رہ رہي ہيں۔

اس کے بعد Mr. Frank Heinrich صاحب نے اپنا ايڈريس پيش کيا۔ ان کا تعلق CDU پارٹي سے ہے اور وہ نيشنل اسمبلي کے ممبر ہيں۔ موصوف نے اپني گزارشات ميں سب سے پہلے حضور انور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصره العزيز اور پھر تمام حاضرين کو خوش آمديد کہا اور سلام پيش کيا اور ساتھ ہي اس بات کا شکريہ ادا کيا کہ انہيں اور اسي طرح بہت سے ديگر نيشنل اسمبلي کے ممبران کو بھي اس پروگرام ميں مدعو کيا گيا ہے۔

موصوف نے کہا: اگر ميں جماعت احمديہ کے بارہ ميں سوچتا ہوں تو ميرے دل ميں2 بالکل مختلف جذبات اور احساسات پيدا ہوتے ہيں۔ ايک طرف تو ايسے جذبات کا رنگ پيدا ہوتا ہے جو کہ شکر اور خوشي سے بھرا ہو اور دوسري طرف ايسے جذبات پيدا ہوتے ہيں جو تکليف اور دکھ سے بھرے ہوتے ہيں۔ اس بات کي ميں اب وضاحت کرنا بھي ضروري سمجھتا ہوں۔ جب بھي آپ لوگوں سے ملاقات ہوتي ہے تو آپ کا يہ ماٹو واضح ہو تا ہے کہ ‘‘محبت سب کے ليے اور نفرت کسي سے نہيں’’ پھر جب مجھے آپ کے جلسہ سالانہ جرمني ميں مدعو کيا گيا اور مجھے اس ميں شامل ہونے کا موقع بھي ملا جہاں تقريباً34 ہزار احباب و خواتين اکٹھے تھے اور وہاں بھي مجھے بولنے کا موقع ديا گيا۔ اس جلسہ کے ذريعہ ميري بہت سي غلط فہمياں دور ہوئيں اور مجھ پر اسلام کي حقيقت واضح ہوئي۔ اس وجہ سے ميں آپ سب کا بہت شکر گزارہوں۔ پھر ميں آپ لوگوں کو شہر Chemnitz سے بھي جانتا ہوں خاص طور پر آپ کے نئے سال کي صفائي کےحوالہ سے۔

انہوں نے کہا کہ دوسري طرف ميرے دل ميں بہت ہي تکليف ہوتي ہے جب ميں پاکستان کي خبريں سنتا ہوں ۔ پھر جب ميں Erfurt کے بارہ ميں سوچتا ہوں جہاں آپ کو مسجد بنانے کے حوالہ سے مشکلات درپيش ہيں تو اس سے بھي مجھے دکھ ہوتا ہے۔

موصوف ممبر پارليمنٹHeinrich صاحب نے مزيد کہا: ميں پہلے پادري بھي رہا ہوں اور ميرے نزديک ايک بات جس کا پہلے بھي ذکر ہو چکا ہے نہايت ضروري ہے۔ اور وہ يہ کہ صرف باتيں ہي نہ کي جائيں بلکہ باتوں کے مطابق اعمال بھي نظر آنے چاہئيں۔ اور يہ بات آپ کي جماعت ميں مجھے ديکھنے کو ملتي ہے۔ مجھے بہت ہي خوشي ہے کہ خليفہ کي قيادت ميں آپ لوگ اسلام کي تعليم دوبارہ لو گوں کے سامنے پيش کر رہے ہيں اور ان قدروں کو قائم کر رہے ہيں اور يہ پيغام لوگوں تک پہنچارہے ہيں۔ آپ لوگ حقيقت ميں ديگر تمام مذہبي جماعتوں سے مختلف ہيں۔ مجھے اس بات کي بھي خوشي ہے اور اميد ہے کہ ايسے پروگرام جس طرح کا آج آپ لوگ منعقد کر رہے ہيں مشہور بھي کيے جائيں اور لوگوں کو اس بارہ ميں پتہ چلے۔

بعد ازاں Omid Nouripour صاحب نے اپنا ايڈريس پيش کيا۔ موصوف کا تعلق Grüne پارٹي سے ہے اور يہ نيشنل اسمبلي کے ممبر اور اسي طرح وزارت خارجہ کے ترجمان ہيں۔

انہوں نے سب سے پہلے حضور انور ايدہ الله تعاليٰ بنصرہ العزيز کو خوش آمديد کہا اور يہ بھي کہا کہ ان کے ليے يہ ايک بہت خوشي کا موقع ہے کہ وہ اس تقريب ميں شامل ہورہے ہيں۔

موصوف نے کہا کہ آج کل اکثر يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہيں بلکہ يہ بات صرف اسلام تک محدود نہيں رہي بلکہ يہ بھي سوال اٹھتا ہے کہ کون مومن ہے اور کون نہيں۔ ليکن يہ ايک ايسا سوال ہے جس کا جواب ہر ايک کو اپني ذات کے ليے خود دينا چاہيے نہ کہ کوئي دوسرا کسي کے بارہ ميں يہ فيصلہ کرے۔ کسي کو گناہ گار کہہ دينايا کسي سے اختلاف کرنا درست ہے ليکن کسي کو غير مسلم کہنا، يا کسي کو کافر کہنا غلط ہے اور جماعت احمديہ کو پہلے دن سے ہي ايسي مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ايسي مشکلات کا سامنا جماعت کو سب سے زيادہ پاکستان ميں ہو گا ليکن دوسرےممالک بھي ہيں جہاں احمديوں کے خلاف بھڑ کايا جاتا ہے جيسے بنگلہ ديش وغيرہ۔ ليکن جس بات نے مجھے بہت زيادہ متاثر کيا ہے وہ ايسي باتوں پر جماعت احمديہ کا ردِّعمل ہے۔ جماعت احمديہ کا ردِّ عمل يہي ہے کہ محبت سب کے ليے اور نفرت کسي سے نہيں۔ يہ ايک ايساماٹو بلکہ اصول ہے جس کو صرف مذہبي معاملات ميں نہيں بلکہ اسے مزيد وسيع پيمانہ پر پھيلانا اور مشہور کرنا ہو گا۔ ہم نيشنل اسمبلي ميں مختلف علاقوں کي نمائندگي کرتے ہيں اور ہم سب نے اپني اپني جگہ پر يقيناً احمديوں سے يہي تجربہ حاصل کيا ہو گا۔ يہ ايک نہايت ہي فعال جماعت ہے جو معاشرتي طور پر بھي بہت ہي مفيد ہيں۔

اس کے بعد جناب Niels Annen صاحب جو Minister of State اور Deputy Foreign Ministerہيں نے اپنا ايڈريس پيش کيا۔ انہوں نے سب سے پہلے حضور انور ايدہ الله تعاليٰ بنصرہ العزيز اور ديگر حاضرين کو سلام پيش کيا اور آج کے پروگرام کے بارہ ميں خوشي کا اظہار کيا۔

موصوف نے کہا: 70سال قبل جرمني کا بنيادي آئين تيار ہوا جس ميں ايک بنيادي حق مذہبي آزادي کا ہے۔ اسي وجہ سے اس ملک ميں مختلف مذاہب اور کلچرزکے لوگ امن وپيار کےساتھ اکٹھے رہ رہے ہيں۔ اسي سال جون 1949ء ميں جرمني کے Nordwestdeutsche Rundfunk ريڈيو سٹيشن نے شيخ نصير احمد جو جماعت احمديہ سوئٹزر لينڈ کے مبلغ تھے ان کا ايک ليکچر نشر کيا۔ اس بات کا ذکر ميں اس ليے کر رہا ہوں کہ يہ پہلي بار جرمني ميں اسلام کے بارہ ميں نشريات تھيں۔ ابتدا ہي سے جماعت احمديہ اور جرمني کے آئين کا ايک تعلق چل رہا ہے۔ پھر 1955ء ميں جماعت احمديہ پہلے ہمبرگ ميں قائم کي گئي اور پھر 1957ء ميں جنگ کے بعد کي پہلي مسجد بھي بنائي گئي يعني فضل عمر مسجد جس کے ساتھ ميرا ايک گہرا تعلق ہے ناصرف اس ليے کيونکہ وہ ميرے علاقہ ميں ہے بلکہ ميري اور وہاں کي لوکل جماعت کي گہري دوستي بھي ہے۔

• جناب Niels Annen صاحب نے کہا کہ جماعت کو Hamburg ميں 2014ءسے اور صوبہ Hessen ميں 2013ء سے Körperschaft des öffentlichen Rechts ہےيعني اس کا سٹيٹس عيسائي چرچ کے برابر ہے۔ يہ کوئي معمولي چيز نہيں ہے کيونکہ جماعت احمديہ جرمني کے ليے مختلف رنگ ميں مفيد ثابت ہو رہي ہے۔ ايک پہلو يہ بھي ہے کہ وہ جرمني ميں ہي اپنے مربيان تيار کرتي ہے۔ اسي ليے ہمارا بھي فرض بنتا ہے کہ ہم بھي ان کي مدد کريں۔ جرمني کے ملک کو اگلے سالوں ميں ايک بار پھر يہ استحقاق حاصل ہورہا ہے کہ ہم United Nations کے Human Rights Council ميں شامل ہوں گے۔ کچھ دن قبل ہي اس کا انتخاب مکمل ہوا ہے۔ جرمني کو پچھلے سالوں ميں اس فيلڈ ميں بہت وقار حاصل ہوا ہے اور ہميں Human Rights کے معاملات ميں پوچھا جاتا ہے۔ اس ليے ميں احمديہ مسلم جماعت کےساتھ وعدہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ يقيناً اس پليٹ فارم پر مذہبي آزادي کے بارہ ميں بات کريں گے اور خاص کر جماعت احمديہ کے حوالہ سےبھي اس بات کا ذکر کريں گے۔ يقيناً اس سے ساري مشکلات حل تو نہيں ہو سکيں گي ليکن ہم آپ لوگوں کا ساتھ ضرور ديں گے۔

ممبران پارليمنٹ سے خطاب

اس کے بعد حضور انور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے 7بج کر 40منٹ پر حاضرين سے انگريزي زبان ميں خطاب فرمايا۔ اس خطاب کا اردو مفہوم پيش ہے۔

تمام معزز مہمانوں کي خدمت ميں السلام عليکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ اللہ تعاليٰ آپ سب پر سلامتي اور رحمتيں نازل فرمائے۔

سب سے پہلے تو آپ سب معززين کا شکر يہ کہ آپ نے ہماري دعوت کو قبول کيا اور آج شام اس تقريب ميں تشريف لائے۔

آج کل دنيا ميں بالعموم اور مغربي دنيا ميں بالخصوص تارکين وطن اور ان کے معاشرہ پر اثرات کا موضوع بھر پور طور پر زير بحث ہے، اور اس بحث کا زيادہ حصہ مسلمانوں کے گرد گھومتا ہے۔ بعض حکومتيں بلکہ عوام بھي تہذيبوں کے تصادم کے انديشے سے خوف زدہ ہيں اور سمجھتے ہيں کہ مسلمان نہ صرف مغربي معاشرے کا حصہ بننے کي صلاحيت نہيں رکھتے بلکہ اس معاشرہ کے ليے ايک خطرہ بھي ہيں۔

اس مسئلہ پر بات کرنے سے پہلے اس بات کي وضاحت ضروري ہے کہ ‘‘تہذيب’’کا اصل مطلب ہے کيا؟ اس کے جواب ميں ميں جماعت احمديہ کے دوسرے خليفہ کي بيان کردہ تعريف، جس سے ميں خود مکمل طور پر متفق ہوں، پيش کرتا ہوں۔ اس تعريف کے مطابق تہذيب سے مراد کسي معاشرے کي مادي ترقي ہے۔ معاشي ترقي، تکنيکي ايجادات ، ذرائع نقل و حرکت، ذرائع مواصلات اور علمي ترقي وہ عوامل ہيںجو کسي تہذيب کي ترقي کا پتہ ديتے ہيں۔ نيز عسکري طاقت يا قانون يا کسي بھي اور ذريعہ سے امن و آشتي کے قيام کے ليے کيے گئے اقدامات بھي تہذيبي ترقي کا معيار ہوتےہيں۔

اقوام کي تہذيب کے علاوہ ان کي ثقافت بھي ہوتي ہے جو کسي قوم کے افراد کے نظريات، معاشرتي مسائل سے متعلق ان کے رويوں اور ان کے عمل اور ردعمل کا مظہر ہوتي ہے۔ ثقافت کا دارومدار مادي ترقي کي بجائے کسي قوم کے افراد کي اخلاقيات، مذہبي اقدار اور روايات پر ہوتا ہے۔

پس جہاں تہذيب مادي، ٹيکنولوجيکل اور علمي ترقي کا نام ہے، وہاں ثقافت مذہبي، اخلاقي اور فکري ساخت کي مظہر ہے۔

تہذيب اور ثقافت کے اس فرق کو عيسائيت کي ابتدائي تاريخ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس دور ميں سلطنتِ روم اپني طاقت کے عروج پر تھي، بلکہ آج بھي دنيا کي تاريخ کي عظيم تہذيبوں ميں شمار ہوتي ہے۔ اپني مادي ترقي، شہري سہوليات اور حکومتي نظم و نسق کے اعتبار سے سلطنتِ روم کو بہت تہذيب و تعليم يافتہ تسليم کيا جاتاتھا۔

تاہم يہ ظاہر ي عظمت اس کے اخلاقي معيار کي ہم پلہ نہ تھي، کيونکہ عيسائيت کے ابتدائي زمانہ ميں اس کے شہريوں ميں ترقي پسند رجحانات پيدا ہو چکے تھے۔ عيسائيت مذہب کے اصولوں پر ان کي رہنمائي کرتي، جبکہ رومن اربابِ اختيار ان کے ليے دنيوي قوانين و ضوابط وضع کرتے۔

يوں روميوں کي دنيوي تعمير وترقي ان کي تہذيب کي عکاسي کرتي، جبکہ عيسائيت انہيں ايک بہترين ثقافت سے آراستہ کرتي۔ وقت کے ساتھ عيسائيت سلطنتِ روم کا غالب مذ ہب بن گئي اور يوں ان کي تہذيب نے عيسائيت کي ثقافت کو اپناليا۔ اس ملاپ اور اس کے زبردست اثرات نے روايات اور اقدار کي وہ بنياديں رکھيں جو آج بھي مذہب سے دور ہو جانے کے باوجود، مغربي معاشرہ کا حصہ ہيں۔

اب اميگر يشن کي بحث کي طرف آئيں، تو بعض مغربي ممالک کے معاشرتي اعدادوشمار ميں بہت تبديلي رونما ہوئي ہے۔ بہت سے ملکوں سے تارکين وطن يہاں پہنچے ہيں مگر اصل تشويش کا باعث ان ممالک ميں مسلمانوں کا سکونت اختيار کرنا بن گياہے۔ ان مغربي ممالک کے آبائي شہري مسلمانوں کے يہاں کثرت سے پناہ گزين ہونے سے اپني صديوں پراني تہذيب، ثقافت اور اقدار کو خطرہ ميں محسوس کرتےہيں۔

جيسا کہ ميں نے بتايا، ہم تہذيب کو مادي ترقي خيال کرتے ہيں۔ مغربي تہذيب کي مخالفت کرنا، اسے رد کرنايا اس سے گريز کرناتو کجا، ترقي پذير قوميں تو اس تہذيب کے مطابق ڈھلتي جارہي ہيں۔ تو مغربي تہذيب کا خطرے ميں ہونا تو دور کي بات، حقيقت اس کے برعکس نظر آرہي ہے۔

سفر اور ابلاغ کے جديد ذرائع نے دنيا کو ايک گلوبل ويليج ميں تبديل کر ديا ہے۔ ٹيلي ويژن، ديگر ذرائع ابلاغ اور بالخصوص انٹر نيٹ کي موجودگي ميں اب کچھ بھي پوشيده نہيں رہا اور معاشي لحاظ سے پسماندہ ممالک ميں رہنے والے لوگ ترقي يافتہ اقوام کے رہن سہن کو ديکھ سکتے ہيں۔ مغربي طرز زندگي کا اثر قبول کرتے ہوئے وہ بھي مادي ترقي کے اسي درجے کے حصول کے خواہاں ہيں۔

پس اس دعوے ميں کہ مغربي يا  يورپي تہذيب مسلمانوں کي موجودگي سے خطرہ ميں ہے، کوئي دم نہيں۔ بلکہ مغربي تہذيب تو مسلم دنيا سميت تمام خطوں پر اثر انداز ہورہي ہے۔ ہاں، يہ خيال کہ اسلام کے پھيلنے سے يورپ کي مذہبي اور اخلاقي ثقافت کا خطرہ ميں ہونا ايک جائز اور قابل فہم انديشہ ہے اور اب ميں اس کي طرف آتا ہوں۔

يہ تو ايک ناقابلِ ترديد حقيقت ہے کہ لوگ مذہب سے دور ہوتے جارہے ہيں اور مغرب ميں تو يہ رجحان تشويش ناک حد تک بڑھا ہوا ہے۔ مغربي ممالک ميں ہونے والي مردم شماري کے اعدادو شمار سے ثابت ہے کہ مذہب يا خدا کي طرف رجحان رکھنے والے افراد کي تعداد گرتي چلي جارہي ہے۔ ميرے نزديک لادينيت مغربي ثقافت کے ليے اسلام کي نسبت زيادہ بڑا خطرہ ہے۔ مغربي اقدار صديوں پراني ہيں اور ان کي بنياديں مذہبي روايات بالخصوص عيسائي اور يہودي ورثے پر استوار ہيں۔يہ مذہبي اقداراور ثقافتي اطوار ان لوگوں کي زد ميں ہيں جو دين اور مذہب کے بکلي خلاف ہيں۔

ايک مذہبي رہنما کي حيثيت سے ميري رائے ہے کہ آپ اپني ثقافت اور اپنے ورثے کي حفاظت کے ليے اپني توانائي اور کوششيں مذہبي رجحان کے تنزل کو روکنے اور لوگوں کو ان کے مذہب کي طرف واپس لانے پر مرکوز کريں، خواہ ايسے لوگوں کا مذہب عيسائيت ، يہوديت يا کچھ بھي ہو۔ يہ تو کسي بھي طرح درست نہيں کہ ترقي کے نام پر اخلاقي معيار اور اقدار کو دفعتاً ترک کر ديا جائے جو صديوں سے اس معاشرے کا حصہ چلي آرہي ہيں۔ ميرايہ بھي خيال ہے کہ مغرب ميں مذہبي رجحان کا تنزل ہي ہے جس کے باعث لوگ اسلام سے خوفزدہ ہيں، کيونکہ انہيں معلوم ہے کہ مسلمان بالعموم اپنے دين سے وابستہ رہتے ہيں۔ اس کے پيش ِنظر ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ميڈيا ميں کچھ بھي پڑھيں يا سنيں، اسلام سے خوف زدہ ہونے کي کوئي وجہ نہيں ۔ مسلمان قرآن کريم کو مکمل اور حتمي مذہبي تعليم مانتے ہيں اور قرآن کريم سے ہماري محبت اور اس کي اطاعت کے باعث ہم ايمان رکھتے ہيں کہ مذہب ہر فرد کے ليے دل کا معاملہ اور ذاتي مسئلہ ہے۔

قرآن کريم کي دوسري سورة کي آيت نمبر 257 ميں واضح حکم ہے کہ دين کے معاملہ ميں کوئي جبر نہيں۔ لہٰذا غير مسلموں کو يہ خوف ہر گز نہيں ہونا چاہيے کہ مسلمان زبردستي اپنے عقائد کو پھيلائيں گے يا جبراً اپنے نظريات کو اس خطہ زمين پر مسلّط کريں گے۔ انتہا پسندي کي راہ اختيار کرنے والي نام نہاد مسلمانوں کي ايک چھوٹي سي اقليت قرآن کريم کي تعليمات کي نمائندہ نہيں۔ ميں کئي مرتبہ يہ بات کہہ چکا ہوں کہ حکومتوں اور اربابِ اختيار کو انتہا پسندوں کي سختي سے روک تھام کر ني چاہيے، خواه يہ انتہا پسند مسلمان ہوں يا غير مسلم۔

بحيثيت جماعت احمديہ مسلمہ ، ہمارا ايمان ہے کہ اسلام کسي بھي صورت ميں جبر يا طاقت کے ذريعہ دين کو پھيلانے کي اجازت نہيں ديتا۔ پھر اسلام سے خوفزدہ ہونے کي کيا وجہ رہ جاتي ہے؟ پھر کيوں کوئي خيال کرے کہ اس کي تہذيب يا ثقافت اسلام کے ہاتھوں خطرے ميں ہے؟

اسلامي نقطۂ  نظر سے تہذيب اور ثقافت کے فرق کو بيان کر دينے کے بعد اب ميں اسلام کي بعض بنيادي تعليمات بيان کروں گا۔ اسلام اور بانئ اسلام ﷺ کے بارہ ميں بہت سے اوہام اور غلط فہمياں عام کر دي گئي ہيں۔ اس مختصر وقت ميں اسلامي تعليم کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرناتو ممکن نہيں، تاہم ميں انساني حقوق کے قيام سے متعلق اسلام کي چند تعليمات بيان کروں گا۔

انساني حقوق کے حوالہ سے قرآن کريم کي چوتھي سورت کي 37ويں آيت بنيادي اہميت کي حامل ہے، جس ميں فرمايا:

‘‘اور تم اللہ کي عبادت کرو اور کسي چيز کو اس کا شريک نہ بناؤ اور والدين کے ساتھ احسان کا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور يتيموں اور مسکينوں کے ساتھ اور اسي طرح رشتہ دار ہمسايوں اور بے تعلق ہمسايوں اور پہلو ميں بيٹھنے والے لوگوں اور مسافروں اور جن کےتم مالک ہو……۔’’

اس آيت ميں جہاں مسلمانوں کو اللہ تعالي ٰنے اپني عبادت کا حکم ديا، وہاں والدين کے ساتھ محبت اور دلداري کي بھي تلقين فرمائي۔ يہ تعليم، جو مسلمانوں سے والدين کے ساتھ محبت اور احسان کا تقاضا کرتي ہے، کسي بھي مذہب يا قوم سے کس طرح متصادم ہو سکتي ہے؟ يہ آيت تو مسلمانوں سے رشتہ داروں اور عزيزوں سے رحم اور محبت کے سلوک کا تقاضا بھي کرتي ہے۔يتاميٰ اور معاشرہ کے ديگر مساکين کو آرام اور آسائش پہنچانے کا تقاضا بھي کرتي ہے۔

اس معاملہ ميں ہمارا اعتقاد ہے کہ غرباء کي مدد کا ايک اہم ذريعہ تعليم ہے۔ اگر شکستہ گھرانوں يا غربت سے متاثرہ افرادِمعاشرہ کو تعليم کي سہولت دےدي جائے تو وہ مصائب کے چنگل سے نجات حاصل کرنے کے قابل ہو سکتے ہيں۔ ايسے نوجوانوں کو مواقع مہيا ہو جائيں گے اور وہ ياس اور نا اميدي سے آزاد ہو کر، جرائم پيشہ بننے کي بجائے معاشرہ کے فعال اور کارآمد افراد بن جائيں گے۔ يہي وجہ ہے کہ جماعت احمديہ مسلمہ تعليم کو بہت اہميت ديتي ہے اور اپنے محدود وسائل ميں رہتے ہوئے ہم نے افريقہ کے متعدد ممالک ميں سکول بھي کھولے ہيں اور ايسے طلبا کے ليےوظائف بھي جاري کر رکھے ہيں جو اعليٰ تعليم حاصل کرنے کي استطاعت نہيں رکھتے۔

ہمارا نظريہ ہے کہ متموّل ممالک کو دنيا کي کمزور اقوام کي ٹھوس بنيادوں پر استوار ہونے ميں مدد کرني چاہيے۔ اگر غريب ممالک اپني معيشت اور اپنے بنيادي ڈھانچے استوار کر ليں تو ان کے شہريوں کو اپنے ہي ملک ميں مواقع ميسر آجائيں گے اور انہيں ترکِ وطن کر کے بيرون ملک چلے جانے کي ضرورت بھي کم محسوس ہوگي۔ اگر ان کے اپنےممالک مستحکم ہو کر ترقي کي راہوں پر چل نکليں تو اس کے فطري نتيجہ کے طور پر ان کے اپنے خطہ کے ساتھ ساتھ دنيا کے ديگر خطے بھي مستفيد ہوں گے۔

قرآن کريم کي مذکورہ بالا آيت ميں پڑوسي کے حقوق کي ادائيگي کا خصوصيت سے ذکر ہے، خواہ وہ مسلمان ہوں يا غير مسلم۔ پڑوس کي حد بھي بڑي وسيع بيان ہوئي ہے۔ پيغمبر اسلامﷺ نے فرمايا کہ خدا تعاليٰ نے پڑوسي کے حقوق پر اس قدر زور ديا کہ انہيں يہ گمان ہوا کہ شايد اسے وراثت ميں بھي حصہ دار بنا ديا جائے۔

بانئ اسلامﷺ نے يہ تعليم بھي دي کہ جو انسان کا شکر گزار نہيں، وہ اللہ تعاليٰ کا شکر گزار بھي نہيں ہو سکتا۔ کيا ہي خوب اصول ہے !پس خدا تعاليٰ کي عبادت کے ساتھ يہ بھي ضروري ہے کہ انسانيت کے حقوق بھي ادا کيے جائيں۔

ميں پھر پوچھتاہوں کہ ايسي تعليم مغربي تہذيب کے ليے خطرہ کيوں کرہوسکتي ہے؟

لہٰذا ميرےخيال ميں مغرب والوں کا يہ کہنا بے فائدہ ہو گا کہ اسلام اور مسلمانوں کي دنيا کے اس حصہ ميں کوئي جگہ نہيں ہے۔ اگر مسلمان اس معاشرے کا حصہ بننے، پڑوسيوں کے حقوق ادا کرنے اور ملک و قوم کي ترقي اور بہبود کي کوشش کرنے کي نيت لے کر يہاں آئيں، تو يہ قابل مذمت نہيں بلکہ عين قابل ستائش ہے۔

کچھ لوگ اس خيال کے حامل ہيں کہ مسلمانوں کو جہاد کا حکم ہے، لہٰذا وہ مغرب ميں آکر متشدد جنگ چھيڑ ديں گے اور اسلامي تہذيب کو جبر سے مسلط کرتے ہوئے معاشرے کا امن اور سکون برباد کر ديں گے۔ يہ خيال جہاد کي تعليم اور اسلامي تاريخ کے ابتدائي دور ميں لڑي جانے والي جنگوں سے متعلق شديد غلط فہميوں پر مبني ہے۔ درحقيقت اسلام خوني يا متشدد مذہب نہيں ہے۔

ايک مرتبہ آنحضورﷺ کے ايک صحابي نے اسلامي فوج ميں شامل ہو کر جہاد کرنے کي اجازت چاہي۔ پيغمبر اسلامﷺ نے اس کي درخواست اس بنياد پر ردکر دي کہ اس کے والدين ضعيف تھے۔ بلکہ اسے حکم ديا کہ وہ گھر ميں رہ کر ان کي خدمت کرے، کہ يہي اس کا جہاد ہو گا۔ اگر جہاد کا مقصد جنگ و جدل اور خون ريزي ہي ہو تا تو پيغمبر اسلام ﷺاس کي پيشکش کو فوراً قبول کرتے ہوئے مسلم فوج کو تقويت دينے کو ترجيح ديتے۔

يہ وضاحت بھي ضروري ہے کہ اسلام کے ابتدائي زمانے ميں جو جنگيں لڑي گئيں ان کا مقصد حصولِ اقتدار يا ظلم يا مقامي لوگوں کو جبراً اسلام قبول کروانا نہيں تھا۔ ان جنگوں کا مقصد مذہب کي حفاظت اور آزادئ مذہب کا قيام تھا۔

قرآن کريم کي 22ويں سورت کي آيات 40 اور 41 ميں فرمايا ہے کہ اگر مذہبي انتہا پسندوں کو روک نہ ديا جاتا تو کليسا اور معبد اور مندر اور مساجد اور ديگر عبادت گاہيں شديد خطرے کا شکار ہو جاتيں۔ کفار مکہ کا يہي تو مقصد تھا کہ مذہب کے تمام آثار کو صفحۂ  ہستي سے مٹا ديا جائے۔ يہ ثبوت ہے کہ اسلام تمام مذاہب کے تحفظ کا ضامن ہے۔

پھر بچوں کي پرورش کے بارہ ميں قرآن کريم کي چھٹي سورت کي آيت نمبر 152 ميں آتا ہے کہ مسلمان اولاد کو قتل نہ کريں۔ يہاں اولاد سے محبت اور شفقت کا حکم بھي ہے اور انہيں تعليم دلانے، ان کي تربيت کرنے کا حکم بھي، تا کہ وہ بڑے ہو کر نہايت قابل اور با اخلاق افراد بنيں اور ملک و قوم کا اثاثہ ہوں۔

اسي طرح اسلام نے مسلمانوں کو يہ حکم بھي ديا ہے کہ وہ معاشرے کے کمزور افرادکے حقوق کي حفاظت کريں۔ مثلاً قرآن کريم کي چوتھي سورت کي ساتويں آيت ميں مسلمانوں کو پابند کيا گيا ہے کہ وہ يتيم بچوں کے استحصال کي روک تھام کريں اور ان کي عزت اور ان کے وراثت کے حقوق کي حفاظت کريں، تاوقتيکہ وہ ايسي عمر کو پہنچ جائيں جہاں وہ ان معاملات ميں خود کفيل ہوں۔

مغربي دنيا ميں اسلام پر ايک اور اعتراض يہ ہے کہ مسلمان عورتوں اور ان کے حقوق کو وقعت نہيں ديتے۔ پہلے تو يہ واضح ہونا چاہيے کہ سب سے پہلے اسلام نے ہي عورت کو وراثت ميں حق ديا، خلع کا حق ديا اور اس کے ديگر حقوق قائم کيے۔ اس کے ساتھ اسلام تعليم نسواں اور خواتين کو ذاتي ترقي و بہبود کے مواقع مہيا کرنے پر بھي زبردست زور ديتا ہے۔

پيغمبر اسلام ﷺکا ايک مشہور فرمان ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ يہ الفاظ معاشرے ميں عورت کے عظيم المرتبت کردار اور نہايت نماياں اور بے مثال مقام کا مظہر ہيں۔ مائيں ہي تو ہيں جن کے پاس يہ طاقت اور قابليت ہے کہ وہ اپني قوم کو جنت نظير بناديں اور اپنے بچوں کے ليے دائمي جنتوں کے دروازے کھول ديں۔

اسي طرح قرآن کريم کي چوتھي سورة کي بيسويں آيت ميں مسلمان مَردوں کو حکم ديا گيا ہے کہ وہ اپني بيويوں سے محبت اور عزت سے پيش آئيں۔ مغربي ممالک ميں تو کوئي دن ايسا نہيں گزرتا جب گھريلو تشدد کے واقعات ميں پوليس اور عدالتوں کي دست اندازي کي خبريں نہ آتي ہوں۔ متعدد تحقيقات اور رپورٹوں سے، مثلاً برطانيہ کے قومي ادارۂ شماريات کي 2018ءکي رپورٹ سے ثابت ہے کہ ايسے جرائم کسي مذہب سے مخصوص نہيں ۔ ايک اور حاليہ رپورٹ سے يہ بھي ثابت ہے کہ جرمني بھي ايسے واقعات سے مستثنٰي نہيں۔ لہٰذا اسلام کو عورت مخالف مذہب قرار دينا سخت نا انصافي ہے۔

اسلام اپنے پَيروؤں سے اس بات کا بھي تقاضا کرتا ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے پيروؤں کے عقائد اور مذہبي جذبات کا احساس کريں۔ ميثاق ِمدينہ اس تعليم کا واضح ثبوت ہے جہاں تورات کو يہود کي شر عي کتاب کے طورپر تسليم کيا گيا۔

اسلام نے تو دشمنوں اور مخالفين تک کے حقوق کے تحفظ کي تعليم دي ہے۔ دوسري سورت کي آيت نمبر 191 ميں حالتِ جنگ ميں بھي مخالف کے ساتھ زيادتي کرنے کي ممانعت آئي ہے۔ افسوس کہ موجودہ دنيا ميں، جو ماضي کے کسي بھي زمانہ سے زيادہ تہذيب يافتہ ہونے کي دعوے دار ہے، افراد اور اقوام مخالفين کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے سخت ظالمانہ کارروائيوں کے مرتکب ہوتے ہيں اور انتقام کا کوئي موقع نہيں جانے ديتے۔

قرآن کريم کي پانچويں سورت کي نويں آيت ميں اللہ تعاليٰ فرماتا ہے کہ کسي قوم يا گروہ کي دشمني تمہيں عدل اور انصاف پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور نہ کرے۔ بلکہ اسلام تو حکم ديتا ہے کہ ہر حالت ميں عدل و انصاف کے اصولوں پر قائم رہا جائے اور کبھي انتقام کے جذبہ کو غالب نہ آنے ديا جائے۔

اس تعليم کا بہترين عملي نمونہ ہميں رحم، عفو اور درگزر کے اس بےنظير سلوک سے ملتا ہے جس کا مظاہرہ آنحضور ﷺنےفتحِ مکہ کے موقع پر فرمايا۔ تاريخ شاہد ہے کہ مکہ ميں مسلمانوں پر اذيتوں اور مصيبتوں کے پہاڑ توڑے گئے ، ان کي جانيں لي گئيں، انہيں بے گھر کر ديا گيا۔ يہاں تک کہ انہيں ہجرت کرنا پڑي ليکن جب آنحضورﷺ فاتحانہ شان سے مکہ لوٹے اور ايسے ميں کہ تمام شہر آپ کے زيرِ نگين تھا، آپ ﷺ نے اعلان فرمايا کہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں سے کوئي بدلہ نہيں ليا جائے گا۔ آپؐ نے اعلان فرمايا کہ اسلامي تعليمات کے مطابق مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کو فوراً معاف کر ديا جائے اور کسي کے ساتھ بھي غير منصفانہ سلوک نہ کيا جائے، خواہ کوئي اسلام قبول کرے يانہ کرے۔

اسلام کے ذريعہ معاشرہ کے کمزور ترين افراد کے ليے ايک اور انقلاب غلامي کے حوالہ سے آيا جسےاسلام سے قبل جائز اور معمول کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ قرآن کريم کي 24ويں سورت کي 34ويں آيت ميں فرمايا کہ اگر کوئي غلام آزادي کا تقاضا کرے تو اسے آزاد کر ديا جائے۔ اگر کوئي مالي معاوضہ لينا ضروري بھي ہو تو وہ معقول اور قابل ِادا اقساط ميں ليا جائے ، يا پھر معاف ہي کر ديا جائے۔

آج ظاہر ي غلامي کا دور تو نہيں مگر اس کي جگہ معاشي پابنديوں اور بندشوں نے لے لي ہے۔ طاقت ور اقوام اور کم زور اقوام کا باہمي رشتہ آقا اور غلام کے تعلق کي شکل اختيار کر گيا ہے۔ مثلاً امير ممالک کي طرف سے غريب ممالک کو امداد کے نام پر ديے جانے والے قرضے، جنہيں قبول کرنے کے علاوہ غريب ممالک کے پاس کوئي اور راستہ نہيں ہوتا، خواہ شرائط جيسي بھي ہوں۔ پھر سود کي مفلوج کن شرح ان بظاہر قليل المدت قرضوں کو طويل المدت مصائب اور پابنديوں ميں بدل ديتي ہے۔ نتيجةً مقروض ملک کے پاس غالب قوم کے سامنے جھکتے چلے جانے کے سوا کوئي چارہ نہيں رہ جاتا۔ يہ غلامي کليةً غير اخلاقي ہے۔

اسلام نے آغاز ہي سے غير مسلموں کے حقوق بھي قائم کر ديے اور مسلمانوں کو معاشرہ ميں امن اور اتحاد کے قيام پر پابند کر ديا۔مثلاً قرآن کريم کي چھٹي سورت کي آيت نمبر 109 ميں حکم فرمايا کہ مسلمان مشرکين کے بتوں کو بھي برانہ کہيں، مبادا يہ مشرکين کو الله تعاليٰ کي شان ميں گستاخي کرنے پر اکسائے۔

اس مختصر وقت ميں مَيں نے چند نکات بيان کيے ہيں جن سے ثابت ہوتا کہ اسلام نے کس طرح انسانيت کے حقوق کو قائم فرمايا۔ مجھے اميد ہے کہ ميري گزارشات سے آپ کو يہ اطمينان حاصل ہوا ہو گا کہ اسلام مغربي تہذيب يا ثقافت کے ليے خطرہ نہيں ہے۔ اگر کوئي مسلمان غير مسلموں کے حقوق کو پامال کرتا ہے تو وہ اسلامي تعليم کي خلاف ورزي کرتا ہے يا پھر وہ اس تعليم سے واقف ہي نہيں۔

حاصل کلام يہ کہ ہم ايک ايسي دنياميں رہ رہے ہيں جو تباہي کے دہانے پر کھڑي ہے اور انديشہ ہے کہ يہ صورت حال مزيد بگڑ جائے۔

اس بات کو سمجھنے کي ضرورت ہے کہ الفاظ کے نتائج دور رس ہو سکتے ہيں۔ لہٰذا تہذيبوں کے تصادم کي بات کرنے کي بجائےاور قوموں کے در ميان بلاضرورت تناؤ پيدا کرنے کي بجائے، ايک دوسرے کي مذہبي تعليمات پر حملے کرنے سے گريز ضروري ہے۔ بجائے عقائد کے اظہار پر پابندياں عائد کرنے کے، ہميں يہ خيال رہناچاہيے کہ ہم سب ايک ہي نسلِ انساني کا حصہ ہيں اور آج پہلے کي نسبت زيادہ جڑے ہوئے ہيں۔ مختلف رنگ و نسل اور مذہب کا احترام کرتے ہوئے ہميں اتحاد کے قيام کي طرف توجہ کرني چاہيے تاکہ دنياميں ديرپا امن قائم ہو سکے۔

تاہم، موجودہ صورت حال تو اس کے برعکس ہے۔ کيا مسلم اور کيا غير مسلم، ہر قوم اپنے مفادات کو دنيا کے وسيع تر مفادات پر ترجيح ديتے ہوئے، عدل اور اخلاق کي حديں عبور کرتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول پر کمربستہ ہے۔ ماضي کے تار يک زمانوں کي طرح مخالفانہ اتحاد اور گروہ بندياں اُبھر رہي ہيں۔ ايسا معلوم ہو تا ہے کہ دنيااپني تباہي کو دعوت دينے پر مصر ہے۔

آج متعدد ممالک نے ايسے نيوکليائي ہتھيار اور آلات تباہي حاصل کر ليے ہيں جو زيرِ بحث تہذيب کو تباہ کر دينے کي طاقت رکھتے ہيں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ يہ ہتھيار بھي استعمال نہ ہوں گے يا غلط ہاتھوں ميں نہ چلے جائيں گے ؟ اگر يہ نيوکليائي ہتھيار کبھي استعمال ہو گئے، ان کے بد اثرات صرف ہم پر ہي نہيں پڑيں گے، بلکہ ہماري اولاد اور آئندہ نسليں بھي ہمارے گناہوں کا خميازہ بھگتيں گي۔ کئي نسلوں تک ايسے ذہني اور جسماني طور پراپاہج بچے پيدا ہوں گے جن کي امنگوں اور خوابوں کے اجڑ جانے ميں ان کا اپنا کوئي قصور نہيں ہو گا۔

کيا ہم اپنے بعد آنے والوں کے ليے ايساورثہ چھوڑ کر جانا چاہتے ہيں؟ يقيناًنہيں۔

اس ليے مذہبي، نسلي يا سياسي اختلافات کي بنياد پر نفرت کي چنگاريوں کو ہوا دينے کي بجائے ، ہميں اپنے طرز عمل ميں تبديلي کرنا ہوگي۔ اس سے پہلے کہ بہت ديرہوجائے۔

آئيےتمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، باہمي احترام، بر داشت اور محبت کے جذبے کے ساتھ عالمي امن اور آزادئ مذہب کے قيام کے ليے مل کر کوشش کريں۔

ان الفاظ کے ساتھ ميں ايک مرتبہ پھر اس تقريب ميں شامل ہونے پر آپ کا شکريہ ادا کر تا ہوں۔ بہت شکريہ۔

حضور انور ايدہ الله تعاليٰ بنصرہ العزيز کا يہ خطاب 8 بج کر 17 منٹ پر ختم ہوا۔بعدازاں حضور انور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے دعا کروائي جس ميں مہمان اپنے اپنے طريق پر شامل ہوئے۔

بعدازاں مہمانوں نے حضور انور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز کي معيّت ميں کھانا تناول کيا ۔

ڈنر کےپروگرام کےبعد بہت سےمہمانوں نے باري باري حضورانور کےپاس جاکرملاقات کي سعادت پائي۔حضورانورازراہِ شفقت مہمانوں سے گفتگوفرماتے رہے۔ بعض مہمان توحضورانورکي ساتھ والي کرسي پربيٹھ جاتےاورکافي ديرتک حضورانور سےگفتگو کرتے،تصاويربھي ساتھ ساتھ بن رہي تھيں۔

9بج کر45منٹ پراس تقريب کااختتام ہوا اور حضور انور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز ہوٹل سے باہرتشريف لےآئے۔يہاں سےواپس مسجد خديجہ برلن روانگي سے قبل BRANDEN BURGER GATEکےسامنےمقامي انتظاميہ اورقافلہ کےممبران نےاپنےپيارےآقاکےساتھ تصويربنوانےکي سعادت  پائي۔

بعدازاں حضور انور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزيہاں سےروانہ ہوکر 9بج کر 45منٹ پرمسجدخديجہ برلن تشريف لےآئے۔

سوا دس بجے حضور انور نے مسجد خديجہ تشريف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائيں۔ نمازوں کي ادائيگي کے بعد حضور انور اپني رہائش گاہ پر تشريف لے گئے۔

………………………………………………………(باقي آئندہ )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button