حضرت مصلح موعود ؓ

تقدیر الٰہی (قسط نمبر 16)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

تقدير خاص کے نہ ہونے کے نقصان

جس طرح تقدير عام سے دنيا کا قيام اور اس کي ترقي وابستہ ہے۔ اسي طرح روحانيت کا قيام اور اس کي ترقي تقدير خاص سے وابستہ ہے۔ اور جس طرح اگر تقدير عام نہ ہوتي تو دنيا باطل ہوتي اسي طرح اگر تقدير خاص نہ ہوتي تو روحانيت باطل ہوجاتي۔

اس کا پہلا نقصان تو يہ ہے کہ اس کے بغير انسان خدا پر ايمان نہيں لاسکتا۔ اس ليے کہ خدا پر ايمان لانے کي بڑي سے بڑي دليل يہ دنيا کا کارخانہ ہے کہ اتنے بڑے کارخانہ کا بنانے والا کوئي ہونا چاہيے۔ چنانچہ کسي فلسفي نے ايک اعرابي سے پوچھا تھا کہ تمہارے پاس خدا کے ہونے کي کيا دليل ہے۔ اس نے کہا کہ جب ميں مينگني ديکھتا ہوں تو سمجھ ليتا ہوں کہ ادھر سے کوئي بکري گزري ہے۔ يا اونٹ کا پاخانہ ديکھتا ہوں تو معلوم کرليتا ہوں کہ يہاں سے کوئي اونٹ گزرا ہے يا پاؤں کے نشان ديکھ کر معلوم کر ليتا ہوں کہ ادھر سے کوئي انسان گزرا ہے تو کيا اتنے بڑے کارخانہ کو ديکھ کر ميں نہيں سمجھ سکتا کے خدا ہے؟ مگر يہ دليل مکمل  نہيں ہے۔ کيونکہ اس سے يہي ثابت ہے کہ خدا ہونا چاہيے نہ يہ کہ ہے۔ حضرت صاحبؑ نے اس کے متعلق براہين احمديہ ميں خوب کھول کر لکھا ہے۔

اب سوال ہوسکتا ہے کہ پھر کس طرح معلوم ہو کہ خدا ہے؟ يہ بات اسي طرح معلوم ہوسکتي ہے کہ خدا تعاليٰ اپني قدرت کا کوئي نمونہ دکھائے جس کو ديکھ کر يقين کيا جاسکے کہ خدا تعاليٰ واقع ميں موجود ہے۔ جب لوگ ديکھ ليں کہ ايک کام انسان کي طاقت سے بالا تھا اور وہ ايک شخص کے قبل از وقت خبر دينے کےبعد خارق عادت طور پر ہو گيا تو وہ سمجھ سکتے ہيں کہ خدا ہي ہے جس نے يہ کام کر ديا ہے۔

اس موقع پر ميں ايک بات بتاني چاہتا ہوں اور وہ يہ کہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت صاحبؑ نے تو يہ لکھا ہے کہ الہام سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا ہے۔ مگر تم کہتے ہو کہ تقدير سے۔ اس کے متعلق ياد رکھنا چاہيے کہ اصل ميں دونوں باتيں صحيح ہيں اور وہ اس طرح کہ يہ بات کہ خدا ہے اسي الہام سے ثابت ہوتي ہے جس ميں تقدير کو ظاہر کيا جاتا ہے۔ ورنہ اگر خدا کي طرف سے خالي يہ الہام ہو کہ ميں ہوں تو لوگ کہہ سکتے ہيں کہ يہ الہام ملہم کا وہم ہے اس سے خدا کي ہستي ثابت نہيں ہوتي۔ بہت دفعہ الہام بطور وہم کے بھي ہو جاتا ہے۔

يہاں ايک دفعہ ايک شخص آيا وہ کہتا تھا کہ مجھے آوازيں آتي ہيں۔ ‘‘تم مہدي ہو’’مہمان خانہ ميں ٹھہرا ہوا تھا اور وہيں مولوي غلام رسول صاحب راجيکي ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے اس کو بلا کر سمجھايا کہ کيا اگر کوئي مولوي صاحب!مولوي صاحب!کر کے آواز دے تو سمجھ لو گے کہ تمہيں بلاتا ہے۔ اس نے کہا نہيں۔ انہوں نے پوچھا کيا اگر کوئي حکيم صاحب يا ڈاکٹر صاحب کہہ کر آواز دے تو تم کيا سمجھو گے؟ اس نے کہا يہي سمجھوں گا کہ کسي حکيم صاحب يا ڈاکٹر صاحب کو بلايا جا رہا ہے۔ اور ميں نے بھي يہ آواز سن لي ہے۔ مولوي صاحب نے کہا۔ جب ڈاکٹر صاحب اور حکيم صاحب کي آواز سن کر تم يہ نہيں سمجھتے کہ کوئي تمہيں مخاطب کر رہا ہے تو پھر جب مہدي اور مسيح کي آواز تم کو آتي ہے تو اپنے آپ کو مہدي اور مسيح کيونکر سمجھ ليتے ہو؟

اسي طرح حضرت صاحبؑ کے زمانہ ميں ايک شخص آيا اور آکر کہنے لگا۔ مجھے کبھي محمدؐ کہا جاتا ہے، کبھي عيسيٰؑ، کبھي موسيٰؑ، کبھي ابراہيمؑ اور ميں کبھي عرش پر چلا جاتا ہوں۔ حضرت صاحبؑ نے کہا۔ جب تمہيں موسيٰؑ کہا جاتا ہے تو حضرت موسيٰؑ جيسا معجزہ بھي ديا جاتا ہے؟ اس نے کہا نہيں۔ آپؑ نے فرمايا جب عيسيٰؑ کہا جاتا ہے تو تمہيں عيسيٰؑ والے نشان ديے جاتے ہيں؟ کہا نہيں۔ آپؑ نے فرمايا۔ جب محمدؐ کہا جاتا ہے تو محمدؐ کي طاقتيں بھي دي جاتي ہيں؟ کہا نہيں آپ نے فرمايا۔ جب تم عرش پر جاتے ہو تو کيا جلالي نشانات بھي ديے جاتے ہيں؟ کہا نہيں۔ آپؑ نے فرمايا جو شخص کسي کو کہتا ہے کہ لے۔ اور جب وہ لينے کے ليے ہاتھ بڑھاتا ہے تو کچھ نہيں ديتا۔ کيا اس کے اس فعل سے معلوم نہيں ہوتا کہ اس سے ہنسي کي جارہي ہے يا اس کي آزمائش ہو رہي ہے۔ اسي طرح تم سے يہ استہزاء کيا جا رہا ہے جو تمہارے گناہوں کي وجہ سے ہے۔ تم بہت توبہ کرو۔

غرض الہام چونکہ وہم اور وسوسہ اور مرض اور شيطاني القاء کا بھي نتيجہ ہوتا ہے۔ اس ليے خالي الہام پر شبہ کيا جاسکتا ہے کہ شيطاني نہ ہو يا مرض نہ ہو ليکن جب اس کے ساتھ قدرت ہوتي ہے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ کسي زبردست ہستي کي طرف سے ہے۔ پس يہ دونوں باتيں درست ہيں کہ الہام ہي خدا تعاليٰ کے متعلق يقين کے مرتبہ پر پہنچاتا ہے اور اظہار تقدير ہي ‘‘خدا ہے’’کے مرتبہ تک پہنچاتا ہے۔ اور اگر تقدير نہ ہوتي تو خدا تعاليٰ پر ايمان بھي نہ ہوتا۔ دنيا کو ديکھ کر کہا جاسکتا تھا کہ يونہي بن گئي ہے۔ مگر جب خدا کي طاقت اور قدرت کو انسان ديکھتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا ہے۔ چنانچہ حضرت صاحبؑ فرماتے ہيں ؎

قدرت سے اپني ذات کا ديتا ہے حق ثبوت

اس بے نشاں کي چہرہ نمائي يہي تو ہے

اس ميں حضرت صاحبؑ نے بتايا ہے کہ خدا تعاليٰ قدرت سے اپني چہرہ نمائي کرتا ہے اور اس وقت تک خدائي ثابت نہيں ہوتي جب تک وہ قدرت نمائي نہ کرے۔ وہ لوگ جو قدرت ديکھنے والے نہيں ہوتے وہ يوں کہہ ديتے ہيں کہ خدا کو کس نے پيدا کيا جو اس کو مانيں؟ ليکن جب اس کي قدرت ديکھ ليتے ہيں تو ان پر ثابت ہو جاتا ہے کہ خدا ہے۔

پس اگر تقدير نہ ہو تو خدا تعاليٰ پر بھي ايمان نہيں رہتا اور اگر ايمان خدا پر کسي طرح حاصل بھي ہو جائے تو تقدير کے بغير محبت اور اخلاص نہيں پيدا ہوسکتا مثلاً بادشاہ کي ذات ہے۔ کسي کا دل نہيں چاہتا کہ اس کي طرف چٹھي لکھے کيونکہ اس سے ذاتي تعلق نہيں ہوتا۔ ليکن جن لوگوں سے ذاتي تعلق ہوتا ہے ان کي طرف خط لکھنے کا خيال بار بار پيدا ہوتا ہے۔ اسي طرح عام بات کا اَور مزا ہوتا ہے اور اگر وہ بات اپني ذات سے تعلق رکھتي ہو تو اَور ہي مزا ہوتا ہے۔ اگر بادشاہ کا عام اعلان ہو تو اس سے کوئي خاص لطف نہيں اٹھايا جاتا۔ ليکن اگر خاص کسي کے نام بادشاہ کي چٹھي ہو تو اسے اپنے ليے بڑا فخر سمجھتا ہے۔ تو خدا تعاليٰ سے محبت اور اخلاص ہونے کے ليے ضروري ہے کہ اس سے انسان کا ذاتي طور پر تعلق ہو اور وہ تعلق تقدير کے ذريعہ قائم ہوسکتا ہے۔

تيسرا نقصان اگر تقدير نہ ہوتي تو يہ ہوتا کہ تقريباً سارے انسانوں کي نجات نہ ہوسکتي۔ اس ليے کہ اکثر ايسے لوگ ہوتے ہيں جو ابتداء ميں گناہ کرتے ہيں اور جب انہيں سمجھ آتي ہے تو ان کو چھوڑ ديتے ہيں۔ اب اگر تقدير نہ ہوتي اور تدبير ہوتي تو يہي ہوتا کہ جو کچھ انسان کرچکا ہوتا اسي کے مطابق اسے بدلہ ملتا۔ کيونکہ اس کو اپنے کيے ہوئے کے مطابق ہي ملنا تھا خدا نے کچھ نہيں دينا تھا۔ اب ايک ايسا شخص جس نے اسّي سال گناہ کيے اور اکاسيويں سال نمازيں پڑھيں اور اچھے عمل کيے اسے تدبير کا اس قدر بوجھ جہنم ميں ہي لے جاتا۔ ليکن اس موقع پر تقدير کام کرتي ہے اور يہ کہ خدا کي تقدير ہے کہ اگر بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے تو ان کو مٹا ديا جائے گا۔ چنانچہ خدا تعاليٰ فرماتا ہے۔

اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْھِبْنَ السَّيِّاٰتِ۔(ھود:115)

کہ نيکياں بديوں کو مٹا ديا کرتي ہيں۔

ليکن اگر يہ تقدير نہ ہوتي تو لوگوں کي نجات مشکل ہو جاتي۔ اگر تقدير نہ ہوتي تو توبہ کا مسئلہ بھي نہ ہوتا اور جب توبہ کا مسئلہ نہ ہونا تو انسان کے گناہ معاف نہ ہوسکتے اور وہ نجات نہ پا سکتا۔ ليکن خدا نے يہ تقدير رکھ دي ہے کہ اگر انسان توبہ کرے تو اس کے گناہ مٹا ديے جائيں۔ يہي وجہ ہے کہ رسول کريم ﷺ نے فرمايا ہے کہ اگر انسان غرغرہ سے پہلے کسي وقت بھي توبہ کرے گا تو اس کي توبہ قبول کي جائے گي اور يہ آخري وقت کي نيکي اس کي تمام عمر کي بديوں کو مٹا دے گي۔

(ترمذي ابواب الدعوات باب ماجاء في فضل التوبة والاستغفار وما ذکر من رحمة اللّٰہ لعبادہ)

تو تقدير کے مسئلہ کي وجہ سے انسان ہلاکت سے بچتا ہے۔ ميں نے ديکھا ہے کہ ايک انسان اپنے گناہوں پر مصر تھا۔ ميں نے اسے کہا کہ گناہوں کو چھوڑ دو۔ وہ کہنے لگا کہ ميں نے اتنے گناہ کيے ہيں کہ سيدھا جہنم ميں ہي جاؤں گا پھر گناہوں کو چھوڑنے کا کيا فائدہ؟ ميں نے کہا يہ غلط ہے۔ خدا گناہوں کو معاف کر ديتا ہے اگر انسان توبہ کرے۔ آدمي سمجھدار تھا يہ بات اس کي سمجھ ميں آگئي اور اس نے گناہ چھوڑ ديے۔ تو اگر تقدير نہ ہوتي تو توبہ نہ ہوتي۔ اور توبہ نہ ہوتي يعني خدا اپنے بندوں کي طرف رجوع نہ کرتا اور ان کي بديوں کو نہ مٹاتا تو انسان ہلاک ہو جاتا۔

تقدير خاص کي اہميت اور ضرورت

اب ايک اَور بات بتاتا ہوں اور وہ يہ کہ تقدير خاص کي اہميت اور ضرورت کيا ہے؟ اس ميں شک نہيں کہ خدا تعاليٰ نے ہر چيز کے ليے تقدير رکھي ہے اور بندہ کا کام ہے کہ اس کے ماتحت کام کرے۔ مگر يہ ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات عام تقدير کام نہ آسکے۔ مثلاً ايک انسان جنگل ميں ہے اور اس کو پاني کي ضرورت ہے۔ ليکن وہاں نہ کوئي کنواں ہے اور نہ چشمہ۔ اس موقع پر پاني حاصل کرنے کے ليے کيا تقدير ہے؟ يہي کہ کنواں کھود کر پاني نکالے۔ ليکن اگر وہ جنگل ميں کنواں کھودنے لگے تو قبل اس کے کہ پاني نکلے وہ ہلاک ہو جائے گا۔ ايسے وقت کے ليے خدا تعاليٰ نے خاص تقدير رکھي ہے جس کے جاري ہونے سے انسان ہلاک ہونے سے بچ سکتا ہے۔ اگر وہ جاري نہ ہو تو اس کي ہلاکت ميں کوئي شبہ نہيں رہتا۔ اور خاص تقدير يہ ہے کہ وہ خدا تعاليٰ کے حضور دعا کرے اور خدا اس کے ليے پاني حاصل کرنے کا کوئي خاص سامان کر دے۔ اس کي مثال کے طور پر ميں ايک صحابيؓ کا ايک واقعہ پيش کرتا ہوں۔ ان کو روميوں کے لشکر نے پکڑ کر قيد کر ليا اور وہ صحابيؓ کو پکڑ کر قيد کرنے پر بہت خوش ہوئے۔ بادشاہ نے اس کو کوئي بہت سخت سزا ديني چاہي۔ کسي نے مشورہ ديا کہ ان کے مذہب ميں سؤر کھانا منع ہے۔ وہ پکا کر اسے کھلايا جائے۔ چنانچہ سؤر کا گوشت پکا کر ان کے سامنے رکھا گيا۔ ليکن انہوں نے کھانے سے انکار کر ديا۔ انہيں بار بار کہا گيا ليکن انہوں نے نہ کھايا۔ آخر بھوک کي وجہ سے ان کي حالت بہت خراب ہوگئي۔ اس موقع پر وہ اپني جان بچانے کے ليے کوئي سامان نہيں کرسکتے تھے اور تقدير عام ان کي مدد نہيں کرسکتي تھي کيونکہ وہ دوسروں کے ہاتھوں ميں قيد تھے۔ اس موقع پر خدا ہي کچھ کرتا تو ہوسکتا تھا۔ ليکن اگر خدا نے يہ فيصلہ کيا ہوتا کہ ہر موقع پر سامان کے ذريعہ ہي کام ہو تو ان کي نجات کي صورت نہ ہوسکتي تھي۔ مگر چونکہ خدا تعاليٰ نے تقدير خاص کا سلسلہ بھي جاري رکھا ہے ان کے بچاؤ کي صورت ہوگئي۔ اور وہ اس طرح کہ جب چار پانچ دن ان کو بھوکے گزرے تو خدا نے روم کے بادشاہ کے سر ميں سخت درد پيدا کر ديا۔ جس قدر دوائياں ممکن تھيں اس نے کيں ليکن کوئي فائدہ نہ ہوا۔ کسي نے کہا اس کي وجہ يہ تو نہيں کہ جس شخص کو آپ نے قيد کيا ہوا ہے اس کي آہ لگي ہے اور اس وجہ سے يہ سزا مل رہي ہے۔ بادشاہ نے کہا معلوم ہوتا ہے يہي وجہ ہے اس نے صحابيؓ کو بلا کر ان سے ملاطفت کي اور حضرت عمرؓ کو اپني سر درد کے متعلق لکھا جنہوں نے اس کو پراني ٹوپي بھيجي کہ يہ پہن لو سر کا درد جاتا رہے گا۔ اور يہ بھي لکھا کہ ہمارا ايک بھائي تمہارے پاس قيد ہے اس کو بعزت و احترام چھوڑ دو۔ اس نے ايسا ہي کيا اور ٹوپي پہننے سے اس کي درد جاتي رہي۔

پس يہ تقدير تھي جس کے ذريعہ اللہ تعاليٰ نے اس صحابيؓ کو نجات دي۔ تقدير عام کے ذريعہ اس صحابيؓ کي مشکل کا کوئي حل ممکن نہ تھا۔ پس خدا تعاليٰ نے بادشاہ کي گردن پکڑ کر اس سے صحابيؓ کو آزاد کرا ديا۔

پھر حضرت موسيٰ عليہ السلام کا واقعہ ہے۔ خدا تعاليٰ کا حکم ہوا کہ فلاں ملک ميں چلے جاؤ۔ جب وہ اپنے ساتھيوں سميت چلے تو راستہ ميں ايسا جنگل آگيا جہاں پاني نہيں مل سکتا تھا اور کنواں بھي نہيں نکل سکتا تھا کيونکہ پتھريلي زمين تھي۔ اس موقع پر وہ کيا کرتے۔ نہ ادھر کے رہے تھے نہ ادھر کے۔ نہ واپس جاسکتے تھے نہ آگے بڑھ سکتے تھے۔ اگر اس وقت خدا ہي اپنا رحم نہ کرتا تو وہ کيا کرسکتے تھے؟ اس وقت ايک ہي علاج تھا کہ اللہ تعاليٰ خاص تقدير جاري کرے۔ چنانچہ حضرت موسيٰؑ نے خدا تعاليٰ سے عرض کيا کہ الٰہي ہم پياسے مرنے لگے ہيں آپ ہي کوئي انتظام کيجيے کہ ہميں پاني مل جائے۔ اس پر خدا تعاليٰ نے فرمايا کہ فلاں جگہ جا اور جا کر اپنا عصا مار۔ چنانچہ اس جگہ جا کر جب انہوں نے عصا مارا تو چشمہ پھوٹ پڑا اور ان کو پاني مل گيا۔ اب اس جگہ چشمہ تو ازل سے موجود تھا مگر کيوں؟ اس ليے کہ يہاں ايک موسيٰؑ پہنچے گا اور اسے اَور کہيں سے پاني نہيں ملے گا اس وقت يہاں سے پاني ديا جائے گا۔

تو جہاں اسباب کام نہيں ديتے اور ايسے مواقع پيش آتے ہيں۔ اس وقت اگر ہلاکت سے بچنے کا کوئي ذريعہ ہے تو تقدير خاص ہي ہے۔ پس اگر تقدير خاص نہ ہوتي تو يہ نقصان ہوتے کہ

(1)ايمان باللہ حاصل نہ ہوسکتا۔

(2)خدا تعاليٰ کے ساتھ بندہ کے تعلقات مضبوط نہ ہوسکتے۔

(3)توبہ کر کے گناہوں سے بچنے کا موقع نہ ملتا۔

(4)ايسے مواقع پر جن ميں اسباب نہيں مہيا ہوسکتے ان ميں انسان ہلاکت سے نہ بچ سکتا۔

……………(باقي آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button