سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

آپؑ کے ہنسنے مسکرانےاورمزاح کا بيان (حصہ اوّل)

صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب لکھتے ہيں :

“ہميشہ چہرہٴ مبارک کندن کي طرح دمکتا رہتا تھا۔علاوہ اس چمک اور نور کے آپ کے چہرہ پر ايک بشاشت اور تبسّم ہميشہ رہتا تھا اور ديکھنے والے کہتے تھے کہ اگر يہ شخص مفتري ہے اور اپنے دل ميں اپنے تئيں جھوٹا جانتا ہے تو اس کے چہرے پر يہ بشاشت اور خوشي اور فتح اور طمانيت قلب کے آثار کيونکر ہو سکتے ہيں  …”

 (سيرت حضرت مسيح موعودؑاز مرزا مبارک احمد صاحب صفحہ3-2)

ايک دفعہ کا ذکر ہے کہ محمود چار ايک برس کا تھا۔حضور معمولاً اندر بيٹھے لکھ رہے تھے اور مسودات لکھے ہوئے سارے رکھے تھے۔مياں محمود ديا سلائي لے کر وہاں تشريف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ايک غول بھي تھا۔پہلے کچھ دير آپس ميں کھيلتے رہے پھر جو کچھ دل ميں آئي ان مسودات کو آگ لگا دي اور آپ لگے خوش ہونے اور تالياں بجانے۔اور حضرتؑ لکھنے ميں مصروف ہيں ۔سر اٹھا کر ديکھتے بھي نہيں کہ کيا ہو رہا ہے۔اتنے ميں آگ بجھ گئي اور قيمتي مسودات راکھ کا ڈھير ہو گئے اور بچوں کو کسي اور مشغلے نے اپني طرف کھينچ ليا۔حضرت کو کسي عبارت کے سياق کے ليے گزشتہ کاغذ کے ديکھنے کي ضرورت پڑ گئي۔اس سے پوچھتے ہيں ۔خاموش۔اس سے پوچھتے ہيں دبکا جاتا ہے۔آخر ايک بچہ بول اُٹھا کہ مياں صاحب نے کاغذ جلا دئے ہيں ۔عورتيں بچے اور گھر کے سب لوگ حيران اور انگشت بدنداں کہ اب کيا ہو گا…حضور مسکرا کر فرماتے ہيں :

“خوب ہوا۔اس ميں اللہ تعاليٰ کي کوئي بڑي مصلحت ہو گي اور اب خد اتعاليٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہميں سمجھائے۔”

(ملفو ظات جلد اوّل صفحہ 307)

مجھے خوب ياد ہے کہ جس روز ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ صاحب قاديان ميں حضرت کے مکان کي تلاشي کے ليے آئے تھے اور قبل از وقت اس کا کوئي پتہ اور خبر نہ تھي اور نہ ہو سکتي تھي۔

اس کي صبح کو کہيں سے ہمارے مير صاحب نے سن ليا کہ آج وارنٹ ہتھکڑي سميت آوے گا۔مير صاحب حواس باختہ سراز پانشناختہ حضرت کو اس کي خبر کرنے اندر دوڑے گئے اور غلبۂ رقت کي وجہ سے بصد مشکل اس ناگوار خبر کے منہ سے برقع اتارا۔حضرت اس وقت نور القرآن لکھ رہے تھے اور بڑا ہي لطيف اور نازک مضمون در پيش تھا۔سر اٹھا کر اور مسکرا کر فرمايا کہ

“مير صاحب!لوگ دنيا کي خوشيوں ميں چاندي سونے کے کنگن پہنا ہي کرتے ہيں ،ہم سمجھ ليں گے کہ ہم نے اللہ تعاليٰ کي راہ ميں لوہے کے کنگن پہن ليے۔”پھر ذرا تامل کے بعد فرمايا۔‘‘مگر ايسا نہ ہو گا،کيونکہ خدا تعاليٰ کي اپني گورنمنٹ کے مصالح ہوتے ہيں وہ اپنے خلفائے مامورين کي ايسي رسوائي پسند نہيں کرتا۔”

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ306-305)

عصر کے وقت فرمايا:

“طبيعت بہت عليل ہے۔دُعا کرني چاہيے”

اس پر مولانا عبدالکريم صاحب نے عرض کيا کہ آپ وہ ہيں ،جن کي نسبت خدا تعاليٰ کہہ چکا ہے اَنْتَ الْمَسِيْحُ الَّذِيْ لَا يُضَاعُ وَقْتُہٗ۔ميں اميد کرتا ہوں کہ خدا تعاليٰ کو آپ کے درجات کي ترقي بہت ہي منظور ہے کہ ايک طرف تو آپ کے سپرد اس کثرت سے کام کر ديے ہيں کہ ان کے تصور سے قوي سے قوي زہرہ آدمي کي پيٹھ ٹوٹ جاتي ہے اور اُس پر اس قدر بيماريوں کا ہجوم۔

مسکرا کر فرمايا:‘‘ہاں يہ تو ہميں يقين ہے کہ اس ميں اللہ تعاليٰ کے بہت سے مصالح ملحوظ ہيں”۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ120-119)

“ايک دن سير سے واپسي پر ايک کسان منگو نام سکنہ بھيني نے سامنے سے آکر سلام مسنون اور مصافحہ کرنے کے بعد عرض کي کہ حضور تھوڑي دير ٹھہر جاويں ميں کچھ گنے نذر کرنا چاہتا ہوں۔ حضور نے فرمايا :کچھ ضرورت نہيں تمہيں ثواب ہو گيا۔اب تکليف مت کرو مگر اس نے نہ مانا اور اصرار کيا۔حضرت اقدس نے فرمايا کہ 

“اچھا مياں شادي خاں کو ديدو۔وہ ہمارے واسطے لے آوے گامگر اس شخص نے نہايت ہي الحا ح سے عرض کي کہ نہيں حضور ٹھہر ہي جاويں اور حضور کے سارے ساتھي گنوں کي دعوت قبول کريں ۔يہ کہہ کر لپٹ گيا اور حضور کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کھيت ميں لے گيا حضرت اقدس مسکرائے اور اس کے کھيت ميں چند منٹ تک ٹہلتے رہے۔اتنے ميں اس نے گنے لا ڈھير کيے۔ چنانچہ حضرت کے تمام ساتھيوں نے لے ليے۔چلنے سے پہلے حضرت اقدس نے نہايت لطف اور مہرباني سے اس شخص کو بُلا کر اس کا نام وغيرہ دريافت کيا اور اس کے صدق اور خلوص محبت سے مسکرا کر رخصت ہوئے۔اس واقعہ سے حضرت کے ہمراہيوں پر خا ص اثر ہوا کہ لطف اور شفقت سے اور فراخدلي سے حضرت اقدس اس سے پيش آئے اور يہ آپ کے اخلاق حميدہ کا ايک نمونہ تھا۔”

(ملفوظات جلد دہم صفحہ160)

اخبار وکيل جو کہ امرتسر سے نکلتا تھا ، اس ميں مولانا ابو النصر صاحب فرماتے ہيں :

“ميں نے کيا ديکھا ؟ قاديان ديکھا۔مرزا صاحب سے ملاقات کي اور اُن کا مہمان رہا۔مرزا صاحب کے اخلاق اور توجّہ کا، مجھے شکريہ ادا کرنا چاہيے … اکرام ضيف کي صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھي۔چھوٹے سے لے کر بڑ ے تک ہر ايک نے بھائي کا سا سلوک کيا … مرزا صاحب کي صورت نہايت شاندارہے جس کا اثر بہت قوي ہوتا ہے۔آنکھوں ميں ايک خاص طرح کي چمک اور کيفيت ہے۔اور باتوں ميں ملائمت ہے۔طبيعت منکسر مگر حکومت خيز۔مزاج ٹھنڈا مگر دلوں کو گرمادينے والا۔بُرد باري کي شان نے انکساري کيفيت ميں اعتدال پيدا کر ديا ہے۔گفتگو  ہميشہ اس نرمي سے کرتے ہيں کہ معلوم ہوتا ہے کہ گويا متبسّم ہيں …”

(اخبار وکيل بحوالہ سيرت طيّبہ از مرزا بشير احمد صاحب صفحہ115-114)

حضرت مولوي عبد الکريم صاحب سيالکوٹيؓ نے جو حضرت اقدس مسيح موعودؑ کي سيرت پر ايک کتابچہ تحرير کيا اس ميں ايک جگہ منشي عبدالحق صاحب کي حضور کے سامنے عرض کردہ اس بات کو بيان کيا کہ وہ يعني منشي عبد الحق صا حب کھانے کے معاملے ميں اپنے گھر ميں کسي قدر درشتي کے ساتھ پيش آتے ہيں اور حضورؑ کو بوجہ محنت ِ دماغي بھي مقوي غذاوٴں کے ليے کسي قدر سختي سے گھر ميں تاکيد کرني چاہيے اس پر حضرت مو لوي عبد الکريم صاحبؓ کہتے ہيں کہ ميں دل ہي دل ميں بہت خوش ہوا کيونکہ يہ بات حضورؑ کے حق ميں فائدہ مند تھي جو کہ وہ خود بھي حضورؑ کو کہنا چاہتے تھے بہرحال وہ لکھتے ہيں کہ

“حضرت نے ميري طرف ديکھا اور تبسّم سے فرمايا : ‘‘ہمارے دوستوں کو تو ايسے اخلاق سے پر ہيز کرنا چاہيے۔”

(سيرت حضرت مسيح موعودؑ از مولوي عبد الکريم صاحب سيالکوٹي صفحہ16)

ايک بارشديدجسماني تکليف کے بعد کي کيفيت جو حضورؑ کي تھي اس کے بارے ميں حضرت مولوي عبد الکريم صاحب سيالکوٹيؓ تحرير کرتے ہيں کہ

“ميں بسا اوقات عين اس وقت پہنچا ہوں جبکہ ابھي ابھي سردرد کے لمبے اور سخت دورہ سے آپ کو افاقہ ہوا آنکھيں کھول کر ميري طرف ديکھا ہے تو مسکرا کر ديکھا ہے اور فرمايا ہے اب اللہ تعاليٰ کا فضل ہے۔”

 (سيرت حضرت مسيح موعودؑ از مولوي عبد الکريم صاحب ؓسيالکوٹي صفحہ23) 

 مزيد آگے چل کر لکھتے ہيں :

“مجھے ياد ہے کہ حضرت لکھ رہے تھے ايک خادمہ کھانا لائي اور حضرت کے سامنے رکھ ديا اور عرض کيا کھانا حاضر ہے فرمايا خوب کيا مجھے بھوک لگ رہي تھي اور ميں آواز دينے کو تھا وہ چلي گئي اور آپ پھر لکھنے ميں مصروف ہو گئے اتنے ميں کتّا آيا اور بڑي فراغت سے سامنے بيٹھ کر کھانا کھايا اور برتنوں کو بھي خوب صاف کيا اور بڑے سکون اور وقار سے چل ديا۔اللہ اللہ ان جانوروں کو بھي کيا عرفان بخشا گيا ہے۔وہ کتّا اگر چہ رکھا ہوا اور سدھا ہوا نہ تھا مگر خدا معلوم اُسے کہاں سے يہ يقين ہو گيا اور بجا يقين ہو گيا کہ يہ پاک وجود بے شر اور بے ضرر وجود ہے اور يہ وہ ہے جس نے کبھي چيونٹي کو بھي پاوٴ ں تلے نہيں مسلا اور جس کا ہاتھ کبھي دشمن پر بھي نہيں اُٹھا۔غرض ايک عرصہ کے بعد ہاں ظہر کي اذان ہوئي تو آپ کو پھر کھانا ياد آيا۔آواز دي خادمہ دوڑي آئي اور عرض کيا کہ ميں تو مدّت ہوئي کھانا آپ کے آگے رکھ کرآپ کو اطلاع کر آئي تھي اس پر آپ نے مسکرا کر فرمايا اچھا تو اب شام کو ہي کھائيں گے۔”

 (سيرت حضرت مسيح موعودؑ از مولوي عبد الکريم صاحب ؓسيالکوٹي صفحہ 32)

حضرت مرزا بشير احمد صاحبؓ ايم۔اے بيان فرماتے ہيں :

“بيان کيا مجھ سے مياں عبداللہ صاحب سنوري نے کہ اوائل زمانہ کي بات ہے کہ ايک دفعہ رمضان کے مہينہ ميں کوئي مہمان يہاں حضر ت صاحب کے پاس آيا۔اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زيادہ حصہ گذر چکا تھا بلکہ شايد عصر کے بعد کا وقت تھا حضرت صاحب نے اسے فرمايا آپ روزہ کھول ديں اس نے عرض کيا کہ اب تھوڑا سا دن رہ گيا ہے اب کيا کھولنا ہے۔حضور نے فرمايا آپ سينہ زوري سے خدا تعاليٰ کوراضي کرنا چاہتے ہيں ۔خدا تعاليٰ سينہ زوري سے نہيں بلکہ فرمانبرداري سے راضي ہوتا ہے۔جب اس نے فر ما ديا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہيں رکھنا چاہيے۔اس پر اس نے روزہ کھول ديا۔خاکسار عرض کر تا ہے کہ مولوي شير علي صاحب بيان کرتے تھے کہ ايک دفعہ حضر ت صاحب کے زمانہ ميں حکيم فضل الدين صاحب بھيروي اعتکاف بيٹھے مگر اعتکاف کے دنوں ميں ہي ان کو کسي مقدمہ ميں پيشي کے واسطے با ہر جانا پڑگيا چنانچہ وہ اعتکاف توڑ کر عصرکے قريب يہاں سے جانے لگے تو حضرت صاحب نے مسکراتے ہو ئے فرمايا کہ اگر آپکو مقدمہ ميں جانا تھا تو اعتکاف بيٹھنے کي کيا ضرورت تھي۔”

 (سيرت المہدي جلداوّل روايت نمبر117)

حضرت مرزا بشير احمد صاحبؓ ايم۔اے بيان فرماتے ہيں :

“خاکسارعر ض کرتا ہے کہ حضرت مسيح موعودؑجب کسي سے ملتے تھے تو مسکراتے ہوئے ملتے تھے اور ساتھ ہي ملنے والے کي ساري کلفتيں دور ہوجاتي تھيں ، ہر احمدي يہ محسوس کرتا تھا کہ آپ کي مجلس ميں جاکر دل کے سارے غم دُھل جاتے ہيں ۔بس آپ کے مسکراتے ہو ئے چہرے پر نظر پڑي اور سارے جسم ميں مسرت کي ايک لہرجاري ہوگئي۔آپ کي عادت تھي کہ چھوٹے سے چھوٹے آدمي کي بات بھي توجہ سے سنتے تھے اور بڑي محبت سے جواب ديتے تھے۔ہر آدمي اپني جگہ سمجھتا تھا کہ حضرت صاحب کو بس مجھي سے زيادہ محبت ہے۔بعض وقت آداب مجلس رسول سے نا واقف ،عامي لوگ دير دير تک اپنے لاتعلق قصے سناتے رہتے تھے اور حضرت صاحب خاموشي کے ساتھ بيٹھے سنتے رہتے اور کبھي کسي سے يہ نہ کہتے تھے کہ اب بس کرو۔نمازوں کے بعد يا بعض اوقات دوسرے موقعوں پر بھي حضور مسجد ميں تشريف رکھتے تھے اور ارد گرد مشتاقين گھيرا ڈال کر بيٹھ جاتے تھے اور پھر مختلف قسم کي باتيں ہوتي رہتي تھيں اورگويا تعليم و تربيت کا سبق جاري ہوجاتا تھا۔مجلس ميں بيٹھے ہوئے لوگ محسوس کرتے تھے کہ علم ومعرفت کا چشمہ پھوٹ رہا ہے۔جس سے ہر شخص اپنے مقدور کے موافق اپنا برتن بھر ليتا تھا۔مجلس ميں کوئي خاص ضابطہ نہ ہوتا تھا بلکہ جہاں کہيں کسي کو جگہ ملتي تھي بيٹھ جاتا تھا اور پھر کسي کو کوئي سوال پوچھنا ہوا تو اس نے پوچھ ليا اور حضرت صاحب نے جواب ميں کوئي تقرير فرمادي يا کسي مخالف کا ذکر ہو گيا توا س پر گفتگو ہو گئي يا حضرت نے اپنا کوئي نيا الہام سنايا تو اس کے متعلق کچھ فرما ديا ، يا کسي فرد يا جماعت کي تکاليف کا ذکر ہوا تو اسي پر کلام کا سلسلہ شروع ہو گيا۔غرض آپ کي مجلس ميں ہر قسم کي گفتگو ہو جاتي تھي اور ہر آدمي جو بولنا چاہتا تھا بول ليتا تھا۔جب حضرت گفتگو فرماتے تھے تو سب حاضرين ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے۔آپ کي عادت تھي کہ خواہ کوئي پبلک تقرير ہو يا مجلسي گفتگو ہو۔ابتدا ء ميں دھيمي آواز سے بولنا شروع کرتے تھے اور پھر آہستہ آہستہ آواز بلند ہو جاتي تھي حتّٰي کہ دور سے دور بيٹھا ہوا شخص بھي بخوبي سن سکتا تھا۔اور آپ کي آواز ميں ايک خاص قسم کا سوز ہو تا تھا۔”

 (سيرت المہدي جلداوّل روايت نمبر247)

……………………………………………(باقي آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button