متفرق مضامین

سالِ نَو کی حقیقی مبارک باد کافلسفہ

(انیس احمد خلیل۔ مربی سلسلہ)

از افاضات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اکثر دنیا میں نئے سال کا استقبال بڑے جوش وخروش سے کیا جاتا ہے۔اس موقع پر گھروں اوردیگر عمارتوں کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے،متنوع قسم کے کھانوں کا اہتمام کیا جاتاہے،نئے ملبوسات زیب تن کیے جاتے ہیں اورجوں ہی 31؍دسمبر کی رات 12بجتے ہیں فلک بوس عمارات پر جدید لائٹ شو زکا اہتمام کیا جاتاہے۔ اور بعض لوگ شراب نوشی ، گانےبجانے،ڈانس اور دیگر فضولیات میں پڑے رہ کر نئے سال کا آغاز کرتے ہیں ۔گویا اس موقع پر اسلامی روایات ، اخلاق اور تہذیب کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔ہم لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے وقت کے امام کو مانا اور آج خلفائے احمدیت کی قیادت میں احمدیت کاقافلہ رواں دواں ہے جو کہ ہرایک موقع پر احباب جماعت کی رہ نمائی فرماتے ہیں اور انہیں لغویات سےبچا کر اسلامی تعلیمات کےحصار میں لاتے ہیں ۔

اس مضمون میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جانب سے نئے سال کے مواقع پر احباب جماعت کو کی گئی زریں و گراں قدر ہدایات ہدیہ قارئین ہیں۔

اصل عید اور خوشی کا دن

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ بیان فرمودہ یکم جنوری 2010ء میں احباب جماعت کو نئے سال کی مبارک باد دیتےہوئے اصل عید اور خوشی کے دن کے متعلق فرماتے ہیں :
‘‘سب سے پہلے تو مَیں آپ سب کو نئے سال کی مبارک باد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ہر احمدی کے لیے یہ سال اور آئندہ آنے والا ہر سال مبارک فرماتا چلا جائے۔ ہم ہر سال کی مبارک باد ایک دوسرے کو دیتے ہیں لیکن ایک مومن کے لیے سال اور دن اس صورت میں مبارک ہوتے ہیں جب وہ اس کی توبہ کی قبولیت کا باعث بن رہے ہوں اور اس کی روحانی ترقی کا باعث بن رہے ہوں، اس کی مغفرت کا باعث بن رہے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی ایک جگہ فرمایا ہے کہ اصل عید اور خوشی کا دن اور مبارک دن وہ ہوتا ہے جو انسان کی توبہ کا دن ہوتا ہے۔ اس کی مغفرت اور بخشش کا دن ہوتا ہے۔ جو انسان کو روحانی منازل کی طرف نشان دہی کروانے کا دن ہوتا ہے۔ جو دن ایک انسان کو روحانی ترقی کے راستوں کی طرف رہ نمائی کر نے والا دن ہوتا ہے۔ جو دن حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والا دن ہوتا ہے۔ جو دن اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کو بروئے کار لانے کی طرف توجہ دلانے والا دن ہوتا ہے۔ جو دن اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے عملی کوششوں کا دن ہوتا ہے۔ پس ہمارے سال اور دن اُس صورت میں ہمارے لیے مبارک بنیں گے جب ان مقاصد کے حصول کے لیے ہم خالص ہو کر، اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے، اس کے آگے جھکیں گے۔ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔’’

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ یکم جنوری 2010ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍جنوری2010ءصفحہ5)

مبارک باد کی حقیقی روح

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 3؍جنوری 2014ءکو مبارک باد کی حقیقی روح کے متعلق احباب جماعت کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘سب سے پہلے تو میں آج آپ کو اور دنیا میں پھیلے ہوئے تمام احمدیوں کو نئے سال کی مبارک باد دیتا ہوں۔ مجھے اداروں کی طرف سے بھی، جماعتوں کی طرف سے بھی، افراد کی طرف سے بھی مبارک باد کے پیغام آ رہے ہیں۔ ان سب کو مبارک ہو اور جماعت کو مبارک ہو اور اس دعا کے ساتھ یہ مبارک باد ہے کہ اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے پہلے سے بڑھ کر اس سال کو اپنی رحمتوں، فضلوں اور برکتوں کا سال بنا دے۔ اور یہ دعا ہر احمدی کی یقینا ًہے اور ہونی چاہیے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں، برکتوں اور رحمتوں کی خواہش اور دعا کیے بغیر یہ مبارک باد دیتے ہیں تو صرف رسماً مبارک باد دینا تو بے فائدہ ہے اور دنیا داروں کی باتیں ہیں۔ لیکن یہ خواہش بھی بے کار ہو گی اور دعا بھی لا حاصل ہو گی اگر ہم اپنی اُن صلاحیتوں اور استعدادوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لیے بروئے کار نہ لائیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں ودیعت فرمائی ہوئی ہیں۔ اُن باتوں پر عمل کرنے کی کوشش نہ کریں جن پر عمل کرنے کا خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم فرمایا ہے۔ ہمارا صرف نئے سال کی رات کو اجتماعی نفل پڑھ لینا کافی نہیں ہے، اگر ہمیں ان نوافل کی ادائیگی کے ساتھ یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ اب ہم نے حتی الوسع یہ کوشش کرنی ہے کہ نوافل کی ادائیگی کرتے رہیں۔ اپنی عبادت کے معیار کو بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لیے بہتر بنانا ہے اور اپنی عملی زندگی میں ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اگر اس سوچ کے ساتھ ہم نے دو دن پہلے اپنے نئے سال کا آغاز کیا ہے اور ایک دوسرے کو مبارک بادیں دے رہے ہیں تو ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں، رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے کی کوشش کرنے والوں میں شمار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک کی یہ سوچ ہو۔ اگر نہیں ہے تو خدا کرے کہ ہماری یہ سوچ ہو جائے۔ یہی سوچ ہے جو اللہ تعالیٰ کے گزشتہ فضلوں کا بھی شکر گزار بناتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے ہم پر جو احسانات اور انعامات کیے ہیں، اُن پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بناتی ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور ہمارا خالص ہو کر جھکنا ہی ہماری زندگی کا مقصد ہے جواللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے۔ پس یہ روح ہے جو ہماری ان مبارک بادوں کے پیچھے کارفرما ہونی چاہیے۔’’

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ3؍ جنوری 2014ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل24؍جنوری 2019ء صفحہ5)

ایک احمدی کا کیا معیار ہونا چاہیے؟

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 2؍جنوری 2015ء کو ایک احمدی کا کیا معیار ہونا چاہیے کے متعلق احباب جماعت کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘آج کا جمعہ اس نئے سال 2015ء کا پہلا جمعہ ہے۔ مجھے مختلف لوگوں کے نئے سال کے مبارک باد کے پیغام آ رہے ہیں۔ فیکسیں بھی اور زبانی بھی لوگ کہتے ہیں۔ آپ سب کو بھی یہ نیا سال ہر لحاظ سے مبارک ہو۔ لیکن ساتھ ہی مَیں یہ بھی کہوں گا کہ ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کا فائدہ ہمیں تبھی ہو گا جب ہم اپنے یہ جائزے لیں کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے احمدی ہونے کے حق کو کس قدر ادا کیا ہے اور آئندہ کے لیے ہم اس حق کو ادا کرنے کے لیے کتنی کوشش کریں گے۔ پس ہمیں اس جمعہ سے آئندہ کے لیے ایسے ارادے قائم کرنے چاہئیں جو نئے سال میں ہمارے لیے اس حق کی ادائیگی کے لیے چستی اور محنت کاسامان پیدا کرتے رہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے ہمارے ذمہ جو کام لگایا گیا ہے اس کا حق نیکیوں کے بجا لانے سے ہی ادا ہو گا لیکن ان نیکیوں کے معیار کیا ہونے چاہئیں۔ تو واضح ہو کہ ہر اس شخص کے لیے جو احمدیت میں داخل ہو تا ہے اور احمدی ہے یہ معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود مہیا فرما دیے ہیں، بیان فرما دیے ہیں اور اب تو نئے وسائل اور نئی ٹیکنالوجی کے ذریعہ سے ہر شخص کم از کم سال میں ایک دفعہ خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر یہ عہد کرتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیان فرمودہ معیاروں کو حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرے گا۔ اور ہمارے لیے یہ معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں کھول کر بیان فرما دیے ہیں۔ کہنے کو تو یہ دس شرائط بیعت ہیں لیکن ان میں ایک احمدی ہونے کے ناطے جو ذمہ داریاں ہیں ان کی تعداد موٹے طور پر بھی لیں تو تیس سے زیادہ بنتی ہے۔ پس اگر ہم نے اپنے سالوں کی خوشیوں کو حقیقی رنگ میں منانا ہے تو ان باتوں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جو شخص احمدی کہلا کر اس بات پر خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے وفات مسیح کے مسئلے کو مان لیا یا آنے والا مسیح جس کی پیشگوئی کی گئی تھی اس کو مان لیا اور اس پر ایمان لے آیا تو یہ کافی نہیں ہے۔ بیشک یہ پہلا قدم ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم نیکیوں کی گہرائی میں جا کر انہیں سمجھ کر ان پر عمل کریں اور برائیوں سے اپنے آپ کو اس طرح بچائیں جیسے ایک خونخوار درندے کو دیکھ کر انسان اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جب یہ ہو گا تو تب ہم نہ صرف اپنی حالتوں میں انقلاب لانے والے ہوں گے بلکہ دنیا کو بدلنے اور خدا تعالیٰ کے قریب لانے کا ذریعہ بن سکیں گے۔’’

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ2؍ جنوری 2015ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍جنوری2015صفحہ5)

سالِ نَو کی حقیقی مبارک باد کافلسفہ

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ جمعہ بیان فرمودہ 4؍جنوری 2019ءکوسالِ نَو کی حقیقی مبارک باد کافلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘آج 2019ء کا پہلا جمعہ ہے۔ اس حوالے سے میں تمام دنیا کے احمدیوں کو پہلے تو نئے سال کی مبارک باد دینا چاہتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ یہ سال ہمارے لیے مبارک کرے اور بے شمار کامیابیاں لے کر آئے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صرف رسمی مبارک باد کہہ دینے کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ نہ ہی رسمی مبارک باد اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بناتی ہے۔ سال کی حقیقی مبارک باد یہ ہے کہ ہم یہ عہد کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں ایک اور سال کا سورج دکھایا ہے، اس میں داخل کیا ہے تو اس میں ہم اپنے اندر کی کمزوریوں اور اندھیروں کو دور کرنے کی کوشش کریں ۔ گزشتہ سال میں جو کمیاں اور کوتاہیاں ہو گئی ہیں ہم یہ عہد کریں کہ ہم انہیں دور کریں گے۔ اپنے اندر پہلے سے بڑھ کر وہ پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جس کے حصول کے لیے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہد بیعت باندھا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ ایک احمدی کو کیسا ہونا چاہیے فرمایا کہ

‘‘آدمی کو بیعت کر کے صرف یہی نہ ماننا چاہیے کہ یہ سلسلہ حق ہے اور اتنا ماننے سے اسے برکت ہوتی ہے۔’’ فرمایا کہ

‘‘… کوشش کرو کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہو تو نیک بنو۔ متقی بنو۔ ہر ایک بدی سے بچو۔ … رات اور دن تضرع میں لگے رہو … زبانوں کو نرم رکھو۔ استغفار کو اپنا معمول بناؤ۔ نمازوں میں دعائیں کرو۔’’نمازوں میں دعائیں تب ہی ہوں گی جب نمازوں کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ انہیں سنوار کر پڑھنے والے ہوں گے۔ فرمایا کہ ‘‘… نرا ماننا انسان کے کام نہیں آتا … خدا تعالیٰ صرف قول سے راضی نہیں ہوتا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی رکھا ہے۔’’فرمایا ‘‘عمل صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرّہ بھر فساد نہ ہو۔’’

(ملفوظات جلد 4صفحہ 275-274۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ معیار ہے، یہ لائحہ عمل ہے جس پر اگر ہم اس سال میں عمل کرنے والے ہوں گے، ان باتوں کے حصول کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کرنے کی کوشش کریں گے تو یقیناً یہ سال ہمارے لیے مبارک اور بہت سی برکتیں لانے والا سال ہو گا۔ اور اگر یہ نہیں تو جیسا کہ مَیں نے کہا ہمارے نئے سال کی مبارک باد رسمی مبارک باد ہے۔ نئے سال کے آغاز کی پہلی رات میں تہجد اور باجماعت فجر کی نماز پڑھ لینا تمام سال کی نیکیوں پر حاوی نہیں ہو جاتا بلکہ اس کوشش کو حتی المقدور تمام سال پر جاری رکھنا اصل نیکی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور حقیقت میں ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی یہ سال بے شمار برکات لانے والا بنے اور جماعت کی غیر معمولی ترقیات بھی ہم دیکھنے والے ہوں۔’’

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 4؍جنوری 2019ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍جنوری2019ءصفحہ5تا6)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان ارشادات کی روشنی میں سالِ نَو کی حقیقی مبارک باد کےفلسفہ کو سمجھنےاورایک احمدی کےلیے حضرت مسیح موعود ؑ کے قائم کردہ معیاروں کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اورہر نیا سال ہماری زندگیوں میں بے شماربرکتیں اور افضال لے کر آئے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button