متفرق مضامین

تحریک وقف جدید کے افضال و برکات

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

ایمان افروز واقعات کے آئینہ میں

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کامیاب ہونے والوں کے بارے میں فرماتاہے۔

یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ

یعنی اپنی جانوں پردوسرں کو ترجیح دیتے ہیں باوجود اس کے کہ انہیں خود تنگی درپیش ہو۔

(الحشر:10)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک درہم، ایک لاکھ درہم کے مقابلے میں آج سبقت لے گیا۔ صحابہ نے عرض کی کہ کس طرح؟ آپؐ نے فرمایا کہ ایک شخص کے پاس دو درہم تھے۔ اُس نے ایک درہم کی قربانی کر دی۔ اور ایک دوسرے شخص کے پاس بے شمار دولت اور جائیداد تھی اس نے اس میں سے ایک لاکھ درہم کی قربانی کی۔

(سنن النسائی کتاب الزکاۃ باب جہد المقل حدیث نمبر 2527)

وقف جدید کی مالی تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 1957ء میں شروع کی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اِس کوبعدمیں ساری دنیا تک وسیع کیا۔

وقف جدید کے اغراض و مقاصد

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں یوں فرماتےہیں:

“شاید اور کسی کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھے کہ اتنی تحریکات ہیں۔ ان کا کیا مقصد ہے؟ تو اس بارے میں مَیں تھوڑی سی وضاحت کر دوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ وقف جدید یعنی اس کے اخراجات مخصوص ملکوں اور مخصوص علاقوں کے لیے ہیں۔ مغربی اور امیر ممالک سے وقف جدید کی مدّ میں جو چندہ آتا ہے وہ بھارت اور افریقہ کے عموماً دیہاتی علاقوں میں خرچ ہوتا ہے بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جب یہ تحریک باقی دنیا کے لیے بھی عام کی تھی تو امیر ممالک میں وقف جدید کو جاری کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ ہندوستان کے اور قادیان کے جو اخراجات ہیں وہ وقف جدید سے پورے کیے جائیں جبکہ تحریک جدید سے جو اخراجات کیے جاتے ہیں وہ دنیا کے ہر ملک میں جہاں مرکز سے مدد کی ضرورت ہو کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ رقم مرکز میں آتی ہے اور وہاں سے اخراجات کیے جاتے ہیں۔ بہرحال وقف جدید کے ذریعہ سے بہت سے منصوبے غریب یا غیر ترقی یافتہ ملکوں میں سر انجام پا رہے ہیں۔”

(خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29؍جنوری2016ء)

مصارف ِوقف جدید

بعض اوقات ذہن میں سوال آتا ہے کہ وقفِ جدید کے مصارف کیا ہیں اوراِس کا چندہ کہاں پرخرچ کیا جاتا ہے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہوئے بیان فرماتےہیں:

“ ترقی یافتہ ممالک سے وقفِ جدید کا چندہ لینے کا بڑا مقصد یہ تھا کہ انڈیا اور افریقہ کے بعض ممالک جن کے اخراجات بڑھ رہے ہیں اور جماعتوں کی اکثریت بھی نومبائعین کی ہے جنہیں ابھی مالی نظام کا صحیح طرح پتہ نہیں اُن پر ہی رقم خرچ کی جائے۔ ان کی ضروریات پوری کی جائیں۔ مساجد کی تعمیر ہے اور دوسرے اخراجات ہیں…امیر ممالک سے یا مغربی ممالک سے جو وقفِ جدید کا چندہ لیا جاتا ہے وہ دوسرے نئے منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا جہاں اور مزید ضروریات بڑھ رہی ہیں، مساجد بن رہی ہیں، مشن ہاؤسز بن رہے ہیں، لٹریچر چھپ رہا ہے۔ یہ قربانیاں جو مغربی ممالک کے احمدی کر رہے ہیں جہاں ان کو اپنے ملک میں جماعتی پروجیکٹس کو اور کاموں کو آگے بڑھانے میں وسعت دینے میں کام آ رہی ہیں وہاں غریب ممالک میں احمدیت کی ترقی میں بھی یہ ممد بن رہی ہیں۔ اور یوں امیر ممالک کے قربانی کرنے والے لوگ بھی انفرادی طور پر بھی جو معمولی قربانی کر رہے ہیں بحیثیت جماعت ان کی قربانی تیز بارش کے نتائج پیدا کر رہی ہے”۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ7؍جنوری 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍جنوری2011ء)

اس الٰہی اورمبارک تحریک میں جہاں پر عورتوں نے قابلِ قدر قربانی کی توفیق پائی۔وہاں پرچھوٹے بچے اور بچیوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی۔جہاں صاحبِ حیثیت اور مال دار احباب نے اِس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہاں پر غریب اورکم آمدنی والوں کو بھی اِس الٰہی تحریک پر لبیک کہنے کی توفیق ملی۔ نومبائعین نے بھی اِس میں اپنا مال دیا جواُن کے ایمان میں ترقی کا موجب بنا۔یہی تحریک بیماروں کےلیے شفاء اور قرض داروں کے لیے قرض سے نجات کا ذریعہ بنی۔اسیروں کی رَستگاری کے نظارے بھی اِ س الٰہی تحریک نے دکھائے۔ چند ایمان ا فروز واقعات کو اکٹھا کیا جارہا ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مختلف خطبات میں بیان فرمائے ہیں۔

احمدی عورتوں کے ایثار کے نظارے

“مبلغ نائیجیریا بیان کرتے ہیں کہ لوکوجہ جماعت کی ایک خاتون اسوت حبیب (Aswat Habib)صاحبہ بتاتی ہیں کہ مَیں اپنے گھر میں کپڑوں کی، گارمنٹس کی دکان چلاتی ہوں، لیکن اب میرے شوہر نے سکول کھولا ہے جس کی وجہ سے میرا زیادہ وقت سکول کے کاموں میں گزرتا ہے۔ اور سکول بھی گھر سے دور ہے جس کی وجہ سے دکان کے کام میں آمدنی کم رہی۔ یہ بات میرے لیے پریشان کن تھی۔ ایک دن مربی صاحب نے چندہ وقفِ جدید میں قربانی کی تحریک کی اور مجھ سے جتنا ہو سکتا تھا میں نے اس میں ادا کر دیا۔ اُسی دن چند گھنٹوں کے بعد جب مَیں نے اپنی گارمنٹس کی دکان کھولی توچند گھنٹوں میں اتنی سیل ہوئی جو پہلے ہفتوں میں نہیں ہوتی تھی۔ یہ صرف خدا کی راہ میں چندہ دینے کی برکت ہے جس نے مجھے اتنا نوازا”۔

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7؍جنوری 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍جنوری2011ء)

“سیرالیون کی ایک احمدی خاتون پرائمری سکول کی ہیڈ مسٹرس ہیں۔ کہتی ہیں کہ مشنری صاحب نے چندے کی تحریک کی۔ میرے پاس رقم نہیں تھی۔ پہلے میں دے چکی تھی۔ کہتی ہیں میرا ایک بھائی تھا جو بڑے عرصہ سے عیسائی ہو گیا تھا اور مجھ سے ناراض تھا کہ تم بھی عیسائی ہو جاؤ اور چھوڑ کے امریکہ چلا گیا تھا۔ خیر کہتی ہیں میں نے مشکل سے چندہ تو ادا کر دیا گو حالات ایسے نہیں تھے۔ ایک دن اس کا فون آیا اور اس نے کہا کہ ٹھیک ہے تم بے شک مسلمان رہو۔ احمدی رہو۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن بہرحال مجھے تحریک ہوئی ہے کہ میں تمہاری مدد کروں۔ اس لیے میں تمہیں ایک بڑی رقم بھیج رہا ہوں۔ چنانچہ اس نے رقم بھیجی۔ بھائی سے رابطہ بھی ہو گیا اور کشائش بھی پیدا ہو گئی”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

“آسٹریلیا کی ایک جماعت کے بارے میں سیکرٹری وقف جدید لکھتے ہیں کہ ایک خاتون نے گزشتہ سال وقف جدید کے بارہ میں خطبہ سنا اور وہ موصوفہ بڑی متاثر ہوئیں۔ اور دوہزار ڈالر ان کے پاس تھے وہ فوری طور پر انہوں نے ادا کر دیے”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

“لجنہ یوکے (UK)کی جو سیکرٹری تحریک جدید ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ یہاں کی ایک حلقے کی سیکرٹری وقف جدیدنے انہیں کہا کہ ایک خاتون مالی لحاظ سے بہت کمزور ہیں۔ چندہ نہیں ادا کر سکتی تھیں تا ہم پھر بھی جتنا کم از کم ممکن ہو سکتا تھا انہوں نے وعدہ لکھوا دیا۔ تو وہ خاتون کہتی ہیں کہ وعدہ لکھوانے کے بعد انہوں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس وعدے کو پورا کرنے کی توفیق دے۔ یہ خاتون سلائی کرنا جانتی تھیں۔ چنانچہ چند ہی دنوں بعد انہیں سلائی کے آرڈر ملنے شروع ہوئے اور اس کے بعدنہ صرف وہ اپنا وعدہ ادا کرنے کے قابل ہو گئیں بلکہ اس سے کافی زیادہ آمد ہو گئی۔ لہٰذا انہوں نے اپنا وعدہ بھی بڑھا دیا۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍جنوری 2015ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جنوری2015ء)

نومبا ئعین خواتین کی قربانی کے واقعات

“ناروے کے امیر صاحب نے بھی لکھا ہے کہ ایک نارویجین نومبائع خاتون ہیں۔ انہیں جب تحریک کی گئی تو فوری طور پر دو سو کرون ادا کر دیے اور کچھ دن کے بعد موصوفہ نے بتایا کہ جس دن میں نے چندہ ادا کیا تھا اس سے اگلے روز ہی میرے bossنے مجھے بلا کر میری تنخواہ میں دو سو کرون کا اضافہ کر دیا حالانکہ میں نے کسی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ کہتی ہیں میں نے تو ایک دفعہ دو سو کرون دیے تھے اور اب مجھے ہر ماہ دو سو کرون زائد مل رہے ہیں۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

“جرمنی کے نیشنل سیکرٹری وقف جدید لکھتے ہیں کہ جرمنی کی جماعت کا سیمینار تھا جس میں ایک نومبائع خاتون بھی شامل ہوئیں۔ جماعت کی صدر لجنہ نے انہیں بتایا کہ سیمینار کے بعدنومبائع خاتون نے وقف جدید میں چار سو یورو کی بڑی رقم ادا کی۔ یہ اپنی فیملی میں اکیلی احمدی ہیں اور ان کو بڑی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مخالفت بھی دور فرمائے۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2016ء)

“پھر گیمبیا کی ایک خاتون ہیں انہوں نے دو سال پہلے بیعت کی تھی۔ ان کی شادی کو دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ گذشتہ سال جب وقف جدید کے چندہ کی تحریک کی گئی تو انہوں نے اپنی استعداد کے مطابق چندہ ادا کیا اور پھر مجھے بھی دعا کے لیے لکھا۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور موصوفہ کو اللہ تعالیٰ نے اب دو جڑواں بچوں سے نوازا ہے اور یہ کہتی ہیں کہ مجھے اب سمجھ آئی کہ چندے کی برکات کیا ہیں۔

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

“تنزانیہ کے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں کی رہنے والی ایک نومبائع خاتون نے صرف ایک ماہ پہلے بیعت کی تھی۔ ان کو جب وقف جدید کی برکات کے بارے میں بتایا گیا تو کہنے لگیں کہ اس وقت میرے پاس رقم تو نہیں ہے لیکن چونکہ چندہ کی ادائیگی کا سال ختم ہو رہا ہے۔ مَیں چندے کی برکت سے محروم نہیں ہونا چاہتی تھوڑا سا انتظار کریں۔ چنانچہ وہ اپنے گھر گئیں۔ گھر میں انڈے پڑے ہوئے تھے۔ وہاں سے انڈے لیے۔ وہ جا کے بازار میں بیچے اور دوہزار شلنگ ان کی قیمت وصول ہوئی۔ وہ آکے چندہ وقف جدید میں دے گئیں۔ اب یہ صرف ایک مہینہ پہلے احمدی ہوئیں اور ان کو یہ احساس ہوا کہ چندہ دینا ضروری ہے۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

وقف جدیدکےذریعہ اسیروں کی رَستگاری کے نظارے

“گیمبیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک خاتون فاطمہ جالو صاحبہ جن کی عمر انچاس برس ہے وہ نَیَامِیْنَا ویسٹ میں کُنڈا (Kunda)نامی گاؤں میں رہتی ہیں۔ جب انہیں چندہ وقف جدید کی تحریک کی گئی تو کہنے لگیں کہ میرے پاس پیسے تو نہیں ہیں لیکن میری سہیلی نے کچھ دن پہلے مجھے ایک مرغی تحفہ میں دی تھی۔ اب یہ بھی وہی مثال ہے جس طرح قادیان میں ایک عورت مرغی کے انڈے اور مرغی لے کر حضرت مصلح موعود کے پاس آ گئی تھی۔ جو اُسے کسی نے تحفہ میں دی تھی کہ اگر جماعت اسے قبول کر لے تو وہ وقف جدید کا چندہ ادا کر دیں گی۔ چنانچہ انہوں نے مرغی ہی چندے میں دے دی۔ چندہ ادا کرنے کے بعد کہنے لگیں کہ میں اپنے چچا کے سلسلہ میں بہت پریشان ہوں جو گھر کے واحد کفیل تھے اور چار مہینے پہلے بدامنی کے الزام میں سینیگال میں انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی ہے اور وہ جیل میں ہیں۔ مجھے انہوں نے دعا کے لیے خط بھی لکھا اور اس کے بعد کہتی ہیں چندہ بھی ادا کیا۔ بہرحال چندے کی بھی برکت تھی۔ کہتی ہیں دو مہینے بعد انہیں خبر ملی کہ ان کے چچا کو گورنمنٹ نے معاف کر دیا ہے اور وہ جیل سے رہا ہو گئے ہیں۔ ان کی رہائی کے متعلق جس نے بھی سنا وہ یہی کہتا تھا یہ کوئی معجزہ ہے ورنہ اس جرم میں رہائی ناممکن ہے۔ان خاتون کے چچا لامین جالو صاحب ہیں۔ ان کو جب اس واقعہ کا پتا چلا کہ ان کی بھتیجی نے اس طرح چندہ ادا کیا تھا اور مجھے دعا کے لیے بھی لکھا تھا اور پھر ان کی رہائی بھی ہو گئی تو اس سے بہت متأثر ہوئے اور انہوں نے بھی احمدیت قبول کر لی۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 5؍جنوری 2018ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍جنوری2018ء)

صاحبِ حیثیت مخلصین کےانفاق کے واقعات

“انڈیا سے وہاں کے ناظم وقفِ جدید لکھتے ہیں کہ گذشتہ سال 2010ء میں گجرات کے دورے پر گیا تو وہاں گاندھی دھام ایک جگہ ہے اس کے ایک دوست کے پاس جب وقفِ جدید کا چندہ لینے گیا تو ان کا چندہ وقفِ جدید اس وقت تیرہ ہزارروپے تھا۔ کہتے ہیں کہ مَیں ان کے مالی حالات جانتا تھا۔ مَیں نے انہیں تحریک کی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت نوازا ہے۔ آپ اپنا وعدہ پچاس ہزار روپے کر دیں۔ موصوف نے اسی وقت پچپن ہزار روپے کا چیک کاٹ کر دے دیا اور کہا کہ دعا کریں میرا ایک کاروبار ہے اس میں میرے اکیس لاکھ روپے پھنسے ہوئے ہیں جو ملنے کی امیدنہیں بن رہی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ دو چار دن کے بعد ہی اُن کی جو رُکی ہوئی رقم تھی وہ اکیس لاکھ روپیہ ان لوگوں نے خود آ کر ان کو دے دیا۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7؍ جنوری 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍جنوری2011ء)

“اسی طرح ہمارے انسپکٹر وقفِ جدید ہیں، وہ کہتے ہیں کوئمبٹور جماعت میں تامل ناڈو میں ایک مخلص دوست جنہوں نے دس سال پہلے بیعت کی تھی۔ جب انہیں وقفِ جدید کی اہمیت کے بارے میں بتایا اور ان کو کہا کہ آپ تیس ہزار روپے اپنا وعدہ لکھوائیں کیونکہ آپ کی آمد کافی ہے۔ انہوں نے کہا مولوی صاحب! میں نے آپ کی باتیں سن لی ہیں۔ مَیں تیس ہزار نہیں بلکہ پچاس ہزار روپے کا وعدہ لکھواتا ہوں۔ اس پر کہتے ہیں میں نے اُن سے کہا کہ یہ شاید آپ کی طاقت سے بڑھ کر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جودینا ہے تو پھر آپ کو اس سے کیا؟ مجھے پتہ ہے کتنی میری طاقت ہے اور اللہ تعالیٰ کس طرح نوازتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں پھر انہوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور کہتے ہیں میری آمد اب اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس سال کے لیے انہوں نے تحریکِ جدید اور وقفِ جدید دونوں کا اپنا وعدہ ایک ایک لاکھ روپیہ لکھوایا ہے۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7؍ جنوری 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍جنوری2011ء)

“لیگوس کے ایک مخلص احمدی ہیں الحاجی ابراہیم الحسن، انہوں نے اپنا نیا گھر بنایااور اس سے ملحق ایک مسجد اور تین فلیٹ پر مبنی ایک عمارت بنائی۔ مسجد کے بارہ میں ان کا ارادہ تھا کہ وہ اس کو جماعت کے حوالہ کر دیں گے۔ کہتے ہیں کہ ابھی میں اپنے اس نئے گھر میں شفٹ نہیں ہوا تھا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل میرے اس نئے گھر میں تشریف لائے ہیں اور آپ کے بعد خلیفہ ثانی اور خلیفہ ثالث اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع اور خلیفہ خامس سب تشریف لائے اور سب سے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے۔ آمد کے بعد حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہی اس گھر کے افتتاح کی تقریب ہے اور کوئی افتتاح کی تقریب نہیں ہو گی۔ اس کے بعد مسجد سے ملحق عمارت جس میں تین فلیٹس بنائے تھے اُن میں سے ایک فلیٹ میں آپؑ تشریف لے گئے اور فرمایا کہ یہ بھی مسجد کے ساتھ ہی جماعت کو دے دیں۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور مَیں نے ارادہ کر لیا کہ فلیٹ بھی مسجد کے ساتھ ہی جماعت کو بطور مشن ہاؤس دے دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے یہ مسجد اور سارے فلیٹس بطور مشن ہاؤس جماعت کو دے دیے ہیں جس کی کل مالیت نوّے ہزار پاؤنڈ بنتی ہے۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7؍جنوری 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍جنوری2011ء)

“امیر صاحب کینیڈا لکھتے ہیں کہ ایک خادم نے humanity first میں سیرین refugees کے لیے بصیغہ راز کہ نام نہ بتایا جائے پچیس ہزار ڈالر کی مدد کر دی تھی۔ ان کو وقف جدید کے لیے کہا گیا۔ پہلے ہی صف اول میں شامل تھے یا ان میں شامل ہونے کی تحریک کی گئی تو انہوں نے ہچکچاہٹ کی اور صف دوم میں شامل ہونے کا وعدہ کیا۔ لیکن جب چندہ دینے کا وقت آیا تو انہوں نے کہا کہ چندہ مَیں صف اول کے لوگوں کے برابر دوں گا۔ اس میں شامل کرلیں۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

نو مبائین کے انفاقیت کی روح پرورداستانیں

“صوبہ بنگال کے انسپکٹر وقفِ جدید شیخ محمد داؤد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک نو احمدی ہیں جو مدرسہ میں پڑھاتے تھے۔ اس کے بعد پھر انہوں نے معلم کی ٹریننگ لی اور پانچ سو روپیہ چندہ دیتے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل فرمایا۔ اب ان کا پانچ ہزار روپیہ چندہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں غیر احمدی تھا تو لوگوں کے دروازے پرجا کر کھانا کھاتا تھا اور اب بیعت کرنے کے بعد چندے کی برکت سے لوگ میرے دستر خوان پر کھاتے ہیں۔ پہلے جائیدادنہیں تھی اور اب جائیداد بھی بن گئی ہے”۔

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7؍جنوری 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍جنوری2011ء)

“بینن کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نو مبائع جماعت اورا کامے (Avrakame)کے جنرل سیکرٹری لطیفو لامیدی صاحب کچھ عرصے سے بیروزگاری کے حوالے سے بہت پریشان تھے۔ محنت مزدوری اور کاروبار ڈھونڈنے کے سلسلے میں نائیجیریا بھی گئے لیکن کچھ نہ بنا اور پریشان ہی واپس لوٹے۔ اب وقفِ جدید کے آخری دو ماہ نومبر، دسمبر رہ گئے تھے اور یہ اس چندے میں بقایا دار تھے۔ انہیں جب وقفِ جدید کا چندہ دینے کا کہا گیا اور بتایا گیا کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مشکل حالات میں خرچ کرنے والوں کے لیے بھی خاص انعامات ہوتے ہیں تو یہ اگلے دن چندے کی رقم لے کر آگئے اور کہنے لگے کہ جب سارا گھر قرض لے کر کھا رہا ہے تو کیوں نہ خدا کی راہ میں بھی خرچ کے لیے قرض اٹھا لیا جائے۔ شاید اللہ ہمارے دن موڑ دے۔ تو اللہ تعالیٰ کا فضل اس طرح نازل ہوا کہ چندہ دینے کے تیسرے دن انہیں ایک خاصے امیر گھرانے میں ملازمت مل گئی اور اتنی اچھی تنخواہ ملی کہ دو ماہ میں ان کے تمام قرضے بھی اتر گئے۔ انہوں نے ایک موٹر سائیکل بھی خرید لی اور اب ہر جگہ کہتے ہیں کہ یہ میرے چندے کی برکت ہے۔’’

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7؍جنوری 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍جنوری2011ء)

“چندہ دینے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی کس طرح سکون ملتا ہے۔ اس بارے میں آئیوری کوسٹ کے ہمارے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ بَنْدُوکُو شہر آئیوری کوسٹ میں اسلام کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور مولویوں کی اکثریت ہے۔ یہاں ایک زیر تبلیغ دوست عبدالرحمٰن صاحب نے بیعت کی تھی۔ ان کو جماعت کے ساتھ تعارف ایک پمفلٹ کے ذریعہ ہوا تھا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں چار سال قبل مع فیملی عیسائیت سے مسلمان ہوا تھا۔ لیکن میرا دل مطمئن نہیں ہوتا تھا لیکن جب جماعت کے متعلق پتا چلا اور مشن ہاؤس جا کر بعض سوالات کیے تو مجھے میرے سارے سوالوں کے جوابات مل گئے اور میں نے بیعت کر لی۔ کہتے ہیں جب میں نے بیعت کی تو دسمبر کا مہینہ تھا۔ مبلغ صاحب نے مسجد میں چندہ وقف جدید کی اہمیت بتائی اور چندے کی تحریک کی۔ میری جیب میں اس وقت دو ہزار فرانک سیفا تھا جس میں سے ایک ہزار میں نے اسی وقت وقف جدید کی مدّ میں دے دیے۔ کہتے ہیں الحمد للہ اس دن سے اللہ تعالیٰ نے میری زندگی ہی بدل دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے کام میں برکت ڈال دی ہے۔ جس جگہ میں کام کرتا ہوں وہاں افسروں سمیت سب میری عزت کرتے ہیں اور محدود آمدنی میں بھی اتنی برکت ہے کہ خوشحال زندگی گزار رہا ہوں۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 5؍جنوری 2018ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍جنوری2018ء)

“امیر صاحب بینن لکھتے ہیں کہ بینن کے نارتھ اور سینٹر میں بڑی تعداد میں فولانی قبیلہ آباد ہے۔ گذشتہ سالوں میں اس قبیلے میں بھی بیعتیں ہوئیں تھیں۔ اس قبیلے کے تین گاؤں اس علاقے کے مولویوں کی مخالفت اور شدید دباؤ کی وجہ سے بیعت کے کچھ عرصے بعد پیچھے ہٹ گئے تھے۔ بورکینا فاسو سے فولانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک معلم کو بینن بھیجا گیا تا کہ وہ اس علاقے میں رابطہ کر کے ان لوگوں کی غلط فہمیاں دور کریں۔ چنانچہ انہوں نے ایک ماہ اس علاقے میں کام کیا اور یہ تینوں گاؤں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ جماعت میں داخل ہوئے اور ان کے ایمان میں بڑی ترقی ہوئی۔ یہ تینوں گاؤں ٹرانسپورٹ کے لیے بسوں پہ ایک بڑی رقم خرچ کرکے خود بینن کے جلسے میں شامل ہوئے اور جلسہ کے بعد واپس اپنے گاؤں پہنچے تو کچھ ہی دنوں بعد جماعت کے معلّم ان کے گاؤں گئے اور میری طرف سے ان کو یہ بتایا کہ میں نے کہا ہے کہ نومبائعین کو مالی قربانی میں شامل کریں، چاہے تھوڑا ہی دیں۔ اب یہ دسمبر کا مہینہ ہے اور چندہ وقف جدید کی ادائیگی کا آخری مہینہ ہے تو کہتے ہیں کہ اس کے باوجود کہ انہوں نے جلسے کے لیے ٹرانسپورٹ کی بڑی رقم خرچ کی تھی اور مالی تنگی بھی تھی لیکن ایمان میں اس قدر جوش تھا کہ یہ بات سن کر فوراً انہوں نے، تینوں گاؤں کے تمام افرادنے وقف جدید کے چندے میں بھی شمولیت اختیار کی۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍ جنوری 2015ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جنوری2015ء)

مالی لحاظ سےکمزور احباب کی قربانیوں کے واقعات

“گیمبیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک بھائی فوڈے با کولی (Fodayba Colley)ایک غریب آدمی ہیں، جب انہیں وقفِ جدید کے چندے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے بتایا کہ تنگدستی کی وجہ سے وہ تو فاقوں سے ہیں۔ تین دن بعد یہ دوست مشن ہاؤس آئے اور پچاس ڈلاسی دیے اور کہا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ برکت کی خاطر میرا نام بھی چندہ ادا کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہو جائے۔ یعنی فاقے کی نوبت بھی ہے لیکن اس کے باوجود چندہ دینے کی خواہش ہے کہ کہیں میں محروم نہ رہ جاؤں۔ یہ عجیب جذبہ ہے۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7؍جنوری 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍جنوری2011ء)

“امیر صاحب برکینا فاسو لکھتے ہیں کہ گاوا ریجن (Gava Region)کے صدر جماعت ہیما یوسف (Hema Yousaf)صاحب بتاتے ہیں کہ ایک روز جیب میں صرف تین ہزار فرانک تھے۔ اہلیہ نے کہا کہ گھر میں پکانے کو کچھ نہیں ہے، لا کر دیں۔ کہتے ہیں کہ اسی اثنا میں مَیں پیسے لے کرمشن ہاؤس گیا تو وہاں مربی صاحب نے چندے کے وعدے کے متعلق یاددہانی کروائی کہ آپ کا وقفِ جدید کا چندہ رہتا ہے۔ خاکسار نے یہی سمجھا کہ آج میرا امتحان ہے۔ مَیں نے اسی وقت یہ تہیہ کیا کہ چندہ ہی دوں گا اور فوراً تین ہزار فرانک کی رسید کٹوا لی اور اللہ تعالیٰ کو میری حقیر قربانی بہت پسند آئی۔ اسی روز میرے کام کے سلسلے میں ایک شخص گھر آیا اور تین لاکھ فرانک نقد دے کر کہنے لگا کہ میرا آرڈر بک کر لیں اور یہ رقم ایڈوانس کے طور پر رکھ لیں۔ بقیہ کام مکمل ہو گا تو ادا کروں گا۔ یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس روز سے میرا اللہ تعالیٰ پر توکل بہت بڑھ گیا ہے۔ خصوصاً مالی مشکلات تو بالکل ختم ہو گئی ہیں۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7؍جنوری 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍جنوری2011ء)

“بینن سے ہمارے مبلغ سلسلہ نے لکھا کہ کوتونو شہر سے ایک معمر احمدی سلمان صاحب ہیں۔ مالی لحاظ سے بہت کمزور۔ دسمبر میں جلسہ سالانہ بینن میں شرکت کے لیے ان کے پاس اتنی حیثیت بھی نہیں تھی کہ خود آنے جانے کا پندرہ سو سیفا کرایہ لگتا ہے وہ دے سکتے۔ جلسے میں شرکت کے لیے جب انہیں کہا گیا، زور دیا گیا تو بہر حال کوشش کر کے ایک طرف کا کرایہ خرچ کر کے جلسہ گاہ تو پہنچ گئے مگر واپس جانے کا کرایہ نہیں تھا۔ پھر ان کا انتظام کرنا پڑا۔ جلسے کے بعد گھر پہنچے۔ چار پانچ دن کے بعد جو وقف جدید کے محصّلین ہیں وہ چندہ لینے ان کے گھر گئے تو بتایا آپ کے چندہ وقف جدید کی ادائیگی ابھی رہتی ہے جو آپ نے وعدہ کیا ہوا ہے۔ سلمان صاحب نے بڑی بشاشت سے ان کا گھر پر استقبال کیا اور وقف جدید کے چندہ کا سن کے گھر کے اندر گئے اور چھے ہزار فرانک سیفا لا کے دے دیا۔ یہ لکھنے والے لکھتے ہیں ان کی حیثیت کے مطابق یہ بہت بڑی رقم تھی۔ اس پر محصّل راجی شھود صاحب پہلے تو جذباتی ہو گئے۔ پھر انہوں نے ان کو کہا کہ آپ بے شک تھوڑی رقم دیں۔ اتنی بڑی رقم نہ دیں۔ بچوں کے لیے بھی رکھیں کیونکہ یہ آپ کی حیثیت سے زیادہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جب خدا نے مجھے یہ رقم دی ہے تو میں اس کی راہ میں کیوں نہ دوں۔ یہ میری رقم نہیں ہے یہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ میرے پاس تو جلسہ جانے کے لیے کوئی رقم نہیں تھی۔ بڑی مشکل سے ایک طرف کا کرایہ خرچ کر کے گیا تھا۔ واپسی پر اللہ تعالیٰ نے اس قدر نوازا ہے کہ میں یہ رقم خوشی سے اس کی راہ میں دینے کو تیار ہوں۔ اور نیز کہنے لگے کہ دو دن کے بعد دوبارہ آئیں۔ مَیں پھر رقم دوں گا اور دو دن کے بعد انہوں نے دو ہزار سیفا مزید ادائیگی کی۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍جنوری 2015ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جنوری2015ء)

“کانگو برازاویل سے مبلغ لکھتے ہیں ایک غریب احمدی دوست آلیپا صاحب مزدوری کرتے ہیں۔ ہر ماہ چندہ باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ جب ہم نے وقف جدید کے چندے کا اعلان کیا تو یہ جو غریب احمدی ہیں کہتے ہیں کہ میرے پاس صرف دو ہزار فرانک سیفا تھا اور کہیں کام بھی نہیں مل رہا تھا۔ میں نے مسجد میں جا کر دو نوافل ادا کیے اور صدر صاحب کو جا کر جو دو ہزار فرانک موجود تھے وہ چندہ دے دیا۔ شام کو کہتے ہیں کہ مجھے ایک شخص نے بیس ہزار فرانک سیفا بھجوا دیا۔ وہ رقم وہ تھی جو ایک عرصہ پہلے میں نے مزدوری کی تھی لیکن اس نے مجھے ادائیگی نہیں کی تھی۔ کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ چندے کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اسے مجبور کیا کہ وہ مجھے میری رقم ادا کر دے اور اس طرح دس گنا بڑھا کے اللہ تعالیٰ نے رقم ادا کروا دی۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍جنوری 2015ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جنوری2015ء)

وقف جدید بیماریوں کے لیے شفاء

“گیمبیا سے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں کے ایک دوست ہیں۔ ایک سال سے بیمار تھے اور بیماری کے دوران نہ چل سکتے تھے، نہ پھر سکتے تھے، نہ کوئی کام کر سکتے تھے۔ اس وجہ سے مالی حالت بھی بہت زیادہ خراب تھی۔ چنانچہ گذشتہ سال جب وقف جدید کی تحریک کی گئی تو ان کے پاس پانچ ڈلاسی تھے جو ان کو کسی نے صدقے کے طور پر دیے تھے۔ وہ پانچ ڈلاسی انہوں نے وقف جدید میں ادا کر دیے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ایسا فضل کیا کہ جو شخص چلنے پھرنے سے قاصر تھا اس کے کام میں ایسی برکت ڈالی کہ اب جانوروں کا ایک ریوڑ ان کے پاس ہے اور وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ سب فضل فرمایا کہ میری فصلیں بھی اچھی ہونے لگ گئیں اور میرے پاس جانوروں کا بڑا ریوڑ آ گیا یہ سب چندے کی برکات ہیں۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍ جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

“بینن افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے ایک مخلص احمدی آوموسوں قدوس صاحب ہیں۔ نوجوان بچہ ہے۔ سولہ سترہ سال عمر ہے لیکن چندہ دینے میں مزدوری کر کے چندہ دیتے تھے لیکن ان کے بھائی بیمار تھے اور بڑے بڑے ہسپتالوں میں علاج کرانے کے باوجود فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ بہرحال بڑی فکرمندی تھی۔ انہوں نے مجھے بھی دعا کے لیے خط لکھا۔ خود بھی دعا کرتے رہے اور اس کے بعد ایک ہزار فرانک چندے کے طور پر بھی پیش کیا۔ کہتے ہیں کہ کیونکہ خاص طور پر اس نظر سے کیا تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ غیر معمولی طور پر ان کے بھائی کو شفا ہو گئی بلکہ یہ بیان کرنے والے وہاں کے مبلغ ہیں بیان کرتے ہیں کہ ہم نے انہیں کہا بھی کہ تمہارا بھائی بیمار ہے تمہیں ضرورت ہے ابھی تم یہ چندہ نہ دو، بعد میں دے دینا۔ اس نے کہا نہیں۔ اس نے نقد سودا کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی فوری طور پہ نوازا۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

“برونڈی کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں وہاں ایک ابوبکر صاحب ہیں۔ بہت غریب نو احمدی ہیں۔ معمولی تنخواہ پر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ اپنے والدین کی بھی مدد کرتے ہیں تو کہتے ہیں جب مَیں ان کے پاس چندہ وقف جدید کے لیے گیا تو فوراً کچھ ادا کیا اور کہا کہ ان کے والد صاحب کے پاؤں میں زخم ہونے کی وجہ سے وہ بہت زیادہ بیمار ہیں۔ تین ماہ سے ہسپتال میں بھی کافی علاج کروا چکے ہیں۔ دیسی علاج بھی کروا چکے ہیں۔ اب ڈاکٹر ان کا پاؤں کاٹنے کا سوچ رہے ہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ مبلغ لکھتے ہیں کہ دو ہفتے بعد ابوبکر صاحب جمعہ پر آئے اور سب سے پہلے تو اپنا بقایا چندہ وقف جدید ادا کیا اور بڑے درد بھرے الفاظ میں شکریہ ادا کرنا شروع کیا اور بتایا کہ جب چندہ وقف جدید کی معمولی رقم ادا کی تھی (کچھ رقم انہوں نے پہلے دے دی تھی)تو اس کا یہ فضل ہوا کہ جہاں مَیں کام کرتا تھا میرے مالک نے میری تنخواہ میں اضافہ کر دیا اور اس سے بڑھ کر یہ فضل ہوا کہ میرے والد صاحب بھی ٹھیک ہونا شروع ہو گئے۔ پہلے وہ سوٹی کے سہارے، چھڑی کے سہارے چلتے تھے، اب بغیر سہارے کے چلنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ سب چندہ دینے کی برکت ہے۔’’

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍جنوری 2015ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جنوری2015ء)

وقف جدیدمیں یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ کے نظارے

“ہندوستان سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ کوئمبتور (Coimbator) کے ایک دوست اپنی بیٹی کے لیے زیور خریدنے بازار گئے۔ زیور پسند کر رہے تھے کہ جمعہ کا وقت ہو گیا۔ انہوں نے دکاندار سے کہا کہ ہم نماز پڑھ کے آتے ہیں۔ پھر زیور لیں گے۔ خطبہ جمعہ میں ان کو میرے خطبہ کا خلاصہ سنایاگیا جس میں تحریک جدید کے چندے کے نئے سال کا اعلان تھا۔ چندے کے بارے میں بتایا گیا اور اس میں ایک نابینا خاتون کی مالی قربانی کا واقعہ بھی مَیں نے سنایا تھا۔ اس کا ان دوست پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے نماز کے بعد بجائے زیور خریدنے کے وقف جدید کا چندہ ادا کر دیا اور مسجد سے باہر آ کر جب اپنی اہلیہ سے اس بات کا ذکر کیا تو وہ بھی بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں کہ خطبہ کے دوران مَیں نے بھی یہی ارادہ کیا تھا کہ یہ چندہ دے دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری بیٹی کے زیور کا کوئی اور انتظام کر دے گا”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8 ؍جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

“ہندوستان میں سہارنپور سے ہی انسپکٹر وقف جدید لکھتے ہیں کہ یوپی کے ایک گاؤں میں ایک احمدی دوست کے گھر وقف جدید کی وصولی کے لیے گئے تو انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ عید آنے والی ہے اور میرے پاس صرف دو سو روپے ہیں۔ چاہو تو عید کے کپڑے بنا لو چاہو تو چندہ ادا کر دو۔ اس وقت موصوفہ نے کہا کہ پہلے چندہ ادا کریں کپڑے تو بعد میں بن جائیں گے۔ ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ یہ ان کے گھر دوبارہ چندہ لینے گئے تو ان کا گھر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ موصوف نے بتایا کہ ہم نے جب سے چندہ ادا کیا ہے تب سے ہمارے پاس بہت کام آیا ہے۔ پہلے تو میں کھیتوں میں دوسروں کا ٹریکٹر چلاتا تھا اب اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا ہے کہ میں نے خود اپنا ٹریکٹر خرید لیا ہے اور کام میں بے انتہا برکت پڑ گئی ہے ۔’’

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍ جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

“فرانس کے امیر صاحب کہتے ہیں کہ ایک دوست کو جب چندہ وقف جدید کے بارے میں بتایا گیا تو کہتے ہیں کہ میرے پاس اس وقت جو بھی رقم تھی وہ ساری چندے میں دے دی۔ گھر والوں نے کہا کچھ تو رکھ لو۔ گھر کا خرچ کیسے چلے گا؟ کہتے ہیں میں نے کہا کہ وقف جدید کے چندہ کا میں نے وعدہ کیا ہوا ہے یہ تو میں نے دینا ہی دینا ہے۔ گھر کا اللہ تعالیٰ خود انتظام کرے گا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اگلے ماہ حکومت کے صحت کے ادارے کی طرف سے انہیں خط موصول ہوا کہ آپ کی میڈیکل کی رپورٹ دیکھتے ہوئے ہم نے آپ کو دو سال کا خرچ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں تین ماہ کی ادائیگی بھی ساتھ ہی ارسال کر دی۔ جب اس رقم کو دیکھا تو یہ اس رقم سے سو گنا زیادہ تھی جو انہوں نے وقف جدید میں دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے مالی قربانی کا پھل ایک ماہ کے اندر عطا کر دیا۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍جنوری 2015ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جنوری2015ء)

قرضہ سے نجات کی نوید ۔وقف ِجدید

“ہندوستان سے ہی اڑیسہ کی ایک جماعت …کے ایک شخص قرضے میں ڈوبے ہوئے تھے اور اس کی وجہ سے لوگوں سے چھپتے پھر رہے تھے۔ چھپ چھپا کر اپنا وطن چھوڑ کے حیدرآباد چلے گئے۔ خیر ان کو (انسپکٹر وقف جدید کو)جب ان کے بارے میں علم ہوا تو ان کے پاس پہنچے۔ وہاں رابطہ ہوا۔ مربی صاحب نے یا انسپکٹر صاحب نے ان کو چندے کی اہمیت بتائی۔ خیر انہوں نے کسی نہ کسی طرح اپنا چندہ ادا کر دیا اور جماعت سے رابطہ بھی رکھا۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت عطا فرمائی کہ آمدنی پیدا ہونی شروع ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے سارے قرضے بھی اتار دیے اور نہ صرف ان کے قرضے اتر گئے جس کی وجہ سے چھپتے پھرتے تھے بلکہ کہتے ہیں میں نے اپنا مکان بھی خرید لیا۔ اب انہوں نے اپنا وعدہ اس سے کئی گنا بڑھ کے لکھوا دیا۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

بے روزگاروں کے لیے روزگار۔وقف جدید

“ماریشس سے ایک احمدی دوست بیان کرتے ہیں کہ 2015ء میں جب میری طرف سے خطبہ جمعہ میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہوا تو کہتا ہے میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں نے تو کبھی یہ چندہ ادا نہیں کیا۔ خطبہ کے دوران ہی میں نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ اگر مجھے کام مل گیا تو پچیس ہزار ماریشین روپے جو تقریباً پانچ سو پاؤنڈ بنتے ہیں وقف جدید میں ادا کروں گا۔ کہتے ہیں چند دن بعد ہی مجھے پانچ لاکھ روپے کا ایک contract مل گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے وعدے کے بدلے میں بیس گنا زائد عطا فرمایا ہے اور اس کے ملتے ہی انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنا چندہ ادا کیا۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

بچوں میں قربانی کی روح کے نظارے

“آسٹریلیا سے ہمارے مبلغ ایک بچے کا واقعہ لکھتے ہیں۔ یہ ان کے گھر والوں سے باتیں کر رہے تھے اور وہ بچہ قریب بیٹھا باتیں سن رہا تھا تو تھوڑی دیر کے بعد وہ گیا اور اپنی بُگّی (گلّہ، بُغچی)اٹھا کے لے آیا۔ اس میں دو سو ڈالر تھے کہ یہ میری طرف سے وقف جدید کا چندہ ہے۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

“انڈیا سے ہی انسپکٹر وقف جدید منور صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ جماعت ساندھن صوبہ یوپی کے دورے کے دوران ایک دوست کے پاس چندہ وقف جدید کی وصولی کے لیے گئے تو انہوں نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ آپ کل صبح آ جائیں پھر دیکھتے ہیں۔ کہتے ہیں اگلے روز میں دوبارہ ان کے گھر گیا تو موصوف نے بتایا کہ پیسوں کا انتظام نہیں ہوا۔ ان بچوں کو دیکھیں۔ بچوں میں قربانی کی کتنی روح ہے۔ ان کی چھوٹی بیٹی پاس کھڑی سن رہی تھی وہ اپنے والد کے پاس آ کر کہنے لگی کہ آپ نے مجھے وعدہ کیا تھا کہ سردی بڑھ رہی ہے اور آپ مجھے سردیوں میں جوتے خرید کر دیں گے۔ آپ نے میری سردی کے جوتوں کے لیے جو رقم رکھی ہوئی ہے وہ مجھے دے دیں۔ بچی نے ضد کر کے اپنے والد سے یہ رقم حاصل کی اور ساری چندہ وقف جدید میں ادا کر دی اور کہنے لگی کہ جوتے تو بعد میں بھی آتے رہیں گے پہلے چندہ لے لیں۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 5؍جنوری 2018ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍جنوری2018ء)

“سیرالیون کینما ریجن کے مبلغ ہیں وہ حاجی شیخو صاحب کے بارے میں کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے میں اپنے بچوں کی طرف سے چندہ وقف جدید خود دیا کرتا تھا مگر اس دفعہ مَیں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ اپنا وعدہ خود لکھوائے اور اس کی ادائیگی بھی خود اپنی جیب سے کرے۔ جب سیکرٹری صاحب وقف جدید، وقف جدید کا وعدہ لینے کی غرض سے گئے تو ڈاکٹر حاجی شیخو صاحب نے بیٹی سے کہا کہ وعدہ لکھواؤ تو بیٹی نے کہا کہ وہ دس ہزار لیون دے گی۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ شاید تین چار ہزار لکھوائے گی۔ جب بیٹی نے دس ہزار کہا تو اس کی والدہ نے کہا کہ اتنے پیسے کہاں سے ادا کرو گی۔ ڈاکٹر صاحب نے اہلیہ کو منع کیا کہ چُپ رہو اپنی مرضی سے لکھوایا ہے لکھنے دو۔ چند دن گزرے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کے کچھ عزیز ان سے ملنے آئے اور جاتے وقت انہوں نے بیٹی کو پندرہ ہزار لیون دیے۔ بیٹی نے اسی وقت ڈاکٹر صاحب کو دس ہزار لیون دیے اور کہا کہ یہ میرا چندہ ہے جو میں نے وعدہ کیا تھا۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍جنوری 2015ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جنوری2015ء)

“انڈیا سے ہی نائب ناظم مال وقف جدید لکھتے ہیں کہ صوبہ اتر پردیش کے مالی دورے کے دوران محمد فرید انور صاحب سیکرٹری مال کانپور سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنا وعدہ وقف جدید کی مکمل ادائیگی کر دی اور ساتھ ہی شام اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ شام کو گھر پہنچا تو موصوف نے بتایا کہ ان کی آٹھ سالہ بیٹی دو دن سے خاکسار کا انتظار کر رہی تھی۔ بچی کا نام سجیلہ ہے۔ چنانچہ سجیلہ خاموشی سے اندر کمرے میں گئی۔ اور تھوڑی دیر بعد جب باہر آئی تو ہاتھ میں اس کے غلّہ تھا اور خاکسار کو دیتے ہوئے کہا کہ میں نے پورے سال میں اس میں چندے دینے کے لیے رقم جمع کی ہے۔ آپ اس سے ساری رقم نکال لیں اور رسید دے دیں۔ اس میں سات سو پینتیس (735)روپے تھے۔ کہتے ہیں مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک آٹھ سال کی بچی ہے اور اللہ کے فضل سے وقف نو کی تحریک میں بھی شامل ہے۔ اپنا وعدہ وقف جدید خود لکھوا کر اس کی ادائیگی اپنے وعدے سے زیادہ کرتی ہے۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍جنوری 2015ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جنوری2015ء)

زیر تعلیم نوجوانوں کے واقعات

“آسٹریلیا کے مبلغ سید ودود احمد صاحب لکھتے ہیں کہ میلبرن میں ایک خادم جو کہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں وہ وعدے کے مطابق وقف جدید کا چندہ ادا کر چکے تھے۔ لیکن جمعہ پر مالی قربانی کی طرف دوبارہ توجہ دلائی گئی اس پر اس خادم نے مزید پانچ سو پچاس ڈالر کا وعدہ کیا اور اگلے دن ادائیگی بھی کر دی۔ یہ خادم پڑھائی کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم کام بھی کرتے ہیں اور انہیں ہر پندرہ روز کے بعد پانچ سو تیس ڈالر ملتے ہیں لیکن اس ہفتے وہ کہتے ہیں ان کو بارہ سو بتیس ڈالر ملے جس کی انہیں بالکل امیدنہیں تھی۔ کہنے لگے کہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے نتیجہ میں ہوا ہے۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 5؍جنوری 2018ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍جنوری2018ء)

“صدر لجنہ کینیڈا لکھتی ہیں کہ یونیورسٹی کی ایک بچی نے بتایا کہ ایک دفعہ میری لوکل سیکرٹری وقف جدیدنے مجھے کہا کہ تم چندہ وقف جدید ضرور دو۔ خدا تعالیٰ اس طرح تمہاری مشکلات دور فرمائے گا۔ اس بچی نے بتایا کہ میرے پاس اس وقت صرف پچاس ڈالر تھے جو کہ ایک سٹوڈنٹ ہونے کے ناطے میرے لیے بہت بڑی رقم تھی لیکن میں نے چندہ وقف جدید میں ادا کر دیے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں یہ رقم دینے کے کچھ عرصہ بعد ہی مجھے یونیورسٹی سے آٹھ سو ڈالر سکالر شپ مل گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے میری قربانی سے بہت بڑھ کے نوازا۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 5؍جنوری 2018ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍جنوری2018ء)

“قمر الدین صاحب انسپکٹر کہتے ہیں کیرالہ کے صوبہ میں مالی سال کے شروع میں وقف جدید کا بجٹ بنانے کے سلسلے میں ایک جماعت میں پہنچا جہاں ایک چھبیس سالہ نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ موصوف نے کہا کہ میں نے انٹیریئر (interior) ڈیزائننگ میں پڑھائی مکمل کی ہے اور اپنے والد صاحب کے ساتھ کاروبار شروع کرنے لگا ہوں۔ چندہ وقف جدید کی اہمیت کے بارے میں ان کو بتایا تو اسی وقت موصوف نوجوان نے دولاکھ روپیہ اپنا بجٹ لکھوایا اور کہا کہ اب کام شروع کیا ہے۔ خدا جانے وعدہ کہاں سے پورا ہو گا۔ پھر کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے بھی خط لکھا۔ انسپکٹر صاحب نے ان کو تحریک کی کہ دعا کے لیے مجھے لکھیں اور وہ خود بھی لکھیں گے۔ انسپکٹر صاحب کہتے ہیں چنانچہ جب دوبارہ وصولی کے سلسلے میں وہاں گیا توا نہوں نے خوشی سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً کئی بنکوں سے مجھے انٹیریئر (interior) ڈیزائننگ کا کام ملا اور جس سے آمدنی میں بہت برکت ملی ہے اور اسی وقت انہوں نے اپنا وعدہ جو دو لاکھ روپیہ تھا مکمل طور پر ادا کر دیا۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍جنوری 2015ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جنوری2015ء)

کاروبار میں برکت کے نظارے

“تنزانیہ کے ایک لِنڈی ریجن کے سلیمانی صاحب لکھتے ہیں کہ مَیں دکاندار ہوں۔ پچھلے سال میرے کاروبار میں خسارہ ہوا لیکن میں نے تحریک جدید اور وقف جدید کے وعدہ جات میں کمی نہیں ہونے دی اور رمضان المبارک میں ہی اپنے وعدے سے بہت زیادہ ادائیگی کی تا کہ خلیفۃ المسیح کی دعا کا حصہ بن سکوں اور اس خسارے سے نکلوں۔ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اس وقت میری ایک دکان تھی وہ بھی خسارے میں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے میرے چندے میں اتنی برکت ڈالی کہ اب میری دو دکانیں ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ رکھتا نہیں ہے۔ کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍جنوری 2015ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جنوری2015ء)

“تنزانیہ سے ہی بٹوارا ریجن کے ایک نو مبائع شَانگْوِے زبیری صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں جماعت میں شامل ہوا تھا پھر میں نے جماعت چھوڑ دی۔ پھر میں مقامی معلم کی کوششوں سے واپس دوبارہ جماعت میں آیا۔ جب میں جماعت کے نظام سے باہر تھا تب میرا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا۔ چھوٹا سا کاروبار تھا۔ ہر روز خسارے میں رہتا تھا۔ میرے پاس ایک سائیکل تھی جس پر برتن رکھ کر بیچنے جاتا تھا اور کبھی پورے دن میں کچھ بھی نہیں بِکتا تھا لیکن جب سے جماعت کے نظام میں شامل ہوا ہوں۔ تحریکات میں چندہ دینا شروع کر دیا ہے، تھوڑے ہی عرصے بعد میری معاشی حالت تبدیل ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے چندہ دینے سے اتنی برکت ڈالی ہے کہ اب سائیکل کے بجائے مَیں نے موٹر سائیکل لے لی ہے اور اپنے سابقہ حال سے کئی گنا بہتر حال میں ہوں۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍جنوری 2015ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جنوری2015ء)

“بینن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک وہاں کے احمدی کائینڈے (Kainjnide)صاحب ہیں۔ ان کا تعلق گوگورو (Gogoro) جماعت سے ہے۔ انہوں نے حال ہی میں بیعت کی ہے اور ساتھ ہی چندہ جات کی ادائیگی بھی شروع کر دی۔ یہ اپنے اندر غیر معمولی تبدیلی محسوس کرتے ہیں۔ جب ان سے اس بار وقف جدید کا چندہ لیا گیا تو بڑے شوق سے دیتے ہوئے کہنے لگے کہ جب سے مَیں نے چندہ دینا شروع کیا ہے میرا کاروبار بفضلہ تعالیٰ بڑھتا جا رہا ہے اور میرے کاموں میں غیر معمولی برکت پڑ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ احمدیت میں داخل ہونے اور چندہ دینے کی برکت سے ہے۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍جنوری 2015ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جنوری2015ء)

“کنشاسا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ وہاں کے احمدی ابراہیم صاحب ہیں۔ بھیڑ بکریوں کی خریدو فروخت کا کام کرتے ہیں۔ احمدیت قبول کرنے سے پہلے ان کے کاروبار کی حالت کافی خراب تھی اور کوئی منافع نہیں ہوتا تھا۔ قبول احمدیت کے بعد انہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق چندہ ادا کرنا شروع کیا۔ چندے کی برکت سے ان کے کاروبار کی حالت بہتر ہو گئی۔ موصوف اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب اس مالی قربانی کا نتیجہ ہے جو انہوں نے جماعت میں داخل ہونے کے بعد کی ہے۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍جنوری 2015ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جنوری2015ء)

قرض میں ڈوبی رقوم کی واپسی کے نظارے

“بینن میں ہی جماعت اور ا کامے (Awrakame) جو (نام)پہلے بتایا تھا۔ وہاں معلم صاحب چندہ لینے کے لیے گئے۔ اس علاقہ کے بہت سے لوگوں نے جو جگہ ہے‘اور ا کامے’(Awrakame)اس کے صدر جماعت کے پیسے دینے تھے۔ اور یہ بہت بڑی رقم بنتی تھی۔ مگر کافی عرصے سے ادھار لینے والے رقمیں نہیں دے رہے تھے جس کی وجہ سے صدر صاحب اور ان کے گھر کے بعض افرادنے اپنا وقفِ جدید کا مکمل چندہ ادا نہیں کیا۔ معلم صاحب نے صدر اور ان کے گھر والوں کو سمجھایا کہ دیکھو وعدہ ایک قرض ہے۔ جب تم لوگ خدا کا قرض ادا کرنے کے لیے پس و پیش کرتے ہو تو دوسرے لوگ تمہارا قرض ادا کرنے کے لیے کیوں نہ پس و پیش کریں۔ یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی اور انہوں نے فوراً اپنا وقفِ جدید میں سارے گھرکا چندہ بے باق کیا اور کہتے ہیں کہ لو معلم صاحب، مَیں نے تو خدا کا ادھار چکا دیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس طرح اپنا فضل فرمایا کہ ہفتے کے اندر اندر جن لوگوں نے ان کے پیسے دینے تھے وہ سب آئے اور ان کی رقمیں واپس کر گئے۔ اب انہوں نے ایک ایکڑ زمین خریدی ہے جس میں سے آدھی چار کنال جگہ مسجد کے لیے جماعت کو دی ہے۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7؍جنوری 2011ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍جنوری2011ء)

مشکلات سے نجات۔ وقف جدید

“گیمبیا سے ہی امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک خاتون کا خاوند سات سال پہلے اچانک غائب ہو گیا۔ خاتون بڑی پریشان رہتی تھی۔ اس کو لوگ کہتے تھے کہ اتنا عرصہ ہو گیا وہ نہیں آیا۔ فوت ہو چکا ہوگا۔ تم شادی کر لو۔ وہ کہتی تھی نہیں۔ بہرحال چندے کے لیے جب ان کے پاس گئے۔ وقف جدید کا چندہ انہوں نے دینا تھا۔ پانچ ڈلاسی انہوں نے چندہ ادا کر دیا اور کہتی ہیں کہ اس چندے کی ادائیگی کے بعد مجھے ایک ذہنی سکون مل گیا۔ اور پھر نہ صرف ذہنی سکون ملا۔ دو ماہ کے بعد ہی اچانک ایک دن ان کا خاوند صحیح سالم گھر پہنچ گیا جو کہیں کسی وجہ سے پھنس گئے تھے یا کسی ایسی جگہ چلے گئے تھے جہاں سے آنا مشکل تھا۔ بہرحال ان کے وہ حالات ٹھیک ہو گئے۔ خاوند بھی آ گیا اور اب اللہ کے فضل سے ان کے بیٹی بھی پیدا ہوئی۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2016ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

“بینن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک دوست بڑی باقاعدگی سے چندہ دینے والے ہیں۔ یہ کہتے ہیں 4؍دسمبر 2015ء کی رات ڈاکوؤں کا ایک بہت بڑا گروہ مختلف گاؤں کی بھینسیں چُراتا ہوا ہمارے گاؤں میں بھی آ گیا اور اسلحے کے زور پہ وہ ان کی سب بھینسیں لے گئے۔ لیکن ڈاکوؤں کا یہ گروہ ابھی بھینسیں لے کر گاؤں سے نکلا ہی تھا کہ بڑے زور کی آندھی چلنی شروع ہو گئی اور تمام گائیاں بھینسیں جو تھیں بدک کر بھاگ گئیں اور یہ ڈاکو جو تھے ان پہ قابو نہ پا سکے۔ تو ان احمدی صاحب کی کوئی بیس کے قریب گائیاں تھیں جو ان کے پاس آ گئیں بلکہ باقی جانور بھی یہیں آ گئے اور پھر ان لوگوں کو واپس کیے اور لوگوں کو بتایا کہ یہ سب کچھ جو تمہیں بھی واپس ملا ہے میری وجہ سے اس وجہ سے یہ ملا ہے کہ مَیں باقاعدگی سے چندہ دینے والوں میں سے ہوں۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ء)

“بینن کے پاراکو ریجن کی ایک پرانی جماعت‘‘اِنا’’ہے وہاں کے معلم حمید صاحب لکھتے ہیں کہ یہاں کے لوکل زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں اور کپاس کی کاشت کرتے ہیں۔ اس سال کاشتکاروں نے کپاس چُن کر گاؤں کے پاس ایک جگہ ڈھیر لگایا تا کہ فیکٹری میں بھجوائی جائے۔ لیکن ایک دن اچانک کپاس کے ڈھیر کو آگ لگ گئی اور کروڑوں روپے کی کپاس جل کر راکھ ہو گئی۔ اس وقت صرف ایک آدمی کی کپاس بچی جو جماعت کے مخلص ممبر ہیں۔ مقامی لوگوں نے ان سے کہا کہ یہ تو ایک معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی کپاس کو بچا لیا ہے۔ اس پر وہ احمدی دوست کہنے لگے کہ میرا یقین ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرے اموال کو اس لیے بچایا ہے کہ میں احمدی ہوں اور ہر ماہ اللہ کی راہ میں چندہ دیتا ہوں۔”

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 5؍جنوری 2018ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍جنوری2018ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مالی قربانی کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

‘‘میرے پیارے دوستو!مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لیے بخشا ہے۔ اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لیے مجھے عطا کی گئی ہے اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے۔ سومَیں اس لیے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموالِ طیبہ سے اپنے دینی مہمات کے لیے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت وطاقت و مقتدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے۔ اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے۔’’

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 516)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button