از افاضاتِ خلفائے احمدیت

وقف جدید کی اہمیت

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی قبل از خلافت تقریر بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ 1960ء

تشہدوتعوذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعدآپؒ نے فرمایا:

وقف جدید کی تحریک سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک دیرنیہ آرزو کی تعبیر ہے جو آج ہم اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہو تے دیکھ رہے ہیں ۔آج سے 68برس پہلے حضور علیہ السلام نے اس تحریک کو یا یوں کہیےکہ اس تحریک کے مفہوم کو جماعت کے سامنے ایک اشتہار کے ذریعہ پیش فرمایا آپ ؑ فرماتے ہیں:

‘‘اس عاجز کا ارادہ ہے کہ اشاعت دین اسلام کے لیے ایک ایسا احسن انتظام کیا جائے کہ ممالک ھند میں ہر جگہ ہماری طرف سے واعظ و مناظر مقرر ہو ں اور بند گان خدا کو دعوت حق کریںتا حجت اسلام تمام روئے زمین پر پوری ہو ۔لیکن اس ضعف اور قلت کی حالت میں ابھی یہ ارادہ کامل طورپر انجام پذیر نہیں ہو سکتا ہے۔’’

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 323، اشتہار 26؍مئی 1892ء)

تو مشیت ایزدی یہی تھی کہ حضورؑکا یہ مبارک ارادہ اس وقت انجام پذیر نہ ہو لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق جب اس ارادہ نبوی کے کامل طورپرظہورپذیر ہو نے کا وقت آیا تو آپ ہی کے ایک خلیفہ نے ،ایک مصلح موعود خلیفہ نے ،آج سے تین برس پہلے اس تحریک کا یوں آغاز فرمایا ۔

حضورایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

‘‘ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس قسم کے وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رشدو اصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا یہاں تک کہ پنجاب کا کوئی گوشہ اورمقام ایسا نہ رہے جہاں رشد واصلاح کی کوئی شاخ نہ ہو ۔’’

(خطبہ3؍جنوری 1958ء روزنامہ الفضل 11؍جنوری 1958ء)

دیکھیےمفہوم وہی ہے صرف الفاظ ہی کا فرق ہے اور یہ وہی تحریک ہے جو دراصل سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے آج سے 68برس پہلے جاری فرمائی تھی اور یہ تحریک خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے کیونکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اسے جاری کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ
‘‘یہ کام خدا تعالیٰ کاہے اورضرورپوراہوکررہے گا۔ میرے دل میں چونکہ خداتعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لیے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں کپڑے بیچنے پڑیں، میں اس فرض کو تب بھی پورا کروں گا۔ اگر جماعت کا ایک فرد بھی میرا ساتھ نہ دے خداتعالیٰ ان لوگوں کو الگ کر دے گا جو میرا ساتھ نہیں دے رہے اورمیری مددکے لیے فرشتے آسمان سے اتارے گا۔’’

(الفضل 7؍جنوری1958ء)

پس وقف جدید ایک آسمانی آواز ہے جسے مصلح موعود کے ہاتھوں ہم ظاہری صورت میں پورا ہو تے دیکھ رہے ہیں مگر یہ صرف آسمان ہی کی آواز نہیں ہے یہ زمین کا بھی تقاضا ہے اوربڑاپر زور تقاضا ہے۔ آج جماعت احمدیہ کے مسائل سائل کی صداکی طرح اسی قسم کی ایک تحریک کے جاری ہونے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ازل سے خدا تعالیٰ کا یہی طریق جاری رہا ہے کہ جو قوم ایک ترقی یافتہ مقام پر پہنچنے کے بعد اس مقام پرٹھہرنے کے لیے جدّوجہدنہیں کرتی وہ ہمیشہ ان ترقی یا فتہ مقا موں سے گرا دی جایا کرتی ہے ۔آپ تاریخ عالم پر نگا ہ ڈال کر دیکھیں۔ دیکھیےکہ گذشتہ زمانوں میں گذشتہ اُمم سے زمانے نے کیا سلوک کیا؟ بنی اسرائیل کی تاریخوں کو دیکھیےکہ کس طرح انبیاء نے اس پسماندہ قوم کو اٹھا کر ایک اعلیٰ اور ارفع مقا م پر پہنچا دیاتھا۔ نبی کے بعد نبی آیا اور نبی کے بعد نبی گزر گیا اور انہو ں نے نبی اسرائیل کو جو ایک پسماندہ قوم تھی اس کو ایسے اعلیٰ اور ارفع مقام تک پہنچایا کہ خود خدا تعالیٰ نے انہیں مخاطب ہوکر کہاکہ اے میرے بندو !آج میں نے تمہیں تمام جہان پر فضلیت دے دی ہے

فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِِیْنَ(البقرۃ:84)

کہ آج بنی نوع انسان میں تم سے زیادہ فضیلت والی کوئی قوم نہیں ہے ۔لیکن اس قوم نے جب اپنی جدوجہد کے پر سمیٹ لیے، جب انہوں نے اپنی تربیت چھوڑ دی، جب انہوں نے کوشش ترک کردی تو وہی قوم دیکھیےکتنی بلندیوں سے گرتی ہے ۔اتنی بلندیوں سے گری، اتنی بلندیوں سے گری اور خدا کی نظر سے، خدا کی رضا کی آنکھ سے اتناگرگئی کہ خود اسی خدا نے جس نے انہیں کبھی سارے جہان پر فضیلت دی تھی ان کو تمام زمانوں کے لیے عبرت بنا دیا اور آنے والی قومیں ان پر لعنت کرنے لگیں اور سورۂ فاتحہ میں خدا نے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہی لوگ ہیں ،وہی افضل قوم ہے کہ جو آج

الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِیْنَ(الفاتحہ :7)

میں شمارہونے لگی ہے۔

اس لیے اگرچہ یہ صحیح ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے ہماری تربیت کی اور ہمیں اٹھایا اور بلند کیا لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم اس بلند مقام پر قائم رہیں، ضرور ی ہے کہ ہم جد وجہد کریں ضروری ہے کہ ہم قربانیاں دیں اور اس مقام کو قائم رکھیں۔

حضرت رسول اکرمﷺ کے تربیت یافتہ مسلمانو ں سے زیادہ خدا کو کس سے پیار ہو سکتا تھا؟ رسول اکرم ﷺ نے اس عرب کی پسماندہ قوم کو اتنا اٹھایا ایسے شاندار مقامات دکھا ئے کہ ثریا ان کے پائوں چومنے لگی لیکن وہی قوم تھی وہی لوگ تھے جو کبھی آسمان سے باتیں کیا کر تے تھے لیکن جب انہوں نے اپنی تربیت کی آنکھیں بند کر لیں اور نگرانی کی آنکھیں بند کر لیں اور تربیت کی کوشش بند کردی تو وہ لوگ دیکھیےگرتے گرتے کیسا گرے کہ ثریا پر اپنا ایمان چھوڑ آئے اور تحت الثری میں جاگرے اور ایسا گرے کہ چہاردانگ عالم میں ان کے پرزے اڑ گئے اس لیے آپ خدا تعالیٰ کو ان مسلمانوں سے زیادہ پیارے نہیں ہو سکتے۔ آپ کو بھی اپنی نگرانی کر نی پڑے گی اور بڑی سخت نگرانی کرنی پڑے گی،جدو جہد کرنی پڑے گی اور بڑی سخت جدّوجہد کرنی پڑے گی کیونکہ ترقیات کو حاصل کرنا اگرچہ بہت ہی مشکل کام ہے لیکن ترقیات کو قائم رکھنا غالباً اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ۔ایک بڑا سخت مقام ہے، بڑا ہی سخت اور کٹھن کام ہے اس لیے جب تک آپ اس کام کو نہایت دیانت داری کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ اور جدّوجہد کے ساتھ اورمحنت کے ساتھ ادا نہیں کریں گے اس وقت تک آپ کی فلاح کے راستے نہیں کھل سکتے۔ اس وقت آ پ کی ترقیات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

مجھے وقف جدید کے سلسلہ میں پاکستان کی مختلف جماعتوں کا دورہ کرنے کا اتفاق ہواہے اور میں نہایت ہی درد بھرے دل کے ساتھ آپ کے سامنے آج یہ بیان کرتا ہوں کہ ہماری تربیتی حالت ایک خطرناک حد تک گر چکی ہے ۔ایک ایسا وقت آچکا ہے کہ جس وقت کے آنے کے بعد خطرے کا الارم بج جانا چاہیے اور فضا میں یہ خطرے کا الارم بج رہا ہے لیکن وہ کان جو سننے کے عادی نہیں وہ اب بھی نہیں سن رہے اور وہ کان جو سننے کے عادی ہیں انہو ں نے آج سے تین سال پہلے اس الارم کو سنا اوریہ اعلان کیا کہ میں وقف جدید کی تحریک کو اس لیے جاری کرتا ہوں کہ تا جماعت زندہ رہے اور تا جماعت سے تربیت کی ضمانت لی جا سکے۔

حضورا ید ہ اللہ بنصرہ العزیز کے دل پر دراصل یہ تحریک خدا تعالیٰ ہی نے القا کی تھی اور اس القا کے نتیجہ میں وہ ذکی غلام وہ امام وہ ذہین وفہیم دماغ جماعت سے یوں گویا ہوا کہ

‘‘یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور ضرور پورا ہوکر رہے گا میرے دل میں چونکہ خداتعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لیے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں کپڑے بیچنے پڑیں میں تب بھی پہلے اپنے اس فرض کو پورا کروں گا ’’

پھر حضور فرماتے ہیں :

‘‘پس میں اتمام حجت کے لیے ایک بار پھر اعلان کرتا ہوں تاکہ مالی امداد کی طرف بھی لوگوں کو توجہ ہو اور وقف کی طرف بھی لوگوں کو توجہ ہو۔’’

(الفضل 7؍جنوری1958ء)

جماعت کی طرف سے جو مختلف خطوط موصول ہورہے ہیں کہ دوروں کے علاوہ خطوط بھی اس امر پر بڑی وضاحت کے ساتھ روشنی ڈال رہے ہیں کہ جماعت کی تر بیتی حالت اس وقت نہایت ہی خطرناک حد تک گرچکی ہے۔ بہت سی ایسی جماعتیں بھی ہیں آپ میں سے کئی لوگ یہ سن کرتعجب کریں گے کہ بہت سی ایسی جماعتیں بھی ہیں جن میں باجماعت نماز تک کا انتظام نہیں رہا۔ ہمارا دیانت کا معیار گر چکا ہے۔ ہمارا تقویٰ کا معیار گرچکا ہے۔ ہمارا سچ کامعیار گر چکا ہے اور ایسے ایسے خطرناک مرضوں نے ہمارے اندر پنجے گاڑ لیے ہیں کہ جن مرضوں کے ہوتے ہوئے کوئی جماعت صحت مند طریق پر ترقی نہیں کر سکتی۔ نفاق کی لعنت بھی ہم میں داخل ہو چکی ہے۔ کئی ایسی جماعتیں ہیں جن کو دیکھ کر دل کٹ جاتا ہے یہ دیکھ کر کہ نفاق کے کلہاڑوں نے ان کے دلوں کو دو نیم کرکے رکھ دیاہے۔

خدا تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہوا کرتا ہے الٰہی جماعتوں پر کہ وہ ان کے دلوں کو محبت سے باندھ دیا کرتا ہے جیسا کہ ابھی آپ نے قرآن کریم کی تلاوت میں سنا تھا کہ

فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا (آل عمران :104)

کہ اے مسلمانو!اس نے تم پر اتنا احسان کیا کہ تمہارے دلوں کو محبت کے دھاگوں سے مضبوط رسوں سے جکڑ دیا اور تم ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہو گئے ۔ تو یہ خداتعالیٰ کا بڑا بھاری احسان ہوا کرتا ہے اور دراصل تما م الٰہی جماعتیں ،مذہبی جماعتیں اسی محبت کے سہارے بڑھاکرتی ہیں ،اسی محبت کے سہارے پنپاکرتی ہیں اورپھیلا کرتی ہیں اور ایک جان ہوکر،ایک دل ہوکر،ایک قبلہ کی طرف کھڑے ہوکرکام کیاکرتی ہیں اورجب نفاق کے دانت ان محبت کے رسوں کو بودا کردیتے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ جب یہ سیمنٹ بودا ہو جاتا ہے،کٹ جا تا ہے جس طرح بعض دفعہ موسلادھار بارش بعض مکانوں میں بڑے بڑے گھائوڈال دیاکرتی ہے اورسڑکوں پرگہرے شگاف پڑ جا یاکرتے ہیں اسی طرح جب زمانے کے مصائب، زمانے کے ستم اور شیطانی طاقتیں ان محبت کے رسوں کو بودا کردیتی ہیں، اس سیمنٹ کو کھوکھلا کردیتی ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی بڑی شاندار مذاہب کی عمارتیں دھڑام سے زمین پرآ رہتی ہیں اور ملبوں کا ڈھیر بن جایا کرتی ہیں ۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر وہ محبت قائم کریں، وہ خلوص قائم کریں جس خلوص اور محبت کو قائم کرنے کے لیے انبیاء دنیا میں آیا کرتے ہیں ۔جس خلوص اور محبت کے ذریعہ ہی انبیاء کی جماعتیں ترقی کیا کرتی ہیں لیکن نہایت حسرت اور افسوس کےساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری بہت سی جماعتیں ہیں جو دو نیم ہو چکی ہیں ہماری بہت سی جماعتیں ہیں جن کے کئی حصے بٹ چکے ہیں۔میں نے ایک ایسی جماعت بھی دیکھی اور میں اپنے غم کا اظہار نہیں کر سکتا اس جماعت کے متعلق کہ جس جماعت کے لوگوں کے ایک حصہ نے مسجد میں باجماعت نماز پڑھنی ترک کردی تھی صرف اس لیے کہ ان کا کسی امیرسے یا پریذیڈنٹ سے، سیکرٹری مال سے اختلا ف تھا اورایسی اور بھی مثالیں ہو ں گی۔ میں ہر جماعت میں نہیں گیا لیکن بعض جماعتوں کو میں نے دیکھا ہے اور ایسی کئی مثالیں میرے سامنے آتی رہی ہیں ۔

تویہ امور ایسے نہیں ہیں کہ جن امورکو دیکھنے کے بعد ہم خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہیں ۔ہم یہ دعوے کرتے رہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کے ساتھ محبت ہے۔ ہم یہ دعوے کرتے رہیں کہ ہمیں خدا اور اس کے رسول محمد مصطفیٰﷺ سے محبت ہے اورپھر یہ دعوے دنیا کے سامنے پیش کریں اور بڑے بڑے بلند بانگ دعوے کریں اور بڑی بڑی تقاریرمیں اپنے کاموں کا اظہار کریں، اپنی کو ششوں کا اظہار کریں ہیں اور کہیں کہ ہم ساری دنیا کو مسلمان بنارہے ہیں اور جب مڑ کر دیکھیں، جب گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو کہ ہمارے اندر بعض گہرے مرضوں نے دخل دے دیا ہے ،ناخن ڈال لیے ہیں، اپنے پنجے گاڑلیے ہیں۔ اگر ابھی سے ہم نے ان کی بیخ کنی نہ کی تو یقینا ًیہ رفتار احمدیت کی قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ گرے گی اور گر رہی ہے اگر ہم نے ابھی سے اپنے ان مسائل کی طرف توجہ نہ دی اور ان مرضوں کو ان کی جڑوں سے اکھیڑکرنہ پھینک دیا تو پھر احمدیت کی ترقی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ۔

احمدیت کی ترقی تو ضرور ہو گی یہ میں نے کیا کہا کہ احمدیت کی ترقی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی لیکن ہاں یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ ہم ہی وہ لوگ ہو ں گے جو ترقی کریں گے۔

احمدیت کا زندگی بخش پیمانہ ضرور چلے گا۔ یہ پیمانہ جو چکر میں آیا ہے یہ چلے گااور قوموں کو زندہ کرے گالیکن اگر ہم نے اس پیمانہ کی طرف توجہ نہ دی، اگر ہم نے محنت اور جدوجہد کے ساتھ اس کو نہ چلایا تو یہ چلتے چلتے رک جا ئے گا اور رک رک کر چلے گا ۔ہاں ہو سکتا ہے کہ ہم اس سے سیر اب نہ ہوں،ہوسکتاہے کہ ہم اس سے فیض یاب نہ ہوں اور دوسری قومیں، باہرسے آنے والی قومیں، دیر سے آنے والی قومیں آئیں اور اس پیالے سے فیض یاب ہو کرزندگی کی لذت حاصل کریں۔ اس لیے ضروری ہے، توجہ کے قابل چیز ہے توجہ کریں اور سوچیں اور غور کریں کہ وہ کونسانظام ہے ہمارے اندر جو اس ہماری زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے ؟وہ کونسانظام ہے جو ہماری دیہاتی جماعتوں کو دوبارہ زندہ کر سکتا ہے؟ یہ نظام درحقیقت وقف جدیدہی کا نظام ہے جو تمام دیہاتی جماعتوں میں ایک جال کی طرح پھیل جائے گا۔ اگر جماعت توجہ کرے گی توان شاء اﷲیہ نظام ہرہر گائوں میں ہرہر قصبے میں ہر ہر قریہ میں پہنچے گا ہر گھر کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں گے اور ان احمدیوں کو بیدار کیاجائے گا اور جو آج غافل ہو رہے ہیں۔ ان احمدیوں کو بیدار کیا جائے گا اور وہ خطرے کا الارم سنایا جائے گا جو خطرے کا الارم آج فضا ء میں بج ر ہا ہے ۔

پس آج ہمارے پاس اتنے افراد نہیں ہیں کہ ہم ان کو آسانی کے ساتھ ضائع کر سکیں۔ ہماری تعداد تھوڑی ہے کام بہت زیادہ ہے۔ ایک ہمالہ پہاڑہے جو ہمارے سروں پر کھڑا ہے اور اس کو اٹھانے کی بظاہر ہم میں سکت نظر نہیں آتی ۔اتنا کام ہے اتنا کام ہے کہ جس کے خیال سے دل کانپنے لگتا ہے۔ آج وقت تو یہ تھا کہ ہم اپنے بچے بچے کو آواز دے کر بلا لیتے اورکہتے کہ آئو اور مسیح موعودؑ کااس بوجھ اٹھانے میں ہاتھ بٹائو آئواور مسیح موعودؑ کے ممد اور حواری بن جائو، آپؑ کے انصارمیں داخل ہوجائو۔ کجایہ کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں کہ ہمارے بچے بڑے ہورہے ہیں اور ان کارستہ وہ ہے جواحمدیت سے دورجارہاہے۔ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں کہ ہماری اولادیں تعلیم تو حاصل کررہی ہیں لیکن خالصتاً دنیاوی تعلیم اور ان کو دین سے کوئی لگائو باقی نہیں رہا۔ یہ دیکھیں اوریہ دیکھنے کے باوجوداورباوجودان دعووں کے کہ ہم نے ساری دنیا کی تربیت کر نی ہے، باوجودیہ دیکھنے کے کہ ہم اپنی اولاد کی بھی تربیت نہیں کر سکتے ۔اگرہم یہ دعوے کریں توہم دنیاکو کیا منہ دکھائیں گے؟ کس عمل سے ان دعووں کا سچا کر دکھائیں گے؟ اس لیے ضرورت ہے غور کرنے کی،سوچنے کی۔ آج ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر اس تحریک کو زندہ کرنے کے لیے جدّوجہد کریں جو تحریک اسلام کی زندگی کے لیے کوشش کررہی ہے جو تحریک آج احمدیت کی تربیت کی ضمانت دے رہی ہے۔ وقت کم ہے کام زیادہ ہے۔

پس اے میرے بزرگو! اے میرے بھائیو اور بچو!اے مائوں بہنوں بیٹیو! خوابوں کی دنیا میں نہ رہو اور عمل کے میدان میں اترآئو۔ اے میرے بھایئو!اور اے میرے بزرگو!اے بچو!اے مائوں بہنو ں بیٹیو!خوابوں کی دنیا میں نہ رہواورعمل کے میدان میں اتر آئوکہ عمل ہی میں زندگی ہے اور عمل کے علاوہ سارے افسانے ہیں ساری خوابیں ہیں اور کوئی حقیقت نہیں رکھتی اگر ہم نے زندہ رہنا ہے اگرہم نے دنیا کو فتح کر نا ہے جیساکہ ضروراحمدیت نے زندہ رہناہے اوراحمدیت نے دنیاکوفتح کرناہے تو ہمیں حقیقت کے میدا ن میں اترنا پڑے گا۔ ہمیں تر قیات کرنی ہو ں گی لیکن نیچے اتر کر، میدانوں میں جدوجہد اور محنت کرنے کے بعد، راتیں جاگنے کے بعد اورخون کو پسینے کی طرح بہانے کے بعد ۔کسی عربی شاعر کا مجھے یہ شعر یا د آگیا کہ

مَنْ بَلَغَ العُلَیٰ سَھَرَ اللَّیَالِیْ

کہ بلندیوں تک پہنچا تو جایاکرتا ہے لوگ پہنچتے رہے ہیں پہلے بھی لیکن وہی لوگ بلندیوں تک پہنچا کرتے ہیں جو راتوں کو جا گ کر صبح کر دیا کرتے ہیں۔ اس لیے راتوں کو جاگنے کا وقت ہے اور بڑی محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے تا کہ احمدیت اپنی پہلی سی روش پر دوبار ہ گامز ن ہو جائے۔ وہی روش ہم اختیار کرلیں جو مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہؓ کی تھی ۔وہی خلوص ہمارے دلوں میں پیدا ہو جائے وہی محبت، وہی یگانگت، وہ سب چیزیں جب تک ہم دوبارہ نہ لے لیں گے جب تک ہم انہیں سینے سے چمٹا نہ لیں گے ان خوبیوں کوجو صحابہؓ کے اندرہم آج بھی دیکھ رہے ہیں اس وقت تک احمدیت کی ترقی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

وقف جدید کی تحریک اسی کام کو جاری کرنے کے لیے اسی کا م کو جماعت میں راسخ کرنے کے لیے جاری کی گئی ہے اس لیے یہ تحریک دراصل جماعت کی زندگی کے مترادف ہے۔ جماعت کی زندگی اور وقف جدید کی زندگی آج ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اس لیے میں آپ سے پھر یہ درخواست کروں گا بڑے عجز سے یہ درخواست کروں گا اور یہ درخواست میں اپنے دل کی عمیق ترین گہرائیوں سے کر رہا ہوں کہ جدوجہد کیجیے، جاں فشانی کیجیے، کو شش کیجیے، اپنی جماعتوں کو اس اعلیٰ معیار پر قائم کریں اور لے کر آئیں جو معیار روحانی جماعتوں کا ہوا کرتا ہے اور جب یہ معیا ر پیدا ہو جائے گا تو پھر احمدیت کی فتح میں اور زیادہ دیر نہیں ہو گی۔ ہم خود ٹال رہے ہیں احمدیت کی فتح کا وقت۔ ہم خود ٹال رہے ہیں اپنے ہاتھوں سے قادیان کی واپسی کا وقت۔ ہمارا بوڑھا امام ہم میں بیمار ہے۔ وہ امام جس نے راتیں ہمارے لیے جاگ کر کاٹیں ،وہ امام جس نے ساری عمر ہمارے لیے ہلاک کردی، وہ امام ہم میں بیمارہے اور بوڑھاہے اور قادیان کی محبت میں تڑپ رہا ہے اور بے قرار ہے۔ اس امام کی چیخیں کل آپ نے یہاں سنی ہیں لیکن اس کے باجود آپ کا دل نہیں ہل رہا۔اٹھیں اپنے دل کو ہلائیں اور افسانوی رنگ میں دل کو نہ ہلائیں ،اس طرح نہ روئیں جس طرح لوگ ناول اور قصے پڑھ کر رویا کرتے ہیں بلکہ اس طرح روئیں جس طرح مومن کی آنسو راتوں کو اٹھ اٹھ کربہاکرتے ہیں۔ اپنے دل کو اس غم میں ہلاک کریں ۔کوشش کریں اپنے اندر غیر معمولی تبدیلیاں پیداکریں ۔وہ تبدیلیاں پیدا کریں جو ہمارا امام ہم سے چاہتاہے پھر دیکھیں کہ قادیان کس طرح دوڑتاہوا آ پ کی طرف آئے گا۔ آپ کو قادیان نہیں جانا پڑے گا قادیان آپ کے پاس آئے گااور یقیناً آئے گا۔بس ضرورت ہے صرف تبدیلی کی ،اس پاک تبدیلی کی جس کو پیدا کرنے کے لیے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دنیامیں تشریف لائے تھے۔ دیکھیے حضور علیہ السلام کس محبت سے جماعت کو نصیحت فرماتے ہیں:

‘‘دیکھو!جنہوں نے انبیاء کا وقت پایااور انہوں نے دین کی اشاعت کے لیے کیسی کیسی جاں فشانیاں کیں۔ جیسے ایک مال دار نے دین کی راہ میں اپنا پیارمال حاضر کیا۔ ایسا ہی ایک فقیر دریوزہ گرنے اپنی مرغوب ٹکڑوں سے بھری ہوئی زنبیل پیش کردی اور ایسا ہی کیے گئے جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے فتح کا وقت آگیا ۔ مسلمان بننا آسان نہیں مومن کالقب پانا سہل نہیں سواے لوگو اگر تم میں وہ راستی کی روح ہے جو مومنوں کو دی جاتی ہے تو اس میری دعوت کو سرسری نگاہ سے مت دیکھو نیکی حاصل کرنے کی فکر کرو کہ خدا تعالیٰ تمھیں آسمان پر دیکھ رہا ہے کہ تم اس پیغام کو سن کرکیا جواب دیتے ہو ۔’’

(فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ31)

سوحضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان الفاظ میں آپ سے درخواست کر تا ہوں کہ نیکی حاصل کرنے کی فکر کیجیے اور اس تحریک کو زندہ کیجیے۔ میں پھر یہی کہوں گا اور باربار یہی کہوں گا کہ اس تحریک کو زندہ کیجیے جو آپ کے اندر نیکی کو قائم اورراسخ کرنے کے لیے جاری کی گئی ہے۔ وقف جدید کی تحریک خدا تعالیٰ کے فضل سے اس بارہ میں نہایت ہی کامیاب ثابت ہورہی ہے اور خدا کے فضل سے اس کے غیر معمولی نتائج نکل رہے ہیں۔ بعض ایسی جماعتیں بھی تھیں کہ جہاں جب وقف جدید کا معلم ابھی انہیں گیا تھا تو ان کی حالت یہ تھی کہ وہاں ہمارے جائزہ کے مطابق مساجد نہیں تھیں، پریذیڈنٹ تھا، سیکرٹری مال تھا لیکن کوئی رجسٹر نہیں تھا، کوئی حساب نہیں تھا، کوئی چندہ نہیں تھا۔ اس کے متعلق ہمارے پہلے جائزے کی رپورٹ یہ ہے کہ جماعت کا نام صرف اس رپورٹ میں تھا جس کے ذریعہ قیام ہو، ور نہ حقیقت میں اس کا وجود عملی رنگ میں کچھ نہ تھا۔ نہ کوئی نماز باجماعت ،نہ جمعہ ،نہ چندہ، نہ بجٹ ،نہ رسید بک، نہ روز نامچہ ۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے معلم کے جانے کے بعد یہ سب کام مکمل ہوا، جماعت کی کیفیت بدل گئی اوراب اس جماعت کی آخری رپورٹ یہ ہے جماعت کا ایک باقاعدہ وجود بن چکا ہے، چندہ اداکیاجاتاہے، پانچوں نمازیں باجماعت بلکہ تہجد تک کی نمازبھی باجماعت ہوتی ہے اوراس میں اکثر،وہ چھوٹی سی جماعت ہے پندرہ افرادکی، تواس میں اکثر چار افرادشریک ہوتے ہیں۔ تو دیکھیےکہ خداتعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کے ایک معمولی کم تعلیم کے معلم نے خدا کے فضل سے کیسی تبدیلی پیدا کی !دراصل یہ تبدیلی اس نے نہیں کی بلکہ اس خدا ئے علیم و حکیم اور قادر مطلق نے کی جس کے ایما پر یہ تحریک جاری کی گئی تھی۔ اور ایک سیکرٹری مال نے ابھی کچھ ہی دن ہوئے مجھ سے ذکر کیا کہ وقف جدید کا معلم جب وہاں مقرر ہو اتھا تو اس سے پہلے اس جماعت کا یہ حال تھا کہ باوجودہزار کوشش کے وہاں سالانہ ایک ہزار سے زیادہ بجٹ نہیں ہوا تھا لیکن اس دو سال کے اندر اندر ہی اس جماعت کا بجٹ پانچ ہزارروپے تک پہنچ گیاہے۔

تودیکھیے آپ کے چندے بھی بڑھ جائیں گے آپ کی اخلاقی حالت بھی درست ہو جائے گی ۔دراصل ہماری جماعت دیہاتی جماعت ہے اور دیہاتی جماعتوں کی تربیت پر ہماری ترقی منحصر ہے۔ ہماری شہری جماعتیں بہت ہی تھوڑی ہیں نسبت کے لحاظ سے اور جب تک ہم دیہاتی جماعتوں کی طرف توجہ نہ کریں گے جب تک ہم اپنا رخ خاص طورپر دیہات کی طرف نہیں پھیریں گے اس وقت تک ہم حقیقت میں اس رفتار سے ترقی نہیں کر سکتے اور میں تو یہ کہوں گا کہ ڈر ہے کہ کہیں وقت سے پہلے تنزل نہ شروع ہو جائے خدا تعالیٰ جس سےہمیں محفوظ رکھے۔

توہم اس رفتار سے ترقی نہیں کر سکتے جس رفتار سے ترقی ہمارے لیے ضروری ہے اب دیکھیں ہماری رفتار کیا ہے ؟ہمارے حالات کیا ہیں؟کام ہمیں کیا کرنا ہے؟ یہ چیزیں ایک اورایک دو کی طرح غور کرنے کے لائق ہیں اور نتائج بھی ایک اور ایک دوہی کی طرح نکلتے ہیں۔ ہماری مثال یا ہمارے بعض حصوں کی مثال، یوں کہنا چاہیے تو ایسی ہو گئی ہے جیسے کوئی چین کے سفر کا ارادہ کرے اورپیدل نکلے اورگھر سے دو ہی قدم جائے اور تھکے اور ماندہ ہو جائے اور لیٹ جائے اورشایدیہ خیال کرے کہ لوگ آئیں گے اوراسے دبائیں گے کیونکہ بہت تھک گیا ہے اور اس نے بہت کام کیا ہے۔ ایک ایسا شخص اگر چین پہنچ سکتا ہے تو ہم بھی ان مقامات کو حاصل کرلیں گے جن مقامات کو حاصل کرنا ہمارے مقدر میں لکھا گیا ہے یا احمدیت کے مقدر میں لکھا گیا ہے اگر ہماری رفتاریہی رہی، اگرہمارے اطوار یہی رہے ،اگر ہم نے اپنے اعمال کی نگرانی اسی طرح کی جس طرح اس وقت تک ہوتی رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے طور کو بدلیں، ہم اپنے طریق کو بدلیں اور ایک ایسا ٹھوس دیہاتی تربیت کا نظام جاری کریں جو ہمارے افراد کو صحیح معنوں میں مسلمان بنائے۔ ہماری جماعت حقیقت میں جیسا کہ حضرت میاں شریف احمدصاحب کی نظم میں آپ نے سنا ہے حقیقت میں بہت ہی تھوڑی ہے۔ اتنی تھوڑی ہے کہ آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے ہیں کہ کتنی تھوڑی ہے۔ لاکھوں لاکھ کی جماعت میں سے اس وقت تک صرف سترہ ہزار آدمی چندہ دے رہے ہیں۔دس بارہ لاکھ سے کم نہیں ہیں ہم پاکستان میں اورصرف سترہ ہزارچندہ دے رہے ہیں اور سترہ ہزار میں سے صرف چند ہی ہوں گے یامیں سمجھتا ہوں کہ تیس چالیس فی صدی سے زیادہ نہیں ہوں گے جوپورااپنی نسبت کے مطابق چند ہ دیتے ہیں۔تویہ حالات قابل غورہیں معمولی بات نہیں۔ہمارے پہ بوجھ ہے دس لاکھ جماعت کا،توقع ہم سے یہ کی جاتی ہے کہ ہم دس لاکھ کاکام کریں گے لیکن عملاًہم میں سے صرف چندہزارکام کررہے ہیں۔توتحریک وقف جدیدخداکے فضل سے اس لحاظ سے بھی کامیاب ثابت ہورہی ہے اس کے ذریعہ ہمارے چندے بڑھ رہے ہیں اور وہ دیہات جہاں سے کبھی کوئی چندہ ادانہیں ہوا تھا۔وقفِ جدیدکے معلم کے جانے کے بعدخدا کے فضل سے وہ بھی باقاعدہ چندہ دہندہ بن گئی ہے۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں اوربعض صاحب حیثیت دوست بھی یہ کہتے ہیںکہ وقفِ جدیدکاچندہ توصرف چھے روپے ہے حضورنے چھےہی کی تحریک کی تھی پس ہم نے یہ چندہ اداکردیا اورہم اس فرض سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔اورآپ حیران ہونگے کہ وقفِ جدید کاچندہ دینے والے جوپچاس روپے سے زائدچندہ دیتے ہیں صرف ستتر(77)ہیں اس لاکھوں کی جماعت میں اور ایسے افرادجوپانچ سوسے زائدچندہ دیتے ہیں وہ صرف آٹھ ہیں اور ایسے افرادجن کاچندہ ایک ہزارروپے سے زائدہے وہ اس ساری بھرپورجماعت میں صرف دو ہیں۔ایک کراچی کے شیخ عبدالحفیظ صاحب اورایک لاہورکے چوہدری فتح محمدصاحب ہری کے ٹرانسپورٹ والے۔ تویہ حالت تسلی بخش نہیں اور جب بھی دوست چھ پرزوردیتے ہیں تو مجھے وہ لطیفہ یاد آجاتاہے۔ کہتے ہیں کہ ایک میراثی اور ایک چوہدری نے اکٹھاسفرکیاکشتی پروہ جارہے تھے۔میراثی کھوداتھا اس کی داڑھی پرصرف دوچاربال تھے اورچوہدری کی داڑھی پوری بھری ہوئی تھی توکشتی بھنورمیں پھنسنے لگی اورملاح نے کہالوگوں سے اعلان کیاکہ لوگ خضرپیرکی خیرات کچھ نہ کچھ ڈال دیں توچوہدری کومذاق کی سوجھی اوراس نے اس میراثی سے مخاطب ہوکر کہاکہ آئو کیوں نہ ہم اپنی داڑھی کے دودوچار چار بال اس دریامیں پھینک دیں وہ جانتاتھاکہ اس کے دوچارہی بال ہیں میراثی سمجھ گیااوراس نے برجستہ جواب دیاکہ چوہدری جی!اے چوآں دا ویلااے کیڑاپیوداپتراے جے ساری داڑی نہ پُٹ کے سُٹ دے۔

تویہ ایک لطیفہ ہے جس پہ ہنسی آتی ہے لیکن اس لطیفہ کااطلاق اگرآپ جماعت اوراسلام کے مسائل پرکرکے دیکھیں تو یہ لطیفہ نہیں رہتا بلکہ ایک دردناک حقیقت بن جاتاہے۔ خداکی قسم آج چھے کاوقت نہیں ہے ،خداکی قسم !آج وقت ہے کہ ہم اپناسب کچھ لاکردین کے حوالے کردیں۔آج وقت ہے کہ خداتعالیٰ جس نے ہمیں سب کچھ دیاتھا،جس نے ہمیں پیدا کیا بڑا کیا زمین وآسمان ہمارے لیے مسخرکردیے، اس خداکی دی ہوئی چیزیں اسے لوٹادیں۔وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے نہیں مانگتا عارضی طورپرقرض کے طورپرمانگتاہے اورپھر اسے واپس کرے گااوربہت بڑھا چڑھا کر واپس کریگا۔ توہم مالک حقیقی کا انکارکررہے ہیں۔حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃو السلام نے کبھی کچھ جماعت پرکچھ قرض مقررنہیں کیا بلکہ حضورؑجماعت کے اخلاص اورجماعت کی محبت سے یہ توقع رکھاکرتے تھے کہ جماعت بڑھ چڑھ کرقربانیاں کرے جیساکہ حضورؑکی ایک مبارک تحریرپڑھ کرمیں آپ کو سناتاہوں۔حضورؑجماعت کومخاطب کرکے فرماتے ہیں مجھے اب الفاظ یادنہیں لیکن چندایک الفاظ حضورکے میرے ذہن میں ہیں وہ میں سنا دیتا ہوں۔حضورؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘اے میرے عزیزو !میرے پیارو!میرے درخت وجودکی سرسبزشاخو!’’یہ حضور ؑکاخطاب ہے جماعت سے اوریہ کہہ کرحضور ؑفرماتے ہیں کہ میں تم پرکچھ فرض نہیں کرتا کیونکہ میں جانتا ہوں وہ لوگ جن کومجھ سے محبت ہے جومجھ سے خلوص رکھتے ہیں میں انہیں جو کچھ کہوں گا وہ سب کچھ لاکرمیری نذرکردیں گے۔ تومیں تم پرزبردستی کرنانہیں چاہتا کہ تم میرے فرمان کی خاطرمجبورہوکرکچھ دو۔ہاں میں تم سے یہ کہتاہوں کہ خداکے رستے میں جتنا تم دے سکتے ہوخوشی سے دے دو۔اورآپؑ کی اس تحریک پرحضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوآپ کوخط لکھاوہ یہی تھاکہ جوایک مومن کے دل سے توقع کی جاتی ہے۔وہی باتیں لکھیں جو حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اکرم ﷺ سے ایک زمانے میں کی تھیں۔آپؓ نے فرمایاکہ سیدنا!میراتوسب کچھ آپ کاہے۔ میراگھربار،میرے بیوی بچے ہم سب خدام ہیںآپؑ چاہیں تو میں سب کچھ آپؑ کے حضورفداکردوں۔اپنی بیوی بچوں کو اپنی مال دولت کو قربان کر دوں اس لیے آپؑ یہ نہ کہیں کہ کچھ تھوڑادو،آپؑ یہ نہ کہیں کہ حصہ رسدی دو بلکہ مجھے ارشادہوکہ میں سب کچھ آپؑ کے حضورلاکرحاضر کردوں۔(فتح اسلام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ35)تودیکھیے یہ ہے وہ توقع یہ ہے وہ مقام جس کی طرف حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃو السلام آپ کوبلاتے ہیں۔

لیکن حضور ؑجانتے تھے کہ جماعت کی حالت کمزورہے۔ اس وقت ہماری مالی حالت آج سے بہت ہی زیادہ کمزور تھی اورحضور ؑعام مسلمانوں کومخا طب کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ حضورؑکا دل چاہتا تھاکہ خدانے آپؑ سے جوپیاری پیاری باتیں کی تھیں،خداجوراتوں کو آپ سے بولاکرتا تھاوہ ساری باتیں ساری دنیا میں اشاعت کرکے پھیلادیں۔جیسے کسی کوایک نعمت ملتی ہے وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ(الضحی :12)اس کے مطابق آپ کادل بے قرار رہا کرتاتھا لیکن پیسے نہیں تھے ،بے سروسامانی کی حالت تھی اورحضور ؑنہایت ہی دردسے ملک ہند کوخطاب کرکے کہتے ہیں کہ

‘‘اے ملک ہند!کیاتجھ میں کوئی ایک باہمت امیرنہیں کہ اگر اورنہیں تو فقط اسی شاخ کے اخراجات کامتحمل ہوسکے۔ ’’

یہ شاخ اشاعت لٹریچر،اشاعت کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شاخ ہے جس کاآپؑ نے اس سے پہلے ذکرفرمایاتھااوراس سے آگے حضور ؑفرماتے ہیں کہ

‘‘اسلام پرابھی ایسی مفلسی طاری نہیں ہوئی تنگ دلی ہے ایسی تنگ دستی نہیں۔اوروہ لوگ جوکامل استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی اس طورپراس کارخانہ کی مددکرسکتے ہیں جو اپنی اپنی طاقت مالی کے موافق ماہواری امدادکے طورپرعہدپختہ کے ساتھ کچھ رقوم نذراس کارخانے کی کیاکریں۔’’

(فتح اسلام روحانی خزائن جلد3 صفحہ30تا31)

حضور ؑکے انہی ارشادات کی روشنی میں ہم نے وقف جدیدکی طرف سے ایک مستقل شعبہ، شعبہ اشاعت لٹریچر قائم کیااورہمارامقصدیہ تھاکہ کلیۃًحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی کتابوں کی اشاعت کی جائے اورتمام پاکستان میں،کیونکہ ہمارادائرہ عمل پاکستان ہی ہے مختلف مقامی زبانوں میں ان کتابوں کے تراجم کراکے ان کوشائع کریں لیکن باوجودتحریکات کے اب تک غالباًجماعت اس کی اہمیت سے واقف نہیں ہوئی اوریہ عجیب بات ہے کہ پہلے دو مہینے میں اس تحریک میں سوائے معلمین وقف جدید کے اور کسی نے چندہ نہیں دیا۔معلمین وقف جدیدکاحال یہ ہے کہ ان کوپچاس روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ان میں سے اکثر بہت سے موصی ہیں وہ پانچ روپے اس میں کٹوا دیتے ہیں،تحریک جدیدمیں وہ چندہ اداکرتے ہیں،وقف جدیدمیں وہ چندہ اداکرتے ہیں اور اس کے علاوہ کشمیرفنڈمیں اور چھوٹے چھوٹے ریلیف فنڈزمیں بھی وہ چندہ اداکرتے ہیں۔ کسی ایک چھوٹے سے چھوٹے شعبہ سے بھی پیچھے نہیں ہٹے اوراس کے بعدان کے اخلاص کایہ حال تھاکہ جن میں سے بعض نے سوسوروپے چھوڑے اوراس چالیس روپے کے گزرانے کے اوپرآگئے ۔ان کایہ حال تھاکہ جب یہ تحریک الفضل میں پہلی دفعہ چھپی توبعض معلمین کی طرف سے یہ خط آنے شروع ہوئے کہ یہ تحریک پڑھ کرکہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں کو شائع کیاجائے گاہمارے دل دردسے بھرگئے ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ کہ کاش ہم میں توفیق ہوتی توہم خوداس تحریک کاباراٹھالیتے لیکن ہم میں یہ توفیق نہیں۔بعض نے لکھاکہ میرے ماہانہ الائونس میں سے ایک روپیہ کاٹ کراس چندہ میں جمع کرلیاکریں بعض نے لکھاکہ میرے ماہانہ الائونس میں سے دوروپے کاٹ کراس چندہ میں جمع کرلیاکریں۔

تودیکھیے وہ لوگ اس خلوص سے کام کررہے ہیں۔ اگرجماعت اتناتھوڑاچندہ دے کہ جومعلمین ہم رکھ چکے ہیں ہم ان کابوجھ بھی برداشت نہ کرسکیں تو کتنی حسرت اورافسوس کامقام ہوگا۔ اورعملاً ایساہوا، عملاًایساہی ہوااورگزشتہ سال ہمارے معلمین کی تعداد64تھی لیکن مالی مجبوریوں کی بنا پر اس سال انہیں کم کرکے صرف58کردیاگیااوراس58 کاخرچ بھی بڑی مشکل سے چلایاجارہاہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں۔علم کم سہی لیکن اخلاص بہت ہے اورغیرمعمولی تبدیلیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔جماعت کافرض ہے کہ ان لوگوں کی طرف توجہ کریں ۔ان درویشوں کی طرف ،ان غریبوں کی طرف جنہوں نے اپناسب کچھ خداکے رستے میں دے دیاہے کم ازکم ان کے گزارے کی ایسی آسان صورت پیداکریں کہ یہ تسلی اوربے فکری کے ساتھ جماعت کی خدمت کرسکیں،مسیح موعود ؑکے پیغام کی خدمت کرسکیں اور خدا تعالیٰ کی خدمت کرسکیں۔
پس وقف جدیدکی اس تحریک کوزندہ کیجیے یہ تحریک اورملکی ضروریات کوبھی پوراکررہی ہے۔یہ تحریک خدمتِ خلق میں بڑا بھاری کام کررہی ہے ،معلمین کوہومیوپیتھک بھی سکھائی جاتی ہے طب بھی سکھائی جاتی ہے، کمپوڈری بھی سکھائی جاتی ہے اورایسی دورافتادہ جگہوں میں جہاں کوئی ڈاکٹری امدادمہیانہیں ہو سکتی یہ لوگ خدمت خلق بھی کرتے ہیں انہیں سوشل کام بھی سکھائے جاتے ہیں۔یہ دیہات سدھارکابھی کام کرتے ہیں،یہ تبلیغ اسلام بھی کرتے ہیں،یہ جماعتوں کی تربیت بھی کرتے ہیں۔تویہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق ہمیں چاہیے کہ ہم ا ن کی ہرلحاظ سے خدمت کریں۔اس نظام کوتقویت دیں اور بڑھائیں۔

پس میں آپ سے ایک دفعہ پھرکہوں گا کہ وقف جدید کی تحریک کوزندہ کیجیے ،اسے زندہ کیجیے اوراس کی رگوں میں اپنی قربانیوں کا خون بھردیجیے تاکہ اسلام کی شریانوں میں تازہ اورزندہ اور تمنائوں سے بھراہواخون دوڑنے لگے۔آج آپ سے حضرت محمدمصطفیﷺ کی امیدیں وابستہ ہیں۔آج آپ سے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی امیدیں وابستہ ہیں۔آج آپ ہی ہیں جن کے ذریعہ اسلام زندہ ہوگااورآپ کے علاوہ سب تاریکی ہے۔ اپنے آپ پرظلمات کے سائے نہ پڑنے دیجیے۔زندہ ہوںاورہوشیارہوںاوراس تحریک کوبھی زندہ کیجیے اوراس تحریک کی رگوں کو اپنی قربانیوں کے خون سے بھردیجیے تااسلام کی شریانوں میں تازہ اورزندہ اور تمنائوں سے بھراہواخون دوڑنے لگے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button