سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

آپؑ کے وضو اورغسل کا بیان

حضرت اقدس مسیحِ موعود ؑ فرماتے ہیں :

“میرا تو یہ حال ہے کہ باوجود اس کے کہ دو بیماریوں میں ہمیشہ سے مبتلا رہتا ہوں ۔پھر بھی آج کل میری مصروفیت کا یہ حال ہےکہ رات کو مکان کے دروازے بند کر کے بڑی بڑی رات تک بیٹھا اس کام کو کرتا رہتا ہوں …اور دورانِ سر کا دورہ زیادہ ہو جاتا ہے، مگرمیں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کام کو کئے جاتا ہوں چونکہ دن چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں اور مجھے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ دن کدھرجاتا ہے۔اسی وقت خبر ہوتی ہے جب شام کی نماز کیلئے وضو کرنے کے واسطے پانی کا لوٹا رکھ دیا جاتا ہے…”

(ملفوظات جلد دوم صفحہ376)

“حضرت اقدس کا معمول ہے کہ جمعہ کو سیر کو تشریف نہیں لے جاتے۔بلکہ نماز جمعہ کی تیاری کے لیے مسنون طریق پر غسل، حجامت، تبدیلی لباس، حناوغیرہ امور میں مصروف رہتے ہیں ۔”

(ملفوظات جلدسوم صفحہ391)

مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ایک خط کا ذکر ہوا جو اُنہوں نے منشی حسین بخش صاحب تحصیلدار پنڈی گھیپ حال رخصتی قادیان کے نام لکھا۔آپؑ نے فرمایا :

“معلوم نہیں وہ کونسی بدی تھی جس نے اسکو سلسلہ کی شناخت سے محروم رکھا۔تا ہم جب تک وہ زندہ ہے ہم اس پیشگوئی کی کوئی تاویل نہیں کرتے جو اس کے متعلق ہے کہ وہ آخر رجوع کرے گا۔میں جانتا ہوں کہ اوائل میں وہ بڑا اخلاص ظاہر کیا کرتا تھا۔بٹالہ کے سٹیشن پر خود اس نے حامد علی سے لوٹا لے کر مجھے وضو کرایا اور جب میں اُٹھتا تو میرا جوتا اُٹھا کر آگے رکھ دیتا تھا۔اس میں دوسرے مولویوں کی نسبت ایک بات تو ہے وہ یہ کہ جب کسی بات کو مان لے تو دلیری کے ساتھ اس کا اعلان کر سکتا ہے۔”

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ403)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں :

“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر ہر وقت باوضو رہتے تھے جب کبھی رفع حاجت سے فارغ ہو کر آتے تھے وضو کر لیتے تھے سوائے اس کے کہ بیماری یا کسی اور وجہ سے آپ رُک جاویں ۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 2)

حضرت منشی عبد اللہ سنوری صاحبؓ حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کے سرخ چھینٹوں والے کُرتے کے بارے میں بیان کرتے ہیں :

“جمعہ کا دن تھا تھوڑی دیر کے بعد حضورنے غسل کر کے کپڑے بدلے اور میں نے یہ کُرتہ سنبھال لیا۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 100)

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے بیان کیا:

“ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑسفر میں تھے اور لاہور کے ایک سٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فر مارہے تھے۔اس وقت پنڈت لیکھرام حضور سے ملنے کے لئے آیا۔اور آکرسلام کیا مگر حضرت صاحب نے کچھ جواب نہیں دیا اُس نے اس خیال سے کہ شائد آپ نے سُنا نہیں ۔دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کیا۔مگر آپ ؑنے پھر بھی توجہ نہیں کی۔اس کے بعد حاضرین میں سے کسی نے کہا۔کہ حضورؑپنڈت لیکھرام نے سلام کیا تھا۔آپؑ نے فرمایا۔’’ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے۔اور ہمیں سلام کرتا ہے۔”خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو آنحضرتﷺ کے ساتھ وہ عشق تھا کہ جس کی مثال نظر نہیں آتی۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 281)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں کہ میاں فخر الدین ملتانی ثم قادیانی نے مجھ سے بیان کیا:

“جب 1907ء میں حضرت بیوی صاحبہ لاہور تشریف لے گئیں توان کی واپسی کی اطلاع آنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو لانے کیلئے بٹالہ تک تشریف لے گئے …حضرت صاحب پالکی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے جسے آٹھ کہار باری باری اُٹھا تے تھے۔قادیان سے نکلتے ہی حضرت صاحب نے قرآن شریف کھو ل کر اپنے سامنے رکھ لیا اور سورہ فاتحہ کی تلاوت شروع فرمائی اور میں غور کے ساتھ دیکھتا گیا کہ بٹالہ تک حضرت صاحب سورۃ فاتحہ ہی پڑھتے چلے گئے اور دوسرا ورق نہیں اُلٹا۔راستہ میں ایک دفعہ نہر پر حضرت صاحب نے اتر کر پیشاب کیا اور پھر وضو کر کے پالکی میں بیٹھ گئے اور اسکے بعد پھر اسی طرح سورۃ فاتحہ کی تلاوت میں مصروف ہو گئے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 438)

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“آپ (حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام) اپنے مطاع نبی کریم ﷺ کی طرح ان کے اتباع میں ایک حد تک جسمانی زینت کا خیال ضرور رکھتے تھے۔غسل جمعہ،حجامت،حنا، مسواک روغن اور خوشبو۔کنگھی اور آئینہ کا استعمال برابر مسنون طریق پر آپ فرمایا کرتے تھے مگر ان باتوں میں انہماک آپ کی شان سے بہت دُور تھا …”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 447)

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا:

“حضرت صاحب مسواک بہت پسند فرماتے تھے۔تازہ کیکر کی مسواک کیا کرتے تھے۔گو التزاماً نہیں ۔وضو کے وقت صرف انگلی سے ہی مسواک کر لیا کرتے تھے۔مسواک کئی دفعہ کہہ کر مجھ سے بھی منگائی ہے۔اور دیگر خادموں سے بھی منگوا لیا کرتے تھے۔اور بعض اوقات نماز اور وضو کے وقت کے علاوہ بھی استعمال کرتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 639)

حضرت مرزا دین محمد صاحبؓ نے بیان کیا:

“جن دنوں میری آمدو رفت حضرت صاحب کے پاس ہوئی۔ان ایام میں حضرت صاحب اپنے موروثیوں وغیرہ کے ساتھ مقدمات کی پَیروی کے لئے جایا کرتے تھے۔کیونکہ دادا صاحب نے یہ کام آپ کے سپرد کیا ہوا تھا۔تایا صاحب باہر ملازم تھے۔جب حضرت صاحب بٹالہ جاتے مجھے بھی ساتھ لے جاتے… بعض دفعہ جب تحصیل میں تشریف لے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔جب تین یا چار بجتے تو تحصیل سے باہر آتے تو مجھے بلا کر ایک روٹی کھانے کے ناشتہ کے لئے دیدیتے اور خود آپ اس وقت کچھ نہ کھاتے۔تحصیل کے سامنے کنوئیں پر وضو کرکے نماز پڑھتے اور پھر تحصیلدار کے پاس چلے جاتے اور جب کچہری برخاست ہو جاتی تو واپس چلے آتے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 680)

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا:

“ایک دفعہ مسجد مبارک میں نماز ظہر یا عصر شروع ہوچکی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام درمیان میں سے نمازتوڑ کر کھڑکی کے راستہ گھر میں تشریف لے گئے اور پھر وضو کرکے نماز میں آملے۔اورجو حصہ نماز کا رہ گیا تھاوہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد پورا کیا۔یہ معلوم نہیں ۔کہ حضور بھول کر بے وضوآگئے تھے یا رفع حاجت کے لئے گئے تھے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 899)

حضرت شیخ کرم الٰہی صاحب نے بیان کیا:

“جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام واپسی پر پٹیالہ کے اسٹیشن پر تشریف لائے تو حضور نے نماز مغرب خود پڑھائی۔اس وقت ایک ناگوار واقعہ یہ ہوا کہ حضور وضو فرمانے لگے تو ہاتھ میں ایک رومال تھا جس میں قریباً یکصد روپیہ تھا تو حضور نے لوٹا ہاتھ میں لیتے وقت بے خیال کسی اجنبی شخص کو وہ رومال پکڑا دیا۔اور نما زاداکرنے کے بعد جب حضور نے رومال کے متعلق دریافت کیا تو کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔جب اس امر کا چرچا ہونے لگا تو حضور نے منع فرمایا کہ زیادہ تجسس نہ کرو۔شاید کسی ضرورت مند کے لئے خدا نے اپنے رحم سے ایسا کیا ہو۔”

(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر 1077)

اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمٰن صاحب سابق مہر سنگھ بی اے نے بیان کیا:

“میری شادی حضور ؑکے حکم سے ہوئی تھی۔میں رخصت ہو کر قادیان ہی آئی تھی اور میری والدہ ساتھ تھیں ۔حضرت صاحب کے گھر میں ایک سردخانہ ہوتا تھا اس میں ہم سب رہا کرتے تھے۔جب میں حضور کو وضو کراتی تو حضور علیہ السلام ‘‘جزاکم اللہ”کہا کرتے۔”

(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر 1314)

برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بیان کیا:

“ایک دفعہ میں حضور علیہ السلام کو وضو کرانے لگی۔عصر یا ظہر کا وقت تھا۔میری لڑکی نے مجھے کہا کہ اماں ! یہ امام مہدی ہیں ؟میں نے کہا ہاں اس پر حضورؑنے دریافت فرمایا کہ”یہ لڑکی کیا کہتی ہے ؟” میں نے عرض کیا کہ حضورؑ ! یہ لڑکی پوچھتی ہے کہ امام مہدی یہی ہیں ؟ حضور علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا کہ ‘‘ہاں! میں امام مہدی ہوں ۔”

(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر 1362)

محترمہ سیدہ زینب بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحب ؓنے بیان کیا:

“ایک دن حضور علیہ السلام نے وضو کرنے کے بعد مجھے فرمایا کہ ’’جاوٴ اندر سے میری ٹوپی لے آوٴ۔” جب میں گئی تو دیکھتی کیا ہوں کہ ایک معمولی سی ٹوپی پڑی ہوئی ہے جس کو دیکھ کر میں واپس آگئی اور عرض کی کہ حضور! وہاں نہیں ہے۔اس طرح تین مرتبہ اندر جا کر آتی رہی مگر مجھے گمان نہ ہوا کہ یہ پرانی ٹوپی حضور کی ہوگی۔صاحبزادہ مبارک احمد صاحب جو وہاں تھے انہوں نے فرمایا کہ ‘‘مَیں لاتا ہوں ۔” جب وہ وہی ٹوپی اٹھا کر لائے جو میں نے دیکھی تھی تو میں حیران رہ گئی کہ اللہ اللہ کیسی سادگی ہے۔”

(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر 1516)

میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بیان کیا:

“ایک دن کا ذکر ہے حضور اپنی عادت کے طور پر سیر کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے۔بہت دوست باہر دروازہ پر حضور کا انتظار کر رہے تھے۔اس روز حضور موضع بھینی کی طرف تشریف لے چلے۔جب ایک چھپڑ پر جو قصبہ قادیان کے متصل برلب راہ موضع بھینی کی جانب ہے اس کے کنارے پر ایک بڑا بڑھ کا درخت تھاحضور اس کے نیچے کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ اس چھپڑ کا پانی اچھا نہیں ہے اس سے وضو کر کے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔چنانچہ میں نے کئی دفعہ دوستوں کو وہاں سے وضو کرنے سے روکا تھا۔اور وہ دوست مجھے مخول کرتے تھے۔اس روز وہ دوست بھی وہاں ہی تھے انہوں نے اپنے کانوں سے سنا کہ حضور نے اس چھپڑ کے پانی سے وضو کرنا اور اس کو استعمال کرنا منع فرمایا۔”

(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر 1552)

حضرت میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بیان کیا:۔

“حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت مَیں لاہور میں تھا اور خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں رہا کرتا تھا۔جب آپ فوت ہوئے۔تو مَیں اور ایک اور احمدی نوجوان حضرت صاحب کے غسل دینے کے لئے بیری کے پتّے لینے گئے۔مجھے یہ یاد نہیں کہ کس بزرگ نے پتّے لانے کے لئے کہا تھا۔مَیں روتا جا رہا تھا اور اسلامیہ کالج کے پشت پر کچھ بیریاں تھیں وہاں سے پتّے توڑ کر لایا تھا۔گرم پانی میں ان پتوں کو کھولا کر اس پانی سے حضور کو غسل دیا گیا تھا۔

خاکسار (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے۔ناقل) عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ حضرت صاحب کو غسل ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری اور بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی نے دیا تھا۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 833)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button