حضرت مصلح موعود ؓ

تقدیر الٰہی (قسط نمبر14)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسئلہ تقدیر پر اگر ہم ایمان نہ لائیں یا یہ خدا کی طرف سے جاری نہ ہو تو کیا نقصان ہوتے ہیں۔ اور اس پر ایمان لانے اور اس کے جاری ہونے کے کیا فوائد ہیں؟

یہ ایک بہت اہم سوال ہے جس پر غور کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن افسوس کہ ظاہری صوفی اور ملاں اس طرف گئے ہی نہیں۔

(چونکہ وقت بہت ہوگیا تھا اور سردی سخت تھی۔ نیز ابھی تقریر کا بہت سا حصہ باقی تھا۔ اس لیے بقیہ حصہ دوسرے دن پر رکھا گیا اور اسی جگہ تقریر ختم ہوئی۔ اور اس سے اگلا حصہ یہ ہے جو دوسرے دن بیان کیا گیا۔)

مسئلہ تقدیر کے متعلق بعض شبہات کا ازالہ

میرا منشاء تھا کہ تقدیر کے مسئلہ کی تشریح بیان کرنے کے بعد اس پر ایمان لانے کے فوائد بھی آپ لوگوں کے سامنےبیان کروں اور آج اسی مضمون کو شروع کرنے کا ارادہ تھا مگر آج ایک صاحب نے کچھ سوالات لکھ کر دیے ہیں اس لیے پہلے مختصر طور پر ان کا جواب بیان کر دیتا ہوں۔ یہ صاحب پوچھتے ہیں کہ شیطان کو گمراہ کرنے کی طاقت کہاں سے ملی؟ میں نے کل بیان کیا تھا کہ جب انسان اپنے خیالات کو شیطانی بنا لیتا ہے تب شیطان سے لگاؤ پیدا ہو جانے کی وجہ سے شیطان کو بھی اس سے تعلق ہو جاتا ہے اور وہ بھی اسے گمراہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ پس یہ گمراہی درحقیقت خود انسان کے نفس سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں۔ مثلاً ایک شرابی دوسرے شرابی کو اپنے ساتھ لے جائے اور وہ شخص جدھر جدھر یہ شخص شراب پینے کے لیے جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ جائے توگو وہ یہ کہے میں اس کا تابع ہوں جدھر اس کی مرضی ہے لے جائے مگر دراصل وہ خود چونکہ اس کا ہم خیال ہے اور آپ شراب کا شیدائی ہے اس کے ساتھ ساتھ جاتا ہے اور اپنے مزے کا خیال کر رہا ہے۔ صاحب مثنویؒ نے اس تعلق کو ایک لطیف مثال کے طور پر بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں ایک چوہا تھا۔ اس نے ایک اونٹ کی رسی پکڑلی اور اپنے پیچھے پیچھے چلانے لگ گیا اور اس پر اس نے سمجھا کہ مجھے بڑی طاقت حاصل ہوگئی ہے کہ اونٹ جیسے قد آور جانور کو اپنے پیچھے چلا رہا ہوں اور اس پر وہ پھولا نہ سماتا تھا کہ چلتے چلتے راستہ میں دریا آگیا۔ اونٹ چونکہ پانی میں چلنے سے خوش نہیں ہوتا اس لیے جب چوہا پانی کی طرف چلا تو وہ ٹھہر گیا۔ چوہے نے اس کے کھینچنے میں بڑا زور لگایا لیکن اونٹ نے اس کی ایک نہ مانی چوہے نے اس سے پوچھا۔ اے اونٹ اس کا کیا سبب ہے کہ اس وقت تک تو جس طرح میں تجھ سے کہتا تھا تو میری بات مانتا تھا مگر اب نافرمان ہوگیا ہے۔ اس نے کہا کہ جب تک میری مرضی تھی میں تمہارے پیچھے پیچھے چلا آیا۔ اب نہیں ہے اس لیے نہیں چلوں گا۔ غرض جس وقت چوہا اونٹ کو لے جا رہا تھا اس وقت گو دیکھنے میں یہ نظر آرہا ہو کہ چوہے کے پیچھے اونٹ چل رہا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ چوہا جدھر جارہا تھا ادھر ہی اونٹ بھی اپنی مرضی سے جا رہا تھا۔ اسی طرح گو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان پر شیطان کا قبضہ ہے مگر اصل میں اس کا قبضہ نہیں ہوتا بلکہ انسان اپنی باگ اس کے ہاتھ میں دے کر خود اپنی مرضی سے اس کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ چنانچہ بعض انسان جب اس سے اپنی جان چھڑوانا چاہتے ہیں تو سختی سے اس کی اتباع سے انکار کر دیتے ہیں اور وہ ڈر کر ان کے پاس سے بھاگ جاتا ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں آتا ہے

وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ(التکویر:30)

یعنی تم نہیں چاہتے مگر وہی جو خدا چاہتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اعمال اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ہیں۔

اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں جو سائل صاحب کے ذہن میں آئے ہیں اس آیت کا ماسبق یہ ہے

فَاَیۡنَ تَذْہَبُوۡنَ۔اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیۡنَ۔لِمَنۡ شَآءَ مِنۡكُمْ اَنۡ یَّسْتَقِیۡمَ۔وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیۡنَ(التکویر:27 ۔30)

خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ تم کہاں جاتے ہو۔ یہ قرآن کریم نہیں مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے وعظ اور نصیحت ہے مگر اسی شخص کے لیے جو چاہے اپنے معاملات کو درست کرے اور حق پر قائم ہو۔ آگے فرماتا ہے۔ وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیۡنَ۔ یعنی یہ تمہاری کوشش استقامت کی بھی تبھی انعام کا وارث ٹھہر سکتی ہے جب کہ تمہاری مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو جائے یعنی تمہارے اعمال شریعت کے مطابق ہوں اور تمہارے عقائد بھی شریعت کے مطابق ہوں۔ جن باتوں پر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ایمان لاؤ اور حسن اعمال یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ کا حکم دیا ہے ان کو بجا لاؤ۔ جب اس طرح کرو گے اس وقت تم اس کلام کے نیک اثرات کو محسوس کرو گے ورنہ نہیں۔ اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کسی کو کہا جائے کہ ہم تم سے تب خوش ہوں گے جب تم ہماری منشاء کے ماتحت کام کرو۔ پس اس آیت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ تمام انسانی اعمال اللہ تعالیٰ کراتا ہے اور انسان کا اس سے کچھ واسطہ نہیں ہوتا۔

باقی رہی یہ آیت کہ

اِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَن یَّشَآءُ (الرعد: 28)

اس کے متعلق اس وقت پوچھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ ہماری جماعت میں اس کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود کھول کر بیان کر دیا ہے کہ خدا اس کو گمراہ کرتا ہے جو خود ایسا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ (المومن:35)

یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے اسے جو مسرف اور شک کرنے والا ہوتا ہے۔

اسی طرح فرماتا ہے

وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ (البقرۃ:27)

اور نہیں گمراہ کرتا اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مگر فاسقوں کو اور اسی طرح فرماتا ہے

وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ اِذْھَدٰھُمْ (التوبۃ:115)

یعنی یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی ہدایت بھیجے اور پھر خود ہی بعض آدمیوں کو گمراہ کر دے۔
پس اللہ تعالیٰ اسی کو گمراہ کرتا ہے جو خود گمراہ ہوتا ہے۔ اور یہ صحیح بات ہے کہ جو آنکھیں بند رکھے وہ ایک نہ ایک دن اندھا ہو جائے گا۔ اسی طرح جو روحانی آنکھوں سے کام نہ لے وہ بھی روحانیت سے بےبہرہ ہو جاتا ہے۔ اور چونکہ یہ قانون خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہوا ہے اس لیے اس کا نتیجہ خدا کی طرف منسوب ہوتا ہے۔

باقی جَفَّ الْقَلَمُ اور اسی قسم کی اور حدیثیں ان کے متعلق اول تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کو قرآن کریم کے ماتحت لانا پڑے گا اور ایسے ہی معنی کیے جائیں گے جو قرآن کریم کی آیات کے مطابق ہوں اور وہ معنی یہی ہوسکتے ہیں کہ یا تو اس سے تقدیر عام مراد ہے یعنی قانون قدرت اور اس میں کیا شک ہے کہ قانون قدرت ابتدائے افرینش سے مقرر چلا آیا ہے یا اس سے مراد ہر ایک عمل نہیں بلکہ خاص تقدیر مراد ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ خاص تقدیریں اللہ تعالیٰ ہی جاری کرتا ہے یا پھر اس سے علمی الٰہی مراد ہے۔ یہی وہ باتیں ہیں جو لوح محفوظ پر لکھی ہوئی ہیں۔

اب میں ایک خاص شبہ بیان کرتا ہوں۔ جو تقدیر کے متعلق تعلیم یافتہ طبقہ میں پھیلا ہوا ہے۔ آج کل جہاں لوگوں میں تحقیقات کا مادہ بڑھ گیا ہے وہاں وہ ہر ایک کام کے متعلق معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیوں ہوا۔ مثلاً دانہ اگتا ہے۔ اس کے متعلق تحقیق کی گئی ہے کہ کیوں اگتا ہے۔ پہلے تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ جب دانہ زمین میں ڈالا جاتا ہے تو فرشتہ کھینچ کر اس سے بال نکال دیتا ہے۔ لیکن اب اس قسم کی باتیں کوئی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور وہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ کیوں اگتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ اسی طرح یہ تحقیقات کی جاتی ہیں کہ فلاں چیز کہاں سے آئی۔ مثلاً کہتے ہیں۔ پہلے دھوپ ہوتی ہے پھر اچانک بادل آجاتا ہے۔ یہ کہاں سے آتا ہے؟ علوم جدیدہ کے ماننے والے کہتے ہیں۔ بادل کئی دن سے بن رہا تھا اور کہیں دور دراز سے چلا ہوا تھا جو اس وقت ہمارے سروں پر آگیا۔ یا ہمارے اوپر کی ٹھنڈک اور خنکی سے ان ابخرات سے جو دور سے چلے آرہے تھے یہاں آکر بادل بن گیا۔ ان لوگوں کے سامنے اگر بیان کیا جائے کہ بارش کے لیے دعا کی گئی تھی اور بادل آگیا تو وہ اس پر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعا تو اس وقت کی گئی تھی اور بادل اس سے کئی دن پہلے بن کر چلا ہوا تھا۔ پھر اس کا آنا دعا کے اثر سے کس طرح ہوا؟ اس قسم کے اعتراضات آج کل کیے جاتے ہیں مگر یہ سب باطل ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ بادل کے آنے کا سبب موجود ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو دس لاکھ یا دس کروڑ سال یا جو وقت بھی مقرر کیا جائے اس سے پہلے معلوم تھا یا نہیں کہ فلاں وقت اور فلاں موقع پر میرا فلاں بندہ دعا کرے گا۔ پھر اسے یہ خبر بھی تھی یا نہیں کہ اس وقت مجھے اس کی مدد کرنی ہے۔ اگر خبر تھی تو خواہ جس قدر عرصہ پہلے بادل تیار ہوا اسی لیے تیار ہوا کہ اس وقت اس کے ایک بندہ نے دعا کرنی تھی اور خدا تعالیٰ کے رحم نے اس وقت اس بادل کو وہاں پہنچانا تھا۔ تو اس قسم کے سب اعتراض باطل ہیں کیونکہ کسی بات کا سبب پہلے ہونے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کا بلاواسطہ محرک وہ امر نہ تھا جو پیچھے ہوا یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ اس کے لیے نہیں ہوا۔ کیا ایک مہمان کے آنے سے پہلے وہ چیزیں مہیا نہیں کی جاتیں جو دور سے منگوانی پڑتی ہیں۔ پھر کیا ان چیزوں کا اس مہمان کی آمد سے پہلے منگوانا اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ اس کی خاطر نہیں منگوائی گئیں۔ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ اسے معلوم تھا کہ فلاں وقت میرا بندہ بادل کے لیے دعا کرے گا اس لیے اس نے شروع پیدائش سے ایسے حکم دے چھوڑے تھے کہ اس وقت ایسے سامان پیدا ہو جاویں کہ اس بندہ کی خواہش پوری ہو جائے۔ پس اس بارش کا ہونا ایک تقدیر خاص کا نتیجہ تھا جو تقدیر عام کے پردہ میں ظاہر ہوئی۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس طرح معلوم ہوا کہ اس کی محرک تقدیر تھی۔ اور اس کی وجہ عام اسباب قدرت نہ تھے۔ اس بات کے معلوم کرنے کے لیے یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ایسے متواتر واقعات ہوتے ہیں جن کی نظیر دنیا کے عام قاعدہ میں نظر نہیں آتی اور اس کی وجہ سے انہیں اتفاق نہیں کہا جاسکتا۔ اگر یہ ثابت ہو جائےتو معلوم ہوگا کہ ان کے متعلق خاص تقدیر جاری ہوئی تھی۔ مثلاً اگر دیکھیں کہ متواتر ایسا ہوا کہ دعائیں کی گئیں اور بادل آگئے تو اس کو اتفاق نہیں کہا جا سکتا بلکہ اس کی کوئی وجہ قرار دینی پڑے گی۔ پھر اتفاق اس کو اس لیے بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس قسم کی مثالوں میں ایک سلسلہ نظر آتا ہے۔ صدیوں کے بعد صدیوں میں مختلف بزرگوں کی دعاؤں کے جواب میں ایسا معاملہ ہوتا آیا ہےپس اسے اتفاق نہیں کہہ سکتے۔ پھر وہ جو ایسی باتوں کو اتفاق کہتے ہیں وہ خود لکھتے ہیں کہ اتفاق کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر ایک چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کےبیان کرنے کا یہ وقت نہیں ورنہ میں بتاتا کہ وہ اتفاق کے متعلق کیا سمجھتے ہیں۔ بہرحال جب وہ دنیا کے کسی معاملہ کے متعلق اتفاق کے قائل نہیں تو پھر اپنے عقیدہ کے خلاف جو بات ہو اسے اتفاق کیوں کہتے ہیں۔

غرض یہ بات خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تقدیر جاری ہے گو سبب موجود ہوتے ہیں مگر ان کی وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ تقدیر نہیں ہے۔

………………………………………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button