یادِ رفتگاں

مولانا صالح محمد صاحب (مربی سلسلہ۔افریقہ)

(امۃ الباری ناصر)

ابن حضرت میاں فضل محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ہرسیاں والے)

محترم صالح محمد صاحب 1906ء میں ہرسیاں(انڈیا) میں پیدا ہوئے آپ پیدائشی احمدی تھے ۔بلکہ ایک منفرد واقعہ کی رو سے تیسری پشت کے احمدی تھے ۔ آپ کے والد حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ اور آپؓ کی والدہ حضرت برکت بی بی صاحبہؓ کو1895ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تھی ۔ اورآپ کے داداجان کو حضرت اقدسؑ نے بغیر بیعت کے احمدی قرار دیا تھا۔ واقعہ یوں ہے کہ آپؓ بیعت کر کے قادیان سے واپس ہرسیاں آئے تو اپنے والد صاحب (جن کا نام سندھی خان صاحب تھا)کو بیعت کی خبر دینے میں مخالفت کے ڈر سے جھجک محسوس ہوئی۔ ایک دن ہمت کرکےبات کی تمہید کے طور پر کہا۔ سنا ہے قادیان میں کسی نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ انہوں نے فوراً جواب دیااگر ایسا ہوا ہے تو بالکل صحیح ہے دنیا کی ہوا کہہ رہی ہے کہ مہدی کا آنا ضروری ہے۔ چیونٹیوں کو ہوا سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ بارش ہونے والی ہے اور وہ اپنے انڈے سنبھالنے لگتی ہیں۔اسی طرح پورب کی ہوا دیکھ کر میں اپنا سامان سمیٹنے لگتا ہوں۔ مجھے موسم کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب بارش ہو گی۔ تو کیا میں اتنا نہیں سمجھ سکتا کہ زمانے کی ہوا گندی ہو گئی ہے۔ مسلمان صرف نام کے رہ گئے ہیں نماز تک کا ہوش نہیں۔ مجھے نماز پڑھنے کے لیے گاؤں سے نصف میل دور ایک جوہڑ کے کنارے اینٹوں کی چھوٹی سی مسجد میں جانا پڑتا ہے جو خود میں نے بنائی ہے۔ اُس میں اکیلا ہی نماز پڑھتا ہوں۔ اس حالت کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہی وقت مہدی کی آمد کا ہے۔

اس بات کے جلد ہی بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ حضرت میاں فضل محمد صاحب ؓنے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو اپنے والد صاحب کے انتقال کی خبر دی۔ حضرت اقدسؑ نے دریافت فرمایا کہ

میاں فضل محمد کیا انہوں نے ہمارا پیغام سنا تھا؟ ایمان لائے تھے؟

انہوں نے ساری تفصیل بتا دی۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا‘وہ احمدی تھے انہوں نے ہمیں مانا تھا آؤ ہم اُن کی نماز جنازہ پڑھیں۔’

حضرت اقدسؑ کی امامت میں اُس وقت موجود اصحاب کرام نے نماز جنازہ پڑھی۔ بغیر بیعت کے ایمان لانے والوں میں شمار ہونے کی تصدیق خود حضرت مسیح موعودؑ نے فرمائی۔ فالحمدللّٰہ علی ذالک۔(زندہ درخت۔ صفحہ 105)

اس وقت آپ ہرسیاں میں رہتے تھے ۔ مگر دل قادیان میں اٹکا رہتا تھا حضرت اقدس ؑکے دیدار اور آپؑ کی صحبت سے فیضیاب ہونے کے لیے ہرسیاں سے قادیان کے دیوانہ وار چکر لگتے ۔دونوں میاں بیوی قادیان میں سکون پاتے حضرت برکت بی بی صاحبہ تو کئی کئی دن ‘الدار’ میں گزارتیں اور شوق سے حضرت اماں جان ؓ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتیں ۔ اسی زمانے میںمیاں صاحب ؓموصوف نے ایک خواب دیکھا جو رجسٹر روایات نمبر 14سے انہی کے الفاظ میں درج ہے:

‘‘میں حضورؑ کے قدموں میں بیٹھا تھا۔ میں نے حضورؑ سے عرض کی کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ حضور بغل گیر کر کے مشرق سے مغرب کی طرف جا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ آپ کے گھر میں تین بیٹے ہوں گے۔ پہلے کا نام عبدالغنی دوسرے کا نام ملک غنی اور تیسرے کا نام پتال غنی رکھنا اور آپ کی عمر 45سال ہو گی۔ اس پر مولوی عبدالکریم صاحب ہنس کر بولے کہ پھر بتلاؤ کہ پہلے کا نام کیا اور دوسرے کا نام کیا ہے۔ میں نے جب دوبارہ بتلایا تو مولوی صاحب پھر بولے کہ پھر بتلاؤ تو میں نے عرض کی کہ حضور مولوی صاحب تمسخر کرتے ہیں اور مجھے بڑا غم لگا ہوا ہے۔ حضورؑ مسکرا کر بولے کہ آپ کو کیا غم ہے۔
تو میں نے عرض کی کہ حضور میری عمر اس وقت تقریباً 28 یا 30سال کی ہے اور تھوڑی باقی رہ گئی، ابھی مَیں نے حضور کا زمانہ دیکھنا ہے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قادرہے وہ دوگنی کر دیا کرتا ہے۔’’

اللہ پاک کے حکم سے مسیحائے زماں علیہ السلام کے مبارک الفاظ کی برکت سے ان کے خاندان میں ہر نعمت دُگنی بلکہ کئی گنا ہوتی گئی۔

آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے چھے بیٹے عنایت فرمائے ۔ پہلا بیٹا کم عمری میں فوت ہوگیا تھا دوسرے بیٹے کا نام حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ‘‘عبد الغفور’’رکھا اور بچے کو ایک روپیہ عنایت فرمایا۔یہ با برکت بیٹا حضرت ابو البشارت عبد الغفورؓ سلسلہ احمدیہ کے عظیم مجاہد بنے۔ پھر تیسرا بیٹا1903ء میں پیدا ہوا حضرت مسیح موعودؑ سے نام تجویز کرنے کی درخواست کی گئی۔آپ نے بڑے بھائی کانام دریافت فرمایا اور عبد الغفور کی مناسبت سے عبدالرحیم نام رکھا۔اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ بیٹا بھی خادم دین اور درویش قادیان بنا۔چوتھے بیٹے کی پیدائش سے پہلے برکت بی بی صاحبہ کوخواب میں بیٹے کا نام صالح بتایا گیا تھا۔

اس کے بعد12؍فروری1906ء کو ایک بیٹاپیدا ہوا تومیاں صاحب ؓحضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی حضور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے لڑکا عطا فرمایا ہے از راہ ِکرم اس کا نام تجویز فرمادیں آپ نے فرمایا غلام محمد رکھ لیں۔ عرض کیا سیّدی اس کے تایا جان کا نام غلام محمد ہے۔ارشاد ہوا ‘صالح محمد’رکھ لیں۔ یہ وہی نام تھا جو بچے کی والدہ نے خواب میں دیکھا تھا ۔

بچے کا نام رکھانے کے اس چھوٹے سے واقعہ میں کئی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی شان ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خواب میں بیٹے کی بشارت عطا فرمائی جو پوری ہوئی پھر خواب کی بنا پر خود ہی نام صالح محمد نہیں رکھ لیا بلکہ دربار مسیح میں گئے حضرت مسیح موعود ؑ نے وہی نام رکھ دیا جو خواب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا۔سبحان اللہ۔

پانچویں بیٹے مکرم محمد عبد اللہ صاحب اور چھٹے بیٹے مکرم عبد الحمید صاحب بھی اپنے اپنے رنگ میں دین کے خادم ہوئے۔

1916ء ،1917ء میں اس خاندان نے ہجرت کرکے مستقل دیارِ حبیب قادیان میں سکونت اختیار کر لی ۔ حضرت میاں فضل محمد صاحب ؓنے دارالفضل میں مکان بنایا ۔ اور وہیں اپنا کاروبار شروع کیا۔ اس طرح مکرم صالح محمد صاحب کی جوانی اور تعلیم کا عرصہ دار الامان میں گزرا۔ جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ،مکرم مولانا احمد خان نسیم صاحب اور مولانا نذیر احمد مبشر صاحب آپ کے کلاس فیلو تھے۔قادیان کے علمی اور روحانی ماحول کے اثرات آپ پر نقش تھے ساری زندگی تقویٰ شعاری ،پرہیز گاری اور عبادت و ریاضت میں گزاری۔ خدا تعالیٰ کے احکامات کی باریکیوں اور تہ تک جا کر بجا آوری کرتے اور ایسا ہی سب سے چاہتے۔سچی اور کھری بات کہنے کے عادی تھے۔

آپ کی اہلیہ مکرمہ فاطمہ بیگم صاحبہ (بنت محترم غلام رسول صاحب ٹھیکیدار)ایک سکول میں ٹیچر تھیں۔ اُن دنوں امراؤتی (انڈیا )میں ایک مسلم ٹیچر کی ضرورت کا اشتہارشائع ہوا ۔ ان کی درخواست پران کو منتخب کر لیا گیا ۔ اس طرح یہ خاندان امراؤتی منتقل ہوگیا جہاں 12 سال،1933ءتا1945ء تک رہائش رہی۔ یہ شہر قادیا ن سے بہت دور تھا۔تین دن سفر میں لگتے تھے ۔ وہاں احمدیت کی مخالفت بھی تھی بدخواہوں کی نظروں میں آ نے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ ہمیشہ اپنے نام کے ساتھ ‘احمدی’لکھتے۔ اور جماعت کا تعارف بھی کراتے ۔1945ء میں ایک افسوسناک حادثہ کا سامنا کرنا پڑا۔ چھوٹی بچی جس کی عمر5سال تھی مختصر علالت کے بعد وفات پا گئی۔ گھر پر نماز جنازہ پڑھائی اب تدفین کا مرحلہ آیا تو لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے کے حق میں تھا دوسرا مخالف تھا۔جھگڑے کی صورت پیدا ہو گئی۔ وہاں احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کے کچھ واقعات ہو چکے تھے۔ یہ سخت آزمائش کا وقت تھا۔اللہ تعالیٰ نے ساتھ دیا پولیس کی مدد سے فساد سے بچاؤہو گیا۔ آپ اس واقعہ کے بعد قادیان واپس آ گئے اور اپنا کاروبار شروع کیا ۔

حضرت مصلح موعود ؓکی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے 1946ء میں آپ نےزندگی وقف کرنےکی درخواست دی جومنظور ہوئی اور جنوری1948ءمیں آپ کا تقرر غانا مغربی افریقہ میں بطور تاجر مبلغ ہوا۔ کچھ عرصہ انگلستان میں بھی رہے ۔ آپ نے بہت محنت اور نیک نامی سے کام کیا ۔حضرت مصلح موعود ؓآپ کے کام سے بہت خوش تھے اورکئی دفعہ تعریف بھی فرمائی۔

آ پ کے والد صاحب کے خواب میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام ملک غنی بتایا تھا۔ عجیب قدرت خداوندی ہے کہ آپ کو سمندر پار سفر اور قیام کے مواقع میسر آئے اور وہ بھی طویل عرصہ تک،آپ نے 30سال کا عرصہ وطن سے دور گزارا ۔ ملک غنی اور ملک غانا بھی ملتے جلتے ہیں۔1963ءمیںآپ وہاں سے واپس پاکستان آئے۔

پاکستان میں آمد کے بعد دفاتر تحریک جدید میں لمبا عرصہ کام کیا۔ تحریک جدید کوارٹرز ربوہ میں سکونت پذیر رہے بعد میں فیکٹری ایریا ربوہ میں اپنا مکان بنا کر اس میں منتقل ہو گئے۔ محلہ فیکٹری ایریا کے صدر کے طور پر کام کیا، امام الصلوٰۃ رہے اور کئی سال باقاعدگی سے درس قرآن بھی دیتے رہے۔ اَور بھی کئی عہدوں پر خدمات کا موقع ملا۔آپ ایک باوقار اورپُررعب شخصیت کے مالک تھے ۔ وقف زندگی تھے اور عیال دار بھی مگر رکھ رکھاؤ اور وضع داری برقرار رکھتے ۔ستھرا پن ان کے مزاج کا حصہ تھا ۔ بچوں کی اچھی تربیت و تعلیم کی توفیق پائی۔ آخری بیماری میں آپ کے چھوٹے بیٹے لیفٹیننٹ کرنل(ر)نسیم سیفی صاحب اور ان کی بیگم امۃالرافع صاحبہ نے خدمت کا موقع پایا۔ اللہ تعالیٰ اجر عظیم سے نوازے 11؍مئی 1995ءکو ربوہ میں وفات پائی اوربہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے ۔

آپ کی ڈائری سے چند ایمان افروز دلچسپ واقعات درج ہیں :

احترام کا انداز

1954ءکی بات ہے میں چھٹی پر وطن آیا ہوا تھا۔ ابا جان میرے ہاں ہی قیام فرما تھے۔ گرمیوں کے دن‘کچا کوارٹر’ گھاس پھونس کے چھپر کے نیچے آرام فرما رہے تھے کہ کسی نے باہر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں گیا دروازہ کھولا تو دیکھا حضرت مسیح پاک ؑکے جانثار حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ اور ایک بزرگ جناب بابا فضل دین صاحبؓ تشریف لائے ہیں۔ فرمایا ہم میاں جی کو ملنے آئے ہیں۔ اللہ اکبر۔ کون سا احمدی ہے جو بھائی جی کے نام اور مقام سے واقف نہیں۔ شمع احمدیت کے اس پروانے کو اللہ تعالیٰ نے بہت بلند مقام سلسلہ عالیہ احمدیہ میں عطا فرمایا ہے۔ صحابی مسیح موعود ؑ کے دیدار کو آنے والے دونوں احباب گھر سے باہر ہی جوتے اُتار دیتے ہیں۔ یہ محض اس لیے کہ مسیح پاک کے ایک حواری کو اللہ تعالیٰ کا ایک شعار قرار دے کر تکریم مقصود تھی ۔ربوہ کی مٹی دھول کی پرواہ کیے بغیر باہر سے ننگے پاؤں چل کر آئے اور خوشی کا یہ عالم کہ آنکھوں میں آنسو تھے جتنی دیر بیٹھے ایمان افروز واقعات درد بھرے انداز میں سُناتے رہے۔ میں اس خوش نصیبی پر جس قدر فخر کروں کم ہے کہ مجھے بھائی جی جیسے جلیل القدر رفیقِ مسیح موعودکے جوتے اُٹھانے کا فخر حاصل ہوا۔

حضرت ام ناصرؓ کی شفقت

1955ءکی بات ہے حضرت مصلح موعود ؓلندن تشریف لائے۔ میں بھی اُن دنوں لندن میں تھا۔ ایک دن ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو دیکھا کہ پان کھارہے ہیں۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا ڈاکٹر صاحب یہ پان کہاں سے؟ فرمایا والدہ صاحبہ ناصر احمد کو ٹیکہ لگانے گیا تھا انہوں نے عنایت فرمایا ہے پھر مجھ سے پوچھا کہ آپ بھی کھایا کرتے ہیں؟ میں نے عرض کی کھایا ہی کرتا ہوں مگر اب یہاں نہیں ملتے۔ فرمایا کل جب میں ٹیکہ لگانے جاؤں گا تو آپ کے لیے بھی لگوا لاؤں گا۔

اگلے دن ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جب میں نے آپ کے لیے پان کی درخواست کی تو حضرت اُم ناصرؓ نے فرمایا صالح محمد تو ہمارا اپنا بچہ ہے اور ہمارے گھر اور خاندان کا ایک فرد ہے میں خود اپنے ہاتھ سے پان لگا کردیتی ہوں۔ آپ بہت خوش نصیب ہیں آپ کو امی جان نے پان لگا کر عنایت کیا ہے۔

میں ہزار جان سے صدقے اپنے مولا کے جس کی عنایت سے مجھ پر اور ہمارے خاندان پر ازراہ غلام نوازی خاندان مسیح پاک کی شفقتیں رحمت کی بارش کی طرح برستی رہیں۔

آمین اللّٰھم آمین

حضرت مصلح موعودؓ کے دیدار کی خاطر

آخری عمر میں والد صاحب بہت کمزور ہو گئے چلنا پھرنا مشکل ہو گیا نظر پر بھی اثر ہوا تو حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر روح کی پیاس بجھانا مشکل ہو گیا۔ آپ وُفور شوق میں اس طرح کرتے کہ کسی ایسے راستے پر جا کر بیٹھ جاتے جہاں سے حضرت مصلح موعودؓ کا گزرنا متوقع ہوتا تاکہ زیارت ہو جائے۔ اگر کوئی عزیز حضور کو بتا دیتا کہ میاں جی زیارت کے لیے آئے ہیں تو دل کے حلیم حضور ازراہِ غلام نوازی خود ابا جان کے پاس آ جاتے اور دیدار کی پیاسی روح کو سیراب کرتے۔

ابا جان کا سفرِآخرت

ابا جان اس لحاظ سے بے حد خوش نصیب تھے کہ اپنی سب اولاد کوخدمتِ دین میں مصروف دیکھا۔ سب نے سعادت مندی سے اپنے عظیم والد کی قدر و منزلت پہچانی اور حسبِ مقدور خدمت کی۔آخری وقت میرے گھر رہے اور میری بیوی فاطمہ اور بچوں نے خدمت کی سعادت حاصل کی۔ فالحمدللہ علی ذالک۔ مجھے بہت یاد کرتے رہے مگر میں تو ان کے خواب کی تعبیر کے مطابق دین کی خدمت کے لیے ملک سے باہر تھا۔
وفات سے پہلے آپ زیرِ لب دعائیں پڑھ رہے تھے میرے بڑے بھائی جان (مرحوم مغفور)مولوی عبدالغفور صاحب نے عرض کی ابا جان یا حی یا قیوم پڑھیں فرمایا نہیں یا رحمن یا رحیم اور یہی صفاتِ الٰہی لبوں پر سجائے خدا کے حضورحاضر ہو گئے۔ جیسے جانتے ہوں کہ حی و قیوم پڑھنے کا نہیں مالک یوم الدین کے حضور حاضر ہونے کا وقت ہے رحمانیت اور رحیمیت کی ضرورت ہے۔ تاریخ وفات 7؍نومبر 1956ءتھی۔
اپنے والد صاحب کی وفات کو کوئی مبارک موقع نہیں کہتا مگر مَیں کہہ رہا ہوں اور اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ کی وفات سے ایک نشان پورا ہو رہا تھا۔ آپ کی وفات سے مسیح موعود ؑکی صداقت کا ایک ثبوت مل رہا تھا وہ خواب پورا ہو رہا تھا جس کی تعبیر مسیح پاک نے کی تھی۔ سبحان اللّٰہ

اولاد

مکرم مولوی صالح محمد صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے آٹھ بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔ دو بچے کم عمری میں فوت ہوگئے

1۔ مکرم صادق محمد صاحب کئی سال نصرت جہاں کے تحت سیرالیون میں ٹیچر رہے۔

2۔ مکرم مبارک احمد صاحب کا نارتھ لنڈن جماعت سے تعلق ہے۔ جلسہ سالانہ برطانیہ پر کئی سال شعبہ ٹرانسپورٹ میں بڑی تندہی سے ڈیوٹی دینے کی توفیق پاتے رہے۔ 13؍اگست 1999ء کو کینسر کے عارضہ سے وفات ہوئی۔

3۔ مکرم شریف احمد صاحب اسلام آباد پاکستان میں مقیم ہیں جو سالہا سال سے مختلف جماعتی خدمات سرانجام دے رہےہیں۔

4۔مکرم لطیف احمد صاحب اسلام آباد پاکستان میں اعلیٰ عہدہ پر فائز رہے۔

5۔مکرم سعید احمد صاحب اعلیٰ سرکاری عہدہ پر فائزرہے۔

6۔ کرنل ریٹائرڈ مکرم نسیم احمد سیفی صاحب مرحوم ۔

7۔ مکرم رفیق احمد صالح صاحب اسلام آباد میں اعلیٰ سرکاری عہدہ پر فائز رہے ہیں

8۔مکرمہ طیبہ مسعود صاحبہ اہلیہ مسعود احمد صاحب

9۔ مکرمہ شاہدہ محمودصاحبہ اہلیہ قریشی محمود احمد صاحب مرحوم

اللہ پاک میرے بہت محبت کرنے والے چچاجان کو اعلیٰ علیین میں مقام قرب عطا فرمائے ۔آمین اللّٰھم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button