سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

آپؑ کی سیر کا بیان(حصہ سوم)

حضرت میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی ؓبیان کرتے ہیں کہ

“مستری محمد مکی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے واسطے تشریف لے جاتے اور بازار میں سے گذرتے تو بعض ہندو دکاندار اپنے طریق پر ہاتھ جوڑکر حضور علیہ السلام کو سلام کرتے اور بعض تو اپنی دکان پر اپنے رنگ میں سجدہ کرنے لگتے۔ مگر حضرت صاحب کو خبر نہ ہوتی۔ کیونکہ آپ آنکھیں نیچے ڈالے گذرتے چلے جاتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 815)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں :

“…مقدمات کی پیروی کے لیے آپ کو ڈلہوزی اور لاہور تک کے سفر کرنے پڑے اور ڈلہوزی تک متواتر پیدل جاتے رہے ۔یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وہ لوگ جو اصلاح خلق کے کام پر مامور ہوتے ہیں اور منہاج نبوت پر مبعوث ہوتے ہیں انہیں کچھ نہ کچھ سفر اپنی بعثت اور ماموریت سے پہلے کرنے پڑتے ہیں۔یہ سنت اللہ ہمیں تمام انبیاء کے حالات میں نظر آتی ہے ۔”

(حیاتِ احمد جلد اول صفحہ84)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں :

“(آپؑ کو) اپنے والد بزرگوار کی اطاعت کے لیے اپنی جاگیر اور جائیداد کے مقدمات کے لیے سفر کرنے پڑے ۔اور قادیان سے ڈلہوزی تک پا پیادہ سفر کیا۔آج سے قریباً پچاس سال پیشتر راستوں اور سڑکوں کا ایسا اہتمام نہ تھا ۔اور نہ سفر کی سہولتیں حاصل تھیں ۔پھر پہاڑوں کا دشوار گزار راستہ اور پیادہ پاطے کرنا آسان کام نہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے اس سفر میں کیسی جفاکشی اور غیر معمولی ہمت سے کام لینا پڑتا ہو گا … بارہا آپ نے ان ایام کے عجائبات سناتے ہوئے فرمایا ہے کہ

“جب کبھی ڈلہوزی جانے کا مجھے اتفاق ہوتا تو پہاڑوں کے سبزہ زار حصوں اور بہتے ہوئے پانیوں کو دیکھ کر طبیعت میں بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کا جوش پیدا ہوتا اور عبادت میں ایک مزا آتا۔ میں دیکھتا تھا کہ تنہائی کے لیے وہاں اچھا موقع ملتا ہے۔”

(حیاتِ احمد جلداول صفحہ 85)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں :

“مقدمات کے اس سلسلہ میں آپؑ کو بٹالہ، گورداسپور، ڈلہوزی، امرتسر اور لاہور تک کے سفر کرنے پڑتے تھے ۔جن میں سے ڈلہوزی تک کے سفر آپ ؑ نے کئی بار پا پیادہ بھی کیے۔ القصہ آپ ؑ کی قادیان کی زندگی کی ایک مصروفیت ان مقدمات کی صورت میں تھی ۔مگر اس مصروفیت نے کبھی اور کسی حال میں آپ ؑ کو اپنے ذکر اور شغل سے باز نہیں رکھا۔”

(حیاتِ احمد جلد اول صفحہ 319)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں :

“اُس وقت آمدورفت کی یہ سہولتیں نہ تھیں جو آج ہمیں میسر ہیں ۔بلکہ امرتسر اور بٹالہ کے درمیان ابھی ریل بھی تیار نہ ہوئی تھی۔ امرتسر تک یکہ میں جانا پڑتا تھا اور قادیان سے کبھی کوئی یکہ مل جاتا۔مگر علی العموم آپؑ بٹالہ تک پیدل سفر کرتے تھے۔”

(حیاتِ احمد جلد دوم صفحہ59-60)

آپؑ کا طریق عمل یہ ہوتا تھا۔کہ آپ سواری کے لیے گھوڑا لے لیا کرتے تھے۔اور جو بھی رفیق یا خادم ساتھ ہوتا گا ؤں سے باہر نکل کر اسے گھو ڑے پر سوار کرا دیتے اور خود پیدل چلتے ۔ نصف رستہ تک پیدل چل کر پھر خود سوار ہوتے اور خادم پیدل چلتا۔بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ سارے رستہ خادم ہی گھوڑے پر سوار رہتا اور آپ پیدل ہی چلتے رہتے یہی طریق آپ کا واپسی پر ہوا کرتا تھا ۔

“ مرزا اسماعیل بیگ صاحب کا بیان ہے۔کہ گاؤں سے باہر نکل کر وہ ان کو سوار کر لیا کرتے تھے۔اور نصف راستہ تک مرزا اسماعیل بیگ سوار رہتے اور نصف رستہ خود۔اسی طرح پر واپسی کے وقت آپؑ کا طریق تھا۔مرزا اسماعیل بیگ صاحب عذر کرتے اور شرم کرتے تو آپ فرماتے:

کہ ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی تم کو سوار ہوتے کیوں شرم آتی ہے!” (حیاتِ احمد جلد اول صفحہ 315)
صبح حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام مردانہ مکان میں تشریف لائے۔ دہلی کی سیر کا ذکر درمیان میں آیا۔ فرمایا:

“لہو و لعب کے طور پر پھرنا درست نہیں ؛ البتہ یہاں بعض بزرگ اولیاء اﷲ کی قبریں ہیں ۔ ان پر ہم بھی جائیں گے۔”

عاجز کو فرمایا کہ “ایسے بزرگوں کی فہرست بناؤ تا کہ جانے کے متعلق انتظام کیا جائے۔”

حاضرین نے یہ نام لکھائے۔(1) شاہ ولی اﷲ صاحب (2)خواجہ نظام الدین صاحب(3)جناب قطب الدین صاحب (4)خواجہ باقی باﷲ صاحب (5)خواجہ میر درد صاحب (6)جناب نصیر الدین صاحب چراغ دہلی۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ 166)

ملک صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں :

“حضور کی عادت مبارک تھی کہ صبح کی نماز کے بعد کچھ دن نکلے سیر کے واسطے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اور سیر میں جانے سے پہلے حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّلؓ کو بھی اطلاع کر دیا کرتے تھے تاکہ وہ بھی ساتھ ہوں ۔ بعض اوقات ان کی انتظار بھی فرمایا کرتے تھے اور ان کو ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ ابتداء میں حضور بٹالہ کی سڑک کی طرف سیر کے لیے تشریف لے جاتے تھے اور کم از کم موڑ تک جاتے تھے۔ گاہ گاہ موڑ سے آگے بٹالہ کی جانب بھی تشریف لے جاتے تھے۔ ایک دو مرتبہ نہر تک جانا بھی حضور کا مجھے یاد ہے۔

اس کے علاوہ میں حضور کے ہمرکاب جانب شرق قادر آباد (نیا گاؤں )کی طرف سے بسراواں کی طرف اور قادر آباد (نیا گاؤں )سے شمالی جانب کے راستہ سے جو قادر آباد(نیا گاؤں )اور بھینی کے درمیان سے جاتا ہے، اس راستہ پر بھی سیر کو گیا ہوں چند مرتبہ ننگل باغباناں کی جانب بھی حضور سیر کے واسطے تشریف لے گئے ہیں اور کاہلواں تک سیر فرمائی ہے۔ (ننگل باغباناں کو بہشتی مقبرہ کے مشرق کی طرف سے گذرنے والے راستہ سے تشریف لے جاتے تھے جس کے راستہ میں باغیچہ پیرشاہ چراغ آتا تھا۔)

حضرت بھائی جی نے مزید یہ تحریر فرمایا ہے کہ

حضور قادیان سے شمال کی جانب موضع بوٹر کی طرف بھی سیر کے واسطے تشریف لے جایا کرتے تھے اور بعض دفعہ حضور اپنے باغ کی طرف بھی جو شہر سے جانب جنوب واقع ہے سیر کے واسطے گئے ہیں ۔ باغ سے آگے لیلاں کی طرف (باغ کے مغرب کی طرف سے) ایک رستہ جاتا ہے۔ اس طرف کو اور بعض اوقات حضور باغ ہی میں ٹھہر کر سیر فرماتے اور بعض پھل منگا کر خدام کو کھلاتے اور خود بھی شریک ہوا کرتے تھے خصوصاً شہتوت، بیدانہ اور آم۔

(از مؤلف) بڑے باغ کے مغرب کی طرف راستہ 1962ء سے پہلے موضع ننگل باغباناں کی اشتمال اراضی کی وجہ سے ختم ہو چکا ہے۔

سیر کے سلسلہ میں حضرت بھائی جی نے مزید تحریر فرمایا ہے کہ

“کبھی کبھی حضور کمر میں ایک پٹکا بھی باندھا کرتے تھے ہاتھ میں حضور کے چھڑی ضرور ہوا کرتی تھی جو عموماً موٹے بید کی اور کھونٹی دار ہوا کرتی تھی۔”

“حضور کوٹ پہنے بغیر سیر کے واسطے کبھی تشریف نہیں لے جاتے تھے۔ جوتی حضور کی ہمیشہ دیسی ہوتی تھی بوٹ میں نے حضور کو کبھی پہنے نہیں دیکھا ایک دفعہ ایک گرگابی کسی نے حضور کے واسطے بھیجی یا پیش کی تھی مگر اس کے الٹے سیدھے کا حضور کو خیال نہ رہتا تھا اور اس وجہ سے حضور کو تکلیف ہوتی تھی آخر چھوڑ دی تھی۔

حضور سیر میں تشریف لے جاتے تو حضور کے ہمرکاب اکثر مقامی دوست اور مہمان ضرور ہوا کرتے تھے۔ حضور سیر میں دینی باتیں فرمایا کرتے تھے۔ بعض اوقات نئی تصانیف کے مضامین باتوں باتوں میں سنا دیا کرتے تھے۔ دوستوں کے سوالات کے جواب بھی دیا کرتے تھے۔ اور اس طرح جاتے اور آتے سارا وقت اسی قسم کی گفتگو میں خرچ ہوا کرتا تھا اور یہ ایک قسم کا شاندار دربار رواں کا نقشہ ہوا کرتا تھا۔ حضرت خلیفہ اولؓ چلنے میں کمزور تھے۔ حضور پُرنور کی رفتار تیز تھی۔ مگر تیزی نظر نہ آتی تھی بلکہ ایک وقار اور سنجیدگی لیے ہوئے ہوا کرتی تھی۔ حضرت مولوی صاحب لوگوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہولے ہولے چلا کرتے تھے اور اکثر حضور کے پیچھے رہ جاتے تھے۔ حضور کو معلوم ہوتا تو حضور ان کے انتظار میں ٹھہر جایا کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اولؓ ہی پر کیا منحصر ہے اور بھی بعض دوست حضور کے ساتھ اور حضور کی باتیں سننے کی غرض سے بجائے چلنے کے دوڑ دوڑ کر ساتھ ہوا کرتے تھے۔

چند مرتبہ جانب شمال کی سیر سے واپسی پر حضور (ہندو)بازار میں سے بھی معہ خدام گذرے ہیں (جو شمالاً جنوباً ہے) جب حضور بازار میں سے گذرتے تو دکاندار کیا ہندو اور کیا سکھ سبھی حضور کے لیے ادب سے کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ اور کوئی کوئی سلام بھی کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ حضور اڈہ خانہ والے بازار میں سے بھی (جو شرقاً غرباً ہے)گذرے تھے۔ اس وقت حضور کے ساتھ خدام کی بھاری تعداد تھی اور چونکہ وہ بازار ڈھلوان ہے لہٰذا وہ نظارہ نہایت ہی شاندار اور دلکش تھا (یعنی حضور اپنے مکانات سے سیر کو تشریف لے جانے کے لیے اس بازار کے راستہ گئے تھے)

ایک موقعہ پر غالباً جلسہ کے ایام تھے بوٹر کی طرف حضور سیر کے واسطے تشریف لے گئے تو حضور کے ساتھ بڑی بھیڑ تھی۔ گردوغبار بہت اڑتا تھا۔ چلنا دشوار ہو گیا۔ حضور تھوڑی دور جا کر کھلے کھیتوں میں (جہاں آجکل مسجد نور اور اس کے پاس جلسہ گاہ والا میدان ہے)میدانی شکل تھی، فصل نہ تھی، ٹھہر گئے اور اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر بعض دوستوں نے الگ الگ حضور کی خدمت میں حاضر ہونا شروع کیا۔ اس دن قادیان سے شمالی جانب ایک بہت بڑی چھاؤنی کا نظارہ تھا۔

ایک زمانہ ایسا بھی آیا تھا کہ حضور مردوں کے ساتھ سیر کرنے کو تشریف نہ لے جاتے تھے بلکہ صرف مستورات ہی حضور کے ہمرکاب جایا کرتی تھیں ۔ سیدۃ النساء حضرت ام المومنینؓ ہمرکاب ہوتیں اور شاہزادگان بھی۔ بعض خدام مستورات بھی جایا کرتی تھیں مگر یہ سیر زیادہ تر بسراواں کی طرف قادر آباد (نیا گاؤں )سے آگے نکل کر اونچی زمین۔ میرا۔ تک ہوا کرتی تھی۔

بھائی جی اور آپ کی اہلیہ محترمہ بیان کرتے ہیں کہ عزیز عبد القادر کو جو 30 اپریل 1904ء کو پیدا ہوئے تھے دروازہ پر بٹھا دیا جاتا تھا تاکہ حضرت اقدس کے سیر کے لیے تشریف لانے پر بتائے۔ حضور مع حضرت اماں جانؓ تشریف لاتے تو عزیز کہتا‘‘حجر چھاب آ گئے” یعنی حضرت صاحب آ گئے۔ اس پر عزیز کی والدہ بھی سیر کے لیے ہمراہ چلی جاتیں اور کئی بار ایسا ہوا کہ حضور شفقت و پیار سے عزیز کے سر کے پیچھے ہاتھ رکھ کر اسے آگےآگے چلائے جاتے۔ اہلیہ محترمہ بھائی جی بیان کرتی ہیں کہ دس پندرہ مستورات سیر میں ساتھ ہوتی تھیں ۔

حضرت بھائی جی مزید بیان کرتے ہیں :

ایک مرتبہ حضور بیگمات اور خادمات کے ساتھ باغ میں تشریف فرما تھے۔ غالباً عصر کے بعد کا وقت تھا۔ باغ میں حضور سیدۃ النساء حضرت ام المومنینؓ کے ساتھ ٹہلتے پھرتے تھے کہ یکایک حضور نے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا۔‘‘جلدی کرو چلو واپس گھر چلیں ۔ سخت اندھیری اور بادل آ رہا ہے۔’’سیدۃ النساء حضرت ام المومنین نے عرض کیا۔ کہاں ہے بادل اور کہاں کی اندھیری۔ کچھ بھی تو نظر نہیں آ رہا۔ اتنے میں ایک چھوٹی سی بدلی آسمان پر نمودار ہوئی اور حضور نے سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دکھا کر پھر جلدی واپسی کو کہا۔

مستورات باغ میں ادھر ادھر پھیلی ہوئی تھیں ان کے اکٹھا ہونے میں دیر لگی۔ ادھر بادوباراں کا ایک طوفان عظیم سامنے آ گیا اور ابھی حضور خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب والے باغ ہی میں تھے کہ سخت بارش اور دن کو رات بنا دینے والی آندھی آن پہنچی۔ سیدۃ النساء حضرت ام المومنین کا ہاتھ حضور پُرنور نے پکڑ رکھا تھا اور ان کو لیے آ رہے تھے۔ بارش کے باعث کپڑے شرابور ہو رہے تھے سب سےآگے حضور پُرنور تھے اور پیچھے متفرق متفرق دوسری عورتیں تھیں ۔

چونکہ ہم لوگوں کو معلوم تھا کہ حضور بیگمات کے ساتھ سیر کے لیے باغ کی طرف تشریف لے گئے ہوئے ہیں لہٰذا جس کسی سے ہو سکا حضور کو لینے کے لیے باغ کی طرف بڑھے۔ مدرسہ کے لڑکے بھی اس کام کے واسطے دوڑے۔ جب میں حضور کے قریب پہنچا تو حضور نے فرمایا ہم تو اب اللہ کے فضل سے آن پہنچے ہیں پیچھے عورتیں بہت متفرق ہیں اور خطرہ ہے کہ کوئی اندھیرے کی وجہ سے ڈھاب میں نہ گر جائے ان کی مدد کرو۔ چنانچہ ہم سے جو کچھ ہو سکا مستورات کی اس پریشانی میں ان کی خدمت کی کوشش کی۔ عورتوں کو بہت پریشانی ہوئی بعض کے برقعے اڑ گئے، زیور گر گئے، راستہ بھول گئیں ۔ میں نے حضور پُرنور اور سیدۃ النساء حضور ام المومنینؓ کو اس جگہ واپس آتے دیکھا تھا جہاں آج کل مرزا محمد اشرف صاحب کا مکان واقع ہے۔ حضرت نانی اماں ؓ بھی اس طوفان میں گھر گئی تھیں جن کو لے کر میری اہلیہ والدہ عزیز عبد القادر راہ بھول گئیں اور کھیتوں میں نکل گئیں ۔ اور جب اجالا ہوا تو مولوی غلام رسول صاحب افغان والے مکان کے راستے سے ڈھاب اور کھیتوں میں ہوتے ہوئے (اپنے)گھر لائیں ۔ گھر لا کر ان کو کپڑے بدلوائے۔ بستر دے کر گرم کیا اور جو کچھ ہو سکا خدمت کی۔ ادھر گھر میں ان کی تلاش ہوئی۔ باہر نہ ملیں تو گھروں میں سے معلوم کرنا شروع کیا۔ آخر معلوم ہوا کہ قادیانی کے گھر میں بخیریت ہیں مگر یہ واقعہ بہت بعد کا ہے۔

سیر کا مذکورہ بالا واقعہ اہلیہ محترمہ بھائی جی نے خاکسار مؤلف کو ازخود سنایا تھا جس میں یہ بھی بتایا تھا کہ بچوں والی خواتین پیچھے رہ گئی تھیں ان کے کپڑے اڑ گئے، زیور گم گئے۔ جب گھروں میں حضرت نانی جان کی تلاش ہوئی تو بھائی جی نے اپنے گھر آ کر آواز دے کر پوچھا تو حضرت ممدوحہ نے کہا کہ میں یہاں موجود ہوں اور پھر فوراً دارالمسیح کی طرف روانہ ہو گئیں کہ میری بچی نصرت کو تشویش رہے گی۔ بھائی جی نے فرمایا کہ اس وقت میرا مکان حضرت خلیفہ اولؓ کے مکان کے شمال کی طرف تھا جو حضورؓ نے بعد میں مجھ سے خرید لیا تھا۔”

(اصحابِ احمد جلد 9 مؤلفہ ملک صلاح الدین ایم۔اے صفحہ 160-161)

………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button