ادبیات

اسلام اور آنحضرت ﷺ سے عشق۔ درّثمین اردوکی بارہویں نظم (حصہ اوّل)

(حافظ نعمان احمد خان ۔ استاد جامعہ احمدیہ ربوہ)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ساراکلام نظم و نثر آفاقی ہے۔ ہر زمانے اور خطّے کےلیے آپؑ کےفرمودات زندگی بخش پیغام لیے ہوئے ہیں۔ حضورؑ کے اردومنظوم کلام کا یہ مطالعہ ،ان نظموں پر غور کرنے کی ایک کوشش ہے۔

بتیس اشعار پر مشتمل درِّثمین کی بارہویں نظم ‘‘اسلام اور آنحضرتﷺ سے عشق’’بحرِرِمل مثمن مخبون محذوف میں ہے۔ یہ نظم سیّدناحضرت اقدس مسیح موعودؑکی تصنیفِ لطیف ‘آئینہ کمالاتِ اسلام’سے ماخوذہے۔اس کتاب کادوسرا نام‘دافع الوساوس’ہے۔دو حصّوں پر مشتمل اس کتاب کا پہلا حصّہ مرقومہ 1892ء،اردو زبان جبکہ دوسرا حصّہ عربی زبان میں ہے جو کہ 1893ءکے آغاز میں لکھا گیا۔

ایڈیٹر اخبار ‘نور افشاں’نے اپنی اشاعت 13؍اکتوبر 1892ء میں حضرت مسیح علیہ السلام سے منسوب یہ قول کہ ‘‘قیامت اور زندگی مَیں ہی ہوں جو مچھر ایمان لاوے اگرچہ وہ مرگیا ہوتو بھی جئے گا’’ (یوحنا باب 11آیت2)نقل کر کے بڑے شدّومد سے دعویٰ کیا کہ دنیا کی تاریخ میں کسی نے ایسا بھاری دعویٰ نہیں کیا کہ ‘‘قیامت اور زندگی مَیں ہوں۔’’نیز اگر کوئی ایسا دعویٰ کرتا بھی تو اس کو ثابت کرنا ناممکن تھا۔ بقول ایڈیٹر صاحب ‘‘نور افشاں’’خداوندمسیح نے جیسا دعویٰ اپنے حق میں کیا ویسا ہی اس کو ثابت بھی کر دکھلایا۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے جناب ایڈیٹر صاحب کے اس دعوے کو سچائی سے دُور قرار دیا۔ حضرت مسیح علیہ السلام خداتعالیٰ کے سچے نبی تھے اگروہ ایسا دعویٰ کرتے تو ضرور اِس دعوے کی سچائی ظاہر ہوجاتی۔ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کے ذریعے روحانی حیات دنیا میں نہیں پھیل سکی۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے پادری تک اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کی تعلیم اُن کے شاگردوں سے بھی دنیا طلبی اور پست خیالی کو دُور نہیں کرسکی۔خود حضرت مسیح علیہ السلام نےاپنے حواریوں کو ‘‘سست اعتقاد’’قرار دیا۔

حضورؑ نے موت کی چار اقسام بیان فرمائیں یعنی غفلت کی موت،گناہ کی موت،شرک کی موت اور کفر کی موت۔ فرمایا کہ یہ چاروں قسموں کی موت عیسائی مذہب میں موجود ہے۔ غفلت کی موت کایہ عالم ہےکہ مسیحی قوم کی تمام قوتیں دنیاوی آرائش و زیبائش پر خرچ ہوتی ہیں۔ گناہ کی موت کا ثبوت یورپ کی زندگی ہے جہاں عفّت،پرہیزگاری اور پاک دامنی باقی نہیں۔ شرک کا عالم یہ ہے کہ ایک عاجز انسان کو خدا بناڈالا ہے۔ کفر کی موت یہ کہ سچے رسول سے منکر ہوگئے ہیں۔

حضرت مسیح ؑسے منسوب اس دعوےکے بطلان کے بعد آپؑ نے رسولِ خداﷺ کو روحانی حیات بخشنےوالا اور کامل الصفات ثابت فرمایا۔انتہائی پُر فتن دور میں آپﷺ کے طفیل وحشیانہ حالت اعلیٰ درجے کی انسانیت تک پہنچ گئی۔ آنحضورﷺ کی قوتِ قدسیہ سے برپاہونے والے انقلابِ عظیم کا اچٹتا ہوا جائزہ پیش کرنے کے بعد آپؑ نے فرمایا کہ حضور پاکﷺ کا فیض قیامت تک جاری رہنے والا ہے۔آیتِ کریمہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعہ:4)کی روشنی میں آپؑ نے ثابت فرمایا کہ صحابہ کے دور کے بعد جب ظاہری افادے اوراستفادے کا سلسلہ ختم ہوجائےگا اوراسلام غلط عقائد اور بدعات کے زور سے شدید ضعف کا شکار ہوگا۔ تب ایسے میں ‘‘خداتعالیٰ کسی نفسِ سعید کو بغیر وسیلہ ظاہری سلسلوں اور طریقوں کے صرف نبی کریمؐ کی روحانیت کی تربیت سے کمالِ روحانی تک پہنچادے گا۔’’

(آئینہ کمالاتِ اسلام،روحانی خزائن جلد پنجم، صفحہ210)

آنحضورﷺ نے فرمایاکہ اس امت کے دو حصّے اوّل اورآخر ہی بہتر ہیں،اور درمیانی گروہ کو ‘لشکرِ کَج’قرار دے کر فرمایا کہ نہ وہ مجھ سے اور نہ مَیں ان میں سے ہوں۔حضرت مسیح موعودؑ نے پہلے دور کی مدت امام اعظم ابو حنیفہؒ تک قرار دی،جبکہ دوسرےدور کو بدعات کی کثرت کے لحاظ سے امّ الخبائث فرمایا۔آخری دور، کہ جو مسیح موعود کے اقبال اور سرفرازی کا زمانہ ہے کے اثبات کے لیے آپؑ نے حدیث لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَالثرَیَّاکی پُر معارف ،دل کش تشریح فرمائی۔

اس مضمون کے بعد آپؑ نے ایک بار پھر پرچہ ‘نور افشاں’ کے بےبنیاد دعوے کی جانب رجوع کرکے فرمایا کہ ‘‘مسیح علیہ السلام کا نمونہ ٔقیامت ہونا سرمُو ثابت نہیں۔’’روحانی طور پر جی اٹھنا تو درکنار،عیسائی حضرات مخلوق پرستی کے باعث ادنیٰ ترین درجۂ توحیدسےبھی دُور پڑے ہوئے ہیں۔اس کے برعکس حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے پیدا کردہ انقلابِ عظیم کا نقشہ کھینچتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘غور کرکے دیکھ لو کہ رُوحانی زندگی کےتمام جاودانی چشمےمحض حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی طفیل دنیا میں آئے ہیں۔ یہی امّت ہے کہ اگرچہ نبی تو نہیں مگر نبیوں کی مانند خداتعالیٰ سےہم کلام ہوجاتی ہے۔اور اگرچہ رسول نہیں مگر رسولوں کی مانندخداتعالیٰ کے روشن نشان اُس کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور رُوحانی زندگی کےدریا اس میں بہتے ہیںاور کوئی نہیں کہ اس کا مقابلہ کرسکے۔کوئی ہے کہ جو برکات اور نشانوں کےدکھلانےکےلئےمقابل میں کھڑا ہوکرہمارے اس دعویٰ کا جواب دے’’

(آئینہ کمالاتِ اسلام،روحانی خزائن جلد پنجم،صفحہ 224)

نثر میں اس پُرمعارف مضمون کواپنے معراج پرپہنچانے کےبعدحضورؑ نے یہاں پر یہ نظم رقم فرمائی ہے۔اس نعتیہ نظم کے حسن و خوبی اور عمیق پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے محترم صاحب زادہ مرزا حنیف احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں:

‘‘اس نعت میں ایک ندرت بیان یہ بھی ہے کہ اس کا مطلع صداقتِ اسلام کےبیان میں ہے۔نعت رسول میں یہ اس لحاظ سے نادر بات ہے کہ حقیقت میں آنحضرتﷺ کی نعت و منقبت کا مداراِسی پر ہےکہ آپ حضرت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری دین اور آخری کتاب کے ساتھ مبعوث کیاہےاس حقیقت کو آپ نے بہت ہی حسین انداز میں پیش کیاہےاور یہی آپ حضرت کی نعت کا نقطۂ مرکزی ہے۔’’

(ادب المسیح از محترم صاحب زادہ مرزا حنیف احمد صاحب، صفحہ 263)

چھٹے اور آٹھویں شعر میں ‘ہرچند’کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کے معنی ‘کتنا ہی’‘کیسا ہی’اور ‘جس قدر’کے ہیں۔

نویںشعرمیں‘طَور’بروزن‘غور’کالفظ ہے۔ اس کے معنی‘طریقے’اور‘طرز’کے ہیں۔بارہویں شعر میں ‘مصطفیٰ’کا لفظ ہے۔آنحضورﷺ کے اس مبارک نام کا مطلب ‘چنیدہ’‘برگزیدہ’اور ‘خصائلِ بد سے پاک صاف کیا گیا’کے ہیں۔تیرہویں شعر میں ‘مُدام’کا لفظ ہے۔ جس کا مطلب ‘ہمیشہ’یا ‘دائمی’ہے۔ چودہویں اور چھبیسویں شعر میں ‘لاجرم’کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ‘بےشک’اور‘بالضرور’کے ہیں۔ پندرھویں شعر میں ‘مَوردِ قہر’کی ترکیب ہے۔ ‘مَورد’کالفظی مطلب ‘جائے نزول’کا ہے جبکہ ‘چشمہ یا تالاب’کو بھی ‘مورد’کہتے ہیں۔اس شعر میں ‘مَوردِ قہر’کی ترکیب اُس شخص کے لیے استعمال ہوئی ہے جس پر غصّہ کیا جائے۔مرزا شوقؔ لکھنوئی کہتے ہیں:

جائے عبرت سرائے فانی ہے

موردِ مرگ ناگہانی ہے

بیسویں شعر میں ‘معمور’کا لفظ ہے۔ عربی زبان کے اس لفظ کے معنی آباد،لبریز اور بھرا ہوا کے ہیں۔تئیسویں شعر میں اپنےوجود اور ذات کی نفی اور عاجزی کے اظہار کے لیے ‘نقشِ ہستی’کی خوب صورت ترکیب استعمال ہوئی ہے۔ اسی طرح اکتیسویں شعر میں اولادِ آدم اور انسان کو‘آدمی زاد’کے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے۔

………………………………………………(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button