ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط 23)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

کلام نفسی دوقسم کاہوتا ہے

‘‘جیساکہ پہلے بھی میں نے بیان کیا ہے۔اس بات کو خوب یاد رکھو کہ کلام نفسی دو قسم کا ہوتا ہے۔کبھی شیطان جو خیالی فسق وفجور کے سلسلہ میں چلا جاتاہے اور آرزوؤں کے ایک لمبے سلسلہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔جب تک انسان ان دونوں سلسلوں میں پھنسا ہوا ہے۔اسے شیطانی دخل کا بہت اندیشہ ہوتا ہے۔ اور اس امر کا زیادہ امکان ہوتاہے کہ وہ اس طرح سے نقصان اٹھائے اور شیطان اسے زخمی کردے۔مثلاًکبھی کوئی منصوبہ باندھتا ہے کہ فلاں شخص میری فلاں غرض اور مقصد میں بڑا مخل ہےاسے ماردیاجائے یا فلاں شخص نے مجھے تُو کر کے بلایا ہے اس کا بدلہ لیا جائے ۔اور اس کی ناک کاٹ دی جائے۔غرض اسی قسم کے منصوبوں اور ادھیڑبن میں لگا رہتا ہے۔یہ مرض سخت خطر ناک ہے۔وہ نہیں سمجھتا کہ ایسی باتوں سے نفس کا کیا نقصان کر رہا ہوں اور اس سے میری اخلاق اور روحانی قوتوں پر کس قسم کا برا اثر پڑرہا ہے۔اس لیے اس قسم کے خیالات سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔جب کبھی کوئی ایسابیہودہ سلسلہ خیالات شروع ہوتو فوراً اس کے رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔استغفار پڑھو۔لاحول کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی مدد اور توفیق چاہو۔اور خداتعالیٰ کی کتاب کے پڑھنے میں اپنے آپ کو مصروف کر دو ۔اور یہ سمجھ لو کہ اس قسم کے خیالی سلسلہ سے کچھ بھی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔اگر دشمن مر بھی جاوے تو کیا اور زندہ رہے تو کیا۔ نفع ونقصان کا پہنچانا خداتعالیٰ کے قبضہ واختیار میں ہے۔کوئی شخص کسی کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔سعدؔی نے گلستان میں ایک حکایت لکھی ہے کہ نوشیروؔاں بادشاہ کے پاس کوئی شخص خوشخبری لے کر گیا کہ تیرافلاں دشمن مارا گیا ہے اور اس کا ملک اور قلعہ ہمارے قبضہ میں آگیا ہے۔نوشیرواں نے اس کا کیا اچھا جواب دیا ؎

مرابمرگ عدوجائے شادمانی نیست

کہ زندگانی مانیز جاودانی نیست

پس انسان کو چاہیے کہ اس امر پر غور کرے کہ اس قسم کے منصوبوں اور ادھیڑبن سے کیا فائدہ اور کیا خوشی۔یہ سلسلہ تو بہت ہی خطرناک ہے اور اس کاعلاج ہےتوبہ،استغفار،لاحول اور خداتعالیٰ کی کتاب کا مطالعہ ۔بیکاری اور بے شغلی میں اس قسم کا سلسلہ بہت لمبا ہو جایا کرتا ہے۔

دوسری قسم کلام نفس کی امانی ہے۔یہ سلسلہ بھی چونکہ بے جاخواہشوں کو پیدا کرتا ہے اور طمعؔ، حسدؔ اور خود غرضی کے امراض اس سے پیدا ہوتے ہیں۔اس لیے جونہی کہ یہ سلسلہ پیدا ہو۔فوراً اس کی صف لپیٹ دو۔میں نے یہ تقسیم کلام نفس کی جوکی ہے یہ دونوں قسمیں انجام کارانسان کو ہلاک کر دیتی ہیں۔لیکن نبی ان دونوں قسم کے سلسلۂ کلام سے پاک ہوتا ہے ۔’’

(ملفوظات جلداول صفحہ 359-358)

*۔ اس حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ سعدی کے ایک شعر کا پہلا مصرع استعمال کیاہے ۔ جوکہ گلستان سعدی کے پہلے باب میں ایک حکایت کے آخر پر مرقوم ہے مکمل شعر مع حکایت ذیل میں درج ہے۔

حکایت:۔کوئی آدمی نوشیرواں عادل کے پاس خوشخبری لے کر گیااور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تیرےفلاں دشمن کو خدا تعالیٰ نے اُٹھا لیا ہے۔اس نے کہا کیا تو نے یہ بھی سنا کہ اُس نے مجھے چھوڑ دیا ۔( بعدازیں شعر )

اَگَرْبِمُرْد عَدُوّجَائے شَادِمَانِیْ نِیْست

کِہْ زِنْدِگَانِیِ مَانِیْز جَاوِدَانِیْ نِیْست

ترجمہ:۔ اگر دشمن مر گیا تو خوشی کا موقع نہیں ہے ۔اس لئے کہ ہماری زندگی میں بھی ہمیشگی نہیں ہے۔
ملفوظات والے مصرع کے شروع میں ‘‘مرا’’کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے‘‘مجھے’’ جبکہ سعدی کےکلام میں موجود شعر کا آغاز ان الفاظ سے ہوتاہے ‘‘اگر بمرد’’یعنی ‘‘اگر مر گیا ’’مجموعی طور پر مصرع کا مطلب ایک ہی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button