متفرق مضامین

سریانی زبان اور ابتدائی عیسائیت

(سید عمران احمد۔ ربوہ)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِيهِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَعَلَّمَ لَهُ كَلِمَاتٍ مِنْ كِتَابِ يَهُودَ قَالَ إِنِّي وَاللّٰهِ مَا آمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابِي قَالَ فَمَا مَرَّ بِي نِصْفُ شَهْرٍ حَتَّى تَعَلَّمْتُهُ لَهُ قَالَ فَلَمَّا تَعَلَّمْتُهُ كَانَ إِذَا كَتَبَ إِلَى يَهُودَ كَتَبْتُ إِلَيْهِمْ وَإِذَا كَتَبُوا إِلَيْهِ قَرَأْتُ لَهُ كِتَابَهُمْ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَوَاهُ الْأَعْمَشُ عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَعَلَّمَ السُّرْيَانِيَّةَ

(سنن الترمذی کتاب الاستئذان والآداب عن رسول اللّٰه)

کسی بھی مذہب پر مکمل تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ اس مذہب کے ابتدائی لٹریچر کو اچھی طرح پڑھا اور سمجھا جائے اور اس کے لیے اس زبان میں اور اس رسم الخط میں جس میں وہ زبان لکھی گئی ہے مہارت حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت نے بھی جماعت کے محققین کو اس طرف توجہ دلائی اور قدیم زبانیں سیکھنے کی نصیحت فرمائی ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک وفد نیپال کی طرف بھیجنے کا ارادہ تھا ان کو پالی زبان سیکھنے سے متعلق نصیحت کرتے ہوئے حضور ؑنے فرمایا:

‘‘غالباً اس مزار کے ساتھ کچھ کتبے ہوں گے جواب مخفی ہیں۔ ان تمام امور کی مزید تحقیقات کے لیے ہماری جماعت میں سے ایک علمی تفتیش کا قافلہ تیار ہو رہا ہے… ان سرگرم دینداروں کاکام ہوگا کہ پالی زبان کی کتابوں کو بھی دیکھیں۔ کیونکہ یہ بھی پتہ لگا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اس نواح میں بھی اپنی گم شدہ بھیڑوں کی تلاش میں گئے تھے۔’’

(راز حقیقت، روحانی خزائن جلد14 صفحہ11)

یہ وفد بعض وجوہات کی بنا پر نہ جاسکا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

‘‘مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہاماًیہ کہا گیا ہے کہ ‘‘اے رودّر گوپال تیری مہما گیتا میں بھی لکھی گئی ہے’’اور اسے ہم فخر کے طور پر بیان کیا کرتے ہیں لیکن ہم اس طرف کبھی توجہ نہیں کرتےکہ ان زبانوں کو سیکھیں جس میں یہ پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں۔اور ان کتابوں کو پڑھیں جنہیں آپ کی صداقت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔’’

(رپورٹ مجلس مشاورت 1952ء)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے احمدی محققین کو زبانیں سیکھنے کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘میں احمدی سکالرز کو نصیحت کرتا ہوں کہ ابھی سے جہاں جن ملکوں میں یہ زبانیں سکھانے کا بہت اعلیٰ اہتمام ہے،اپنے بچوں اور بچیوں کو، خصوصاً وقف نو بچوں کو Latin اورGreek اور Hebrew،یہ تین اور اس کے ساتھ Hebrew کی دوسری dialect جو ہے …یہ بھی پڑھائیں اور تاکہ یہ جو ہماری موجودہ نسل ہے یہ تو جہاں تک ممکن ہے ترجموں سے استفادہ کرکے تحقیق کریں گی لیکن اس کے بعد دوسری نسل آنی چاہیے جو براہ راست ان کے sources میں جاکر پوری تحقیق کرکے معلوم کریں کہ اصل کیا تھا اور انہوں نے کیا پیش کیا ہوا ہے۔ خاص طور پر جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئیاں ملتی ہیں یا اسلام کی تائید میں پیشگوئیاں ملتی ہیں وہاں تو یہ بہت کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اس کی شکل بدل دی جائے۔’’

(درس القرآن26؍رمضان9؍مارچ1994ء)

سریانی زبان اور ابتدائی عیسائیت کا آپس میں وہی تعلق ہے جو عربی زبان کا اور اسلام کا ہے۔ جس طرح مسلمان عربی زبان کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی زبان ہونے کی وجہ سے مقدس تصور کرتے ہیں اسی طرح عیسائی سریانی زبان کو عیسیٰ علیہ السلام اور بائبل کی زبان ہونے کی وجہ سے مقدس سمجھتے ہیں۔ علماء اور محققین کی ایک بڑی تعداد اس بات کو مانتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سریانی یا آرامی تھی نہ کہ عبرانی یا یونانی ۔

(Discovering the language of Jesus Hebrew or Aramaic, Douglas Hamp, pg. Introduction 3)

اس لیے عیسائیت کے ابتدائی لٹریچر کا اکثر حصہ آرامی یا سریانی زبان میں لکھا گیا۔ وہ محققین جو ابتدائی عیسائیت پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ آرامی یا سریانی سے اچھی طرح واقف ہوں تاکہ عیسائیت کے ابتدائی لٹریچر کو پڑھ سکیں اور اس پر تحقیق کر سکیں۔

عیسائیت کے آغاز کے بعد یا اس سے کچھ پہلے مشرقی آرامی زبان کے بعض لہجے تحریری شکل میں ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ جن میں نبطی (Nabati)، تدمری (Palmyrene)، الحضری Al-Hadari (عراق کا ایک قدیم شہر) اور ابتدائی سریانی شامل ہیں۔ ان تمام لہجوں کے مخطوطات مختلف مقامات سے دریافت ہوئے۔ صرف قدیم ابتدائی سریانی کے مخطوطات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لہجہ ادبی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ سریانی جو کہ اڑیسہ (Edessa) (موجودہ ارفہ، ترکی)کی آرامی زبان کا مقامی لہجہ ہے جلد ہی آرامی بولنے والے عیسائیوں میں علمی اور ادبی طور پر سرایت کر گیا اور رومن امپائر کے مشرقی صوبوںسے لے کر پارتھین (Parthian) امپائر تک اس کا پھیلاؤ بہت تیزی سےہوا۔

آرامی زبان کی تاریخ

جیسا کہ ذکر آ چکا ہے کہ سریانی زبان دراصل آرامی زبان کی ایک قسم یا ایک لہجہ ہے اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے آرامی زبان کا کچھ ذکر ہو جائے۔ لفظ آرامی کے بارے میں محققین کا اختلاف ہے بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ سام بن نوح کے بیٹے آرام سے منسوب ہے اور بعض کہتے ہیں کہ آرام ‘راما’سے نکلا ہے جس کا مطلب اونچے علاقے یا اونچی جگہ ،اونچائی اور بلند مقام کے ہیں۔

ان اللغۃ السریانیۃ الآرامیۃ تنسب الی آرام-ای بمد الھمزۃ والراء علی الاطلاق – کما ترد فی الکتاب العزیز، لا الی اِرم کما ارتأ ی الأب انسطاس الرکملی، أو راما أی العالی باسریانیۃ، کما ذھب بعض ذوی الاِجتھاد۔ و آرام ہو الاِبن الخامس لسام بن نوح کما ذکر سفر تکوین(22:10)۔

(البراھین الحسیۃعلیٰ تقارض السریانیۃ والعربیۃ بقلم اغناطیوس یعقوب الثالث بطریق انطاکیہ و سائر المشرق، دمشق صفحہ5)

ترجمہ:سریانی اور آرامی زبان آرام کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔ یعنی (آرام کے)‘ہمزہ’اور ‘ر’پہ مددیتے ہوئے۔جیسا کہ عزیرکی کتاب میں بیان ہے یہ ‘اِرم’سے نہیں ہے جیسے باپ انسطاس ارکملی(Father Anastasios Arkamlis)نے گمان کیا ہے اور نہ ہی یہ ‘راما’سے ہے جس کے معنی سریانی میں بلند یا اونچائی کے ہیں اور بعض محققین کا یہی خیال ہے۔ جبکہ آرام سام بن نوح (علیہ السلام)کا پانچواں بیٹا ہے جیسا کہ پیدائش (22:10) میں ہے۔

اسی طرح ایک اورمحقق لکھتے ہیں:

یدل حذر(رام)فی بعض اللغات ‘‘السامیۃ’’ علی معنی الارتفاع والسمو، نقول فی العربیۃ ’’رام روما و مراما الشیء أی طلبہ و سعی الیہ۔ والمرام ھو المطلب…و کذلک القبر، أی الارض المرتفعۃ عما حولھا…
ان الاسم (آرام)و آرامی صلۃ بالارتفاع والسمو والسیادہ۔ ولقد أطلقت کلمۃ (آرام) فی بادئ الامر علی منطقۃ الشمالیۃ لبلاد الرافدین، تلک المنطقۃ التی یرویھا نھر الفرات حیث انتشر الآرامیون قبل أن یؤسسوا دویلاتھم۔
(المدخل الی اللغۃ الآرامیۃ، محمد محفّل، جامعۃ دمشق،سوریا۔ صفحہ 14-15)

اس حوالے کا مفہوماً ترجمہ یہ ہے کہ رام سے بعض سامی زبانوں میں بلندی یا اعلیٰ مراتب مراد لی جاتی ہے اور عربی میں کسی چیز کی طلب یا اس کے لیے کوشش کرناہے اور اسی طرح قبر کے معنوں میں بھی ہے یعنی اپنے ارد گرد سے اونچی زمین۔آرام کا لفظ عام طورپر بلاد رافدین (Mesopotamia)کے شمالی علاقے کی طرف دلالت کرتا ہے یعنی وہ علاقہ جس کو دریائے فرات سیراب کرتا ہے اور جہاں سے آرامی لوگوں کا پھیلاؤ ہوا اور انہوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی بنیاد ڈالی۔

آرامی لوگ جہاں سے بھی آئے ہوں لیکن ان کا عراق اور شام میں سکونت اختیار کرنا اور وہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کرنے پر محققین کی کثرت کا اتفاق ہے۔ آرامیوں کا یہ پھیلاؤ تقریبا ًبارھویں صدی قبل مسیح میں شروع ہوا۔ اس دوران آرامیوں نے اپنی زبان کو تحریر میں لانا شروع کیا اور ابتدا میں خط مسماری یا خط میخی (Cuniform) میں لکھنا شروع کیا آرامیوں سے پہلے سومری (Sumerians) اور اکادی (Akkadians) اس خط کو استعمال کرتے تھے۔

اسی طرح آرامی لوگ شام میں پہلے سے موجود کنعانی یا فینیقی لوگوں سے بھی متاثر ہوئے اوران کے رسوم و رواج و زبان کو اپنانے لگے یہاں تک کہ آرامی زبان کے ابتدائی حروف ابجد بھی فینیقی (Phoenician)سے لیے گئے ہیں۔ تقریباً ساتویں صدی قبل مسیح میں آرامی زبان اس حد تک ترقی کرچکی تھی کہ آرامی زبان کا ایک اپنا حروف ابجد کا نظام قائم ہو چکا تھا اور آرامی زبان میں کتبات لکھے جانے شروع ہو چکے تھے۔

ہخامنشی دور (Achaemenid Period)میں آرامی زبان کو بہت اہمیت حاصل ہوئی یہاں تک کہ آرامی زبان کو Imperial Aramaic کا درجہ ملا۔ اس دوران آرامی زبان کا پھیلاؤ مشرق وسطیٰ کے علاقوں سے لے کر افغانستان، پاکستان، چین اور بھارت وغیرہ تک ہوا۔

سریانی زبان کی تاریخ

سریانی زبان مشرقی آرامی زبان کے لہجوں میں سے ایک لہجہ ہے جس کا مرکز اڑیسہ Edessa(موجودہ ارفہ ترکی کا ایک شہر)ہے۔ اس شہر کو سریانی میں اورھا (Urhoi or Urhai)کہا جاتا ہے۔ ابتدا میں یونانیوں نے اس شہر کو Edessa کانا م دیا اور عربوں میں یہ شہر الرھاء کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تقریباً پندرہویں صدی میں اس شہر کانام تبدیل کر کے اورفا یا ارفہ رکھ دیا گیا جو آج تک قائم ہے۔

پروفیسر Sebastian Brockلکھتے ہیں:

Syriac emerges as an independent Aramaic dialect in the early first century and is first attested in a pagan inscription dated A.D. 6, from Birecik on the river Euphrates, some 45 miles west of Edessa (whose modern name, Urfa, is derived from the Syriac Urhay), the cultural center of Syriac literature. To early writers Syriac is actually known as Edessene an indication that it started out simply as the local Aramaic dialect of Edessa. That it came to be adopted as the literary language of Aramaic speaking Christians all over Mesopotamia
(An Introduction to Syriac studies by Sebastian Brock (university article), pg. no. 13)

مفہوماً ترجمہ:سریانی زبان پہلی صدی کی ابتدا میں آرامی زبان کے ایک الگ اور منفرد لہجے کے طور پر ظہور میں آئی۔اس کی تصدیق ایک کتبے سے ہوتی ہے جو دریائے فرات پر Birecik کے مقام سے دریافت ہوا جو اڑیسہ (جس کا موجودہ نام عرفہ ہے جو سریانی کے اورھے سے ماخوذ ہے) سے 45 میل مغرب میں واقع ہے۔ اڑیسہ سریانی ادب کا ثقافتی مرکز ہے۔ ابتدائی مصنف سریانی زبان کو اڑیسی ہی کہتے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سریانی زبان ابتدا میں محض آرامی زبان کے ایک مقامی لہجے کے طور پر ظہور میں آئی جو کہ آہستہ آہستہ میسوپوتامیہ کے علاقوں میں موجود آرامی بولنے والے عیسائیوں نے ادبی زبان کے طور پر اختیار کی۔

سریانی زبان کو کب یہ نام دیا گیا؟ اس حوالے سے بعض سکالرز کا خیال ہے کہ جن علاقوں میں سریانی زبان بولی جاتی تھی ان علاقوں کو یونانیوں نے تقریبا ًچوتھی صدی قبل مسیح میں آشوری بادشاہوں کے آثار دیکھ کر ‘اسوریا’کا نام دیا تھا جو کہ مختصر ہو کر ‘سوریا’رہ گیا اور یونانیوں نے ہی آرامی زبان کے اس لہجے کا نام سریانی رکھا۔ جبکہ بعض محققین اس کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ یونانیوں نے آرامی بولنے والوں کانام سریان یا ان کی زبان کا نام سریانی نہیں رکھا بلکہ یونانیوں اور سریانیوں کے آپس کے معاشرتی میل جول کی وجہ سے یونانیوں نے یہ نام سریانیوں سے سن کر آگے پھیلایا۔ آرامی لوگ اس وقت تک اپنی ریاستوں کو آرام کہتے رہے جب تک کہ انہوں نے عیسائیت کو قبول نہ کر لیا۔ ان علاقوں میں کثرت سے عیسائیت کے پھیلاؤ کے بعد مقامی لوگوں نے اپنا نام بدل کر سریانیین یا سوریین رکھ لیا تا کہ وہ اُن آرامیوں سے الگ متصور ہو سکیں جنہوں نے عیسائیت قبول نہیں کی۔ اسی طرح انہوں نے اپنی زبان کا نام بھی سریانی رکھ لیا۔

پولوس الخوری الکفرنیسی اپنی کتاب ‘‘غراماطیق اللغۃ الارامیۃ السریانیۃ’’ میں لکھتا ہے:

ولما استولی الیونان علی ھذہ البلاد (سنۃ ۳۱۲ ق۔م) ورأوا ما فیھا من آثار الملوک الاشوریین اطلقوا علیھا اسم سوریا محرفا عن أشور فی الارامیۃ فقالوا فیہ اسوریا ثم اختصرواہ سوریا۔ غیر ان الارامیین استمروا یسمون بلادھم باسم ارام وینتسبون الیہ حتی اعتنقوا الدیانۃ المسیحیۃ۔ و حینئذ اخذوا بغیرۃ مفرطۃ یغادرون اسمھم القدیم ‘‘ارامیین’’ یتسمون سریانیین او سوریین۔ ویسمون بلادھم سوریا ولغتھم سریانیۃ او سوریۃ لکی یمتازوا عن بنی جنسھم الارامیین الذین لم یعتنقوا النصرانیہ.

(غرامطیق اللغۃ الارامیۃ السریانیۃ(صرف و نحو)، الفس بولس الخوری الکفرنیسی الراھب اللبنانی المارونی، صفحہ وتاز۔)

مفہوما ًترجمہ:جب یونانیوں کی حکومت ان ممالک میں قائم ہوئی (312قبل مسیح)تو انہوں نے یہاں آشوری بادشاہوں کے آثار دیکھ کر لفظ اشور سے متأثر ہو کر سوریا نام رکھ دیا۔ ابتدا میں اسوریا کہا جو کہ مختصر ہو کر سوریا رہ گیا۔ جبکہ آرامی اپنے ملکوں کو آرام ہی کہتے رہے اور آرام سے ہی منسوب کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے عیسائیت قبول کرلی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ممالک کو سوریا اور اپنی زبان کو سریانی کہنا شروع کیا تاکہ اپنی نسل کے ان آرامیوں سے ممتاز ہو سکیں جنہوں نے عیسائیت کو قبو ل نہیں کیا تھا۔

سریانی زبان کی اقسام

سریانی زبان مزید دو لہجوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ نسطوری لہجہ اور یعقوبی لہجہ۔ عرصہ دراز تک ایک ساتھ رہنے کے بعد ایک مذہبی اختلاف کی وجہ سے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کی انسانی اور خدائی حیثیت کے متعلق تھا اور مذہبی مسئلہ سے بڑھ کر سیاسی رنگ پکڑ چکا تھا نسطوریوں کو اڑیسہ چھوڑ کر مشرق میں نصیبین (جنوب مشرقی ترکی کا ایک شہر)کو مرکز بنانا پڑا اور وہ یہاں سے مزید مشرق کی طرف پھیلتے چلے گئے اسی لیے بعد میں سریانی کے اس لہجے کو مشرقی سریانی بھی کہا جانے لگا۔ اس کے برعکس یعقوبی اڑیسہ میں ہی رہے اور یہاں سے شام اور لبنان کی طرف ان کا پھیلاؤ ہوا۔

پروفیسر Sebastian Brockلکھتے ہیں:

Although the language remained the same, there emerged two different pronunciations of Syriac, usually known as the “Eastern” and the “Western”. The Eastern, which is essentially the more archaic, came to be used by members of the Church of the East, living mainly in what is now Iraq and Iran, while the Western is employed in the Maronite and the Syrian Orthodox tradition whose homeland is further west (modern Syria and SE Turkey). The most obvious difference between the two consists in the pronunciation of original ā: the Eastern pronunciation preserves it (e.g. malkā”king”), while the Western alters it to ō (malkō

مفہوماً ترجمہ: سریانی کے دو قسم کے لہجے ظہور میں آئے جن کو عمومی طور پر مشرقی اور مغربی کہا جاتا ہے۔ جبکہ یعقوبی جو کہ مغربی سریانی بولنے والے تھے وہیں قائم رہے۔ مشرقی جو کہ بنیادی طور پر زیادہ قدیم ہے آج کل ایران اور عراق میں پایا جاتا ہے جبکہ مغربی میرونائٹ چرچ اور سیرین آرتھوڈوکس چرچ کے زیر استعمال ہے جن کی سرزمین مغرب میں موجودہ سیریا اور جنوب مشرقی ترکی ہے۔ ان دونوں لہجوں کا آپس میں سب سے بنیادی فرق ‘‘آ’’(حرف لین جو تقریبا ًہر سریانی لفظ کے آخر میں آتا ہے) کی ادائیگی کا ہے۔ مشرقی اس کو اس طرح ادا کرتے ہیں جیسے ‘‘ملکا’’ یعنی بادشاہ۔ جبکہ غربی اس کو ‘‘او’’سے بدل دیتے ہیں جیسے ‘‘ملکو’’۔

سریانی تحریر

سریانی زبان کے قدیم ترین کتبوں جو اڑیسہ کے آس پاس سے دریافت ہوئے کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ سریانی زبان بنیادی طورپررائج الوقت طرز تحریر جو تدمری شکستہ طرز تحریر (Cursive Palmyrene)تھا میں لکھی گئی جو کہ قدیم فینیقی طرز تحریر(Old Phoenician)سے ماخوذ ہے۔ تقریباً پہلی صدی قبل مسیح تک الرھا (اڑیسہ)، بابل، تدمر، شام، فلسطین و حوران میں یہی تحریر رائج رہی اس کےبعد سریانیوں نے اسی طرز تحریر سے متاثر ہو کر اپنے بعض الگ طرز تحریر اپنائے۔ ذیل میں قدیم سریانی کی ایک تحریر کی تصویر ہے جو الرھا(اڑیسہ ) سے دریافت ہوئی جس سے واضح ہوتا ہے کہ سریانی کو ابتدائی طور پر کس طرز تحریر میں لکھا گیا۔

(http://arabetics.com/public/html/more/History%20of%20the%20Arabic%20Script_article.htm)

پروفیسر Sebastian Brockلکھتے ہیں:

“The Syriac language also developed different scripts. The earliest Syriac inscriptions of the first and second centuries A.D. (all pagan) use a script similar to Palmyrene cursive writing. By the time of our earliest manuscripts (early fifth century A.D.) however, this script has taken on a more formalized character, known as Estrangelo (derived from Greek strongulos ‘rounded (The Estrangelo script continued to be used well into the middle ages. Furthermore, it enjoyed a dramatic local revival in Tur’Abdin in the twelve century. During the course of the eighth century there emerged, side by side with Estrangelo, a new and more compact script developed from Estrangelo correctly known as Serto (literally ‘a scratch, character (This is normally used by the West Syrians and the Maronites. A few centuries later, among the East Syrians, we see the gradual emergence from Estrangelo of the other distinctive script known as Eastern but generally called Nestorian script by European writers. “
[An Introduction to Syriac studies by
Sebastioan Brock(university article)]

مفہوما ًترجمہ:سریانی زبان میں تین قسم کی تحریریں ظہور میں آئیں۔پہلی اور دوسری صدی عیسوی کے ابتدائی سریانی کتبوں میں شکستہ تدمری تحریر استعمال کی گئی ہے ۔ ان ابتدائی تحریروں کے کچھ وقت گزرنے کے بعد تقریبا ًابتدائی پانچویں صدی عیسوی میں سریانی تحریر میں کچھ تبدیلی آئی اور استرانجلو تحریر وجود میں آئی(جو کہ یونانی لفظ سترونگلوس یعنی گول کیا ہوا سے ماخوذ ہے) استرانجلو تحریر کافی عر صہ تک جاری رہا اور اس کو دوبارہ تقریباً بارھویں صدی عیسوی میں طور عبدین (جنوبی ترک کا ایک شہر )میں جاری کیا گیا۔اٹھارویں صدی میں استرانجلو کے ساتھ ساتھ ایک اور طرز تحریر جو کہ دراصل استرانجلو سے ہی ماخوذ تھا ظہور میں آیا جس کو ‘سرتو’کہا جاتا ہے۔سرتو طرز تحریر کو بنیادی طور پر جنوبی سوری اور میرونائٹس استعمال کرتے تھے۔اس کے کچھ صدیوں بعد مشرقی سوریوں کے مابین استرانجلو سے ہی ایک اور طرز تحریر وجود میں آیا جس کو یورپی مصنف عام طور پر نسطوری طرز تحریرکا نام دیتے ہیں۔

درج بالا حوالے سے سریانی کے تین مختلف قسم کے طرز تحریر کا پتہ چلتا ہے جس میں استرانجلو جو کہ سب سے قدیم ہے سرتو اور نسطوری طرز تحریر شامل ہے۔سرتو اور نسطوری بنیادی طور پر استرانجلو سے ہی ماخوذہے۔ذیل میں تینوں قسم کے خطوط کی ایک تصویر دی گئی ہے جس کا بغور مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں خطوط میں حروف کی شکلوں میں معمولی فرق پایا جاتا جس کی بنیاد پر ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا جا سکتا ہے ۔

سریانی ادب

عیسائیت کے ظہورسےپہلے مختلف قسم کی قانونی اور فلسفیانہ تحریریں سریانی میں لکھی جاتی تھیں لیکن اڑیسہ میں عیسائیت کے ظہور کے بعد سریانی زبان میں بائبل کے ترجمے ہونے شروع ہوئے۔Peshittaجو سریانی زبان میں بائبل کا ایک مکمل ترجمہ ہے اسی کی ایک مثال ہےجو تقریبا ً400عیسوی میں منظر عام پر آیا۔آہستہ آہستہ سریانی زبان یونانی زبان کے مد مقابل آنا شروع ہو گئی ۔ یہ واحد سامی زبان تھی جس میں بائبل کا مکمل ترجمہ موجود تھا اور یہ ایک بڑی وجہ تھی کہ سریانی زبان عیسائیت کے ابتدائی دور میں ایک ادبی اورروحانی زبان کے طور پر دور دراز کے علاقوں تک پھیلی ۔

سریانی ادب درج ذیل شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

٭ بائبل کے تراجم اور تفاسیر
٭عیسائی علماء اور آباء کی تصانیف اور دیگر کام
٭سریانی شاعری
٭یونانی ادب اور فلسفے کے سریانی میں تراجم

موجودہ محققین اور علماء سریانی ادب کو تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں چنانچہ پروفیسر Sebastian Brockاس حوالے سے لکھتے ہیں:

“Considered historically, Syriac literature can conveniently be divided up into three distinctive periods: (1) the golden age of Syriac literature, up to the seventh century (2) the Arab period until about 1300; and (3) the period from about 1300 to present day
[An Introduction to Syriac studies by Sebastioan Brock(university article)pg:8]

مفہوما ًترجمہ:تاریخی لحاظ سے سریانی ادب کو بڑی آسانی کے ساتھ واضح طور پر تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔(1) سریانی ادب کا سنہری دور جو کہ ساتویں صدی عیسوی تک ہے۔(2)عرب دور جو کہ 1300 عیسوی تک ہے اور (3)موجودہ دور جو 1300عیسوی سے اب تک ہے ۔

سریانی ادب وہ واحد ذریعہ ہے جو سامی عیسائیت یا ابتدائی عیسائیت کی ایک مکمل تصویر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے سریانی ادب کے اولین اور اہم ترین مصنفین میں سے Aphrahatاور Ephremدو ایسے مصنفین ہیں جو یونانی کلچر سے بالکل ناآشنا تھے اور جنہوں نے ایک خالص سامی عیسائیت کو ہمارے سامنے پیش کیا۔پانچویں صدی عیسوی کے بعد بڑی تیزی سے سریانی ادب یونانی ادب سے متاثر ہونے لگا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سریانی ادب کبھی بھی مکمل طور پر یونانی اثر سے نہیں نکل سکا۔یہ وہی دور ہے جب عیسائیت بحث و مباحث کے دور سے گزر رہی تھی اس وقت سریانی عیسائیوں اور علماء نے اپنے نظریات کو سریانی میں ہی تحریر کیا۔جس کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

سریانی زبان ظہور اسلام کے کچھ عرصہ بعد تک اپنے عروج پر رہی لیکن پھر وہ تمام علاقے جہاں سریانی زبان کا راج تھا آہستہ آہستہ عربی زبان کو اپنا نے لگے اور عربی زبان زیادہ ابھر کر سامنے آنے لگی تاہم سریانی زبان بعض دوسری زبانوں کی طرح بالکل معدوم نہیں ہوئی بلکہ ہر دور میں ایسے مصنف موجود رہے جو سریانی اور عربی دونوں زبانوں میں لکھتے تھے۔

آج بھی سریانی زبان کے مختلف لہجے دنیا کے مختلف علاقوں میں بولے جارہے ہیں جن میں ترکی کے جنوب مشرقی علاقوں کے لہجے،شام کے شمال مشرقی علاقوں کے لہجے اور شمالی عراق کےبعض علاقوں کے لہجے شامل ہیں ۔اس کے علاوہ سریانی بولنے والے عیسائی جو یورپ اور امریکہ کے بعض علاقوں میں ہجرت کرچکے ہیں اپنی زبان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے مختلف قسم کے ادارے قائم کیے ہیں جہاں سریانی زبان اور سریانی ادب کی تعلیم دی جاتی ہے۔

موجودہ سریانی زبان میں قدیم یا کلاسیکی سریانی زبان کی نسبت بعض تبدیلیاں بھی آئی ہیں تاہم قدیم یا کلاسیکل سریانی زبان کا علم حاصل کرنے کے لیے جدید سریانی زبان کا علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ کلاسیکل سریانی زبان پر عبور حاصل کرکے ہی ابتدائی سریانی تحریروں کو پڑھا جاسکتا ہے جس سے ہمیں ابتدائی عیسائیت پر مزید احسن رنگ میں غور کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button