خلاصہ خطبہ جمعہ

اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابہ حضرت یزیؓدبن ثابت، معوذ ؓبن عمرو بن جموح اور حضرت بِشر ؓ بن براء کی سیرتِ مبارکہ کا دلنشیں تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍نومبر2019ءبمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے29؍نومبر 2019ء کو مسجدبیت الفتوح، مورڈن ، لندن ،یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔

تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت یزیؓدبن ثابت ایک بدری صحابی تھے۔ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو مالک بن نجارسے تھا۔ آپؓ غزوۂ بدر اور احد دونوں میں شامل ہوئےجبکہ آپؓ کی شہادت 12ہجری میں جنگِ یمامہ کے روز ہوئی۔حضرت یزید بن ثابتؓ روایت کرتے ہیں کہ وہ لوگ رسولِ کریمﷺ کے ہم راہ بیٹھےہوئےتھےکہ ایک جنازہ ظاہرہوا۔جب رسول اللہﷺ نے جنازہ دیکھاتو آپؐ جلدی سے کھڑےہوگئےاور صحابہ بھی تیزی سے کھڑے ہوگئے۔حضرت یزیدؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نہیں سمجھتا کہ آپؐ جگہ کی تنگی کی وجہ سےکھڑے ہوئے تھےاور میرا خیال ہےکہ وہ کسی یہودی مرد یا عورت کاجنازہ تھا۔

اسی طرح حضرت یزیدؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے کہ آپؐ نے ایک نئی قبر دیکھی اور اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ عرض کیا گیا کہ یہ فلاں قبیلے کی لونڈی کی قبر ہے۔وہ دوپہرکےوقت فوت ہوئی جب آپؐ قیلولہ فرمارہے تھے۔ اس پر آپؐ نے اس کی قبر کے اوپرہی صفیں بنواکرجنازہ پڑھااور فرمایا کہ جب تک مَیں تم میں ہوں،تم میں سے جو بھی فوت ہو اس کی خبر مجھے ضرور دوکیونکہ میری دعا اس کےلیے رحمت ہے۔حضورِانور نے مختلف کتب سے اس روایت کی مزید تفاصیل بھی پیش فرمائیں۔

دوسرے صحابی حضرت معوذ ؓبن عمرو بن جموح کا حضورِانور نے ذکر فرمایا۔ آپؓ قبیلہ خزرج کے خاندان بنو جشم سے تعلق رکھتے تھے۔آپؓ اپنے دو بھائیوںحضرت معاذؓ اور حضرت خلادؓ کے ساتھ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ان اصحاب کے والد حضرت عمرو ؓبن جموح کی چال میں لنگراہٹ تھی جس کے باعث ان کے بیٹوں نے انہیں غزوۂ بدر میں شریک ہونے سے روک دیا تھا۔ جب غزوۂ احد کا موقع آیا تو حضرت عمرو بن جموح اپنےبیٹوں کے منع کرنے کے باوجودرسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوگئے۔ آپؐ نے بھی انہیں معذور قرار دےکر فرمایا کہ اُن پر جہاد فرض نہیں ہے۔لیکن پھر آپؓ کا شوق دیکھ کر اجازت مرحمت فرمادی۔ آپؓ نے شہادت کی دعا کی جو پوری ہوئی اور آپؓ احد کے میدان میں شہید ہوگئے۔

تیسرے صحابی جن کا ذکر آج کے خطبے میں ہوا ان کا نام حضرت بِشر بن براء تھا۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ خزرج کے خاندان بنوعبید بن عدی سے تھا۔حضرت بِشر اپنے والد کے ہم راہ بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے۔ آپؓ ماہر تیر انداز تھےاور غزوۂ بدر،احد،خندق،حدیبیہ اور خیبر میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شریک ہوئے۔
عبدالرحمٰن بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بنو نضلہ یا بعض روایات کے مطابق بنو سلمہ کے سردار جدّ بن قیس کی جگہ حضرت بِشر بن براء کو سردار مقرر فرمادیا تھا۔

حضرت ابنِ عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کی بعثت سے قبل یہود، اوس اور خزرج کے مقابلے میں یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ جس نبی کی پیش گوئی ہے کہ وہ مبعوث ہونے والا ہے اس کے نام پے ہمیں فتح عطاکر۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عرب میں مبعوث فرمایا تو ان ہی لوگوں نے آپؐ کا انکارکردیا۔ حضرت معاذ بن جبل،حضرت بِشر بن براء اور حضرت داؤد بن سلمہ نے ایک دن یہود سے کہا کہ اسلام قبول کرلو۔پہلے تو تم ہم پر محمد نام کے نبی کے ظہور کے ذریعے فتح مانگتے تھے اور ہم لوگ شِرک کرنے والے تھے۔اس پر سلام بن مشکم نے جواب دیا کہ یہ نبی ہمارے پاس وہ نہیں لےکر آیا جسے ہم پہچانتے تھے۔ اس پر سورۃالبقرۃ کی آیت 90 نازل ہوئی یعنی جب اللہ کی طرف سے اُن کے پاس ایک ایسی کتاب آئی جو اس تعلیم کی، جو ان کے پاس تھی تصدیق کر رہی تھی جبکہ حال یہ تھا کہ اس سے پہلے وہ ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے کفر کیا اللہ سے مدد مانگا کرتے تھے پس جب وہ ان کے پاس آگیا جسے انہوں نے پہچان لیا تو پھر بھی ان کا انکار کردیا پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو۔

حضرت زبیر بن عوام ؓ بیان کرتے ہیں کہ جنگِ احدکا رُخ پلٹاتو مَیں نے اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے قریب پایا۔ جب ہم سب خوف زدہ اور بدحواس تھے تب ہم پر نیند نازل کردی گئی ۔گویا ایسی حالت تھی کہ لگتا تھا کہ اونگھ کی حالت ہم پر طاری ہوگئی ہے۔ حضرت کعب بن عمرو انصاری ؓنے حضرت بِشرؓ بن براء کو دیکھا کہ اُن کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گِر گئی اور انہیں تلوار کے گرنےکا احساس بھی نہ ہوا۔

حضورِ انور نے سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ایک درسِ قرآن کے حوالے سے فرمایاکہ یہ ایک ایسی کیفیت تھی جو بیداری اور نیند کے درمیان کی کیفیت ہوتی ہے۔سونے سے پہلے بیچ کی ایک منزل آتی ہے جب تمام اعصاب کو سکون مل جاتا ہے۔

حضرت بِشرؓ بن براء نےغزوۂ خیبر کے دن رسول اللہﷺ کے ہم راہ اس زہر آلود بکری کا گوشت کھایاجو ایک یہودی عورت نے بطور تحفہ رسول اللہﷺ کو پیش کیا تھا۔ زہر کا اثر اس قدر تھا کہ ایک سال تک آپؓ بغیر سہارے کے کروٹ تک نہ بدل سکتے تھے۔پھر اسی حالت میں آپؓ کی وفات ہوگئی۔

حضرت بِشرؓ کی وفات پر اِن کی والدہ نےشدید دکھ کی کیفیت میں رسولِ کریمﷺ سے دریافت کیا کہ کیا بِشر کی طرف سلام پہنچایا جاسکتا ہے؟حضورِاکرمﷺ نے اثبات میں جواب ارشاد فرمایا۔ اس کے بعدبِشرؓ کی والدہ کا یہ طریق تھا کہ جب بنو سلمیٰ کا کوئی شخص وفات پانے والا ہوتا تو اس کے پاس جاکر کہتیں کہ بِشرکو میرا سلام پہنچانا۔

رسول اللہﷺ کے مرض الموت میں حضرت بِشرؓ کی بہن آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو حضورﷺ نے اُن سے فرمایا کہ تمہارے بھائی کے ساتھ خیبرمیں مَیں نے جو لقمہ کھایا تھا اس کی وجہ سے اپنی رگوں کو کٹتا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ حضورِ انور نے اس واقعے کے متعلق سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ تفاصیل پیش فرمائیں۔ ایک یہودی عورت نے مسلمانوں سے یہ پوچھ کر کہ آپؐ کو بکری کی دستی کا گوشت زیادہ مرغوب ہے آپؐ کی خدمت میں زہر آلودبھنا ہوا گوشت پیش کیا۔ آپؐ نےاور بِشرؓ نے ایک ایک لقمہ منہ میں رکھا۔دیگرصحابہ نے جوں ہی ہاتھ بڑھایا تو رسول اللہﷺ نے اُن سب کو روک دیا اور فرمایا کہ گوشت میں زہر ملایا گیا ہے۔حضرت بِشرؓ نے بھی یہی کہا کہ اُنہیں بھی اس لقمے میں زہر معلوم ہوا تھا اور دل میں خیال گزرا کہ اس کو پھینک دیں لیکن یہ سوچ کر انہوں نے ایسانہ کا کہ کہیں یہ عمل آپؐ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے۔

اس واقعے کے بعد آپؐ نے اس عورت کو طلب کیا اور اس سے اس ناپسندیدہ فعل کی وجہ دریافت فرمائی۔بعدازاں آپؐ نے اسے معاف فرمادیا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض دشمن یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی وفات اس زہر سے ہوئی تھی۔بعض سیرت نگار بھی آنحضرتﷺ کو مقامِ شہادت دینے کے لیےان روایات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ فرمایا حقیقت میں یہ بات درست نہیں ہے۔ حضورِ انور نے ریسرچ سیل کی طرف سے موصولہ ایک نوٹ پیش فرمایا۔ جس کے مطابق زہر دیے جانے کا یہ واقعہ چھے ہجری کے آخر یاسات ہجری کے اوائل یعنی غزوۂ خیبر کے قرب کاہے۔آپؐ اس کے بعد چار سال تک بھرپور زندگی گزارتے رہے۔ عبادات اور دیگر معمولات میں رتی برابر فرق نہیں آیا۔تقریباً چار سال بعد بخار اور سر درد کی کیفیت طاری ہونا اور اس کے بعد وفات پاجانا، اس کو کوئی عقل مند یہ نہیں کہہ سکتا کہ زہرکی وجہ سے چار سال بعد یہ اثر ہوا۔
خطبے کے اختتام پر حضورِ انور نے دو مرحومین کا ذکرِخیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا ۔ ان میں پہلا ذکر مکرم نصیر احمد صاحب ابن مکرم علی محمد صاحب آف راجن پور کا تھا۔آپ 21؍نومبرکو 63سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔آپ کو راجن پور میں نائب امیر ضلع ، نائب زعیم انصاراللہ اور صدرجماعت کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم پنج وقتہ نمازی، تلاوت قرآن کریم کا اشتیاق رکھنے والے اور تبلیغ ِ احمدیت کا جوش رکھنے والے تھے۔آپ موصی تھے اور پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے سوگوار چھوڑے ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے خالد احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں جو آج کل مالی، مغربی افریقہ میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ میدانِ عمل میں ہونےکی وجہ سے آپ جنازے میں شریک بھی نہیں ہوسکے۔

دوسرا جنازہ مکرم عطاء الکریم مبشر صاحب ابن میاں اللہ دتّہ صاحب کِرتو ضلع شیخوپورہ حال کینیڈا کا تھا۔ آپ 13نومبر کو 75برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم خلافت اور نظامِ جماعت سے اخلاص و وفا کا تعلق رکھنے والے تھے۔ ذہین، صائب الرائے،صاف دل اور کھرے انسان تھے۔ مرحوم موصی تھے اور پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے عطاء المنان طاہر صاحب مربی سلسلہ آج کل صدر انجمن احمدیہ میں نائب ناظر ہیں۔ اسی طرح ایک پوتے جاذب احمد جامعہ احمدیہ کینیڈا میں زیرِتعلیم ہیں۔ آپ جماعت کے شاعر عبدالکریم قدسی صاحب کے بڑے بھائی تھے۔ حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اوررحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلندکرے اور ان کی نسلوں کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button